اجہتاد و تقلید-6: مراد حدیث چند مثالیں، تحقیق حدیث، حدیث کے بارے میں فقہا اور محدثین میں فرق

دیوان نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏جولائی 18, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. دیوان

    دیوان رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مئی 4, 2015
    پیغامات:
    38
    مراد حدیث چند مثالیں
    حدیث 1
    رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
    افضل الصلوۃ طول القنوت (صحیح مسلم)
    افضل نماز وہ ہے جس میں قیام طویل ہو۔
    لیکن جب حضرت معاذؓ نےایک نماز کی امامت کرتے ہوئے طویل قیام کیا جس سے ایک آدمی نے نماز توڑ دی اور اس طویل قیام کی خبر رسول اللہ ﷺ کو کی تو آپ ﷺ نے حضرت معاذؓ سے فرمایا:فتان فتان فتان (تم لوگوں کو فتنے میں ڈالنے والے ہو)، (صحیح بخاری)۔
    فائدہ:
    • رسول اللہ ﷺ کا حضرت معاذ کو تنبیہ فرمانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مطلب وہ نہیں تھا جو حضرت معاذؓ نے سمجھا۔
    • صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق رسول ﷺ نے موت کی تمنا سے منع فرمایا ہے، لیکن امام بخاریؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ اپنی وفات سے پہلے انہوں نے یہ دعا کی تھی:’’اے اللہ مجھے اپنی طرف اٹھا لے۔‘‘ صرف ایک ماہ کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ حدیث شریف کے واضح حکم کے باوجود امام بخاری کا اپنی موت کی دعا کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امام بخاری کے نزدیک حدیث کا مفہوم کچھ اور تھا۔
    • حدیث میں آتا ہے:
    لا صام من صام الابد (صحیح البخاری، کتاب الصیام)
    جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود امام بخاری ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔
    • صحیح بخاری میں رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے کہ ہفتے میں صرف ایک قرآن ختم کرو۔ لیکن سیدنا عثمانؓ کے متعلق ان کی اہلیہ کا بیان ہے کہ وہ ایک رات میں پورا قرآن ختم کرتے تھے (طبرانی بسند حسن)۔
    حدیث 2
    عن ابي ايوب الانصاري قال قال رسول لا تستقبلوا القبلة بغائط ولا بول ولا تستدبروها ولكن شرقوا او غربوا (سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، صحیح)
    اس روایت کا مفہوم یہ کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ رفع حاجت کے وقت قبلہ رخ نہ منہ کرو نہ پشت بلکہ اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف رکھو۔
    • اس حدیث کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ قبلہ مشرق یا مغرب کی طرف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اگر کسی علاقے کے لوگ مغرب کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں تو اس حدیث کی رو سے وہاں کے باشندوں کی نماز نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ ہر سمجھدار شخص جان سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔
    حدیث 3
    عن ابن عمر قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إذا تبايعتم بالعينة واخذتم اذناب البقر ورضيتم بالزرع وتركتم الجهاد سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ، صحیح)
    ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم بیع عینہ کرنے لگو اور گائے (بیل) کی دم پکڑنے لگو اور زراعت پر خوش ہو کر جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کردے گا جو اس وقت تک نہیں اتارے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہ لوٹو گے۔
    اس حدیث کا ظاہری مفہوم تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی ذلت کا سبب خرید و فروخت اور زراعت ہی ہیں جب کہ باقی کام مثلا ، فیکٹری لگانا، دکان کھولنا وغیرہ کا اس ذلت میں کوئی دخل نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ظاہری مفہوم ٹھیک نہیں۔ اس کا دوسرا مطلب جو فقا ہت (یعنی غور و فکر) سے نکلتا ہے وہ یہ کہ دنیا کے کاموں میں اس طرح لگ جانا کہ جہاد اور اس کے دیگر امور کی طرف غفلت ہوجائے اس سے دشمنان دین کو مضبوط ہونے کا موقع ملتا ہے جو بالآخر مسلمانوں کی ذلت کا باعث بن جاتا ہے۔
    حدیث 4
    عن ابي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يبولن احدكم في الماء الدائم الذي لا يجري ثم يغتسل فيه (صحیح البخاری، کتاب الوضوء)
    حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں )جو جاری نہ ہو (پیشاب نہ کرے پھر اسی میں غسل کرنے لگے۔
    اگر ظاہری الفاظ پر جایا جائے تو اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں صرف پیشاپ کرنے سے وہ پانی ناپاک ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر پیشاپ بہہ کر ٹھہرے ہوئے پانی میں چلا جائے تو کیا حکم ہوگا؟ یا اگر کوئی کسی برتن میں پیشاپ لاکر ٹھہرے ہوئے پانی میں ڈال دے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ یا اگر اس میں کوئی اور گندگی ڈالی جائے تو کیا حکم ہوگا؟
    تحقیق حدیث
    تحقیق حدیث یعنی حدیث سے مسئلہ اخذ کرنا تین باتوں کا نام ہے:
    1) حدیث صحیح ہو۔ یعنی یہ واقعی رسول اللہ ﷺسے منسوب ہے۔ (یہ حدیث ثابت ہے یا نہیں)
    2) اس کے متن سے مراد رسول کا تعین ضروری ہے۔ یعنی اس حدیث کا مطلب سمجھنا ہے۔
    3) اگر اس حدیث کا تعارض کسی اور حدیث سے ہے تو اس تعارض کو رفع (یعنی دور) کیا جائے۔
    اور یہ تینوں کام مدلل طریقے سے ہوں ناکہ اٹکل سے۔
    اس میں نمبر 1 محدثین کا کام ہے۔ نمبر2 اور 3 مجتہدین کے کام ہیں۔ اسی لیے بہت سے محدثین فقہا کے مقلد تھے۔ امام بخاریؒ علم حدیث میں اپنی جداگانہ حیثیت رکھنے کے باوجود امام شافعیؒ کے فتوے پر عمل کرتے تھے یا کبھی خود بھی اجتہاد کرلیتے تھے۔ امام مسلمؒ شافعی تھے۔ امام ابوداؤد ؒحنبلی تھے یا شافعی۔ امام نسائیؒ شافعی تھے۔ امام ترمذی ؒاور ابن ماجہؒ بھی شافعی تھے۔
    حدیث کے بارے میں فقہا اور محدثین میں فرق
    محدثین کے ہاں حدیث سند کو کہتے ہیں۔ یہ حضرات حدیث کی سند یعنی اس کے راویوں کے بارے میں تحقیق کے ماہر ہوتے ہیں۔ اس لیے جب وہ کسی حدیث کو صحیح کہتے ہیں تو ان کا مقصد اس کی صحتِ سند ہوتا ہے متن سے اس کو تعلق نہیں ہوتا۔ فقہا کے نزدیک حدیث متن کو کہتے ہیں۔
    حدیث کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں محدثین کے جو اصول ہیں وہ اجتہادی ہیں۔ خود محدثین کے یہاں ان اصولوں میں اختلاف ہے۔ مثلا: امام بخاریؒ کا اصول یہ ہے کہ راوی جس سے روایت کرتا ہے ان دونوں کی ملاقات ثابت ہو۔ بصورت دیگر وہ روایت ان کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ اس کے برخلاف امام مسلم صرف معاصرت (یعنی ایک زمانے میں ہونا) کافی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح صحت حدیث کے حوالے سے مجتہدین کے اپنے بھی اصول ہیں جو محدثین کے اصولوں سے مختلف ہیں جس کی وجہ سے وہ حدیث جو محدثین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے مجتہد کے نزدیک اس سے استدلال (اس کو دلیل بنانا) ممکن ہے۔ اسی لیے اہل علم کے درمیان یہ بات معروف ہے جس حدیث سے کسی مجتہد نے استدلال کرلیا (یعنی اس کو اپنی دلیل بنایا) تو وہ حدیث صحیح ہے اس لیے کہ اجتہاد کا مدار صحیح حدیث پر ہی ہے۔ جس حدیث کو فقہا نے قبول کرلیا وہ صحیح ہوگئی اور جس کو چھوڑ دیا تو وہ متروک ہوگئی۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ تدوین فقہ کا زمانہ تدوین حدیث سے پہلے کا ہے۔ چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی حدیث مجتہد تک صحیح سند سے پہنچی ہو اور محدثین تک پہنچتے پہنچتے اس کی سند میں کوئی راوی ضعیف آگیا ہو جس کی وجہ سے وہ ضعیف ہوگئی ہو۔
    اب ہم چند عنوانات کے ذریعے موضوع کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔
    صحابہ کرام اجتہاد کیا کرتے تھے
    اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
    ما قطعتم من لينة او تركتموها قائمة على اصولها فباذن الله (الایۃ) (الحشر: 5)
    (مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو (تمہارا یہ کرنا) اللہ کے حکم سے تھا
    یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی جب ایک جنگ کے دوران رسول اللہ ﷺ کے حکم سے صحابہ کرام دشمن کے کھجور کے درخت کاٹنے لگے اس دوران ان میں اختلاف رائے ہوا کہ بعض ان درختوں کاٹنا چاہتے تھے اور بعض نہیں۔ اس آیت میں دونوں رایوں کو اللہ کے حکم کے مطابق بتایا گیا۔ یعنی جو درخت رسول اللہ ﷺ کے حکم سے کاٹے گئے اور وہ جو اپنی رائے سے صحابہ کرامؓ نے چھوڑ دیے دونوں اللہ کے حکم کے مطابق تھے۔ معلوم ہوا کہ کسی معاملے میں مسلمانوں کی صحیح رائے بھی اللہ ہی کے حکم کے زمرے میں آتی ہے۔ البتہ صحیح رائے قائم کرنے کے لیے بھی علم و تدبر کی ضرورت ہے۔ ہر کس و ناکس کی رائے کا اعتبار نہیں ہے۔
    حدیث 5
    عن طارق ان رجلا اجنب فلم يصل فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال اصبت فاجنب رجل آخر فتيمم وصلى فاتاه فقال نحو ما قال للآخر يعني اصبت (سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، صحیح)
    طارق سے روایت ہے کہ ایک شخص کو غسل کی حاجت ہوگئی (پانی نہ ملنے کی وجہ سے غسل نہ کیا اور) اس نے نماز نہیں پڑھی اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تو نے ٹھیک کیا۔‘‘پھر ایک اور شخص کو غسل کی حاجت ہوگئی اس نے تیمم کرکے نماز پڑھ لی پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے وہی ارشاد فرمایا جو پہلے شخص کو فرما چکے تھے، یعنی تو نے ٹھیک کیا۔
    فائدہ: اس حدیث سے مندرجہ ذیل فائدے حاصل ہوتے ہیں:
    • اس مسئلے میں شرعی حکم نہ ہونے کی وجہ سے دونوں صحابہؓ نے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔
    • اس حدیث سے اجتہاد کا جواز صاف ظاہر ہے۔ کیونکہ اگر ان صحابہ کو نص (شرعی دلیل) کی اطلاع ہوتی تو پھر عمل کے بعد سوال کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
    • ایک ہی مسئلے میں دو اجتہادی آرا کا ہونا ممکن ہے۔
    • آپ ﷺ کا دونوں کی تحسین و تصویب یعنی پسند فرمانا اجتہاد کے جواز کی دلیل ہے۔
    • شرعی اجتہاد کرنے والے کو گناہ نہیں ہوتا۔
    رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
    حدیث6
    عن عمرو بن العاص انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول اذا حكم الحاكم فاجتهد ثم اصاب فله اجران واذا حكم فاجتهد ثم اخطا فله اجر۔ (صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ)
    حضرت عمروؓ بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جب حاکم اجتہاد کرے اور پھر حق کو پہنچے تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور جو اپنے اجتہاد میں غلطی کرے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔
    حدیث 7
    عن عمرو بن العاص قال احتلمت في ليلة باردة في غزوة ذات السلاسل فاشفقت ان اغتسلت ان اهلك فتيممت ثم صليت باصحابي الصبح فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال :يا عمرو صليت باصحابك وانت جنب فاخبرته بالذي منعني من الاغتسال وقلت اني سمعت الله تبارك وتعالى يقول ولا تقتلوا انفسكم ان الله كان بكم رحيما فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يقل شيئا۔(سنن ابی داؤد، کتاب الطھارۃ، صحیح)
    حضرت عمروؓ بن العاص روایت کرتے ہیں کہ مجھے غزوہ ذات سلاسل کے سفر میں ایک سخت ٹھنڈی رات کو احتلام ہوگیا اور مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو شاید ہلاک ہوجاؤں گا چنانچہ میں نے تیمم کرلیا اور صبح کو اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھا دی۔انہوں اس بات کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:‘‘اے عمرو! تم نے جنابت کی حالت میں لوگوں نماز پڑھا دی۔‘‘میں نے وہ سبب جس کی وجہ سے میں نے غسل نہیں کیا اس کی اطلاع آپ ﷺ کو کردی اور یہ (بھی) کہا کہ میں نے حق تعالی کو یہ فرماتے سنا کہ اپنی جانوں کو قتل مت کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔’’ اس بات پر رسول اللہ ﷺ ہنس پڑے اور کچھ نہیں فرمایا۔
    فائدہ: اس حدیث سے مندرجہ ذیل فائدے حاصل ہوتے ہیں:
    • حضرت عمرو بن العاصؓ نے قرآن کی آیت پر غور کرکے ایک مسئلے کا حل نکالا جو اس آیت میں براہ راست موجود نہیں بلکہ ایک اصول دیا گیا ہے جس کو انہوں نے ایک حالت پر منطبق کیا یعنی اپنی حالت پر قیاس کیا۔
    • یہ حدیث بھی اجتہاد کے جواز کی دلیل ہے۔
    • اہل علم صحابہ کرامؓ رسول اللہ ﷺ کی حیات میں اجتہاد کیا کرتے تھے۔
    • مجتہدین بھی قرآن حدیث کو اصول بنا کر ان سے مسائل اخذ کرتے ہیں۔
    حدیث 8
    عن اسود بن یزید اتانا معاذ بن جبل باليمن معلما واميرا فسالناه عن رجل توفي وترك ابنته واخته فاعطى الابنة النصف والاخت النصف۔ (صحیح البخاری، کتاب الفرائض)
    اسود بن یزید سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت معاذؓ ہمارے پاس معلم اور امیر (یمن) بن کر آئے۔ پس ہم نے ان سے سوال کیا کہ ایک شخص فوت ہوگیا ہے اور اس نے ایک بیٹی اور ایک بہن وارث چھوڑی ہے۔حضرت معاذؓ نے بیٹی کے لیے نصف (مال کا) اور بہن کے لیے نصف (مال کا) حکم فرمایا جب کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت حیات تھے۔
    • جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ عنہ کو یمن کا حاکم و معلم بناکر بھیجا تو یقینا اہل یمن کو اجازت دی کہ ہر مسئلہ ان سے دریافت کریں۔
    • اس روایت سے بھی یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں عام مسلمان اہل علم صحابہ کرامؓ سے فتوی دریافت کرتے تھے اور ظاہر بات ہے کہ ان کے فتوؤں پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔
    • ایک فرد معین سے فتوی پوچھنا اور اس پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں۔
    صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کے سامنے فتوی دیتے تھے جونافذ ہوتے تھے
    جنگ خندق کے دوران بنی قریظہ نے مسلمانوں سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا تھا۔ جنگ سے فراغت کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے ان کا گھیراؤ کیا تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے مستقبل کا فیصلہ حضرت سعدؓ بن معاذ کے ذمہ کیا۔ صحیح مسلم، کتاب المغازی میں آتا ہے:
    فرد الحكم الى سعد
    تو آپ ﷺ نے (بنی قریظہ کے بارے میں فیصلہ) سعد کے حوالے کردیا۔
    حضرت سعد نے جو فیصلہ کیا وہ پوری طرح نافذ کیا گیا۔
    صحیح بخاری، کتاب الشروط میں ایک واقعہ روایت کیا گیا ہے جس میں یہ الفاظ آتے ہیں:
    فسالت اهل العلم فاخبروني (الحدیث)
    پھر میں نے علم والوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا (یعنی فتوی دیا)
    اسی روایت میں ہے کہ ان اصحاب علم کا وہ فتوی رسول اللہ ﷺ کے علم میں لایا گیا۔ آپ ﷺ نے فتوی بدل دیا لیکن غیرنبی سے فتوی لینے پر کوئی سرزنش نہیں فرمائی۔
    فائدہ:
    • صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی حیات میں اجتہاد کرتے تھے جو تسلیم بھی کیے جاتے تھے۔
    • رسول اللہ ﷺ ان کے اجتہادات کی اصلاح فرماتے تھے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں