رجب کے کونڈے... حقیقت کیا ہے؟ ایک حنفی کے قلم سے

محمد عامر یونس نے 'ماہِ رجب المرجب' میں ‏مئی 12, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد عامر یونس

    محمد عامر یونس محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 3, 2014
    پیغامات:
    899
    ایک حنفی کے قلم سے
    رجب کے کونڈے... حقیقت کیا ہے؟
    مولانا محمدانس رضوان

    افسانے اور کہانیاں اکثر من گھڑت اور جھوٹ کا پلندہ ہوا کرتی ہیں اور حقیقت کا دور ،دور تک اس سے تعلق نہیں ہوتا۔لیکن عوام کے ہاں بسا اوقات یہ من گھڑت افسانے مستند تواریخ کا درجہ پالیتے ہیں ،بالخصوص جبکہ عوام کے سامنے ایسے من گھڑت افسانوں کو اگرمذہبی رنگ میں پیش کیا جائے تو اکثر عوام بغیر سوچے سمجھے اس کے سچ ہونے پر آنکھ بند کرکے عمل کرلیتے ہیں اور بڑی عقیدت کے ساتھ اس پر ایمان لے آتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ ذیل کا افسانہ بھی اسی طرح کی ایک من گھڑت کہانی ہے، جسے امامیہ مسلک کے علمبردار ایک رافضی افسانہ نگار نے سید السادات حضرت امام جعفر صادق کی ایک کرامت قرار دے کر ”داستان عجیب “ کے عنوان سے لکھا ۔

    اب سے کوئی نّوے ،پچانوے برس قبل تک رجب کے کونڈوں کو کوئی سنی مسلمان جانتا تک نہیں تھا۔ لیکن جب سے یہ کتاب شائع ہوئی اس کے بعد سے یہ رسم ایک متعدی مرض کی طرح سنی عوام میں بھی پھیل گئی اور اب تک بدستور پھیلتی جارہی ہے۔

    آئیے قارئین کرام ! اس من گھڑت افسانے کو پڑھتے ہیں اور اس کا تنقیدی، تحقیقی اور تقابلی نظر سے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ جس کے ذریعے سنی عوام کے درمیان اس افسانے کو پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے اور دیکھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا حقیقت کار فرما ہے؟

    کہانی کچھ اس طرح سے گھڑی گئی ہے کہ::

    ایک لکڑہارا جو عیال کے کثیر ہونے اور اسباب روزی کے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اوقات فقروفاقہ کا شکار رہا کرتا تھا اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر انہیں بیچ کر گزر بسر کیا کر تا اور جس دن لکڑیاں نہ ملتیں اس دن فاقہ کرتا، ان حالات سے تنگ آکر لکڑہارا روزی کو تلاش کرنے کی غرض سے دیس سے پردیس چلا گیا لیکن جب وہاں پر بھی اور کوئی روزی کمانے کا ذریعہ میسر نہ ہوا تو پھر اس نے وہاں پر بھی لکڑیاں کاٹنے پر ہی گزارا کر لیا۔ اُدھر گھر میں جب اس کے بیوی بچوں پر کچھ دن فاقے کے گزرے توخود انہوں نے کمانے کی سوچی اور لکڑہارے کی بیوی نے وزیر مدینہ کے ہاں جا روب کشی کی نوکری کرلی اور اب اس پر ان کی گزر بسر ہونے لگی، ایک دن (یہی لکڑہارے کی بیوی) خادمہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دے رہی تھی تو وہاں سے حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کا اپنے احباب کے ساتھ گزر ہوا۔ پوچھا آج کونسا مہینہ ہے اور چاند کی کونسی تاریخ ہے؟ احباب نے بصدادب عرض کیا کہ یہ رجب کا مہینہ ہے اور چاند کی22 تاریخ ہے۔ پھر پوچھا کہ معلوم ہے تم کو کہ رجب کی 22 تاریخ کی کیا فضیلت ہے؟ جب عقیدت مندوں نے اس پر لاعلمی کا اظہار کیا تو حضرت امام جعفر نے فرمایا:سنو! اس تاریخ کی بڑی فضیلت ہے، جو پریشان حال چاہے وہ کسی بھی مصیبت میں مبتلا ہو اس کو چاہیے کہ رجب کی 22 کو نہا دھو کر عقیدت کے ساتھ میرے نام کے کونڈے بنائے، پھر پوریاں پکا کر کونڈوں میں بھر کر ہمارے نام کی فاتحہ دلائے اور میرا ہی وسیلہ پکڑ کر خدا تعالیٰ سے دعا کرے تو اس کی ہر مشکل رفع ہوجائے اور ہر کام پورا ہوجائے اور اگر اس کام (یعنی کونڈے بھرنے) کے بعد بھی کسی کی حاجت رفع نہ ہو تو قیامت کے دن وہ میرا دامن پکڑ سکتا ہے اور مجھ سے اس کی باز پرس کرسکتا ہے۔ حضرت امام جعفر نے یہ سب کچھ فرمایا اور وزیر کی ڈیوڑھی سے گزر گئے ۔ لکڑہارے کی خستہ حال بیوی کو، جو کہ ڈیوڑھی میں جھاڑو دے رہی تھی، گردشِ دوراں سے چھٹکارے کا یہ خاص گر جب حضرت امام جعفر کی زبانی معلوم ہوا تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور اس نے اسی دن پورے اہتمام سے نہا دھو کر پوریاں پکا کر کونڈوں میں بھریں اور پھر بڑے صدق دل سے حضرت امام جعفر کا اس پر فاتحہ کروایا اور دعا کی کہ اے خدا عزوجل! حضرت امام کے صدقے میرے دن پھیر دے اور میرا شوہر گھر واپس آجائے اور جب آئے تو اپنے ساتھ مال و دولت بھی ساتھ لائے۔ اب اُدھر کی سنیے!لکڑہارا جو کئی برس سے عسرت میں زندگی گزار رہا تھا اور فقر و فاقہ کا شکار تھا۔ اِدھر جیسے ہی لکڑہارے کی بیوی نے حضرت امام کے نام کے کونڈے بھرے اور فاتحہ کروائی۔ اُدھر لکڑہارے کے دن بدل گئے اور اسی وقت لکڑہارا جو کہ لکڑیاں کاٹنے میں مصروف تھا کہ اچانک اس کا کلہاڑا ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر آگرا اور دھماکے کی سی آواز سنائی دی اور زمین خالی خالی سی محسوس ہوئی، پھر جب لکڑہارے نے اس جگہ سے زمین کو کھودا تو وہاں سے ایک بہت بڑا خزانہ اور ایک عظیم الشان شاہی دفینہ برآمد ہوا اور پھر اس کے بعد زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ لکڑہارا مال دار ہوگیا اور اس کے دن پھر گئے۔ لکڑہارے نے اس کے بعد اپنی زندگی میں امیر پنے کا سدھار پیدا کیااور پھر نوکر چاکر، غلام باندیاں، گھوڑے اونٹ اور سارا مال متاع لے کر مدینہ کو روانہ ہوا اور وزیر کے محل کے قریب ہی اپنا محل تعمیر کرایا اور شان و شوکت سے رہنے لگا۔ لیکن وزیر کی بیوی کو اس حیرت انگیز تعمیری انقلاب کی بالکل خبر نہ ہوئی اور ایک دن اتفاقاً جب وزیر کی بیوی نے چھت پر چڑھ کر اپنے محل کے قریب ایک اور عالیشان محل دیکھا تو اس کو بڑا تعجب ہوا کہ اب تک میرے محل کے ساتھ جو جگہ بالکل صاف اور چٹیل میدان تھی آج اس پر ایک عظیم الشان محل آسمان سے باتیں کررہا ہے۔ وزیر کی بیوی نے خادماؤں کو بلا کر اس محل کی بابت پوچھا، جواباً سب یک زبان بولیں کہ یہ اس لکڑہارے کا محل ہے، جس کی بیوی کبھی آپ کے ہاں جاروب کشی کیا کرتی تھی۔ ملکہ نے لکڑہارے کی بیوی کو بلوایا، تاکہ اس سے پوچھے کہ یہ کیا ماجرا ہے، جو تم فقر و فاقہ سے اس متمول زندگی میں منتقل ہوگئے؟ اس پر لکڑہارے کی بیوی نے حضرت امام جعفر صادق کے ارشاد کے مطابق کونڈے بھرنے اور ان کی برکت سے خزانہ ہاتھ لگنے کی مکمل داستان سنا دی، جس پر ملکہ کو یقین نہ آیا اور مسکرا کر کہنے لگی کہ تمہارے شوہر نے راہزنی کرکے یہ سب مال و متاع حاصل کیا ہے۔ لیکن جب لکڑہارے کی بیوی کے اطمینان دلانے پر بھی ملکہ نے کونڈوں کی فضیلت کو تسلیم نہ کیا تو ان پر ایک غیبی عتاب نازل ہوا کہ اس ملکہ کا شوہر بادشاہ کا بڑا وزیر تھا اور بہت قریبی تھا ،اس قربت پر ایک چھوٹا وزیر ہمیشہ سے دل کے اندر جلتا رہتا اور دن رات شاہی دربار میں بڑے وزیر کو نیچا دکھانے کی تدابیر کرتا رہتا، ایک مرتبہ موقع پاکر اس نے بادشاہ کے خوب کان بھرے اور راز داری کے ساتھ بادشاہ کے گوش گزار کیا کہ بڑا وزیر بہت بڑا خائن ہے، اس نے خیانت کے ذریعہ سرکار کی بڑی دولت پر قبضہ کررکھا ہے، اگر آپ کو یقین نہ ہو تو بے شک حساب، جانچ پڑتال کرکے دیکھ لیجیے بادشاہ نے حکم دیا کہ بڑے وزیر کی فوراً جانچ پڑتال کی جائے اور جب شاہی حکم سے وزیر کی جانچ پڑتال کرائی گئی تو شاہی خزانے کا لاکھوں کا غبن بڑے وزیر کی طرف نکلا، بادشاہ کو جلال آگیا اور اس نے فوراً ہی بڑے وزیر کو عہدہ وزارت عظمیٰ سے معزول کردیااور اس کی ساری جائیداد مال و متاع، ضبط کرکے اسے شہر بدر ہونے کا حکم دیا۔ جو وزیر کل تک حکومت کے ہر سیاہ و سفید کا مالک تھا آج جب اس پر شاہی عتاب نازل ہوا تو سب کچھ چھوڑ کر اسے اپنی بیگم کے ساتھ خالی ہاتھ اس حال میں جانا پڑا کہ بیوی کی جیب میں صرف دو درہم تھے، چلتے ہوئے راستے میں کسی جگہ خربوزے بکتے دیکھ کر بیوی نے ایک درہم کے عوض ایک خربوزہ خرید لیا اور اسے ایک دستی رومال میں باندھ لیا کہ بوقت ضرورت بھوک کی تکلیف سے کچھ نہ کچھ نجات حاصل کی جاسکے۔ جس دن وزیر کو شاہی حکم سے شہر بدر کیا گیا تھا اسی دن شہزادہ صبح سویرے سیر کو نکلا تھا، جب شام تک شہزادہ واپس نہ لوٹا تو چھوٹے وزیر نے حسب سابق موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شاہی آداب بجا لاکر دربار میں حاضری دی اور کہا۔ جہان پنا! شہزادے صاحب جس راستے سے شکار کو گئے تھے اسی راہ سے معزول وزیر اعظم صاحب کو بھی جاتے دیکھا گیا ہے۔ نصیب دشمناں کہیں ایسا نہ ہو کہ راہ میں وزیر صاحب انتقاماً شہزادے کو کوئی گزند پہنچا دیں۔ یہ سن کر بادشاہ نے چاروں طرف سوار دوڑا دیے کہ جہاں کہیں بھی وزیر ملے اسے گرفتار کرکے پیش کیا جائے، سوار گئے اور دم کے دم میں معزول وزیر کو گرفتار کرکے پا بہ زنجیر کرکے بادشاہ کے حضور پیش کردیا۔ وزیر کے ہاتھ میں رومال میں بندھی ہوئی چیز کے متعلق جب بادشاہ نے استفسار کیا تو وزیر نے کہا کہ جناب حضور! اس میں خربوزہ بندھا ہوا ہے اور وزیر نے اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا،بادشاہ نے جو رومال کھول کر دیکھا تو اس میں بجائے خربوزہ کے شہزادے کا خون میں لتھڑا ہوا سر برآمد ہوا، جسے دیکھ کر شاہی غم و غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی اور حکم دیا کہ وزیر کو مع اہلیہ کے جیل بھیج دیا جائے اور صبح دونوں کو پھانسی دے دی جائے۔ جیل چلے جانے کے بعد معتوب وزیر نے اپنی غم زدہ بیوی سے پوچھا اور کہا کہ معلوم نہیں کہ بارگاہ ایزدی میں ہم سے ایسی کونسی خطا سرزد ہوگئی ہے جس کا خمیازہ ہمیں اس بے پناہ مصیبت میں بھگتنا پڑا؟ پہلے وزارت گئی، پھر مال و متاع ضبط کرکے شہر بدر کیا گیا اور پھر خربوزے کا شہزادے کا سر بن جانا اور پھر اس پر بس نہیں، بلکہ کل صبح سویرے ہمیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا، اب جائزہ لیتے ہیں اور پھر جس غلطی کا پتہ چلے گا اس سے فوراً توبہ کرکے حق سبحانہ و تقدس سے معافی مانگ لیں گے۔ بیوی نے کہا جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مجھ سے تو ایسی کوئی غلطی اور گناہ سرزد نہیں ہوا، لیکن میں نے حضرت امام جعفر صادق کے کونڈوں کے عقیدے پر ایمان لانے میں ضرور انکار کردیا تھا۔ پھر بیوی نے لکڑہارے کی بیوی کے کونڈے بھرنے اور کونڈوں کی کرامت سے دم کے دم میں مال دار ہونے کا قصہ سنا دیا۔ وزیر نے قصہ سن کر کہا تم نے حضرت امام کے قول کی تصدیق نہیں کی اور حضرت کے بتائے ہوئے طریقے پر کونڈے بھرنے کے عقیدے پر تو ایمان نہ لائے تھی، یہ حضرت امام جعفر کی شان میں تمہاری طرف سے بہت بڑی گستاخی تھی اور اسی کا یہ سارا وبال ہم پر پڑا ہے۔ بیوی نے بھی اسی بات پر یقین کرلیا اور دعا کی کہ اگر اس مصیبت سے نجات مل گئی تو پھر آئندہ ہم حضرت امام کے نام کے کونڈے ضرور بھریں گے اور پھر رات بھر حضرت امام کے وسیلے سے دعا کرنے میں مشغول رہے، اِدھر جیسے ہی وزیر کی بیوی نے کونڈے بھرنے کا عہد کیا اُدھر ویسے ہی حالات نے اپنا رنگ بدلا اور صبح سویرے شہزادہ گھر واپس پہنچ گیا۔ شہزادے کو دیکھ کر بادشاہ کی خوشی، حیرت و استعجاب کی کوئی انتہا نہ رہی اور پھر بادشاہ نے وزیر اور اس کی بیوی کو جیل سے طلب کیا اور پھر جب رومال کھول کر دیکھا گیا تو اس میں شہزادے کے سر کے بجائے وہی خربوزہ برآمد ہوا، بادشاہ نے معتوب وزیر سے اس سارے ماجرے کی تفصیل پوچھی، جس کے جواب میں وزیر نے کونڈوں کے بارے میں حضر ت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کے ارشاد گرامی سے لے کر لکڑہارے کے واقعے تک کی پوری داستان، سرگزشت، تفصیل سے سنا دی اور عرض کیا کہ جہان پناہ! حقیقت یہ ہے کہ میری بیوی نے حضرت کے قول کی تصدیق نہیں کی تھی اور اسے جھٹلایا تھا اور کونڈے بھرنے کے عقیدے سے اظہار بیزاری کیا تھا، اسی کی پاداش میں ہم کو ذلت و رسوائی کے یہ دن دیکھنا پڑے، ورنہ کہاں یہ نمک خوار خادم اور کہاں خزانہ عامرہ سے لاکھوں کی خیانت اور کہاں غبن کا ارتکاب! بادشاہ وزیر کے حالات سن کر بہت متاثر ہوا۔ اور اسی وقت پھر سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر اسے فائز کردیا اور تلافی مافات کے طور پر مزید ایک خلعتِ فاخرہ سے بھی نوازا اور چھوٹا سازشی وزیر اسی وقت راندہ دربار ہوا۔ پھر شاہی محل سے لے کرکا شانہ وزیر تک بڑی دھوم دھام سے اور بڑے ہی شاہانہ اہتمام کے ساتھ کونڈے بھرنے کی رسم ادا کی گئی اور پھر وزیر کی بیوی تو زندگی بھر ہمیشہ بڑی عقیدت کے ساتھ ہر سال حضرت امام کے کونڈے بھرتی رہی۔ ”لاحول ولا قوّة الا باللہ العظیم“ ․

    افسانے کا ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ یہ لغو کہانی خود ظاہر کرتی ہے کہ:

    اس کا گھڑنے والا لکھنو کا کوئی جاہل تھا، جس کو اتنا بھی علم نہ تھا (اور ویسے بھی مثل مشہور ہے کہ ”دروغگورا حافظہ نباشد“ افسانہ نگار نے اپنے قصے کی بنیاد مدینہ میں بادشاہ اور وزیر کے وجود پر رکھی ہے حالاں کہ) کہ مدینہ منورہ میں اور نہ صرف مدینہ، بلکہ پورے عرب میں نہ حضرت امام کے زمانے میں نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کوئی بادشاہ ہوا ہے اور نہ وزیر اعظم ،کیوں کہ اس وقت عرب میں خلافت قائم تھی، جس میں نہ تو بادشاہ اور نہ وزیر اعظم کا کوئی منصب و عہدہ تھا۔

    عربوں میں میدے کی پوریاں گھی میں پکا کر کونڈوں میں بھرنے اور فاتحہ دلانے کا رواج آج تک نہ تھا اور نہ ہوا۔

    حضرت جعفر بن محمد کی عمر کے52 سال تک تو بنو امیہ کی خلافت رہی۔ جس کا صدر مقام دمشق (ملک شام) تھا، مگر ان کی خلافت میں بھی وزیراعظم کا کوئی عہدہ نہ تھا۔

    اس کے بعد تقریباً 16 سال تک آپ خلافت عباسیہ میں رہے، جس کا صدر مقام بغداد (عراق) تھا، ان کے ہاں بھی آپ کی موجودگی میں وزارت کا عہدہ قائم نہ ہوا تھا۔

    یہ بات کتنی مضحکہ خیز ہے کہ حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنی فاتحہ کرانے کا حکم خود اپنی ہی زبانِ مبارک سے دیا، حالاں کہ ایصالِ ثواب یا فاتحہ کسی کی بھی ہو وفات کے بعدہی ہوا کرتی ہے تو پھر حضرت امام نے اپنی زندگی ہی میں اپنے نام کے کونڈے بھروانے اور فاتحہ کرانے کا حکم کیسے دے دیا ؟ بلکہ آپ کا دامن تو ایسی لغو باتوں سے پاک ہے۔

    اس لکڑہارے کا قصہ نہ کبھی مدینہ کی گلیوں میں گونجا، نہ عرب ممالک میں کہیں سنائی دیا اور نہ ہی مشرق و مغرب کے کسی اسلامی ملک میں کہیں پہنچا۔

    حضرت جعفر بن محمد علیہ الرحمة8 رمضان المبارک 80 ھ اور بروایت دیگر 17 ربیع الاوّل 83ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے ، لیکن وفات کے متعلق شیعہ، سنی سب ہی کا اتفاق ہے کہ آپ نے 15 شوال 148ھ کو مدینہ منورہ ہی میں وفات پائی ان کی زندگی کے حالات معروف و مشہور ہیں، لہٰذا 22 رجب کی تاریخ کی کوئی تخصیص نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ یہ نہ تو آپ کی تاریخ ولادت ہے اور نہ ہی تاریخ وفات۔

    جس طرح اسرائیلی قوم عجائب پرست تھی اور ہر مدعی نبوت سے معجزات و کرامات کے ظہور کی آرزو مند رہتی تھی اسی طرح اودھ کی شیعہ ریاست کے ماتحت رام اور لچھن کے دیس کے خالص ہندو معاشرے میں رہنے والے عوام کا لانعام بھی ہندو دیو مالاؤں اور رامائن کے من گھڑت قصے سن سن کر عجائب پرست بن گئے تھے اور لکھنو کے داستان گو یوں کو تو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ انہوں نے نوابوں کی سرپرستی میں طلسمِ ہوش رُبا اور ”داستانِ عجیب “ جیسی طویل داستانیں گھڑ کر ہندو دیو مالاؤں کو بھی مات کر دیا تھا، لہٰذا لکھنوی معاشرے میں بزرگانِ سلف کی طرف منسوب اور اخترا ع کردہ حکایات کا قبولِ عام حاصل کر لینا کوئی مشکل بات نہ تھی، کیونکہ اس کے لیے نہ کسی سند کی ضرورت تھی اور نہ ہی کسی ضابطے کی۔

    جس چیز کودینی طور پر پیش کیا جائے اس کے جواز کی سند تو ضابطہ دین سے ہی پیش کی جانی چاہیے، سورة الانعام آیت 17 میں ارشاد باری تعا لٰی ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ تعالٰی کے سوا اسے کوئی رد نہیں کر سکتا اور اگر وہ تم کو کوئی فائدہ پہنچائے توبھی اسے قدرت حاصل ہے“ لہٰذا غیر اللہ سے کوئی مراد مانگنا شرک ہے، جو نا قابلِ معافی گناہ ہے ۔سورة ال عمران آیت104۔

    پھر اگر حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ سے متعلق لکڑہارے کا پورا افسانہ اپنے اندر کوئی تاریخی حقیقت رکھتا تو سوچنے کی اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ تاریخِ اسلامی یا بزرگوں کے حالات کی کسی مستند و معتبر کتاب میں اس عظیم واقعہ کا کوئی ذکر کیوں نہیں آیا؟ ” تلک عشرة کاملة “ اس قصے میں جو منظر کشی کی گئی ہے اس سے بخوبی واضح ہو گیا کہ یہ افسانہ ہندوستان کے کسی راجہ یا راجدھانی کا تو ہو سکتا ہے، مگر عرب قبیلے یا فرد کا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح شیعوں نے سنی مسلم عوام کو دین سے گمراہ کرنے کے لیے اور چند جھوٹی اور فرضی کتابیں لکھ ماری ہیں اسی طرح یہ ”داستانِ عجیب“ بھی ایک فرضی اور من گھڑت جھوٹا افسانہ ہے ، مگر بے چارے توہم پرست اور عجوبہ پسند مسلم عوام میں کہاں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ سامنے کی دلچسپ بات کو چھوڑ کر معا ملے کی تہہ اور اصل حقیقت تک پہنچیں۔شروع شروع میں تو عرصے تک یہ رسم دبی دبی شیعوں کے حلقے میں محدود رہی ، لیکن پھر شیعوں نے سوچا کیوں نہ تعزیہ داری کی طرح کسی خوبصورت فریب اور تقیہ سے کام لے کر سنیوں کو بھی وفاتِ امیر معاویہ کے سلسلے کے اس جشنِ مسرت میں غیر شعوری طور شریک کر لیا جائے، چنانچہ انہوں نے حضرت امیرمعاویہ کے تاریخِ وفات ”۲۲“ رجب پر فریب کا پردہ ڈالنے کے لیے اس تاریخ کو حضرت امام جعفر کی طرف منسوب کر دیا اور لکڑہارے وغیرہ کا فرضی افسانہ گھڑا اور ”داستانِ عجیب“ اور ” نیازنامہ“ وغیرہ حضرت امام جعفر صادق کے نام سے چھپوا کر چہار دانگ عالم میں پھیلادیا ۔
    مرحوم مولانا حکیم عبد الغفور ہشیارآنولوی نے ”رجب کے کونڈے“ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ سپردِقلم کیا تھا ،جو ”صحیفہ اہلِحدیث“ کراچی 14 اگست 1964کی اشاعت میں شائع ہوا تھا ، مولانا مرحوم نے بھی اپنے اس مقالے میں یہی لکھا ہے کہ کونڈوں کی کتاب ”داستانِ عجیب“ کی اشاعت اور کونڈوں کی عام ترویج پر اپنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا تھا ، پس ”الناس علی دین ملو کھم “ کے تحت اور نواب کی رضا جوئی کی خاطر رام پور کے سنی مسلمانوں نے بھی اس زمانہ میں اس رسم کو اپنانا شروع کر دیا تھا،پھر یہ رسم رام پور سے لکھنو پہنچی، 1911تک اس کا روز افزوں ترقیات کے ساتھ پورے اودھ، روہلکھنڈ اور دوسرے مقامات پر پھیلاؤشروع ہوگیا تھا ۔


    بائیس رجب کی حقیقت :

    22 رجب 60ھ کو امیر المومنین ، امام المتقین ، خال المسلمین ، کاتبِ وحی، رسول صلی الله علیہ وسلم کے خاص معتمد اور عصائے اسلام حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان رضی الله عنہما نے اسلام اور مسلمانوں کی پچاس سال تک خدمت کرنے کے بعد وفات پائی تھی، روافض جس طرح امیر المومنین خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کی شہادت کی خوشی میں ان کے مجوسی قاتل ابولولو فیروز کو بابا شجاع کہہ کر عید مناتے ہیں اسی طرح وہ حضرت امیر معاویہ کی رحلت کی خوشی میں 22 رجب کو یہ تقریب مناتے ہیں، لیکن پردہ پوشی کے لیے ایک روایت گھڑ کر حضرت جعفر بن محمد کی طرف منسوب کر دی ہے، تاکہ راز فاش ہونے سے رہ جائے اور دشمنانِ معاویہ چپکے سے ایک دوسرے کے یہاں بیٹھ کر یہ شیرینی کھا لیں اور یوں اپنی خوشی ایک دوسرے پر ظاہر کریں، ان کی تقیہ سازی اور پر فریب طریقہ کار سے حضرت جعفر کی نیاز کی دعوت میں کئی سادہ لوح، توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد مسلمان بھی لاعلمی کی وجہ سے شریک ہو جاتے ہیں ۔

    [HIGHLIGHT]خبردار ! کونڈے بھرنا زمانہٴ حال ہی کی ہندوستانی ایجاد ہے، لہٰذا اس گمراہی سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، کیوں کہ یہ صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم اور کاتب وحی کے دشمنوں کی تقریب ہے[/HIGHLIGHT]

    اب ضرورت نہیں حجامت کی رسمِ دنیا نے بے طرح مونڈا
    بھر کے کونڈے رجب کے، بیوی نے میرے گھر کا بھی کر دیا کونڈا


     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. T.K.H

    T.K.H رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2014
    پیغامات:
    234
    کاش ہمارے رَفض شدہ اہلِ سُنت بھائی امیر المؤمنین معاویہ ؒ و یزید ؒ کو اگر خراجِ تحسین پیش نہیں کر سکتے تو کم از کم زبان ہی پر قفل لگا لیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں