تفسیر سورة الانسان

عبد الرحمن یحیی نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏مارچ 8, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    تفسیر سورة الانسان
    بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
    هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا ﴿١﴾ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴿٢﴾ إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ﴿٣﴾
    یقیناً گزرا ہے انسان پر ایک وقت زمانے میں جب کہ یہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا (1) بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لیے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا (2) ہم نے اسے راه دکھائی اب خواه وه شکر گزار بنے خواه ناشکرا (3)
    اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالٰی نے انسان کے ابتدائی ، اس کے انتہائی اور اس کے متوسط احوال بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ اس پر ایک طویل زمانہ گزرا ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے تھا اور وہ ابھی پردہ عدم میں تھا بلکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ، پھر جب اللہ تعالٰی نے اس کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس کے باپ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر اس کی نسل کو مسلسل بنایا مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ '' نطفہ مخلوط سے '' یعنی حقیر اور گندے پانی سے بنایا نَّبْتَلِيهِ ہم اس کے ذریعے سے اس کو آزماتے ہیں تاکہ ہم جان لیں کہ آیا وہ اپنی پہلی حالت کو چشم بصیرت سے دیکھ اور اس کو سمجھ سکتا ہے یا اس کو بھول جاتا ہے ۔ اور اس کو اس کے نفس نے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے ؟ پس اللہ تعالٰی نے اس کو پیدا کیا ، اس کے ظاہری اور باطنی قوٰی ، مثلاً : کان ، آنکھیں اور دیگر اعضا تخلیق کیے ،ان قوٰی کو اس کے لیے مکمل کیا ، ان کو صحیح سالم بنایا تاکہ وہ ان قوٰی کے ذریعے سے اپنے مقاصد کے حصول پر قادر ہو ،پھر اس کی طرف اپنے رسول بھیجے ، ان پر کتابیں نازل کیں اسے وہ راستہ دکھایا جو اس کے پاس پہنچاتا ہے ، اس راستے کو واضح کیا اور اسے اس راستے کی ترغیب دی اور اسے نعمتوں کے بارے میں بتایا جو اسے اس کے پاس پہنچنے پر حاصل ہوں گی ۔ پھر اس راستے سے خبردار کیا جو ہلاکت کی منزل تک پہنچاتا ہے ، اسے اس راستے سے ڈرایا ،اسے اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ جب وہ اس راستے پر چلے گا تو اسے کیا سزا ملے گی اور وہ کس عذاب میں مبتلا ہوگا ۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے بندوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے :
    اول : اس نعمت پر شکر ادا کرنے والا بندہ جس سے اللہ تعالٰی نے اس کو بہرہ مند کیا ہے اور اللہ تعالٰی کے ان حقوق کو ادا کرنے والا جن کی ذمہ داری کا بوجھ اللہ تعالٰی نے اس پر ڈالا ہے ۔
    ثانی : نعمتوں کی ناشکری کرنے والا ،اللہ تعالٰی نے اس کو دینی اور دنیاوی نعمتوں سے بہرہ مند کیا مگر اس نے ان نعمتوں کو ٹھکرا دیا اور اپنے رب کے ساتھ کفر کیا اور اس راستے پر چل نکلا جو ہلاکت کی گھاٹیوں میں لے جاتا ہے ۔ پھر اللہ تعالٰی نے جزا کے لحاظ سے دونوں فریقوں کا ذکر کیا تو فرمایا :
    إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَلَاسِلَ وَأَغْلَالًا وَسَعِيرًا ﴿٤﴾إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ﴿٥﴾عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّـهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا ﴿٦﴾يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا ﴿٧﴾وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا ﴿١٠﴾فَوَقَاهُمُ اللَّـهُ شَرَّ ذَٰلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا ﴿١١﴾وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا ﴿١٢﴾مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ ۖ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَلَا زَمْهَرِيرًا ﴿١٣﴾وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَالُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا ﴿١٤﴾وَيُطَافُ عَلَيْهِم بِآنِيَةٍ مِّن فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا ﴿١٥﴾قَوَارِيرَ مِن فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًا ﴿١٦﴾وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلًا ﴿١٧﴾عَيْنًا فِيهَا تُسَمَّىٰ سَلْسَبِيلًا ﴿١٨﴾ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا ﴿١٩﴾وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا ﴿٢٠﴾عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ ۖ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا ﴿٢١﴾إِنَّ هَـٰذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُم مَّشْكُورًا ﴿٢٢
    یقیناً ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور شعلوں والی آگ تیار کر رکھی ہے (4)بیشک نیک لوگ وه جام پئیں گے جس کی آمیزش کافور کی ہے (5)جو ایک چشمہ ہے۔ جس سے اللہ کے بندے پئیں گے اس کی نہریں نکال لے جائیں گے (جدھر چاہیں) (6)جو نذر پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی چاروں طرف پھیل جانے والی ہے (7)اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین، یتیم اور قیدیوں کو (8)ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکر گزاری (9)بیشک ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہیں جو اداسی اور سختی واﻻ ہوگا (10)پس انہیں اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برائی سے بچا لیا اور انہیں تازگی اور خوشی پہنچائی (11)اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے (12)یہ وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھیں گے۔ نہ وہاں آفتاب کی گرمی دیکھیں گے نہ جاڑے کی سختی (13)ان جنتوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے اور ان کے (میوے اور) گچھے نیچے لٹکائے ہوئے ہوں گے (14)اور ان پر چاندی کے برتنوں اور ان جاموں کا دور کرایا جائے گا جو شیشے کے ہوں گے (15)شیشے بھی چاندی کے جن کو (ساقی نے) اندازے سے ناپ رکھا ہوگا (16)اور انہیں وہاں وه جام پلائے جائیں گے جن کی آمیزش زنجبیل کی ہوگی (17)جنت کی ایک نہر سے جس کا نام سلسبیل ہے (18)اور ان کے ارد گرد گھومتے پھرتے ہوں گے وه کم سن بچے جو ہمیشہ رہنے والے ہیں جب تو انہیں دیکھے تو سمجھے کہ وه بکھرے ہوئے سچے موتی ہیں (19)تو وہاں جہاں کہیں بھی نظر ڈالے گا سراسر نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت ہی دیکھے گا (20)ان کے جسموں پر سبز باریک اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنگن کا زیور پہنایا جائے گا۔ اور انہیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا (21)(کہا جائے گا) کہ یہ ہے تمہارے اعمال کا بدلہ اور تمہاری کوشش کی قدر کی گئی (22)
    جس نے اللہ تعالٰی کے ساتھ کفر کیا ،اس کے رسولوں کو جھٹلایا اور اس کی نافرمانی کے ارتکاب کی جسارت کی ہم نے اس کے لیے تیار کی ہیں سَلَاسِلَ جہنم کی آگ میں زنجیریں جیسا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ ( الحاقة : 32) '' پھر اسے اس زنجیر میں جکڑ دو جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے ۔'' وَأَغْلَالًا '' اور طوق '' جس کے ذریعے سے ان کے ہاتھوں کو ان کی گرنوں کے ساتھ باندھ کر ان سے جکڑ دیا جائے گا۔ وَسَعِيرًا یعنی ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر کھی ہے جو ان کے جسموں کے ساتھ بھڑکے گی اور ان کے بدنوں کو جلاڈالے گی جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے : كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ( النساء : 56) '' جب ان کی کھالیں گل جائیں گی تو ہم ان کو ان کے سوا اور کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں ،'' یہ عذاب ان کے لیے دائمی ہوگا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ رہے الْأَبْرَارَ '' نیک لوگ '' یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل نیک ہیں کیونکہ ان کے اندر اللہ تعالٰی کی معرفت ، اس کی محبت اور اخلاق جمیلہ ہیں ۔ پس اس سبب سے ان کے اعمال بھی نیک ہیں انھوں نے ان کو نیک اعمال میں استعمال کیا ہے ۔ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ '' ایسے جام سے پئیں گے'' یعنی شراب سے انتہائی لذیذ مشروب جس میں کافور ملایا گیا ہوگا تاکہ وہ اس مشروب کو ٹھنڈا کر کے اس کی حدت کو توڑ دے۔ یہ کافور انتہائی لذیذ ہو گا ہر قسم کے تکدر اور ملاوٹ سے پاک ہوگا جو دنیا کے کافور میں موجود ہوتی ہے ہر وہ آفت جو ان اسما میں ہے جن کا اللہ تعالٰی نے ذکر کیا ہے کہ وہ جنت میں ہوں گے جبکہ اس قسم کے اسما دنیا میں بھی ہیں تو وہ (آفت)آخرت میں نہیں ہوگی جیسا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : فِي سِدْرٍ مَّخْضُودٍ ﴿ ﴾ وَطَلْحٍ مَّنضُودٍ (الواقعة : 28 ۔ 29) '' وہ بغیر کانٹوں والی بیریوں اور تہ بہ تہ کیلوں میں ہوں گے ۔'' فرمایا : وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ (آل عمران : 15) '' اور جنت میں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی۔'' اور فرمایا : فِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ(الزخرف : 71) ''اور اس میں وہ سب کچھ ہوگا جو دل چاہیں گے اور جس سے آنکھیں لذت حاصل کریں گی۔
    '' عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّـهِ '' وہ ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پئیں گے '' یعنی وہ لذیذ شراب، جو وہ پئیں گے ،انھیں اس کے ختم ہونے کا خوف نہیں ہوگا بلکہ اس کا ایسا مادہ ہوگا جو کبھی منقطع نہ ہوگا ۔ یہ ہمیشہ جاری رہنے اور بہنے والا چشمہ ہوگا ۔ اللہ کے بندے جہاں چاہیں گے جیسے چاہیں گے وہاں سے نہریں نکال لے جائیں گے، اگر وہ چاہیں گے تو ان کو خوبصورت باغات کی طرف موڑ لیں گے یا بارونق باغیچوں کی طرف لے جائیں گے اگر وہ چاہیں گے تو محلات کی جوانب اور آراستہ گھروں کی طرف بہا لے جائیں گے یا وہ خوبصورت جہات میں سے جس جہت چاہیں گے ان نہروں کو لے جائیں گے ۔
    اللہ تبارک و تعالٰی نے اس سورت کے آغازمیں ان کے جملہ اعمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : يُوفُونَ بِالنَّذْرِ یعنی وہ جن نذروں اور معاہدوں کو اپنے آپ پر اللہ کے لیے لازم کر لیتے تھے ،انھیں پورا کرتے تھے ۔ جب وہ نذر کو پورا کرتے تھے ،جو اصل میں ان پر واجب نہیں الاّ یہ کہ وہ اسے خود اپنے آپ پر واجب کر لیں ،تب فرائض اصلیہ کو تو بدرجہ اولٰی قائم کرتے اور ان کو بجا لاتے ہوں گے وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا یعنی اس دن کا خوف رکھتے تھے جس کی برائی نہایت سخت اور پھیل جانے والی ہے ۔ پس انھیں خوف تھا کہ اس دن کی برائی کہیں انھیں نہ پہنچ جائے ،اس لیے انھوں نے ہر وہ سبب چھوڑ دیا جو اس کا موجب تھا ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ یعنی وہ اس حال میں ہوتے ہیں کہ جس میں وہ خود مال اور طعام کو پسند کرتے ہیں مگر انھوں نے اللہ تعالٰی کی محبت کو اپنے نفس کی محبت پر مقدم رکھا اور لوگوں میں سب سے زیادہ مستحق اور سب سے زیادہ حاجت مند کو کھانا کھلانے کی کوشش کرتے ہیں مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ''مسکینوں ،یتیموں اور قیدیوں کو ۔'' ان کے کھانا کھلانے اور خرچ کرنے میں صرف اللہ تعالٰی کی رضا مقصود ہوتی ہے ۔ وہ اپنی زبان حال سے کہتے ہیں :
    إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّـهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا '' ہم تو تمھیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں ،ہم تم سے کسی بدلے کے خواست گزار ہیں نہ شکر گزاری کے ۔'' یعنی کوئی مالی جزا چاہتے ہیں نہ قولی ثنا۔
    إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا '' ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کھاتے ہیں جو اداسی والا ہوگا'' یعنی نہایت سخت اور شر والا ہوگا قَمْطَرِيرًا اور نہایت تنگ دن ہوگا فَوَقَاهُمُ اللَّـهُ شَرَّ ذَٰلِكَ الْيَوْمِ '' پس اللہ تعالٰی ان کو اس دن کے شر سے بچا لے گا۔'' پس انھیں وہ عظیم گھبراہٹ غم زدہ نہیں کرے گی اور فرشتے ان کا استقبال کرتے ہوئے کہیں گے : ''یہ وہ دن ہے جس کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔'' وَلَقَّاهُمْ یعنی اللہ تعالٰی ان کو اکرام و تکریم سے سرفراز کرے گا نَضْرَةً یعنی ان کے چہروں کو تازگی عطا کرے گا وَسُرُورًا اور ان کے دلوں کو سرور سے لبریز کرے گا ۔ پس اللہ تعالٰی ان کے لیے ظاہری اور باطنی نعمتوں کو اکٹھا کردے گا ۔
    وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا یعنی ان کی جزا اس سبب سے ہے کہ انھوں نے اللہ تعالٰی کی اطاعت پر صبر کیا اور استطاعت بھر نیک عمل کیے اور اس سبب سے کہ انھوں نے برائیوں سے اجتناب پر صبر کیا اور ان کو چھوڑ دیا اور اس سبب سے بھی کہ انھوں نے اللہ تعالٰی کی تکلیف دہ قضا و قدر پر صبر کیا اور اس پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا جَنَّةً ''جنت ہے '' جو ہر نعمت کی جامع اور ہر قسم کے تکدر سے سلامت ہے وَحَرِيرًا '' اور ریشم ہے '' جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا : وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ (الحج : 23) '' اور جنت میں ان کا لباس ریشمی ہوگا۔'' شاید اللہ تعالٰی نے خاص طور پر ریشم کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ یہ ان کا ظاہری لباس ہوگا جو صاحب لباس کے حال پر دلالت کرے گا ۔
    مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ '' وہ تختوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے ۔''
    (الاتكاء) سے مراد اطمینان ، راحت اور آسودگی کی حالت میں ٹیک لگا کر بیٹھنا اور (الأرائك ) وہ تخت ہیں جن پر سجاوٹ والے کپڑے بچھائے گئے ہوں ۔ لَا يَرَوْنَ فِيهَا یعنی وہ اس جنت کے اندر نہیں دیکھیں گے شَمْسًا دھوپ جس کی تپش ان کو نقصان پہنچائے ۔ وَلَا زَمْهَرِيرًا ''اور سخت سردی'' یعنی ان کے تمام وقات گہرے سائے میں گزریں گے جہاں گرمی ہوگی نہ سردی ،جہاں ان کے جسم لذت حاصل کریں گے وہاں ان کے جسموں کو گرمی سے تکلیف ہوگی نہ سردی سے ۔ وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَالُهَا وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا تَذْلِيلًا '' اور ان سے ان کے سائے قریب ہوں گے اور میووں کے گچھے جھکے ہوئے لٹک رہے ہوں گے '' یعنی اس کے پھل ،اس کے چاہنے والے کے اتنے قریب کر دیے جائیں گے کہ وہ ان کو کھڑے بیٹھے یا لیٹے ہوئے بھی حاصل کر سکے گا ۔
    خدمت گار لڑکے اور خدام،اہل جنت کے پاس گھوم پھر رہے ہوں گے بِآنِيَةٍ مِّن فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا ﴿ ﴾ قَوَارِيرَ مِن فِضَّةٍ '' چاندی کے برتن اور شیشے کے (شفاف) گلاس لیے ہوئے ،شیشے بھی چاندی کے ہونگے۔'' یعنی ان کا مادہ چاندی کا ہوگا ان کی صفائی شیشے کی سی ہوگی ۔ یہ ایک عجیب ترین چیز ہوگی کہ چاندی جو کہ کثیف ہوتی ہے اپنے جوہر کی صفائی اور اچھے معدن کی بنا پر شیشے کے صاف وشفاف ہونے کی مانند صاف و شفاف ہوگی ۔
    قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًا '' جو ٹھیک اندازے کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔'' یعنی ان مذکورہ برتنوں (کے حجم ) کو ان کی سیرابی کی مقدار کے مطابق بنائیں گے ، اس سے کم ہوں گے نہ زیادہ کیونکہ اگر حجم میں زیادہ ہوں تو ان کی لذت کم ہوجائے گی اگر کم ہوں گے تو ان کی سیرابی کے لیے کافی نہیں ہوں گے ۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اہل جنت ان برتنوں کو ایسی مقدار پر بنائیں گے جو ان کی لذات کے موافق ہوگی ۔ وہ برتن ان کے پاس ایسے حجم اور مقدار پر آئیں گے جس کا اندازہ انھوں نے اپنے دلوں میں کیا ہوگا ۔ وَيُسْقَوْنَ فِيهَا '' وہاں انھیں پلائی جائے گی '' یعنی جنت میں خلاص شراب کے بھرے ہوئے جام ہوں گے كَانَ مِزَاجُهَا جس میں ملاوٹ ہوگی زَنجَبِيلًا '' سونٹھ کی ۔'' تاکہ اس کا ذائقہ اور خوشبو دونوں خوش گوار بن جائیں ۔
    عَيْنًا فِيهَا اس جنت میں ایک چشمہ ہے تُسَمَّىٰ سَلْسَبِيلًا '' جس کا نام سلسبیل ہے ۔'' اس کو یہ نام اس کے آسانی کے ساتھ حاصل ہونے ، اس کی لذت اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے دیا گیا ہے ۔ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ یعنی اہل جنت کے پاس ان کے کھانے، ان کے مشروب اور ان کی خدمت کے لیے گھومتے پھرتے ہوں گے وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ ''لڑکے ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہنے والے ۔'' ان کو جنت میں بقا کے لیے پیدا کیا گیا ہے ،ان کی ہئیت بدلے گی نہ وہ بڑے ہوں گے اور وہ انتہائی خوبصورت ہوں گے ۔ إِذَا رَأَيْتَهُمْ جب تو ان کو اہل جنت کی خدمت میں منتشر ہوئے دیکھے حَسِبْتَهُمْ تو تُو ان کو ان کی خوبصورتی کی وجہ سے سمجھے گا لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا کہ وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں ۔ یہ اہل جنت کی لذت کی تکمیل ہے کہ ان کے خدام ،ہمیشہ رہنے والے لڑکے ہوں گے جن کا نظارہ اہل جنت کو خوش کر دے گا ،وہ اپنی تابع داری کی بنا پر امن کے ساتھ ان کی آرام گاہ میں وہ چیزیں لے کر آئیں گے جو وہ منگوائیں گے اور جن کی ان کے نفس خواہش کریں گے ۔
    وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ یعنی جب تو جنت میں دیکھے کہ اہل جنت کن کامل نعمتوں میں ہیں رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا '' تو نعمتیں ہی نعمتیں اور بہر بڑی سلطنت دیکھے گا '' تو ان میں سے ایک کو اس طرح پائے گا کہ اس کے پاس ایسی آرام گاہیں ہوں گی ،سجائے اور مزین کیے ہوئے ایسے بالا خانے ہون گے جن کا وصف بیان کرنا ممکن نہیں ۔ اس کے پاس خوبصورت باغات ہوں گے ،ایسے پھل ہوں گے جو اس کی پہنچ میں ہوں گے ،لذیذ میوہ جات ہوں گے ،بہتی ہوئی ندیاں اور خوش کن باغیچے ہوں گے سحر انگیز چہچہانے والے پرندے ہوں گے جو دلوں کو متاثر اور نفوس کو خوش کریں گے ۔ اس کے پاس بیویاں ہوں گی جو انتہائی خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی جو ظاہری اور باطنی جمال کی جامع ہوں گی جو نیک اور حسین ہوں گی ، ان کا حسن قلب کو سرور ،لذت اور خوشی سے لبریز کر دے گا ۔
    اس کے اردگرد رہنے والے خدمت گار لڑکے اور دائمی خدام گھوم پھر رہے ہوں گے جس سے راحت و اطمینان حاصل ہوگا ،لذت عیش کا ارمام اور مسرت کی تکمیل ہوگی ۔ پھر اس کے علاوہ اور اس سے بڑھ کر رب رحیم کی رضا ،اس کے خطاب کا سماع ،اس کے قرب کی لذت ،اس کی رضا کی خوشی اور دائمی زندگی حاصل ہوگی جن نعمتوں میں وہ رہ رہے ہوں گے وہ ہر وقت اور ہر آن بڑھتی رہیں گی ۔ پس پاک ہے اللہ تعالٰی ،اقتدار اور واضح حق کا مالک جس کے خزانے کبھی ختم ہوتے ہیں نہ اس کی بھلائی کم پڑتی ہے جیسے اس کے اوصاف کی کوئی انتہا نہیں ہے اس طرح اس کی نیکی اور احسان کی کوئی حد نہیں ہے ۔ عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ یعنی ان کو سبز اور دبیز ریشم کے باریک اطلس کے لباس پہنائے جائیں گے ۔ یہ دونوں حریر کی بہترین اقسام ہیں ۔
    ( سُندُسٍ ) موٹے اور دبیز ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں اور (إِسْتَبْرَقٌ ) باریک ریشمی کپڑے کو کہا جاتا ہے ۔ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ مردوں اور عورتوں کو ان کے ہاتھوں میں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے ، یہ وعدہ ہے جو اللہ تعالٰی نے ان کے ساتھ کر رکھا ہے اور اللہ تعالٰی کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے کیونکہ اپنے قول اور اپنی بات میں اس سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا '' اور انھیں ان کا رب پاک صاف شراب پلائے گا ۔'' جس میں کسی بھی لحاظ سے کوئی کدورت نہ ہوگی اور ان کے پیٹ میں جو آلائشیں وغیرہ ہوں گی ان کو پاک صاف کر دے گی ۔ إِنَّ هَـٰذَا بلاشبہ یہ اجر جزیل اور عطائے جمیل كَانَ لَكُمْ جَزَاءً ان اعمال کی جزا ہے جو تم آگے بھیج چکے ہو وَكَانَ سَعْيُكُم مَّشْكُورًا '' اور تمھاری کوشش کی قدر کی گئی ہے ۔'' یعنی تمھاری تھوڑی سی کوشش کے بدلے اللہ تعالٰی نے تمھیں اتنی تعمتیں عطا کی ہیں جن کا شمار ممکن نہیں ۔
    إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنزِيلًا ﴿٢٣﴾
    بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے (23)
    اللہ تبارک و تعالٰی نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنزِيلًا '' بے شک ہم نے آپ پر قرآن آہستہ آہستہ اتارا ہے '' اور اس کے اندر وعد و وعید اور ہر چیز کا بیان ہے جس کے بندے محتاج ہیں ۔ قرآن کریم کے اندر اللہ تعالٰی کے اوامر و شرائع کو پوری طرح قائم کرنے ،ان کے نفاذ کی کوشش کرنے اور اس پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، بنا بریں فرمایا :
    فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا ﴿٢٤﴾
    پس تو اپنے رب کے حکم پر قائم ره اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کا کہا نہ مان (24)
    یعنی اللہ تعالٰی کےحکم قدری پر صبر کیجیے اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کیجیے اور اس کے حکم دینی پر صبر کیجیے اور اس پر رواں دواں رہیے اور کوئی چیز آپ کی راہ کھوٹی نہ کر سکے وَلَا تُطِعْ معاندین حق کی اطاعت نہ کیجیے جو چاہتے ہیں کہ آپ کو راہ حق سے روک دیں آثِمًا یعنی جو گناہ اور معصیت کا ارتکاب کرنے والا ہے اور نہ (اطاعت کریں ) كَفُورًا '' کفر والے کی '' کیونکہ کفار،فجار اور فساق کی اطاعت حتمی طور پر اللہ تعالٰی کی نافرمانی ہے کیونکہ یہ لوگ صرف اسی چیز کا حکم دیتے ہیں جسے ان کے نفس پسند کرتے ہیں ۔
    وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴿٢٥﴾
    اور اپنے رب کے نام کا صبح وشام ذکر کیا کر (25)
    چونکہ صبر اللہ تعالٰی کی اطاعت کے قیام اور اس کے ذکر کی کثرت میں مدد کرتا ہے اس لیے اللہ تعالٰی نے اس کا حکم دیا ، چنانچہ فرمایا : وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلًا یعنی صبح و شام اپنے رب کا نام لیتے رہو ۔ اس میں فرض نمازیں،اس کے توابع نوافل وغیرہ اور ان اوقات میں ذکر، تسبیح ، تہلیل اور تکبیر وغیرہ داخل ہیں ۔
    وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيلًا ﴿٢٦﴾
    اور رات کے وقت اس کے سامنے سجدے کر اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کر (26)
    وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ '' اور رات کو سجدے کرو '' یعنی اس کے حضور کثرت سے سجدے کیجیے اور یہ چیز کثرت نماز کو متضمن ہے ۔ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيلًا '' اور طویل رات تک اس کی تسبیح بیان کرتے رہو ۔'' اس مطلق کی تقیید اس ارشاد کے ذریعے سے گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿ ﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿ ﴾ نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ﴿ ﴾ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ (المزمل : 1۔4) '' اے کپڑے میں لپٹنے والے،رات کو تھوڑا سا قیام کیجیے ،قیام نصف شب کیجیے یا اس سے بھی کچھ کم ، یا اس سے کچھ زیادہ ۔''
    إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا ﴿٢٧﴾
    بیشک یہ لوگ جلدی ملنے والی (دنیا) کو چاہتے ہیں اور اپنے پیچھے ایک بڑے بھاری دن کو چھوڑے دیتے ہیں (27)
    إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ اے رسول ! آپ کو جھٹلانے والے یہ لوگ، اس کے بعد کہ ان کے سامنے کھول کھول کر آیات بیان کی گئیں ،ان کو ترغیب دی گئی ،ان کو ڈرایا گیا ،اس کے باوجود ، اس نے ان کو کچھ فائدہ نہ دیا بلکہ وہ ہمیشہ ترجیح دیتے رہے الْعَاجِلَةَ دنیا ہی کو اور اسی پر مطمئن رہے وَيَذَرُونَ یعنی وہ عمل چھوڑ دیتے ہیں اور مہمل بن جاتے ہیں وَرَاءَهُمْ یعنی اپنے آگے يَوْمًا ثَقِيلًا '' بھاری دن '' اس سے مراد قیامت کا دن ہے جس کی مقدار تمھارے حساب کے مطابق پچاس ہزار برس ہے ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ (القمر : 8) '' کافر کہیں گے کہ یہ دن بہت ہی مشکل دن ہے۔'' گویا کہ وہ صرف دنیا اور دنیا کے اندر قیام کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ۔
    نَّحْنُ خَلَقْنَاهُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ ۖ وَإِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًا ﴿٢٨﴾
    ہم نے انہیں پیدا کیا اور ہم نے ہی ان کے جوڑ اور بندھن مضبوط کیے اور ہم جب چاہیں ان کے عوض ان جیسے اوروں کو بدل ﻻئیں (28)
    پھر اللہ تعالٰی نے ان پر اور ان کی موت کے بعد دوبارہ زندگی پر ، عقلی دلیل سے استدلال کیا ہے اور یہ ابتدائے تخلیق کی دلیل ہے ، چنانچہ فرمایا : نَّحْنُ خَلَقْنَاهُمْ یعنی ہم ان کو عدم سے وجود میں لائے ۔ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ یعنی ہم نے ان کی تخلیق کو اعصاب ،رگوں ،پٹھوں ،ظاہری اور باطنی قوٰی کے ذریعے سے محکم کیا ،یہاں تک کہ جسم تکمیل کی منزل پر پہنچ گیا اور ہر اس فعل پر قادر ہوگیا جو وہ چاہتا تھا ۔پس وہ ہستی جو انھیں اس حالت پر وجود میں لائی ہے ، وہ ان کے مرنے کے بعد ان کو جزا و سزا دینے کے لیے انھیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے اور وہ ہستی جس نے اس دنیا میں ان کو ان مراحل میں سے گزارا ہے ، اس کی شان کے لائق نہیں کہ ان کو بے کار چھوڑ دے ،ان کو حکم دیا جائے نہ ان کو روکا جائے ،ان کو ثواب عطا کیا جائے نہ عذاب دیا جائے بنا بریں فرمایا : بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًا '' ان کے بدلے انہی کی طرح کے اور لوگ لے آئیں '' یعنی ہم نے انھیں روز قیامت دوبارہ اٹھنے کے لیے تخلیق کیا ہے ، ہم نے ان کے اعیان ، ان کے نفوس اور ان کی امثال کا اعادہ کیا ۔
    إِنَّ هَـٰذِهِ تَذْكِرَةٌ ۖ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا ﴿٢٩﴾
    یقیناً یہ تو ایک نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی راه لے لے (29)
    إِنَّ هَـٰذِهِ تَذْكِرَةٌ '' یہ ایک نصیحت ہے '' یعنی اس سے مومن نصیحت حاصل کرتا ہے ،اس کے اندر جو تخویف اور ترغیب ہے ، اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا '' پس جو چاہے اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کر لے '' یعنی وہ راستہ جو اس کے رب تک پہنچاتا ہے ۔
    اللہ تعالٰی نے حق اور ہدایت کو پوری طرح واضح کر دیا اور لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لیے ان کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو ہدایت کے راستے پر گامزن ہوں اور اگر چاہیں تو اس سے دور بھاگیں ۔
    وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿٣٠﴾
    اور تم نہ چاہو گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہے بیشک اللہ تعالیٰ علم واﻻ باحکمت ہے (30)
    وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ '' اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو للہ کو منظور ہو ۔'' بے شک اللہ تعالٰی کی مشیت نافذ ہے إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا '' بے شک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے ۔'' ہدایت یاب کی ہدایت اور گمراہ کی گمراہی میں اللہ تعالٰی کی حکمت پوشیدہ ہے ۔
    يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمِينَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿٣١﴾
    جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کرلے، اور ﻇالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے (31)
    يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ '' وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کر دیتا ہے ۔'' پس اسے اپنی عنایت سے مختص کرتا ہے ،اسے سعادت کے اسباب کی توفیق سے نوازتا ہے اور سعادت کے راستوں کی طرف اس کی راہ نمائی کرتا ہے ۔ وَالظَّالِمِينَ جنہوں نے ہدایت کی بجائے شقاوت کو منتخب کیا أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا تو ان کے ظلم اور عدوان کی پاداش میں ، ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. نصر اللہ

    نصر اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2011
    پیغامات:
    1,845
    ماشاءاللہ..
    ماشاءاللہ.
    اللہ تعالی سمجھنے کی توفیق دیں اور جھنم کی سختیوں سے بچا کر جنت کے وارث بنا دیں..
    اللہ ہم سب کو جیسے یہاں جمع ہیں ویسے ہی جنت میں اکٹھا کر دیں..
    بارک اللہ فیک.

    Sent from my ALE-L21 using Tapatalk
     
  3. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    یہ کون سی تفسیر ہے؟

    Sent from my H30-U10 using Tapatalk
     
  4. نصر اللہ

    نصر اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2011
    پیغامات:
    1,845
    تفسیر السعدی..


    Sent from my ALE-L21 using Tapatalk
     
  5. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    جزاک اللہ
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں