صحیح بخاری کے ’’مقبول‘‘ ثقات!

زبیراحمد نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏اگست 21, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. زبیراحمد

    زبیراحمد -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 29, 2009
    پیغامات:
    3,446
    گزشتہ قسط میں ہم نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ جس راوی کو ’’مقبول‘‘ قرار دیں ، اگر اس کی متابعت نہ ہو تو اس کی روایت کو آنکھیں بند کرکے ضعیف قرار دینا درست نہیں۔بلکہ بسا اوقات مقبول کی روایت کا درجہ حافظ صاحب کے ہاں حسن و صحیح کے درمیان ہی رہتا ہے۔ ذیل میں ہم صحیحین کے چند ان رواۃ کا تذکرہ کرتے ہیں جن کو حافظ صاحب علیہ الرحمۃ نے ’’مقبول‘‘ قرارد یا ہے۔ اور شیخین نے تفرد اور عدم متابعت کے باوجود ان کی روایات کو اصالۃ ً ذکر فرمایا۔ اور اس سے یہ بات اور زیادہ نکھر کر سامنے آجائے گی کہ حافظ صاحب کا ’’مقبول‘‘ تفرد اور عدم متابعت کے ’’جرم‘‘ میں صرف ’’ضعیف‘‘ ہونے کی ’’سزا‘‘ کا ہی حق دار نہ ہے۔ 1۔ عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی ابکر الصدیق التیمی المدنی: امام بخاری رحمہ اللہ الباری صحیح بخاری کتاب الأشربۃ، باب آنیہ الفضۃ، (5634) میں فرماتےہیں: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الَّذِي يَشْرَبُ فِي إِنَاءِ الفِضَّةِ إِنَّمَا يُجَرْجِرُ فِي بَطْنِهِ نَارَ جَهَنَّمَ» اسی طرح امام مسلم علیہ الرحمہ نے اپنی صحیح مسلم کتاب اللباس والزینۃ، باب تحریم استعمال أواني الذھب والفضۃ في الشرب، (2065) میں متعدد طرق سے بطریق نافع عن زید بن عبد اللہ عن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن أبي بکر اور ایک دوسرے طریق سے از عبد اللہ بن عبد الرحمن بن أبي بکر عن خالتہ أم سلمۃ اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ تو یہ حدیث ان اوثق الاصول میں سے ہے جن پر شیخین نے اعتماد کیا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ہر وہ شخص جس نے اس حدیث «الَّذِي يَشْرَبُ فِي إِنَاءِ الفِضَّةِ .... الحدیث» کو روایت کیا ہے اس کا معتمد اور مرجع عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر التیمی کی حدیث ہے کہ جن کو حافظ صاحب نے ’’مقبول‘‘ قرار دیا ہے ۔ تو تمام لوگ اس حدیث کو روایت کرنے میں نافع مولی ابن عمر کے محتاج ہیں جو کہ اس کو عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر سے روایت کرتے ہیں اور یہ حدیث بھی اسی طریق سے ہی صحیح ہے۔ اور یہ حدیث اس بارے بھی ’’اصل‘‘ کا درجہ رکھتی ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ لفظ ’’مقبول‘‘ کبھی ’’ثقہ‘‘ پہ بھی بول لیتے ہیں اور اس کی حدیث کو حجت مانتے ہیں اگرچہ وہ متفرد ہی کیوں نہ ہو۔ خود حافظ صاحب فتح الباری (10/97، طبع: دار المعرفۃ، بیروت) میں فرماتےہیں: «عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ هُوَ بن أُخْت أم سَلمَة الَّتِي روى عَنْهَا هَذَا الحَدِيث أمه قريبَة بنت أبي أُميَّة بن الْمُغيرَة المخزومية وَهُوَ ثِقَة مَا لَهُ فِي الْبُخَارِيِّ غَيْرُ هَذَا الْحَدِيثِ» تو لیجئے حافظ صاحب نے اس نص میں عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر کو خود ’’ثقہ‘‘ قرار دیا ہے۔ اب اسی راوی کے بارہ میں ان کی تقریب [1/310، (3425)] کی عبارت ملاحظہ فرمائیں: «عبد اللہ بن عبد الرحمن بن أبي بکر الصدیق التیمي، مقبول من الثالثۃ» تو گویا حافظ صاحب علیہ الرحمۃ قلیل الروایۃ ثقہ راوی کو بھی مقبول کہہ دیتے ہیں، اگرچہ وہ اپنی حدیث میں متفرد ہو اور اس کی متابعت بھی نہ ہو۔ یاد رہے کہ شیخین کے علاوہ اس حدیث کو امام شافعی نے اپنی مسند (1/10) میں ابن وہب نے جامع [1/707، (612)]، طیالسی نے مسند [3/173، (1706)]، یحییٰ بن یحییٰ نے مؤطا [امام مالک، 5/1353، (3420/718) ، ت: الأعظمي، ط: مؤسسۃ زاید بن سلطان، أبو ظبي، الإمارات]، محمد بن الحسن نے مؤطا [1/314، (882)، ط: العلمیۃ]، ابن ابی شیبہ نے [5/103، (24135)، ط: الرشد]، احمد نے (26568، 26582، 26595، 26611، ط: الرسالۃ) اسحاق بن راہویہ نے مسند (1853، 1937)، ابو یعلی (6882، 6913، 6939، 6998)، ابوعوانہ نے مسند [5/215 (8454)، 5/517، (8467)]، ابن حبان نے (5341)، طبرانی نے کبیر [23/215، (392)] أوسط (3753)، مسند الشامیین (108)، ابن المقرئ نے معجم [1/312 (1010)، طبع: مکتبۃ الرشد، الریاض] تمام نے الفوائد [2/292، (1778)، طبع: مکتبۃ الرشد، الریاض] ابن عبدالبر نے التمہید (16/101) ابن حزم نے محلّی (1/426)، بغوی نے شرح السنۃ (3030)، مزی نے تہذیب الکمال (15/198، ط: الرسالۃ) میں بطرق متعددہ عن نافع عن زید بن عبداللہ بن عمر عن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر الصدیق عن ام سلمۃ روایت کیا ہے۔ نیز یہ کہ علامہ مزی نے تہذیب میں اگرچہ صرف ابن حبان کی توثیق پر ہی اکتفا کیا ہے(15/198،197)لیکن امام عِجْلِی نے معرفۃ الثقات [2/44(926] میں بھی اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔ اور ابن خلفون نے بھی جیسا کہ اکمال تہذیب الکمال از مغلطای [8/27، (3026)] میں ہے اور امام ذہبی نے الکاشف [1/567 (2816)] میں اس کی توثیق کی ہے۔ اسی طرح الحافظ الجھبذ علامہ ابن حجر نے فتح الباری (10/97) میں ان سب سے موافقت کی ہے۔ 2۔ معبد بن کعب بن مالک الانصاری السُلَمِي المدنی: امام بخاری نے کتاب الرقاق (6512) میں بطریق إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ الأَنْصَارِيِّ اور (6513) بطریق مُسَدَّد، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَاور امام مسلم نے کتاب الجنائز (950) میں بطریق قُتَيْبَة بْن سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ اور مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، جَمِيعًا عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ ابْنٍ لِكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ۔ حدیث «مُسْتَرِيحٌ أَوْ مُسْتَرَاحٌ مِنْهُ .... الحدیث» روایت کی ہے۔ اور حافظ صاحب علیہ الرحمہ تقریب [1/539، (6781)] میں فرماتے ہیں: «معبد ابن كعب ابن مالك الأنصاري السَلَمي بفتحتين المدني مقبول من الثالثة» اگرچہ ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل میں اس کو ذکر کرنے کے بعد سکوت اختیار کیا ہے [8/279 (1279)] لیکن ابن حبان نے اس کو ثقات [5/432 (5569)] میں ذکر کیا ہے اور اپنی صحیح [7/277، (3007)]میں اس کی روایت کو جگہ دی ہے۔ اسی طرح امام العجلی نے معرفۃ الثقات[2/285، (1753)] میں مدنی تابعی ثقہ کہا ہے۔ تو یہ بھی اس بات کا واضح ترین بیان ہے کہ معبد بن کعب الانصاری جس کو ابن حجر علیہ الرحمۃ نے ’’مقبول‘‘ قرار دیا ہے اور وہ ابوقتادۃ سے روایت کرنے میں متفرد ہے اور اس کی متابعت بھی موجود نہیں ہے اور اس کو ائمہ حدیث نے ثقہ قراردیا ہے اور اپنی صحاح میں درج فرما کر اس امر کی وضاحت فرمائی ہے کہ ’’مقبول‘‘ کی جب متابعت نہ ہو تو بھی بسا اوقات حجت ہوتا ہے اور اس شخص کی تردید کی ہے جو ہر مقبول کی عدم متابعت والی روایت کو رد کرنے پر مصر ہے۔ 3۔ عوف بن حارث بن طفیل بن سخبرۃ بن جرثومۃ الازدی : امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے کتاب الادب (6075) میں بطریق أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الحَارِثِ، - وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا - أَنَّ عَائِشَةَ، حُدِّثَتْ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَ: فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ: وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا .... الحدیث امام احمد فرماتے ہیں: شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ طُّفَيْلِ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا .... الحدیث (18923) اور (18922) میں ہی فرماتے ہیں : الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ الْحَارِثِ، وَكَانَ رَجُلًا مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ، وَكَانَ أَخًا لِعَائِشَةَ لِأُمِّهَا أُمِّ رُومَانَ .... الحدیث اسی طرح عبدالرزاق نے [8/443 (15851)، طبع: المجلس العلمي، الھند] ، اور اسی سے احمد (18921) اور ابن حبان نے (5662) معمر سے اور بخاری نے الادب المفرد (397) اورطحاوی نے مشکل الآثار (4859) دونوں نے عبدالرحمن بن خالد بن مسافر اور طبرانی نے کبیر (24، 25، 27)میں معمر اور عبدالرحمن بن خالد اور عبیداللہ بن ابی زیادالرصافی سے اور بیہقی نے کبریٰ (11337)میں الرصافی سے۔ تینوں یعنی معمر ، ابن مسافر اور رصافی نے زہری از عوف بن حارث بن الطفیل از عائشہ بیان کی ہے۔ یعنی زہری کے اصحاب نے زہری کے شیخ "ازدی" کے نام کے بارہ میں اختلاف کیا ہے اور معمر نے اس کا نام صحیح طور پر ضبط کیا ہے اور وہ زہری کی حدیث میں باقی تمام کی نسبت مقدم ہے۔ اس نے ’’عوف بن حارث بن طفیل‘‘ ہی کہا ہے۔ اور درست بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے۔ بہرحال حافظ ابن حجر علیہ الرحمۃ صحیح بخاری کے اس راوی کے بارہ میں بھی اپنی تقریب میں فرماتے ہیں: «مقبول من الثالثۃ» [1/433، (5216)] اور ذہبی نے ’’الکاشف‘‘ میں کہا ہے : «وُثِّق» [2/101، (4310)] اور بخاری اور ابن حبان کا اس کی روایت کو تفرد وعدم متابعت کے باوجود اپنی صحیح میں ذکر کرنا اس مقبول کی توثیق کے لیے مضبوط دلیل ہے۔ خاتمہ: یہ چند سطور رقم کرنے کا مقصد فقط ان لوگوں کے لیے دلائل مہیا کرنا تھا جو مقبول رواۃ کی احادیث کو فقط عدم متابعت کی پاداش میں رد کربیٹھے اور دیگر ائمہ ٔ جرح وتعدیل کی تصریحات کی طرف دھیان نہیں دیتے ۔ تو یہ چند حوالہ جات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب تقریب التہذیب میں جن رواۃ کو مقبول کہا گیا ہے وہ بسا اوقات ثقہ ثبت ہوتے ہیں اور حافظ صاحب علیہ الرحمۃ فقط قلیل الحدیث ہونے کی وجہ سے ان کو مقبول قراردے دیتے ہیں جبکہ ان کی روایت تفرد و عدم متابعت کے باوصف حسن یا صحیح کے درجہ سے کم نہیں ہوتی ہے۔

    مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-article-990.html
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں