تفسیر سعدی ( سورۃ سورة المدثر )

عبد الرحمن یحیی نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏مارچ 25, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    تفسیر سورة المدثر
    بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
    يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ ﴿٢﴾ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ﴿٣﴾ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ﴿٤﴾ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ﴿٥﴾ وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ ﴿٦﴾ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ﴿٧﴾
    اے کپڑا اوڑھنے والے (1) کھڑا ہوجا اور آگاه کردے (2) اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر (3) اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر (4) ناپاکی کو چھوڑ دے (5) اور احسان کرکے زیاده لینے کی خواہش نہ کر (6) اور اپنے رب کی راه میں صبر کر (7)
    گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے کہ الْمُزَّمِّلُ اور الْمُدَّثِّرُ کا ایک ہی معنی ہے ، نیز اللہ تعالٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ اللہ تعالٰی کی عبادات قاصرہ اور متعدیہ میں پوری کوشش کریں ۔ وہاں یہ بھی گزر چکا ہے کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو عبادات فاضلہ و قاصرہ اور اپنی قوم کی اذیت رسانی پر صبر کرنے کا حکم دیا ۔ یہاں اللہ تعالٰی نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنی نبوت کا اعلان فرما دیں اور کھلم کھلا لوگوں کو تنبیہ کریں ،چنانچہ فرمایا : قُمْ یعنی کوشش اور نشاط کے ساتھ کھڑے ہوں فَأَنذِرْ لوگوں کو ایسے اقوال اور افعال کے ذریعے سے تنبیہ کیجیے جن سے مقصد حاصل ہو ، ان امور کا حال بیان کر کے ڈرایے جن سے متنبہ کرنا مطلوب ہے تاکہ وہ ان کو ان کے ترک کرنے پر زیادہ آمادہ کرے ۔ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ یعنی توحید کے ذریعے سے اس کی عظمت بیان کیجیے ، اپنے انذار اور تنبیہ میں اللہ تعالٰی کی رضا کو مقصد بنائیں ،نیز اس بات کومدنظر رکھیں کہ بندے اللہ تعالٰی کی تعظیم اور اس کی عبادت کریں ۔
    وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ '' اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھیں ۔'' اس آیت کریمہ میں احتمال ہے کہ ( ثِيَاب) '' کپڑے '' سے مراد تمام اعمال ہوں اور ان کی تطہیر سے مراد ہے کہ ان کی تخلیص، ان کے ذریعے سے خیر خواہی،ان کو کامل ترین طریقے سے بجا لانا اور ان تمام مبطلات ،مدسدات اور ان مین نقص پیدا کرنے والے والے امور ،یعنی شرک ، ریا ، نفاق ، خود پسندی ،تکبر ، غفلت وغیرہ سے پاک کرنا ہو ، جن کے بارے میں بندہ مومن کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی عبادات میں ان سے اجتناب کرے ۔ اس میں کپڑوں کی نجاست سے تطہیر بھی داخل ہے کیونکہ یہ تطہیر ،اعمال کی تطہیر کی تکمیل ہے ، خاص طور پر نماز کے اندر جس کے بارے میں بہت سے علماء کا قول ہے کہ نجاست کو زائل کرنا، نماز کا حق اور اس کی شرائط میں سے ایک شرط ہے ، یعنی طہارت اس کی صحت کی شرائط میں سے ہے ۔ یہ بھی احتمال ہے کہ (ثِيَاب) سے مراد معروف لباس ہو اور آپ کو ان کپڑوں کی تمام اوقات میں تمام نجاستوں سے تطہیر کا حکم دیا گیا ہے ، خاص طور پر نماز میں داخل ہوتے وقت ۔
    جب آپ ظاہری طہارت پر مامور ہیں کیونکہ ظاہری طہارت ،باطنی طہارت کی تکمیل کرتی ہے تو فرمایا :
    وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ '' اور ناپاکی سے دور رہیں ۔'' ایک احتمال یہ ہے کہ (الرُّجْزَ) سے مراد بت اور مورتی ہوں جن کی اللہ تعالٰی کے ساتھ عبادت کی جاتی ہے ، پس اللہ تعالٰی نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان کو ترک کردیں ،ان سے براءت کا اعلان کریں ، نیز ان تمام اقوال اور افعال سے بیزار ہوں جو ان کی طرف منسوب ہیں ۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ(الرُّجْزَ) سے مراد تمام اقوال شر اور اعمال شر ہوں ، تب آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ تمام چھوٹے اور بڑے ، ظاہری اور باطنی گناہ چھوڑدیں۔ اس حکم میں شرک اور اس سے کم تر تمام گناہ داخل ہیں ۔
    وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ یعنی آپ نے لوگوں پر جو دینی اور دنیاوی احسانات کیے ہیں ، انھیں جتلائیں نہیں کہ اس احسان کے بدلے زیادہ حاصل کریں اور ان احسانات کی وجہ سے اپنے آپ کو لوگوں سے افضل سمجھیں بلکہ جب بھی آپ کے لیے ممکن ہو آپ لوگوں پر احسان کریں ، پھر ان پر اپنے اس احسان کو بھول جائیے اور اللہ تعالٰی سے اس کا اجر طلب کیجیے ۔ جس پر آپ نے احسان کیا ہے اسے اور دوسروں کو برابر کی سطح پر رکھیں ۔ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ آپ کسی کو کوئی چیز اس لیے عطا نہ کریں کہ آپ کا ارادہ ہو کہ وہ آپ کو اس سے بڑھ کر بدلہ عطا کرے ، تب یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مختص ہے ۔
    وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ یعنی اپنے صبر پر اجر کی امید رکھیے اور اس کا مقصد اللہ تعالٰی کی رضا ہو ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی اور اس کی تعمیل کے لیے آگے بڑھے۔ پس آپ نے لوگوں کو انجام بد سے ڈرایا اور آپ نے ان کے سامنے آیات بینات اور تمام مطالب الٰہیہ کو واضح کیا ۔ اللہ تعالٰی کی عظمت بیان کی اور مخلوق کو اس کی تعظیم کے لیے بلایا، آپ نے اپنے تمام ظاہری اور باطنی اعمال کو ہر قسم کی برائی سے پاک کیا ، آپ نے ہر اس ہستی سے براءت کا اظہار کیا جو اللہ تعالٰی سے دور کرتی تھی اور اس کی اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر عبادت کی جاتی تھی ، یعنی بتوں ، بت پرستوں ، شر اور شرپسندوں سے بیزاری کا اعلان کیا ۔ لوگوں پر اللہ تعالٰی کے احسان کے بعد آپ کا احسان ہے کہ بغیر اس کے کہ آپ اس پر ان سے کسی جزا یا شکر گزاری کا مطالبہ کریں ۔ آپ نے اپنے رب کی خاطر کامل ترین صبر کیا ۔ پس اللہ تعالٰی کی اطاعت پر اور اس کی نافرمانی سے اجتناب پر اور اس کی تکلیف دہ قضا و قدر پر صبر کیا ،یہاں تک کہ آپ اولوالعزم انبیاء و مرسلین پر بھی فوقیت لے گئے ۔ صلوات الله وسلامه عليه وعليهم أجمعين.
    فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ ﴿٨﴾ فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ ﴿٩﴾ عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ ﴿١٠﴾
    پس جب کہ صور میں پھونک ماری جائے گی (8) تو وه دن بڑا سخت دن ہوگا (9) جو کافروں پر آسان نہ ہوگا (10)
    جب مردوں کو قبروں سے کھڑ اکرنے اور تمام خلئق کو دوبارہ زندہ کر کے حساب و کتاب کے لیے جمع کرنے کے لیے صور پھونکا جائے گا فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ تو ہولناکیوں اور سختیوں کی کثرت کی بنا پر وہ دن بڑا ہی سخت ہوگا۔ عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ '' کافروں پر آسان نہ ہوگا ۔'' کیونکہ وہ ہر قسم کی بھلائی سے مایوس ہوچکے ہوںگے اور انھیں اپنی ہلاکت اور تباہی کا یقین ہوجائے گا ۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ وہ دن اہل ایمان پر آسان ہوگا جیسا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے : يَقُولُ الْكَافِرُونَ هَـٰذَا يَوْمٌ عَسِرٌ (القمر : 8) '' کفار کہیں گے کہ یہ دن بڑا ہی سخت ہے ۔''
    ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا ﴿١١﴾ وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَّمْدُودًا ﴿١٢﴾ وَبَنِينَ شُهُودًا ﴿١٣﴾ وَمَهَّدتُّ لَهُ تَمْهِيدًا ﴿١٤﴾ ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ ﴿١٥﴾ كَلَّا ۖ إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا ﴿١٦﴾ سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا ﴿١٧﴾إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ ﴿١٨﴾ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿١٩﴾ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿٢٠﴾ ثُمَّ نَظَرَ ﴿٢١﴾ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ﴿٢٢﴾ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ ﴿٢٣﴾ فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ﴿٢٤﴾ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ﴿٢٥﴾ سَأُصْلِيهِ سَقَرَ ﴿٢٦﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ ﴿٢٧﴾ لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ ﴿٢٨﴾ لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ ﴿٢٩﴾ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ ﴿٣٠﴾ وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ ﴿٣١﴾
    مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے (11) اور اسے بہت سا مال دے رکھا ہے (12) اور حاضر باش فرزند بھی (13) اور میں نے اسے بہت کچھ کشادگی دے رکھی ہے (14) پھر بھی اس کی چاہت ہے کہ میں اسے اور زیاده دوں (15) نہیں نہیں، وه ہماری آیتوں کا مخالف ہے (16) عنقریب میں اسے ایک سخت چڑھائی چڑھاؤں گا (17)اس نے غور کرکے تجویز کی (18) اسے ہلاکت ہو کیسی (تجویز) سوچی؟ (19) وه پھر غارت ہو کس طرح اندازه کیا (20) اس نے پھر دیکھا (21) پھر تیوری چڑھائی اور منھ بنایا (22) پھر پیچھے ہٹ گیا اور غرور کیا (23) اور کہنے لگا تو یہ صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے (24) سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں ہے (25) میں عنقریب اسے دوزخ میں ڈالوں گا (26) اور تجھے کیا خبر کہ دوزخ کیا چیز ہے؟ (27) نہ وه باقی رکھتی ہے نہ چھوڑتی ہے (28) کھال کو جھلسا دیتی ہے (29) اور اس میں انیس (فرشتے مقرر) ہیں (30) ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں۔ اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں، اوراہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے اور اہل کتاب اور اہل ایمان شک نہ کریں اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وه اور کافر کہیں کہ اس بیان سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراه کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہ تو کل بنی آدم کے لیے سراسر پند ونصیحت ہے (31)
    یہ آیات کریمہ معاند حق اور اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کھلی جنگ کرنے والے ، ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، اللہ تعالٰی نے اس کی ایسی مذمت کی ہے کہ ایسی مذمت کسی کی نہیں کی ۔ یہ ہر اس شخص کی جزا ہے جو حق کے ساتھ عناد اور دشمنی رکھتا ہے، اس کے لیے دنیا کے اندر رسوائی ہے آور آخرت کا عذاب زیادہ رسواکن ہے ۔ فرمایا : ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا '' مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا'' یعنی میں نے اسے اکیلا، کسی مال اور اہل و عیال وغیرہ کے بغیر پیدا کیا ۔ پس میں اس کی پرورش کرتا رہا اور اسے عطا کرتا رہا ۔ وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَّمْدُودًا اور میں نے اسے بہت زیادہ مال دیا وَ ''اور'' عطا کیے اسے بَنِينَ '' بیٹے '' شُهُودًا جو ہمیشہ اس کے پاس موجود رہتے ہیں ، وہ ان سے متمتع ہوتا ہے ، ان کے ذریعے سے اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے اور (دشمنوں کے خلاف ) ان سے مدد لیتا ہے وَمَهَّدتُّ لَهُ تَمْهِيدًا اور میں نے دنیا اور اس کے اسباب پر اسے اختیار دیا، یہاں تک کہ اس کے تمام مطالب آسان ہوگئے اور اس نے ہر وہ چیز حاصل کر لی جو وہ چاہتا تھا اور جس کی اسے خواہش تھی ثُمَّ پھر ان نعمتوں اور بھلائیوں کے باوجود يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ ''' خواہش رکھتا ہے کہ میں اور زیادہ دوں'' یعنی وہ چاہتا ہے کہ اسے آخرت کی نعمتیں بھی اس طرح حاصل ہوں جس طرح اسے دنیا کی نعمتیں حاصل ہوئی ہیں ۔
    كَلَّا یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا وہ چاہتا ہے بلکہ وہ اس کے مطلوب و مقصود کے بر عکس ہوگا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا وہ ہماری آیتوں سے عناد رکھتا ہے ، اس نے ان آیات کو پہچان کر ان کا انکار کر دیا ، ان آیات نے اسے حق کی طرف دعوت دی مگر اس نے ان کی اطاعت نہ کی ۔ اس نے صرف ان سے روگردانی کرنے اور منہ موڑنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے خلاف جنگ کی اور ان کے ابطال کے لیے بھاگ دوڑ کی ، اس لیے اللہ تعالٰی نے اس کے بارے میں فرمایا : إِنَّهُ فَكَّرَ یعنی اس نے اپنے دل میں غور کیا وَقَدَّرَ جس کے بارے میں غور کیااس کو تجویز کیا کہ وہ ایسی بات کہے جس کے ذریعے سے وہ قرآن کا ابطال کر سکے فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿ ﴾ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ '' پس وہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ،پھر وہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی '' کیونکہ اس نے ایسی تجویز سوچی جو اس کی حدود میں نہیں ، اس نے ایسے معاملے میں ہاتھ ڈالا جو اس کی اور اس جیسے دوسروں لوگوں کی پہنچ میں نہیں ۔ ثُمَّ نَظَرَ پھر اس نے جو کچھ کہا اس میں غور کیا ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ پھر اس نے تیوری چڑھائی اور اپنے منہ کو بگاڑا اور حق سے نفرت اور بغض ظاہر کیا ثُمَّ أَدْبَرَ پھر پیٹھ پھیر کر چل دیا وَاسْتَكْبَرَ اپنی فکری ،عملی اور قولی کوشش کے نتیجے میں تکبر کیا اور کہا : إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ﴿ ﴾ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ یعنی یہ اللہ تعالٰی کا کلام نہیں بلکہ انسان کا کلام ہے ، نیز یہ کسی نیک انسان کا کلام نہیں بلکہ انسانوں میں سے اشرار ،فجار ، جھوٹے جادوگروں کا کلام ہے ۔ ہلاکت ہو اس کے لیے ، راہ صواب سے کتنا دور ، خسارے اور نقصان کا کتنا مستحق ہے ! یہ بات ذہنوں میں کیسے گھومتی ہے یا کسی انسان کا ضمیر یہ کیسے تصور کر سکتا ہے کہ سب سے اعلٰی اور عظیم ترین کلام رب کریم ، صاحب مجد و عظمت کا کلام، ناقص اور محتاج مخلوق کے کلام سے مشابہت رکھتا ہے ؟ یا یہ عناد پسند جھوٹا شخص ، اللہ تعالٰٰ کے کلام کو اس وصف سے موصوف کرنے کی کیوں کر جرات کرتا ہے ؟
    پس یہ سخت عذاب کے سوا کسی چیز کا مستحق نہیں ،بنا بریں اللہ تعالٰی نے فرمایا :
    سَأُصْلِيهِ سَقَرَ ﴿ ﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ ﴿ ﴾ لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ '' ہم عنقریب اس کو ''سقر'' میں داخل کریں گے اور تمھیں کیا معلوم کہ ''سقر'' کیا ہے ؟(وہ آگ) کہ باقی رکھے گی نہ چھوڑے گی '' یعنی جہنم کوئی ایسی سختی نہیں چھوڑے گی جو عذاب دیے جانے والے کو نہ پہنچے ۔ لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ '' چمڑے جھلسا دینے والی ہے '' یعنی جہنم ان کو اپنے عذاب میں جھلس ڈالے گی اور اپنی شدید گرمی اور شدید سردی سے انھیں بے چین کر دے گی ۔ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ یعنی جہنم پر انیس فرشتے داروغوں کے طور پر متعین ہیں جو نہایت سخت اور درشت خو ہیں ، اللہ تعالٰی ان کو جو حکم دیتا ہے وہ نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے ۔ وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً '' اور ہم نے جہنم کے داروغے فرشتے بنائے ہیں ۔'' یہ ان کی سختی اور قوت کی بنا پر ہے ۔ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا '' اور ہم نے ان کی گنتی کافروں کی آزمائش کے لیے کی ہے ۔'' اس میں ایک احتمال یہ ہے کہ یہ صرف آخرت میں ان کو عذاب ،عقوبت اور جہنم میں ان کو زیادہ سزا دینے کے لیے ہے ۔ عذاب کو فتنہ سے موسوم کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ (الذاريات :13) '' اس دن جب ان کو جہنم میں عذاب دیا جائے گا ۔'' دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہم تمھیں ان کی تعداد کے بارے میں صرف اس لیے بتایا ہے تاکہ ہم جان لیں کہ کون تصدیق کرتا اور کون تکذیب کرتا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے جو فرمایا ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے ۔ لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا '' تاکہ اہل کتاب یقین کر لیں اور مومنوں کا ایمان زیادہ ہو ۔'' کیونکہ اہل کتاب کے پاس جو کچھ ہے ،جب قرآن اس کی مطابقت کرے گا تو حق کے بارے میں ان کے یقین میں اضافہ ہوگا اور جب بھی اللہ تعالٰٰ کوئی آیت نازل کرتا ہے تو اہل ایمان اس پر ایمان لاتے اور اس کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ۔ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ '' نیز اہل کتاب اور مومن شک نہ کریں '' یعنی تاکہ ان سے شک و ریب زائل ہوجائے ۔
    ان جلیل القدر مقاصد کو خرد مند لوگ ہی درخوراعتنا سمجھتے ہیں ، یعنی یقین میں کوشش ، ایمان میں ہر وقت اضافہ ، دین کے مسائل میں سے ہر مسئلہ پر ایمان میں اضافہ اور شکوک و اوہام کو دور کرنا جو حق کے بارے میں پیش آتے ہیں ۔ پس اللہ تعالٰی نے جو کچھ اپنے رسول پر نازل کیا ہے ، اسے ان مقاصد جلیلہ کو حاصل کرنے کا ذریعہ ، سچے اور جھوٹے لوگوں کے درمیان امتیاز کی میزان قرار دیا ہے ، بنا بریں فرمایا :
    وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ '' تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے ، کہیں :'' یعنی شک و شبہ اور نفاق کا مرض ہے وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا '' اور کافر (کہیں) کہ اس مثال سے اللہ کا مقصود کیا ہے ؟'' وہ یہ بات حیرت ، شک اور اللہ تعالٰی کی آیتوں سے کفر کی وجہ سے کہتے ہیں اور یہ اس شخص کے لیے اللہ کی ہدایت ہے جسے وہ ہدایت سے بہرہ مند کرتا ہے اور اس شخص کے لیے گمراہی ہے جسے وہ گمراہ کرتا ہے ، اس لیے فرمایا : كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ '' اسی طرح اللہ تعالٰی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔'' پس اللہ جس کو ہدایت عطا کر دے تو جو کچھ اس نے اپنے رسول پر نازل کیا ، اس اس کے حق میں رحمت اور اس کے دین و ایمان میں اضافے کا باعث بنا دیتا ہے اور جسے گمراہ کر دے تو جو کچھ اس نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اسے اس کے حق میں ظلمت اور اس کے لیے بد بختی اور حیرت کا سبب بنا دیتا ہے ۔ واجب ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے اسے اطاعت و تسلیم کے ساتھ قبول کیا جائے ۔
    فرشتوں وغیرہ میں سے کوئی بھی تمہارے رب کے لشکروں کو نہیں جانتا
    إِلَّا هُوَ '' سوائے اس (اللہ) کے'' پس جب تم اللہ کے لشکروں کے بارے میں علم نہیں رکھتے تھے اور علیم و خبیر ہی نے تمھیں ان کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے تو تم پر واجب ہے کہ تم اس کی خبر کی کسی شک و ریب کے بغیر تصدیق کرو ۔ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ یعنی اس نصیحت اور تذکیر کا مقصد محض عبث اور لہو ولعب نہیں ، اس کامقصد تو یہ ہے کہ انسان اس سے نصیحت پکڑیں جو چیز ان کو فائدہ دے اس پر عمل کریں اور جو چیز ان کو نقصان دے اسے ترک کردیں ۔
    كَلَّا وَالْقَمَرِ ﴿٣٢﴾ وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ ﴿٣٣﴾ وَالصُّبْحِ إِذَا أَسْفَرَ ﴿٣٤﴾ إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ ﴿٣٥﴾ نَذِيرًا لِّلْبَشَرِ ﴿٣٦﴾ لِمَن شَاءَ مِنكُمْ أَن يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ ﴿٣٧﴾ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ﴿٣٨﴾ إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ ﴿٣٩﴾ فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ ﴿٤٠﴾ عَنِ الْمُجْرِمِينَ ﴿٤١﴾ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ ﴿٤٤﴾ وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ ﴿٤٥﴾ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ ﴿٤٦﴾ حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ ﴿٤٧﴾فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ ﴿٤٨﴾ فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ ﴿٤٩﴾ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ ﴿٥٠﴾ فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ ﴿٥١﴾ بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ أَن يُؤْتَىٰ صُحُفًا مُّنَشَّرَةً ﴿٥٢﴾ كَلَّا ۖ بَل لَّا يَخَافُونَ الْآخِرَةَ ﴿٥٣﴾ كَلَّا إِنَّهُ تَذْكِرَةٌ ﴿٥٤﴾ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ ﴿٥٥﴾ وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ ۚ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَىٰ وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ ﴿٥٦﴾
    سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کی (32) اور رات کی جب وه پیچھے ہٹے (33) اور صبح کی جب کہ روشن ہو جائے (34) کہ (یقیناً وه جہنم) بڑی چیزوں میں سے ایک ہے (35) بنی آدم کو ڈرانے والی (36) (یعنی) اسے جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہے (37) ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے (38) مگر دائیں ہاتھ والے (39) کہ وه بہشتوں میں (بیٹھے ہوئے) گناه گاروں سے (40) سوال کرتے ہوں گے (41) تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈاﻻ (42) وه جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے (43) نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے (44) اور ہم بحﺚ کرنے والے (انکاریوں) کا ساتھ دے کر بحﺚ مباحثہ میں مشغول رہا کرتے تھے (45) اور روز جزا کو جھٹلاتے تھے (46) یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی (47)پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی (48) انہیں کیا ہو گیا ہے؟ کہ نصیحت سے منھ موڑ رہے ہیں (49) گویا کہ وه بِدکے ہوئے گدھے ہیں (50) جو شیر سے بھاگے ہوں (51) بلکہ ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں (52) ہرگز ایسا نہیں (ہوسکتا بلکہ) یہ قیامت سے بے خوف ہیں (53) سچی بات تو یہ ہے کہ یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے (54) اب جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے (55) اور وه اس وقت نصیحت حاصل کریں گے جب اللہ تعالیٰ چاہے، وه اسی ﻻئق ہے کہ اس سے ڈریں اور اس ﻻئق بھی کہ وه بخشے (56)
    كَلَّا یہاں بمعنی (حقا) یا بمعنی (ألا) استفتاحیہ کے ہے ۔ اللہ تعالٰی نے چاند اور رات کی قسم کھائی جس وقت وہ پیچھے ہٹے اور دن کی قسم کھائی جس وقت وہ خوب روشن ہو کیونکہ یہ مذکورہ چیزیں اللہ تعالٰی کی عظیم نشانیوں پر مشتمل ہیں جو اللہ تعالٰی کی کامل قدرت و حکمت ، لامحدود قوت ، بے پایاں رحمت اور اس کے احاطہ علم پر دلالت کرتی ہیں۔ جس پر قسم کھائی ہے وہ اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد ہے : إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ '' کہ وہ (آگ) ایک بہت بڑی (آفت) ہے '' یعنی بے شک جہنم کی آگ ایک بہر بڑی مصیبت اور غم میں مبتلا کر دینے والا معاملہ ہے ۔ پس جب ہم تمھیں اس کے بارے میں خبردار کر دیا اور تم اس کے بارے میں پوری بصیرت رکھتے ہو ، تب تم میں سے جو چاہے آگے بڑھے اور ایسے عمل کرے جو اسے اللہ تعالٰی اور اس کی رضا کے قریب کرتے ہیں اور اس کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتے ہیں یا وہ اس مقصد سے پیچھے ہٹ جائے جس کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا ہے ، جس کو اللہ تعالٰی پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہے اور نافرمانی کے کام کرے جو جہنم کے قریب کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے : وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الکھف : 29) '' اور کہہ دیجیے کہ یہ برحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے ، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے انکار کرے ۔''
    كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ '' ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے'' یعنی افعال شر اور اعمال بد کے بدلے رَهِينَةٌ '' گروی ہے۔'' یعنی اپنے اعمال کا گروی اور اپنی کوشش میں بندھا ہوا ، اس کی گردن جکڑی ہوئی اور اس کے گلے میں طوق ڈالا ہوا ہے اور اس سبب سے اس نے عذاب کو واجب بنا لیا ۔
    إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ '' سوائے دائیں ہاتھ والوں کے'' کیونکہ وہ (اپنے اعمال کے بدلے) گروی نہیں ہیں بلکہ وہ آزاد ، فرحاں اور شاداں ہیں فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ ﴿ ﴾ عَنِ الْمُجْرِمِينَ یعنی جنت کے اندر ان کو تمام چیزیں حاصل ہوں گی کن جی وہ طلب کریں گے ، ان کے لیے کامل راحت و اطمینان ہوگا ، وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے ، وہ آپس کی بات چیت میں مجرموں کے بارے میں پوچھیں گے کہ وہ کس حال کو پہنچے ہیں ، کیا انھوں نے وہ کچھ پالیا جس کا اللہ تعالٰی نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا؟
    پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ کیا تم انھیں جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو ؟ وہ ان کو جھانک کر دیکھیں گے تو انھیں جہنم کے درمیان اس حال میں پائیں گے کہ انھیں عذاب دیا جا رہا ہوگا تو وہ ان سے کہیں گے :
    مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ یعنی کس چیز نے تمھیں جہنم میں ڈالا ہے اور کس گناہ کے سبب تم جہنم کے مستحق قرار پائے ہو؟ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿ ﴾ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ '' کہیں گے : ہم نماز پڑھتے تھے نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے '' یعنی ہم معبود کے لیے اخلاص اور احسان رکھتے تھے نہ ضرورت مند مخلوق کو فائدہ پہنچاتے تھے وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ '' اور ہم (باطل میں ) مشغول ہونے والوں کے ساتھ مشغول ہوتے تھے '' یعنی ہم باطل میں پڑے ہوئے تھے اور باطل کے ذریعے سے حق کے خلاف جھگڑتے تھے ۔ وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ '' اور ہم یوم جزا کو جھٹلاتے تھے۔'' یہ باطل میں مشٖغول ہونے کا اثر ہے اور وہ ہے تکذیب حق ۔ سب سے بڑے حق میں سے قیامت کا دن ہے جو اعمال کی جزاوسزا ، اللہ تعالٰی کے اقتدار اور تمام مخلوق کے لیے اس کے عدل پر مبنی فیصلے کا محل ہے ۔ ہمارا عمل اسی باطل نہج پر جاری رہا حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ یہاں تک کہ ہمیں موت نے آلیا ۔ پس جب وہ کفر کی حالت میں مر گئے تو ان کے لیے حیلے دشوار ہوگئے اور ان کے سامنے امید کا دروازہ بند ہوگیا ۔
    فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ '' پس سفارش کرنے والوں کی سفارش انھیں کچھ فائدہ نہیں دے گی '' کیونکہ وہ صرف اسی کی سفارش کریں گے جن کے بارے میں اللہ تعالٰی راضی ہوگا اور یہ ایسے لوگ ہیں جن کے اعمال سے اللہ تعالٰی راضی نہیں ۔ جب اللہ تعالٰٰ نے مخالفین کا انجام واضح کر دیا اور یہ بھی بیان کر دیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا تو موجودہ کفار پر عتاب اور ملامت کی طرف توجہ دی ، چنانچہ فرمایا : فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ '' پس انھیں کیا ہوا ہے کہ وہ نصیحت سے روگرداں ہیں '' یعنی نصیحت سے غافل اور اس سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
    كَأَنَّهُمْ '' گویا کہ وہ'' اس نصیحت سے اپنی سخت نفرت میں حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ بدکے ہوئے جنگلی گدھے ہیں جو ایک دوسرے سے بدک گئے ہیں اور اس بنا پر ان کی دوڑ مٰں تیزی آگئی ہے ۔ فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ جو کسی شکاری یا کسی تیر انداز سے ، جو ان کو نشانے میں لینے کا ارادہ رکھتا ہو یا کسی شیر وغیرہ سے ڈر کے بھاگے ہیں ۔
    اور یہ حق سے سب سے بڑی نفرت ہے، اس نفرت اور اعراض کے باوجود وہ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ۔ پس
    يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ أَن يُؤْتَىٰ صُحُفًا مُّنَشَّرَةً '' ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھلی کتاب آئے '' یعنی آسمان سے نازل ہو ، وہ سمجھتا ہے کہ وہ اس صورت میں حق کو تسلیم کر لے گا ، حالانکہ انھوں نے جھوٹ بولا ہے ، ان کے پاس اگر ہر قسم کی نشانی بھی آ جائے ، تب بھی وہ اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں کیونکہ ان کے پاس واضح دلائل آئے جنہوں نے حق کو بیان کر کے واضح کر دیا اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو ہو ضرور ایمان لے آتے ۔
    اس لیے فرمایا :
    كَلَّا '' ہر گز نہیں '' ہم انھیں وہ چیز عطا نہیں کریں گے جس کا انھوں نے مطالبہ کیا ہے، اس مطالبے سے ان کا مقصد عاجز کرنے کے سوا کوئی اور نہیں ۔ بَل لَّا يَخَافُونَ الْآخِرَةَ '' حقیقت یہ ہے کہ وہ آخرت سے نہیں ڈرتے۔'' پس اگر انھیں آخرت کا خوف ہوتا تو ان سے یہ سب کچھ صادر نہ ہوتا جو صادر ہوا ہے ۔ كَلَّا إِنَّهُ تَذْكِرَةٌ '' کچھ شک نہیں کہ یہ نصیحت ہے ۔'' ضمیر یا تو اس سورہ مبارکہ کی طرف لوٹتی ہے یا اس نصیحت کی طرف لوٹتی ہے جس پر یہ سورہ مبارکہ مشتمل ہے ۔ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ '' پس جو چاہے اسے یاد رکھے'' کیونکہ اللہ تعالٰی نے ان کے سامنے راستے کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور اس کے سامنے دلیل واضح کر دی وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ '' اور یاد بھی تب رکھیں گے جب اللہ چاہے گا '' کیونکہ اللہ تعالٰی کی مشیت سب پر نافذ ہے ، کوئی قلیل یا کثیر حادث اس کی مشیت سے باہر نہیں ۔ اس آیت کریمہ میں قدریہ کا رد ہے جن کا زعم یہ ہے کہ بندے کی کوئی مشیت نہیں ہے نہ حقیقت میں اس کا کوئی فعل ہے وہ تو اپنے افعال پر مجبور محض ہے ۔ پس اللہ تعالٰی نے بندوں کے لیے مشیت اور فعل کا اثبات کیا ہے اور یہ سب کچھ اللہ تعالٰی کی مشیت کے تابع ہے ۔
    هُوَ أَهْلُ التَّقْوَىٰ وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ یعنی وہ اس کا اہل ہے کہ اس سے تقوٰی اختیار کیا جائے اور اس کی عبادت کی جائے کیونکہ وہی معبود ہے ، عبادت صرف اسی کے لائق ہے ۔ وہ اس کا اہل ہے کہ جو کوئی اس سے ڈرے اور اس کی رضا کی اتباع کرے ، وہ اس کو بخش دے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. نصر اللہ

    نصر اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2011
    پیغامات:
    1,845
    ماشاءاللہ..
    اللہ آپ کی اس سعی حسنہ کو قبول فرمائیں..
    آمین.

    Sent from my ALE-L21 using Tapatalk
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں