سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ

عبد الرحمن یحیی نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏نومبر 18, 2016 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312

    آپ کا نام
    حكيم بن حزام ابن خويلد بن أسد بن عبد العزى بن قصي بن كلاب ، أبو خالد القرشي الأسدي
    ہے
    آپ رضی اللہ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے
    آپ اشراف قریش میں سے تھےاور بڑے دانا،عقل مند،فاضل،متقی،رئیس انسان تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا رشتے میں آپ کی پھوپھی تھیں ۔
    رسول اللہ ﷺ کے صحابی اور منہ بولے بیٹے سیدنا زید بن حارثہ کو عکاظ کے میلے میں سے آپ ہی نے خرید کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کوتحفے میں دیا تھا ، پھر جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو سیدہ نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ھبہ کردیا اور نبی کریم ﷺ نے سیدنا زید بن حارثہ کو آزاد کردیا۔
    حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے نہایت محبت کرتے تھے۔ ہر چند کہ انہوں نے فتح مکہ پر اسلام قبول کیا تھا مگر سابقہ زمانے میں کفر پر ہونے کے باوجود پھوپھی کی بھوک کو برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے شعب ابی طالب میں متعدد بار رات کے اندھیرے میں گیہوں بھجوا دیے۔ ایک بار ابوجہل نے دیکھ لیا تو وہ غلہ روکنے پر اڑ گیا۔ ادھر یہ بھی قریشی تھے۔ بات آگے بڑھ گئی۔ یہ مصر تھے کہ میں اپنی پھوپھی تک یہ غلہ ضرور پہنچاؤں گا اور ابوجہل بضد تھا کہ میں یہ غلہ نہیں جانے دوں گا۔ اس دوران ابوالبختری آگیا‘ اس نے مداخلت کی۔ اس کے نتیجے میں یہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا تک غلہ پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔
    سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اور آپ کی ساری اولاد نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا ، اور روایات میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے ان کا نام لے کر کہا :
    ومن دخل دار حكيم بن حزام ، فھو آمن .
    کہ جو حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہو جائے وہ امن یافتہ ہے ۔
    سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جب قسم کھاتے تو کہا کرتے تھے :
    لا والذي نجاني يوم بدر
    '' اس ذات کی قسم جس نے مجھے بدر کے دن نجات دی ''
    خود ان کے الفاظ ہیں کہ بدر و احد کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں قریش مکہ کے ساتھ مل کر اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ نہیں لڑوں گا ۔

    آپ رضی اللہ عنہ شروع ہی سے بڑے نیک اور سخی تھے۔آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں دور جاہلیت میں جو اچھے کام کیاکرتاتھا۔ کیا مجھے ان کا بھی اجروثواب ملے گا؟

    صحیح بخاری شریف میں ہے :
    صحيح البخاري: كِتَابُ العِتْقِ (بَابُ عِتْقِ المُشْرِكِ)
    صحیح بخاری: کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں (باب : مشرک غلام کو آزادکرنے کا ثواب ملے گا یا نہیں؟)
    2538 . حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَعْتَقَ فِي الجَاهِلِيَّةِ مِائَةَ رَقَبَةٍ، وَحَمَلَ عَلَى مِائَةِ بَعِيرٍ، فَلَمَّا أَسْلَمَ حَمَلَ عَلَى مِائَةِ بَعِيرٍ، وَأَعْتَقَ مِائَةَ رَقَبَةٍ، قَالَ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ كُنْتُ أَصْنَعُهَا فِي الجَاهِلِيَّةِ كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا - يَعْنِي أَتَبَرَّرُ بِهَا -؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ لَكَ مِنْ خَيْرٍ»
    حکم : صحیح
    2538 . حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اپنے کفر کے زمانے میں سو غلام آزاد کیے تھے اور سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے تھے۔ پھر جب اسلام لائے تو سو اونٹ لوگوں کی سواری کے لیے دیے اور سو غلام آزاد کیے۔ پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، یا رسول اللہ ! بعض ان نیک اعمال کے متعلق آپ کا فتویٰ کیا ہی جنہیں میں بہ نیت ثواب کفر کے زمانہ میں کیا کرتا تھا (ہشام نے کہا: ان کی مراد تھی کہ میں نیکی کےلیے کرتا تھا ) انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا ” جو نیکیاں تم پہلے کرچکے ہو وہ سب قائم رہیں گی “۔

    صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان حدیث نمبر 325میں ہے :
    فَوَاللهِ، لَا أَدَعُ شَيْئًا صَنَعْتُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِلَّا فَعَلْتُ فِي الْإِسْلَامِ مِثْلَهُ
    انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے جو (نیک) کام جاہلیت میں کیے تھے ، ان میں سے کوئی عمل نہیں چھوڑوں گا مگر اس جیسے کام اسلام میں بھی کروں گا۔

    سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے جاہلیت ہی کے زمانے سے جناب محمد ﷺ نہایت پسند تھے۔ ایک مرتبہ کسی سفر میں ان کو سیف بن ذی یزن کا بڑا قیمتی حُلہ (لباس) بکتا ہوا نظر آگیا۔ اللہ کے رسولﷺ اس وقت ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جا چکے تھے۔ انہوں نے پچاس دینار میں وہ قیمتی لباس خرید لیا۔ یہ ایک سابق بادشاہ کا قیمتی لباس تھا۔ وہ اس کو لے کر مدینہ طیبہ پہنچ گئے اور اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ ارشاد ہوا کہ ہم مشرکین کا ہدیہ قبول نہیں کرتے لیکن اگر تم پسند کرو تو میں اسے قیمتاً لے سکتا ہوں۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کو قیمتاً خرید کر زیب تن فرمایا۔ کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو اس لباس میں اور زیادہ خوبصورت پایا۔ پھررسول اللہ ﷺ نے حلہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور انہوں نے پہن لیا۔ سیدناحکیم بن حزام بڑے تعجب سے کہنے لگے:
    اسامہ! تم سیف بن ذی یزن کا حلہ (لباس) پہنتے ہو؟ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے:
    ’’ہاں! اللہ کی قسم! میں اس سے بہتر ہوں اور میرا باپ اس کے باپ سے بہتر ہے اور میری ماں بھی اس کی ماں سے بہتر ہے۔‘‘

    الراوي : حكيم بن حزام | المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد
    الصفحة أو الرقم: 4/154 | خلاصة حكم المحدث : إسناده رجاله ثقات


    آپ نے غزوہ حنین میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شرکت فرمائی اور جب غنائم تقسیم ہوئے تو آپ کو بھی حصہ ملا آپ کا اپنا بیان ہے :

    صحيح البخاري: كِتَابُ الوَصَايَا (بَابُ تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 11])
    صحیح بخاری: کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان (باب : اللہ تعالیٰ کے ( سورۃ نساء میں ) یہ فرمانے کی تفسیر کہ حصوں کی تقسیم وصیت اور دین کے بعد ہوگی)
    2750 . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ، فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ، بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ، لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى»، قَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ لاَ أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا لِيُعْطِيَهُ العَطَاءَ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ، فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ المُسْلِمِينَ، إِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ، الَّذِي قَسَمَ اللَّهُ لَهُ مِنْ هَذَا الفَيْءِ، فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ رَحِمَهُ اللَّهُ
    حکم : صحیح

    2750 . '' سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ نے مجھ کو دیا‘ پھر مانگا پھر آپ نے دیا‘ پھر فرمانے لگے حکیم یہ دنیاکا روپیہ پیسہ دیکھنے میں خوشنما اور مزے میں شیریں ہے لیکن جو کوئی اس کو سیر چشمی سے لے اس کو برکت ہوتی ہے اور جو کوئی جان لڑاکر حرص کے ساتھ اس کو لے اس کو برکت نہ ہوگی۔ اس کی مثال ایسی ہے جو کماتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اوپر والا ( دینے والا ) ہاتھ نیچے والے ( لینے والے ) ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! قسم اس کی جس نے آپ کو سچا پیغمبر کرکے بھیجا ہے میں تو آج سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی سے کوئی چیز کبھی نہیں لینے کا مرنے تک پھر ( حکیم رضی اللہ عنہ کا یہ حال رہا ) کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کا سالانہ وظیفہ دینے کے لئے ان کو بلاتے‘ وہ اس کے لینے سے انکار کرتے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں ان کو بلایا ان کا وظیفہ دینے کے لئے لیکن انہوں نے انکار کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مسلمانو! تم گواہ رہنا حکیم کو اس کا حق جو لوٹ کے مال میں اللہ نے رکھا ہے دیتا ہوں وہ نہیں لیتا۔ غرض حکیم رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر کسی شخص سے کوئی چیز قبول نہیں کی ( اپنا وظیفہ بھی بیت المال میں نہ لیا ) یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ اللہ ان پر رحم کرے۔''
    وہ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں مقیم ہو گئے تھے۔ وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں ان کے دفاع کے لیے پیش پیش تھے۔ انہوں نے ان کے گھر پر پہرہ دیا اور باغیوں کو پوری جرأت سے روکا۔ جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہو گئی تو یہ سخت فتنے کا وقت تھا۔ مدینے پر عملاً باغیوں کا قبضہ تھا۔ اس مشکل دور میں انہوں نے عزیمت سے کام لیا۔ جن افراد نے رات کے اندھیرے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو جنت البقیع میں دفن کیا اور ان کی نماز جنازہ پڑھی‘ ان میں سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔

    حج کےلئے تشریف لے گئے تو آپ کے ہمراہ سو اونٹ،سو غلام اور ایک ہزار بکریاں تھیں۔اونٹوں پر شاندار قسم کی چادریں ڈالی ہوئی تھیں۔حج کے روز میدان عرفہ میں وہ سب اونٹ اور بکریاں صدقہ اورتمام غلام آزاد کردیئے۔ان غلاموں کی گردنوں میں چاندی کی تختیاں تھیں۔جن پر یہ الفاظ کندہ تھے:۔

    عتقاء لله عز و جل عن حكيم بن حزام
    کہ یہ تمام غلام حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے لوجہ اللہ آزاد ہیں۔

    مصعب کا بیان ہے کہ جب اسلام غالب آیا تو ان دنوں قریش کی مشہور مشورہ گاہ"دارالندوہ" انہی (حکیم) کے زیرتصرف تھا۔انہوں نے وہ مکان سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ ایک لاکھ درہم میں فروخت کردیا۔
    طبرانی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے وہ تمام رقم اللہ کی راہ میں صدقہ کردی تھی۔ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے کہا کہ آپ نے قریش کی ایک اہم جگہ فروخت کردی ہے
    تو کہنے لگے :۔
    ابن أخي ذهبت المكارم فلا كرم إلا التقوى
    بھتیجے "تقویٰ کے علاوہ ایسی تمام خوبیاں برباد ہیں"

    وفات کے وقت آپ کی عمر ایک سو بیس برس تھی۔عجیب ا تفاق ہے کہ آپ نے نصف عمر جاہلیت (کفر) میں اورنصف عمر بحالت اسلام بسر کی۔
    وفات آپ کی زبان پر لاالٰہ الا اللہ کے کلمات جاری تھے اورفرماتے تھے۔

    قد كنت أخشاك ، وأنا اليوم أرجوك
    کہ یا اللہ میں تو تجھ سے ڈرتا تھا لیکن آج مجھے تجھ سے حسن انجام کی امید ہے۔

    امام مسلم بن حجاج رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب "صحیح مسلم" میں فرماتے ہیں :

    صحيح مسلم: كِتَابُ الْبُيُوعِ (بَابُ الصِّدْقِ فِي الْبَيْعِ وَالْبَيَانِ)
    صحیح مسلم: کتاب: لین دین کے مسائل (باب: بیع میں سچ بولنا اور حقیقت حال کو واضع کرنا)
    3859 . حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الْحَارِثِ، يُحَدِّثُ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، قَالَ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ: «وُلِدَ حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ، وَعَاشَ مِائَةً وَعِشْرِينَ سَنَةً
    حکم : صحیح

    3859 . ابوتیاح سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے عبداللہ بن حارث سے سنا، وہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کی۔ امام مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
    سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے 120 سال زندگی پائی ۔


    اس مضمون کی تیاری میں
    صحیحین
    سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» حكيم بن حزام
    البداية والنهاية/الجزء الثامن/حكيم بن حزام
    مولانا عبدالمالک مجاہد کے مضمون '' سیدنا حکیم بن حزامؓ ''
    پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی کے مضمون '' مولود کعبہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ''
    سے استفادہ کیا گیا ہے
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
    • اعلی اعلی x 2
  2. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    جزاک اللہ خیرا
    بہت خوب شیخ محترم
     
  3. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا شیخ محترم
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں