داعی کے اوصاف قرآن کی روشنی میں

عمر اثری نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏اگست 6, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

Tags:
  1. عمر اثری

    عمر اثری -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 21, 2015
    پیغامات:
    461
    داعی کے اوصاف
    قرآن کی روشنی میں
    ________________​

    تحریر: عبدالغفار سلفی، بنارس

    1. دعوت صرف اللہ کے دین کی طرف ہو اور علم وبصیرت کے ساتھ ہو.

    قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ

    آپ کہہ دیجئے میری راہ یہی ہے. میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں۔ (یوسف:108)

    2. دعوت سے مقصود اصلاح ہو.

    اِنْ اُرِيْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۭ وَمَا تَوْفِيْقِيْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ ۭ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَاِلَيْهِ اُنِيْبُ

    میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔(هود:88)

    3. دعوت کا کام کرتے ہوئے داعی کا لب ولہجہ ترش اور تلخ نہ ہو بلکہ شیریں اور نرم ہو.

    فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى

    اسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔ (طه:44)

    4. دعوت سے مقصود رضائے الٰہی کا حصول ہو نہ کہ مال وجاہ کا حصول.

    فَاِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ ۭ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ ۙ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ

    پھر بھی اگر تم اعراض ہی کئے جاؤ تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا میرا معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمہ ہے اور مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں ۔ (يونس:72)

    5. داعی کا ذاتی کیرکٹر اچھا ہو. حسنِ عمل کی دولت سے مالا مال ہو. زمانے کی اصلاح کرتے ہوئے اپنی ذات کو بھول نہ جاتا ہو.

    وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَى اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًـا وَّقَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ

    اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں۔ (حم السجدة:33)

    اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ

    کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟۔ (البقرة:44)

    6. دعوت کا انداز ناصحانہ اور حکیمانہ ہو. جہاں مناظرے اور مناقشے کی نوبت آ جائے وہاں بھی حکمت اور تحمل کا ثبوت دے.

    اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ

    اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے. (النحل:125)

    7. دعوت میں کسی ایک طریقے پر اکتفا نہ کرے. مختلف طریقے اور اسالیب استعمال کرے.دن اور رات کی پرواہ نہ کرے، دعوت کو اپنی زندگی کا مشن بنا لے. لوگ دعوت قبول نہ کریں تو دل برداشتہ نہ ہو. اپنے مشن میں لگا رہے.


    قَالَ رَبِّ اِنِّىْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّنَهَارًا

    (نوح علیہ السلام نے) کہا اے میرے پروردگار! میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری طرف بلایا ہے۔

    فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَاۗءِيْٓ اِلَّا فِرَارًا

    مگر میرے بلانے سے یہ لوگ اور زیادہ بھاگنے لگے۔

    وَاِنِّىْ كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَهُمْ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا

    میں نے جب کبھی انہیں تیری بخشش کے لئے بلایا انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور پھر بڑا تکبر کیا۔

    ثُمَّ اِنِّىْ دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا

    پھر میں نے انہیں با آواز بلند بلایا۔

    ثُمَّ اِنِّىْٓ اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَاَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا

    پھر بیشک میں نے ان سے اعلانیہ بھی کہا اور چپکے چپکے بھی۔
    (نوح:9-5)

    8. ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھے کہ میرا کام حق بات کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے. ہدایت دینا اللہ کے ہاتھ میں ہے. وہ جب تک نہ چاہے کوئی ہدایت نہیں پا سکتا.

    وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ

    اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔ (يس:17)

    اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ

    آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالٰی ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔ (القصص:56)

    9. جھوٹی مصلحتوں کے نام پر حق کو نہ چھپائے. حق کو بلا کم وکاست لوگوں تک پہنچا دے.

    اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَلَا يُزَكِّيْهِمْ ښ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ

    بیشک جو لوگ اللہ تعالٰی کی اُتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (البقرة:174)

    10. مخاطبین کی رعایت کرے. جو جس مقام کا حامل ہو اس سے اسی معیار کے مطابق بات کرے. سامنے والا اگر رشتے یا عمر میں بڑا ہو تو ادب کو ملحوظ رکھے.

    اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْكَ شَـيْــــــًٔــا

    جب کہ انہوں نے (یعنی ابراھیم علیہ السلام نے) اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہنچا سکیں۔

    يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِيْٓ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا

    میرے مہربان باپ! آپ دیکھیے میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس آیا ہی نہیں تو آپ میری ہی مانیں میں بالکل سیدھی راہ کی طرف آپ کی رہبری کروں گا ۔

    يٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِيًّا

    میرے ابا جان آپ شیطان کی پرستش سے باز آجائیں شیطان تو رحم و کرم والے اللہ تعالٰی کا بڑا ہی نافرمان ہے۔
    (مریم:44-42)

    11. دعوت کی راہ میں تکلیفیں برداشت کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہے. یہ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا راستہ ہے. ہمت وحوصلہ نہ ہو، مصائب کا سامنا کرنے کی طاقت نہ ہو تو کسی اور میدان میں ہاتھ آزمائے. دعوت کا کام بزدلوں کے بس کا نہیں.

    يٰبُنَيَّ اَقِمِ الصَّلٰوةَ وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلٰي مَآ اَصَابَكَ ۭ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ

    (لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا) اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آئے صبر کرنا (یقین مان) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔
    (لقمان:17)

    اللہ ہمیں اپنے دین کا سچا اور مخلص داعی بنائے.
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں