"ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا": امام اہل سنت احمد بن حنبل کا اہل بدعت کو چیلنج

ابوعکاشہ نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏مارچ 6, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,942
    امام اہل سنت والجماعت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے ـ
    "ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا."


    اما م احمد بن حنبل وہابی رحمہ اللہ کا ایک قول ایک خاص واقعہ کی نسبت سے آج کل کافی معروف ہے کہ "ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے حق پر کون تھا، اصل میں یہ قول اہل بدعت و ملحدین سے مخاطب کرکے کہا گیا تھا ـ اور سب جانتے ہیں کہ اہل بدعت و معتزلہ عباسی خلفاء کی دربارتک رسائی تھی ـ جنہوں نے اپنے اثرورسوخ سے خلق قرآن کے مسئلے پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو کئی سال تک تکلیفیں پہنچائی ـ بالاخر نے اللہ عزوجل نے ان کوثابت قدمی پر وہ مقام عطا فرمایا جو قیامت تک کسی کو حاصل ناہوسکے گا ـ
    ذیل میں وہ قول نقل کیا جارہا ہے ـ

    علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ ’’ البدایہ و النہایہ ‘‘ میں امام اہل سنت احمد بن حنبل کے حالات میں لکھتے ہیں :
    وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: سَمِعْتُ أَبَا سَهْلِ بْنَ زِيَادٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَحْمَدَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قولوا لأهل البدع بيننا وبينكم الجنائز حين تمر.
    وقد صدق الله قول أحمد في هذا، فإنه كَانَ إِمَامَ السُّنَّةِ فِي زَمَانِهِ، وَعُيُونُ مُخَالِفِيهِ أحمد بن أبي دؤاد وهو قاضي قضاة الدنيا لم يحتفل أحد بموته، ولم يتلفت إليه.ولما مات ما شيعه إلا قليل من أعوان السلطان.
    وَكَذَلِكَ الْحَارِثُ بْنُ أَسَدٍ الْمُحَاسِبِيُّ مَعَ زُهْدِهِ وَوَرَعِهِ وَتَنْقِيرِهِ وَمُحَاسَبَتِهِ نَفْسَهُ فِي خِطْرَاتِهِ وَحَرَكَاتِهِ، لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ من الناس.
    وكذلك بشر بن غياث المريسي لم يصل عليه إلا طائفة يسيرة جِدًّا، فَلِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ.

    کہ امام الدارقطنی نے امام احمد کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ :
    میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے ،اہل بدعت سے کہہ دو کہ ہمارے جنازے جب نکلیں گے تو وہی ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کریں گے ۔‘‘
    (یعنی تم سمجھتے ہو کہ ہمیں اہل اسلام کی حمایت اور ساتھ حاصل نہیں ،یا اللہ کی طرف سے قبولیت کا شرف حاصل نہیں تو )
    امام ابن کثیر فرماتے ہیں :اللہ تعالی نے امام احمد ؒ کا یہ قول سچ کر دکھایا ۔کیونکہ وہ اپنے دور میں اہل سنت کے امام تھے ۔
    اور انکے چوٹی کے مخالف ’’ احمد بن ابی داود ‘‘
    جو چیف جسٹس بھی تھا ،اس کو جب موت آئی تو کسی نے ادھر توجہ نہ دی ۔اور اس کے جنازے کے ساتھ چند سرکاری عہدیداروں کے سوا کوئی نہ تھا ۔
    اور مشہور صوفی حارث بن اسد المحاسبی باوجود اس کے کہ بڑے زاہد ، پار سا ،اور اپنے نفس کا شدید محاسبہ کرنے والے تھے ،ان کے جنازے پر بھی تین چار افراد ہی آئے ۔
    اسی طرح بشر بن غیاث المریسی (جو مشہور حنفی فقیہ ابو یوسف کا شاگرد اور جہمیہ کا نمائندہ داعی تھا ) جب فوت ہوا تو محض چند افراد ہی اس کے جنازے پر حاضر تھے۔
    (البداية والنهاية۔ج ۔۱۰۔۔ص ۳۷۵ )

    اس قول کی بنیا د حق و باطل کا فرق ہے ـ اور حق وہی ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ لے کرآئے ـ جو کہ صحابہ کرامؓ کے واسطے ہم تک پہنچا ـ کسی بدعتی ،ملحد ،مشرک کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس قول کواپنے جنازے کے لئے مثال بنائے ـکیونکہ ان کے عقیدے ،مذہب کی بنیاد قرآن اور نبی ﷺکے فرمان پر نہیں ہوتی ـ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 7
    • متفق متفق x 1
  2. محمد عرفان

    محمد عرفان -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 16, 2010
    پیغامات:
    764
    جزاک اللہ خیرا
    جنازے میں کثیر موحدین کی شرکت پر شفاعت اور بخشش کی امید ہے..

    کسی کے جنازے میں لاکھوں کروڑوں بدعتی اور قبر پرستوں کی شرکت سے کونسی بخشش کی امید کی جاسکتی ہے..

    آج اکثر مسلمان کثرت کو حق کا معیار بنا بیٹھے ہیں...

    Sent from my AO5510 using Tapatalk
     
    • متفق متفق x 2
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,942
    جی ہاں، باطل کے ہاں ہمیشہ سے ہی اکثریت حق کا معیار رہی ہے ۔ اس لئے اللہ نے پہلے ہی قرآن میں اکثریت پرخوشی، خوش فہمی پر تنبیہ کردی تھی ۔ فکرجدید میں حق بات معیار نہیں رہی ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں