غیر مقلدیت کا طلسم ، شیخ عبدالمعید مدنی

ابوعکاشہ نے 'غیر اسلامی افکار و نظریات' میں ‏جولائی 19, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,955
    غیر مقلدیت کا طلسم ، شیخ عبدالمعید مدنی

    ہندوستان میں آج کل معروف ڈاکٹر ذاکرنائیک کا میڈیا ٹرائل جاری ہے ۔ جب ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا توان پرغیرمقلدیت ،سلفیت ، وہابیت کے الزمات لگنا شروع ہو ئے ۔ جس کا جواب اہل علم کی طرف سے دیا گیا ہے ۔ یہاں پر سمجھنے کے لیے لفظ "غیر مقلد"پر شیخ عبدالمعید مدنی کی تحریر سے ایک اقتباس نقل کیا جارہا ہے ۔


    رہ گئی بات مسٹر ذاکر کی تو واضح رہے وہ اہل حدیث یا سلفی نہیں ہیں وہ غیر مقلد ہیں۔ اہل حدیث ہونے اور غیر مقلد ہونے میں بڑا تفاوت ہے، عدم تقلید اہل حدیث کے لیے ایک گالی ہے، گمراہی کا فتوی ہے اور جو اہل حدیث کو غیر مقلد کہے وہ فاسق ہے، اہل حدیث کے نزدیک تقلید اور عدم تقلید دونوں گمراہی ہیں اور جوڑواں بہنیں ہیں۔
    اہل حدیثیت اور سلفیت کا مطلب ہے دین کو سمجھنے اس پر عمل کرنے اور زندگی میں اسے نافذ کرنے کا وہ نظام جو رسول پاک ﷺ نے صحابہ کرام کو دیا اور بتلایا اور اس پر چلایا اور انھوں نے اسے اپنایا اور اس کو اپنی زندگی میں عملی طور پر نافذ کیا اور بعد میں اسے مستند تابعین اور تبع تابعین نے اپنایا۔ اسے قیامت تک کے لیے ایک مستند منہج بنا دیا گیا اور اسے اپنانے والوں کو کامیابی کی بشارت ملی۔ رسول پاک ﷺ نے دین دیا تو منہج دین بھی دیا، یعنی دین کو کیسے سمجھیں اور کیسے اس پر عمل کریں۔
    تقلید کا مطلب ہے اصول کے بجائے رجال کو اور ان کی فکر و فہم کو مستند پیمانۂ رفض و قبول اور منہج فکر و عمل بنالیا جائے، اصول کے بجائے رجال کو اور ان کی فکر و فہم کو منہج فکر و عمل بنانے سے نقصان یہ ہوا کہ دین برحق کے بالقابل دین رجال کھڑا ہو گیا اور دین کی دکانداری شروع ہو گئی۔ اتباع رسول کے بجائے تقلید رجال شروع ہو گئی۔ پھر تقلید کی کئی شکلیں نمودار ہوئیں، تزکیہ نفس میں رجال کی تقلید، عقیدے میں رجال کی تقلید، فروعات یافقہ میں رجال کی تقلید۔ حق یہ تھا کہ انھیں اصول کی کسوٹی پر کسا پرکھا جاتا ہے۔ حق کو مان لیا جاتا اور باطل کو رفض کر دیا جاتا ہے۔ لیکن رجال میں غلو پسندی وہ رنگ لائی کہ رجال کی تقلید ہی مستقلا اصول اور ضوابط بن گئے اور پھر عقائد کو افکار و آراء رجال کی سطح پر اتار لایا گیا۔ قرآن وسنت کے نصوص کی حرمت اور حجیت ختم ہو گئی۔ تزکیہ کے نام پر چمتکار پھر رقص و سرود، روا، نسخ شریعت بجا، شریعت و طریقت کا باطل نظریہ لازم، قبر پرستی عبادت، غلو فی الرجال کے سبب اور رجال بالغیب کے عقیدے کے تحت رجال کی الوہیت و ربوبیت طے، عملی زندگی میں اباحیت طبقاتی نظام، دین کے نام پر جنگ دنیا داری اور دکانداری عام، یہ ہے تقلید کی کہانی، تقلید میں اہل تشیع کی ذہنیت بھی اہل سنت کہلانے والے مقلدین کی ذہنیت کی طرح ہوتی ہے۔
    عدم تقلید کا مطلب ہے کسی نظام کو نہ ماننا صرف من مانی کرنا۔ خارجی عموما غیر مقلد ہوتے ہیں، خارجیت چاہے کلی ہو یا جزئی اسے علم راس نہیں آتا۔ کہا جاتا ہے کتے کو گھی ہضم نہیں ہوتی، ٹھیک اسی طرح خارجی کو علم نہیں ہضم ہوتا۔ اسے تفقہ بصیرت اور دینی سوجھ بوجھ سے دشمنی ہوتی ہے، یہ فریب خوردہ کرگسوں کی ٹیم ہیں۔ بس چند نعرے ان کا آسرا ہوتے ہیں۔ یہ جب اسلام کے سیاسی نظام سے بغاوت کرتے ہیں تو قتل و خونریزی اور تکفیر ان کی پہچان بن جاتی ہے اور جب جزئی خارجیت اختیار کرتے ہیں تو اسلام کے نظام تعلیم و تعلم اور علماء سے باغی ہو جاتے ہیں اور ہر سرپھرا دانشور، مفتی اور داعی بن جاتا ہے۔
    سیکولرزم نے عدم تقلید کو بڑھاوا دیا اور ہر مدعی علم داعی مفتی خطیب مصلح اور دانشور بن گیا اور چند نعروں کی بنیاد پر انھیں دین کی ٹھیکیداری مل گئی۔ عجوبہ پسندی، تماش بین اور مداری پن پر دیوانگی نے جاہلوں اور عوام کو ایسا مہمیز کیا ہے کہ انھوں نے ایسے بے پڑھے لکھے داعیوں مفتیوں دانشوروں اور مصلحین کو سند دینا شروع کر دیا اور وہی دعوت، افتاء اور اصلاح کے اعمال کے متعلق فیصلے دینے لگے۔
    عدم تقلید کو بڑھاوا تحریکیت سے سب سے زیادہ ملا۔ تحریکیت زدہ سارے لونڈے سرپھرے علم و بصیرت سے عاری اصلاح و دعوت کی ٹھیکیداری کے دعوی دار بن گئے، عجب کبر ان کے ریشے ریشے میں سما گیا، علوم دین اور علماء کا یہ باغی گروہ دین کے طے کردہ دعوت، افتاء خطابت، اصلاح تزکیہ و تربیت کے اصول و ضوابط اور ان اعمال کی استناد و ثقاہت کا دشمن بن گیا اور دین کے دئیے علماء کے درجات کا منکر ہو گیا اور علوم دینیہ کو نظر انداز کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا۔ اس تحریکی رویے سے مسلم سماج و معاشرے میں وہ انتشار آیا کہ سارا دین اور دین کے مطابق سماجی تعلیمی اور عملی سیٹ اپ پارہ پارہ ہوگیا۔ مغربیت کا غضب کیا کم تھا۔ تحریکی غضب نے اندرونی طور پر مسلم سماج کے کچھ تعلیم یافتہ اعلی طبقے کو انتشار پسندی کا شکار بنا دیا۔اس نے اہل سنت کے متفقہ عقائد کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ عصرانیت اپنا کر حالات کے مطابق کبھی یہ معتزل کبھی ملحد، کبھی منکر حدیث، کبھی منکر صحابہ، کبھی خارجی، کبھی شیعہ، کبھی علمانی بنتے پھرے اور لاکھوں مسلمانوں کی خونریزیز کی یا خونریزی کا سبب بنے۔
    اس وقت سارے عالم میں سب سے بڑا خطرناک مسلم سماج اور معاشرے کے لیے یہی عدم تقلید ہے جس علمانیت اور تحریکیت نے پروان چڑھایا ہے اور اسے پنپنے کا موقع دیا ہے۔ وقت کے غیر مقلدین، جہالت کی سواری، نعروں کے رسیا، نعروں پر مرنے جینے والے علم کے دشمن علوم دینیہ سے عناد رکھنے والے، علماء کے باغی و دشمن دعوت و جہاد افتاء و اصلاح کے اصول و ضوابط کے منکر اور ان کی انجام دہی کی استناد و ثقاہت سے بے پروا، جگہ جگہ دعوت و افتاء کی دکانیں کھولے بیٹھے ہیں۔
    سارے غیر مقلدین سیکولر تعلیم یافتہ اور تحریکی ہیں اور تحریکی نہیں تو سیکولر تعلیم یافتہ انٹرنیٹ ملا ہیں۔ سارے غیر مقلدین نظریاتی طور پر خارجی ہوتے ہیں اور جب یہ عملی خاجیت اختیار کرتے ہیں اور محدود دائرے میں رہتے ہیں تو علماء کے متعلق فتوی دیتے ہیں۔ انھیں گمراہ جاہل بتاتے ہیں اور عوام میں یہ علماء کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہیں اور یہ جہلاء ہر شے میں فتوی دینے لگتے ہیں۔ خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ تحریکی غیر مقلدین ہر جگہ اپنے سوا کسی کو مانتے نہیں اور غیر تحریکی غیر مقلدین ہندوستان کے متعلق کہتے ہیں کہ یہاں عالم ہیں ہی نہیں ملک سے باہر کسی ملک کے کسی سرپھرے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

    بشکریہ ، عبدالقدیر خان ، محدث فورم
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں