تہران میں سعودی قونصلیٹ پر حملہ، سعودیہ سمیت کئی اسلامی ممالک کے ایران سے سفارتی تعلقات منقطع

اہل الحدیث نے 'خبریں' میں ‏جنوری 3, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بہت اچھا ہوا۔
     
    • متفق متفق x 2
  2. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    اب پاکستان اور دیگر مسلم ممالک میں سعودیہ اور ایران کی پراکسی جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
     
  3. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    قادیانیوں کا اس سے کیا سروکار؟؟؟
     
    • متفق متفق x 1
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  4. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    قادیانیوں کی مسلمانوں کے خلاف پراکسی وار ہمیشہ جاری رہے گی کیوں کہ مرزا قادیانی ان کی گردن میں طوق ڈال گیا ہے۔ کاش کہ انہیں اپنی دوغلے پن کی زنجیروں سے رہائی پانے کی توفیق ہو جائے۔
     
    • متفق متفق x 1
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  5. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    کون قادیانی؟
    ہر دھاگے میں قادیانیوں کو شامل کرنا ضروری ہے؟
     
  6. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    سعودی سفارت خانے پر ایرانی حملے کے حوالے سے مضبوط، واضح اور بالغ نظری پر مبنی بین الاقوامی نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔ اللہ بھلا کرے ان آزمائشوں کا، جن کے ذریعے ہم نے اپنے مخلص دوستوں کو جان لیا۔ اور سب ہی نے ایران کا بھیانک چہرہ پہچان لیا جسے وہ قیمتی قالینوں،نرم خو بیانات اور جھوٹے وعدوں سے ڈھانپتا چلا آرہا تھا۔

    جب سے ایرانی نیوکلیئر پروگرام سے متعلق معاہدہ طے پایا، اور جب سے ایران اور مغرب کے درمیان تعلقات کشادہ ہوئے تب سے ایران کی ملیشیاؤں کی وجہ سے خطے کو شورشوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سعودی عرب نے کوشش کی کہ ایران کو بغاوت بھڑکانے اور خلیجی اور عرب امور میں کھلی اور اندھی مداخلت سے قابو میں رکھے۔

    سعودی عرب نے 90ء کی دہائی کے اواخر سے اپنا ہاتھ بڑھا رکھا ہے، الخبر دھماکوں میں ایرانی سپورٹ کے باوجود اپنے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی منظرنامے میں داخل ہونے کی خواہش رکھی۔ رفیق الحریری کے مطابق مرحوم شاہ فہد بن عبدالعزیز کہا کرتے تھے کہ "ایران سے خطے کو نقصان پہنچتا ہے، مگر ہم اس دن کے لیے کوشاں ہیں جب ہمارے درمیان ہمسائیگی اور مفاہمت ہوگی" اور یقینا محمد خاتمی کی صدارت کے دنوں میں یہ خواب حقیقت کے قریب آگیا، تاہم جلد ہی معاہدے کا شیرازہ بکھر گیا اس طرح کہ فطرت ہم آہنگی پر غالب آگئی۔

    ایران کسی بھی عرب اور اسلامی اتحاد کا حصہ نہیں بنا، بلکہ اس کے برعکس اس نوعیت کے اتحاد کا مقابلہ کیا اور ان کو کمزور کرنے اور ناکام بنانے کی کوشش میں لگا رہا۔ عراق اور شام میں داعش پر کو نشانہ بنانے کے لیے جو بین الاقوامی اتحاد قائم ہوا، ایران اس کا حصہ نہیں بنا۔ اسی طرح اسلامی عسکری اتحاد جس کا اعلان نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کیا۔ پس یا تو یہ (ایران) اکیلا کھلاڑی ہوتا ہے اور یا پھر بگاڑ کا مرکزی اور اکلوتا کردار۔

    عراق میں چالیس سے زیادہ ملیشیاؤں کو ایران سپورٹ کررہا ہے۔ لبنان، یمن اور شام میں بھی اس کی ملیشیائیں ہیں۔ ان سب کا انتظام ایران میں بند کمروں سے پاسداران ِ انقلاب کے ہاتھوں چلایا جاتا ہے۔

    دو طرح کے انداز گفتگو کے درمیان ... (دھیمی سفارتی گفتگو) وزیر خارجہ ظریف کی مسکراہٹ کے ساتھ، اور (انقلابی گفتگو) جس کی نمائندگی سلیمانی اور اس کے جرائم پیشہ پیروکار کرتے ہیں۔ تاہم ایران کی تصویر اس کے انقلابی عمل اور گفتگو میں زیادہ واضح طور پر جھلکتی ہے اور جو اس کی پالیسی کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔

    اگر ہم خامنئی کے بیانات اور دیگر خطابات کا موازنہ کریں تو مواد کے لحاظ سے ہم انہیں ہمیشہ پاسداران انقلاب کے خطابات کے قریب پائیں گے۔ جہاں تک ظریف کے بیانات کی بات ہے تو وہ سفارت کاری کے زیادہ قریب ہیں۔ اور جن معاملات کو بھی وہ دھیمے انداز سے زیر بحث لاتے ہیں، ان کے حل کے لیے وہ پیش رفت کو سست کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا دورانیہ بھی بڑھا دیتے ہیں۔

    ایران ایک جارح ہے، اور وہ واضح عوامی زبان میں یہ کہتا ہے کہ مجھے کھلاؤ ورنہ میں سب خراب کردوں گا، تاہم وہ معتدل راستے پر نہیں رہنا چاہتا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    العربیہ کے جنرل منیجر ترکی الدخیل کا یہ کالم عرب روزنامہ 'عکاظ' میں شائع ہوا، جسے عبدالرحمن صدیقی نے عربی سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/politics/2016/01/06/ایرانی-جارحیت-اور-ناممکنہ-سیاسی-اعتدال.html
     
    Last edited by a moderator: ‏جنوری 7, 2016
    • متفق متفق x 1
  7. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    اچھا ہے کہ اس مسئلے کا سیاسی حل نکل آئے جو مفاہمت کی صورت میں ہو ایک مکمل اسلامی اتحاد ہی مسلمانوں کے بقا کی واحد سبیل ہے ورنہ بربادی توبانہیں کھول کے پکاررہی ہے ۔
     
    • متفق متفق x 1
  8. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    متفق! اسلامی اتحاد صرف سنیوں تک محدود نہ ہو۔ اسمیں دیگر اسلامی فرقے اور مکاتب الفکر بھی شامل کئے جائیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  9. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    بھائی سیاسی حل اسی صورت میں نکلے گا جب ایران مشرق وسطہ میں مداخلت چھوڑے۔
    کیا سعودی عرب ، پاکستان یا کسی اور عرب ملک نے ایران کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کی ہے۔
    ایک طرف ایران پاکستان، سعودی عرب، شام، یمن، بحرین، لبنان، عراق اور دوسرے اسلامی ممالک میں فسادات کیلئے شیعوں کو سپورٹ کررہے ہیں اور دوسری طرف وہ شام کے معاملہ میں روس کے علاوہ کسی تیسرے فریق کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔
    کیا ایسے لوگ اسلامی اتحاد میں شامل ہوسکتے ہیں جو خود حرمین شریفین میں فسادات کے مرتکب ہوں۔
     
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  10. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    آپکی بات درست ہے۔ ایران اپنے فرقہ کے لوگوں کیلئے دیگر ممالک میں مداخلت کرتا ہے۔ لیکن یہ مداخلت بھی صرف اسی صورت کامیاب ہوتی ہے جب شیعہ اقلیت کو سنی اکثریت انکے جائز حقوق نہیں دیتی۔ نتیجہ اسکا خانہ جنگی کی صورت میں نکلتا ہے۔
    باقی جہاں تک بیرونی مداخلت کا سوال ہے تو اسمیں سعودیہ بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ سرد جنگ کے دوران جس طرح افغان عربوں اور دیگر جہاد کیلئے آنے والے کی اسپورٹ سعودی حکومت نے کی تھی، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اگر ایرانی مداخلت کریں تو فساد۔ اگر یہی کام سعودی کریں تو جہاد فی سبیل اللہ۔
     
    • غیر متفق غیر متفق x 1
  11. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  12. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    دیکھیں آج کی دنیا میں شاید کوئی ملک ہوجودوسرے ملک میں مداخلت نہیں کرتامختلف طریقوں سے ہرملک دوسرے ملک میں مداخلت کرتاہے اسی طرح ہرملک اپنے مفادات بھی دیکھتاہے اورامن قائم کرنے کیلئے دوررس پالیسیاں بھی ترتیب دیتاہے۔
    مجھے اس کے بارے میں کسی ذرایع سے پتہ نہیں چلاکہ دونوں ممالک نے ایران میں ایسا کچھ کیاہے۔لہٰذہ اب تک کی معلومات کے تناظرمیں،میں آپ کی بات سے اتفاق کرتاہوں۔
    بدقسمتی سے ایران نے یہ اپنی قومی پالیسی بنالی ہے جوکہ ایرانی پالیسی کاسکم ہے جسے اسے ختم کرناچاہئے تاکہ عالم اسلام کے اتحاد میں اس کا حصہ بھی بن سکے۔
    یہ ہماری تاریخ کا ایک افسوس ناک باب ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیاہے۔
    مگرہمیں کہیں سے توایک بہتر شروعات کرنی ہوگی
    چین اور تائیوان ایک دوسرے کے دشمن رہے ہیں مگراب دونوں ممالک قریب آرہے ہیں
    جرمنی کی عرصے تک یورپ کے ممالک سے مخاصمت رہی مگر وہ اب ان کے قریب ہے
    برطانیہ اورفرانس ایک دوسرے کے مخالف تھے مگر اب دوست ہیں
    جاپان اورامریکہ نے جنگ کی ایک دوسرے سے مگر اب وہ دوست ہیں
    ہم مسلمانوں کوبھی اب ان نفرتوں اورکدورتوں سے باہر نکلناپڑے گا ورنہ اپنی عوام کوبتاناپڑے گاکہ ہمیں اورکتنے عرصے تک دشمن رہناہے۔
     
    • متفق متفق x 1
  13. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    اس بات کواگردرست مان بھی لیں توکیاایران کویہ حق مل جاتاہے کہ وہ اس ملک میں خانہ جنگی کرالے۔کیاآگ سے آگ بجھائی جاسکتی ہے
    کیابدامنی سے بدامنی کاحل ڈھونڈاجائے گایاپھر دہشت گردی سے دہشت گردی کا قلع قمع کیاجائے گا۔
    جب آخر میں مذاکرات کی میز پرہی آنا ہے توشروع میں ہی یہ کام کیوں نہ کیاجائے۔
     
    • متفق متفق x 1
  14. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    سعودی عرب کی جانب سے دہشت گردی اور ریاست دشمن سرگرمیوں میں ملوث شیعہ مذہبی رہ نما نمر النمر کو دی گئی سزائے موت پر مخالفین کی بلا جواز تنقید بدستور جاری ہے۔ بعض ناقدین نمر النمر کی اصلیت سے واقف نہیں ہیں یا انہوں نے دانستہ طور پر شر پسند لیڈر کے بارے میں آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق نمر باقر النمر نامی شدت پسند مذہبی رہ نما طویل عرصے تک اپنی زبان سے دہشت گردوں کی حمایت کرتے اور فساد فی الارض کے لیے زہراگلتے رہے۔ اس وقت تک سعودی حکومت نےانہیں کچھ نہیں کہا، مگر جب انہوں نے مخالفت کو مسلح گروہ کی شکل میں تبدیل کرتے ہوئے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی کوششیں شروع کیں تو حکومت کو ان کے خلاف ضروری انضباطی کارروائی کرنا پڑی۔ الشیخ نمر النمر کو بار بار وارننگ دی گئی مگر وہ بازنہ آئے۔ نمر النمر کو تختہ دار پر لٹکانے کا سعودی عرب کو کوئی شوق نہیں تھا مگر موصوف دہشت گردی کے ذریعے معصوم لوگوں کے قتل میں بھی ملوث تھے۔

    ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور ایک مسلح گروپ کی قیادت کرتے ہوئے سعودی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازشیں تیار کرنے کی پاداش میں نمر النمر اور اس کے کئی ساتھیوں کو 15 اکتوبر 2014ء کو سزائے موت سنائی گئی۔ سعودی عرب کی فوجی عدالت سے سنائی گئی سزا کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ملزم سعودی عرب اور بحرین میں حکومتوں کے خلاف عوام کو بغاوت پر اکسانے، حکومت کو مطلوب انتہائی خطرناک دہشت گردوں کی مدد اور ان کی پشت پناہی کرنے، بحرین میں دہشت گردوں کی حمایت کرنے اور وہاں ایران جیسا ولایت فقیہ کا نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ ملزم کی جانب سے ریاست مخالف مہم کے دوران دہشت گردی کے نتیجے میں کئی سیکیورٹی اہلکار اور عام شہری اپنی جانوں سے بھی محروم ہوئے۔

    نمر النمر کے ساتھ دہشت گردی کے الزام میں ان کے حمایت یافتہ کئی دوسرے دہشت گردوں کو بھی موت اور عمر قید کی سزائیں ہوئیں۔ سزائے موت پانے والے بعض دہشت گردوں کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے اور کچھ تا حال زیرحراست ہیں۔

    الشیخ نمر النمر کو چار دہشت گردوں منتظرالسبتی، مرسی آل ربح، خالد اللباد اور محمد کاظم الشاخوری کے ہمراہ دیکھا گیا۔ منتظر سبتی اور محمد کاظم الشاخوری سعودی عرب میں تاحال قید ہیں مگر انہیں بھی سزائے موت سنائی گئی ہے جب کہ ان کے دو ساتھی مرسی آل ربح اور اور خالد اللبادی پولیس مقابلوں میں ہلاک کیے جا چکے ہیں۔

    ایک دوسرے گروپ فوٹو میں نمر النمر کو 23 دہشت گردوں کے جھرمٹ میں دیکھا گیا ہے۔ اس گروپ میں سعودی عرب کو مطلوب انتہائی خطرناک دہشت گرد فاضل الصفوانی بھی شامل ہے۔

    عدالت کی جانب سے جاری کردہ فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ نمر النمر کو اس کی ملک دشمن سرگرمیوں کی پاداش میں بار بار متنبہ کیا جاتا رہا ہے مگر اس نے ہربار حکومت کی تنبیہ کو ٹھوکر ماری اور پہلے سے بڑھ کر سازشیں شروع کر دیں۔ اس نے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مسلح گروپ تشکیل دیے اور سرعام عوام الناس کو حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر اکسایا۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق نمر النمر کی خلاف قانون سرگرمیوں کے باوجود سعودی عرب کی حکومت نے ان کے خاندان کی فلاح وبہبود پر خصوصی توجہ دی۔ شیخ النمر کی اہلیہ کینسر کے مرض میں متبلا ہوئیں تو حکومت نے سرکاری خرچے پر انہیں علاج کےلیے امریکا بھیجا، تاہم زندگی نے ان سے وفا نہ کی۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا اس وقت بھی امریکا میں خادم الحرمین الشریفین کے بیرون ملک تعلیمی پروگرام کے تحت زیر تعلیم ہیں۔ بیٹا میکنیکل انجینینرنگ کر رہا ہے۔ ایک بیٹی میڈیکل جب کہ دوسری قانون کی طالبہ ہے۔ حکومت انہیں مکمل مالی سپورٹ کر رہی ہے۔

    نمرالنمر پچھلے تین سال سے زیرحراست رہے۔ سعودی عرب میں موجود ان کے تمام عزیز واقارب ان سے جیل میں ملاقات کرتے رہے ہیں تاہم ان کے بیٹے امریکا سے واپس نہیں آئے۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/editor-selection/2016/01/07/نِمر-النِمر-کو-پھانسی-کیوں-دی-گئی؟.html
     
  15. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    جہاں ہم ایران کی اوچھی کارروائیوں، سفارت خانے اور قونصل خانے کو آگ لگانے اور عوام کو ان کے ملکوں کے خلاف بطور جنگجو تیار کرنے کی مذمت کرتے ہیں،،، وہاں آپ مجھے اجازت دیں کہ میں شیعہ سعودی ہم وطنوں کو تہہ دل سے سلام پیش کروں جنہوں نے ایران کی کارروائیوں کو مسترد کردیا، ان کی مذمت کی اور اپنے وطن کی صف میں کھڑے رہے۔ وہ وطن جس کی سرزمین ان کے اور ان کے آباؤ اجداد کے پسینے سے سیراب ہوئی۔

    اس بات کا ارادہ کیا جاتا ہے کہ سیاسی واقعات کو ہمیشہ فرقہ وارانہ رنگ میں رنگ دیا جائے! 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد جب اسلامی دنیا میں ہر طرف فرقہ وارانہ جوش پھیل گیا۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں کو گمان ہوا کہ شیعہ افراد حال ہی میں ان کے ملکوں میں ہنگامی طور پر پائے جا رہے ہیں۔ جب کہ وہ معاشروں کا حقیقی حصہ ہیں اور اپنے ملکوں اور اداروں کی ترقی میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔

    ہم اپنے آپ سے ایک اہم سوال کیوں نہیں پوچھتے "کہ مملکت سعودی عرب اپنی اس نئی صورت میں شاہ عبدالعزیز کے ہاتھوں تاسیس کے بعد تقریبا سو سالوں سے موجود ہے،،، تو پھر یہ فرقہ وارانہ لڑائی خمینی کے انقلاب کے بعد ہی کیوں بھڑکی ہے" ؟!

    ہم سنیوں اور شیعوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں جانتے تھے۔ صرف ایک شناخت ہوتی تھی "ہم سعودی ہیں"۔ اللہ نے ہمارے وطن پر احسان فرمایا کہ ہمیں مہذب شیعہ افراد کا مجموعہ عطا کیا، جن کی ُاجلی تاریخ ان کے معاشرے اور قیادت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ یقینا یہ شیعہ محب وطن ہی ہیں جو اپنے ملک کو لاحق ہونے والے ہر ضرر کا دفاع میڈیا اور گفتگو کے ہر پلیٹ فارم کے ذریعے کرتے ہیں۔

    اس سلسلے میں محمد رضا نصر اللہ کی مثال دی جا سکتی ہے جنہوں نے ایرانی مداخلت کو ٹھوکر مارتے ہوئے طویل عرصے سے مطالبہ کیا کہ مشہد شہر کے لیے پروازیں روک دی جائیں اور اس کے بدلے عراق میں نجف کی زیارت کی جائے، کیوں کہ یہ عرب شیعوں کا سر چشمہ ہے فارسیوں کا نہیں!

    انہوں نے یہ بات سعودی عرب پر ظالمانہ ایرانی آندھی کے بعد کہی۔ ساتھ ہی انہوں نے سعودی امور میں ایرانی مداخلت کو مکمل طور پر مسترد کردیا۔ محمد رضا نے تمام عرب شیعوں کو ان کے اور ان کے ملکوں کے حکمرانوں کے خلاف ایرانی منصوبوں کے خطرے سے خبردار کیا۔

    اسی طرح وہ کالم جو محمد محفوظ نے کچھ عرصہ قبل عرب شیعوں اور ان کے ملکوں کے حکمرانوں کے لیے لکھا تھا۔ اس میں عمومی خطاب کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ وہ خود کو ایران کے پیچھے نہ گھسیٹیں۔ اس کے علاوہ میڈیا کی شخصیت جعفر الشایب اور دیگر بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے روشن نقطہ ہائے نظر کے بارے میں گفتگو کرنے کے لیے جگہ کم پڑ جائے گی۔

    8 نومبر 2014 کو "الدالوہ" کے واقعے کے بعد (دالوہ نامی سعودی گاؤں میں امام بارگاہ پر فائرنگ کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک وزخمی ہو گئے تھے)، شیعہ دانش وروں کے ایک گروپ کی جانب سے بالغ نظری پر مبنی ایک بیان میں کہا گیا کہ وہ سعودی ہیں یہ کافی ہے، یہ ہی جامع شناخت ہے۔

    گزشہ روز الساحل میگزین کے چیف ایڈیٹر الشیخ حبیب آل جمیع نے القطیف شہر سے ارسال کیے گئے ایک پیغام میں مجھے کہا کہ " ہم اپنے پاؤں پر کلہاڑی ہر گز نہیں ماریں گے، ہم سعودی عرب میں شیعہ عناصر کو علاقائی محور اور بیرونی سیاسی ایجنڈے کے کھیل کا حصہ نہیں بننے دیں گے اور ریاست کی چھت تلے اپنے وطن میں ضم ہو جائیں گے"۔

    القطیف کی بلدیہ کونسل کے سابق رکن انجینئر نبیہ آل ابراہیم اور العوامیہ قصبے کے ایک جوان کا کہنا ہے کہ "القطیف اور العوامیہ میں امن وامان کی افسوس ناک صورت حال نے شیعہ مذہبی قیادت کو حرکت میں آنے پر مجبور کردیا ہے تاکہ اس خطرناک منظرنامے کو ختم کیا جا سکے"۔

    یہ ہم سب کا وطن ہے، ہم سب بنا کسی تفریق کے سعودی ہیں، ہم ایرانی جارحین کے خلاف مزید شراکت اور یکساں موقف کی جانب گامزن ہیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    العربیہ کے جنرل منیجر ترکی الدخیل کا یہ کالم عرب روزنامہ 'عکاظ' میں شائع ہوا، جسے عبدالرحمن صدیقی نے عربی سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/politics/2016/01/07/سعودی-شیعہ.html
     
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  16. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    صاحب طرز برطانوی کالم نگار نے مغربی ممالک اور عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ حالیہ بحران میں سعودی عرب کو سپورٹ کریں۔ برطانوی اخبار "ٹائمز" میں شائع ہونے والے کالم میں انہوں نے باور کرایا ہے کہ "سعودی عرب خطے میں امن کو یقینی بنانے کے لیے واحد ضمانت اور راستہ ہے"۔ ساتھ ہی انہوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ مملکت، شام کے بحران کے خاتمے کے لیے وہاں کی اپوزیشن کو متحد کرنے میں مصروف ہے۔

    برطانوی کالم نگار روجر بوئز نے اپنے کالم میں، جس کا عنوان ہے "سعودی عرب تعریف کا مستحق ہے سزا کا نہیں"، کہا ہے کہ "باوجود یہ کہ تلوار کے ذریعے سزائے موت پر عمل درامد قابل قبول امر نہیں، تاہم شیخ النمر نے جس کو ریاض میں موت کے گھاٹ اتارا گیا چند سال قبل سعودی وزیر داخلہ کی وفات پر جشن منانے کی کال دی تھی، اس کے علاوہ النمر نے بہت سی سرگرمیاں ایران کے مفاد میں سرانجام دیں"۔

    کالم نگار کا کہنا ہے سعودی عرب اور ایران کے درمیان بحران کی وجہ النمر کی سزائے موت نہیں ہے، اور جو کچھ ہورہا ہے وہ "دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی جھگڑے سے زیادہ بڑھ کر ہے۔" ایران جو نیوکلیئر بم حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے، خطے کے لیے خطرہ بن گیا ہے اور خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کا سبب بن رہا ہے۔

    کالم کی ابتدا میں روجر بوئز نے عراقی صحراء السماوہ میں قطر کے ایک شوقیہ شکاری گروپ کے اغوا کے واقعے کا ذکر کیا ہے۔ بعد ازاں یہ واضح ہوگیا کہ اغوا کنندگان شیعہ ملیشیاؤں کے ارکان تھے جن میں سے بعض نے تاوان کا مطالبہ کیا، اور پھر شیعہ مذہبی شخصیت نمر النمر کی رہائی کا مطالبہ کر ڈالا۔

    بوئز نے مزید لکھا ہے کہ "ہو سکتا ہے اغوا کنندگان اپنی اس کارروائی کے ذریعے ایران کو متاثر کرنا چاہتے ہوں مگر درحقیقت وہ اپنا وقت برباد کررہے تھے، کیوں کہ سعودی عرب النمر کی موت کا فیصلہ کرچکا تھا۔ سال 2012ء میں الشیخ نمر کی گرفتاری کے بعد سے سعودیوں کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ اس سلسلے میں کوئی ڈیل کرلیں، تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا اور عدالت کی جانب سے قانونی فیصلے پر عمل درامد پر ہی زور دیا۔"

    برطانوی کالم نگار کے نزدیک ریاض اور تہران کے درمیان بحران کی وجوہات النمر کی موت سے کہیں زیادہ دور اور بڑی ہیں۔ انہوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ "ایران خلیج کے علاقے میں اپنی بالادستی کی کوشش کررہا ہے، وہ بحرین میں شیعہ برادری کو اکسا کر کر ان کو سپورٹ کرتا ہے، یمن میں حوثی باغیوں کی مدد کررہا ہے اور مشرقی صوبے میں جہاں سے سعودی عرب کا اکثر تیل نکلتا ہے، وہاں (شیعہ) عوامی مزاج کی باریک بینی کے ساتھ نگرانی کررہا ہے"۔

    وہ مزید لکھتے ہیں کہ "ایران بھلائی نہیں چاہتا، سعودی عرب میں نظام حکومت کو گرانے کی اس کی خواہش اب کوئی راز نہیں بلکہ سب ہی اس کو جان گئے ہیں، اور وہ بقاء باہم کی راہیں تلاش کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں رکھتا"۔

    برطانوی کالم نگار نے امریکا پر خطے میں ایران کے ساتھ گٹھ جوڑ کا الزام لگایا، اور کہا کہ واشنگٹن اب خطے میں امن کے لیے ایمان دار ثالثی نہیں رہا، اسی لیے وہ سعودی عرب پر اپنا اثر کھوچکا ہے جس کی نظر میں واشنگٹن قابل اعتبار نہیں رہا۔

    مسٹر روجر کی نظر میں مغربی ممالک اوباما کے نقطہ نظر کو سپورٹ کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایران خطے میں (مسائل کے) حل کا ایک حصہ ہے، تاہم مغربی دنیا اس طریقے سے ہارے ہوئے گھوڑے کو سپورٹ کررہی ہے، جہاں ایران کو سپورٹ کرنا کسی طور ان کے حق میں نہیں۔

    بوئز کا کہنا ہے کہ "سعودی عرب اور ایران کے درمیان اخلاقی موازنہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں"، باوجود ان تمام تر تنقیدوں کے جن کا سعودی عرب کو سامنا ہے، مملکت کو کسی طور بھی ایران کے ساتھ ایک صف میں نہیں رکھا جاسکتا، اور نہ ہی دونوں فریقوں کے ساتھ برابر کا معاملہ کیا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے اس بات کے ساتھ اپنے کالم کا اختتام کیا کہ "اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوجائے کہ سعودی عرب خطے میں استحکام کے لیے مرکزی حلیف ہے جب کہ ایران ایسا نہیں بن سکتا ... اور اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دوستوں کا چناؤ توجہ سے کریں"۔

    http://urdu.alarabiya.net/ur/editor...-تعریف-کا-مستحق-ہے-سزا-کا-نہیں-روجر-بوئز.html
     
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  17. arifkarim

    arifkarim محسن

    شمولیت:
    ‏جولائی 17, 2007
    پیغامات:
    256
    دہشت گردی سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کی افغانستان اور عراق پر چڑھائی کے پیچھے یہی پالیسی تھی لیکن یہ بری طرح ناکام رہی۔ ایران بھی اس پالیسی کے تحت ناکام و نامراد ہوگا اور وہ تمام ممالک جو دہشت گردی کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  18. Fawad

    Fawad -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2007
    پیغامات:
    954
    [QUOTE="زبیراحمد, post: 486206, member: 1331"

    برطانوی کالم نگار نے امریکا پر خطے میں ایران کے ساتھ گٹھ جوڑ کا الزام لگایا، اور کہا کہ واشنگٹن اب خطے میں امن کے لیے ایمان دار ثالثی نہیں رہا، اسی لیے وہ سعودی عرب پر اپنا اثر کھوچکا ہے جس کی نظر میں واشنگٹن قابل اعتبار نہیں رہا۔

    [/QUOTE]


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    نا تو امريکی حکومت کی ايسی کوئ خواہش ہے اور نا ہی اس تاثر ميں کوئ صداقت ہے کہ امريکہ خطے ميں کئ دہائيوں سے جاری سياسی کشيدگی کو ختم کرنے کے ليے حتمی اختيارات يا اثرورسوخ کا حامل ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حاليہ دنوں ميں ايران سے پابنديوں کا ہٹايا جانا ايک سفارتی کاميابی ہے جو کئ ماہ کے مذاکرات کے بعد ممکن ہو سکی ہے۔ تاہم يہ قدم اس بات کا آئينہ دار نہيں ہے کہ شام ميں اسد کی حکومت سميت ديگر عالمی معاملات اور ان ميں ايران کے کردار کے حوالے سے امريکی موقف ميں کوئ بڑی تبديلی رونما ہو چکی ہے۔

    علاوہ ازيں ايران پر موجود پابنديوں ميں نرمی صرف اسی وقت ممکن ہو سکی ہے جب عالمی تفتيشی ٹيم کی جانب سے اس بات کی تصديق کی گئ ہے کہ ايرانی حکومت نے اپنے جوہری پروگرام کے بڑے حصوں کو غير فعال کرنے کے اپنے وعدے کی پاسداری کی ہے۔

    يہ درست ہے کہ امريکہ نے ايران کے خلاف جوہری پابنديوں ميں نرمی پر آمادگی ظاہر کی ہے تاہم دہشت گردی کی حمايت اور انسانی حقوق کے ضمن ميں ايران کی پاليسيوں کے حوالے سے عائد کی گئ پابندياں بدستور فعال ہيں۔ ان پابنديوں کی وجہ سے امريکی شہريوں اور کمپنيوں پر ملک ميں تجارت اور سرمايہ کاری کے اکثر مواقعوں کے ضمن ميں قدغن ہے۔

    امريکی محکمہ خزانہ کے معاشی اثاثوں کے کنٹرول سے متعلق دفتر نے يہ واضح کيا ہے کہ ايران سے متعلق کسی بھی قسم کی ادائيگی اور اس کی ترسيل امريکی معاشی نظام سے ممکن نہيں ہے۔

    سال 2012 ميں امريکہ سميت کئ ممالک کی جانب سے ايران کے جوہری پروگرام کو روکنے کے ليے معاشی قدغنيں لگائ گئ تھيں۔

    اب بھی ہمارا مقصد اور واضح ہدف يہی ہے۔

    اس فيصلے کا سعودی حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات اور مختلف اسلامی حکومتوں اور ممالک کے درميان کشيدگی پيدا کرنے کی ہماری مبينہ خواہش سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

    digitaloutreach@state.gov

    www.state.gov

    https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

    http://www.facebook.com/USDOTUrdu

    [​IMG]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں