لٹریچر میں عورت کا مقام کیا ہے؟

عفراء نے 'نقد و نظر' میں ‏جولائی 29, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    لٹریچر میں عورت کا مقام کیا ہے؟​

    عورت کا مقام لٹریچر اور ادب میں وہی ہے جو زندگی میں ہے۔ زندگی میں اس کا مقام کھلونا بننا نہیں بلکہ اچھی ماں بننا ہے۔ اور ایک ماں کے جو فرائض ہیں وہ ہر شخص پر واضح ہیں۔ جدید ادبیات میں عورت کو جس حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے وہ ہوس کے کھلونے کی حیثیت ہے جبکہ ہوس پر کسی پائیدار اور پاکیزہ سوسائٹی کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ تعمیر معاشرہ کے لیے سنجیدگی اور پاکیزگی شرط ہے۔ اور ہوس میں یہ دونوں باتیں مفقود ہیں۔ میرے نزدیک ادب میں عورت کو اس طرح موضوع گفتگو بنانا جس طرح آجکل بنایا جا رہا ہے۔ نہ تو جائز ہے اور نہ مفید۔ اب تو عورت کو صنفی تسکین کے لیے ادب میں وہ لوگ بھی پیش کرنے سے پرہیز کرتے ہیں جو سب سے پہلے عورت کو گھر سے گھسیٹ کر بازار میں لائے تھے۔ اگر ایک شخص کے لیے یہ بات صحیح اور درست نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اپنے تعلقات کو برسر عام بیان کرے تو ایک غیر عورت سے ادب میں دلچسپی کا اظہار کیسے درست ہو سکتا ہے؟ معاشرہ کی صحت مندی کا انحصار اس حقیقت پر ہے کہ اس میں صنفی انارکی اور جنسی آوارگی نہ پائی جاتی ہو۔ قید نکاح سے باہر عورتوں اور مردوں کے درمیان کسی قسم کے صنفی تعلقات قائم نہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایسا ادب کس طرح معاشرہ میں پسندیدہ سمجھا جا سکتا ہے جو جنسی آوارگی پیدا کرنے کا باعث ہو اور جو نکاح کے Institution کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے؟ ادب کا فطری منصب یہ ہے کہ وہ اس چیز کو مزین اور نکھار کر دنیا کے سامنے پیش کرے۔ جو معاشرے کے لیے صحت بخش ہے۔
    "خیالی اور ذہنی محبوبہ سے لذت لینے کی عادت جب کسی شخص کو پڑ جاتی ہے تو وہ زندگی میں واقعی ایک محبوبہ تلاش کرنے لگ جاتا ہے۔ اور ہمارے معاشرے کو محبوبہ قسم کی خواتین کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ان خواتین کی ضرورت ہے جو گھر چلائیں اور ایک بہترین رفیقۂ زندگی بن کر ایک صالح اور جاندار خاندان کی تخلیق کریں۔ ذہنی بدکاری اور صنفی آوارگی سے کوئی معاشرہ تندرست و توانا نہیں بنا کرتا۔ اور اب تو جاہلیت کے نمائندہ معاشے بھی ایک حد سے آگے ایسے لٹریچر کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں جو کسی بھی صنفی انتشار کا باعث بن سکتا ہو۔ کیونکہ یہ بات ہر مکتب فکر کے نزدیک غلط ہے کہ سوسائٹی میں صنفی آوارگی کسی حیثیت سے بھی مفید ہے۔"
    "زندگی کے لیے جو باتیں مفید ہیں وہی ہمارے ادب کا موضوع بن سکتی ہیں۔ انھیں کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت مؤثر اور جاندار بنا کر پیش کرنا چاہیے۔ اور اس بارے میں قرآن اور رسولﷺ کے کلام سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ مقصدی ادب کا اس سے بہتر اور مکمل نمونہ اسلام کے مخالفین کے نزدیک بھی کوئی دوسرا نہیں۔"

    (انٹرویو نگار: ابو صالح اصلاحی، ماہنامہ "یثرب" لاہور ستمبر ۱۹۵۰ء)

    از "تصریحات" (سید مودودیؒ)
    کمپوزنگ برائے اردو مجلس: عفراء​
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں