سورۃ یوسف : حاصل مطالعہ

عائشہ نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏جنوری 18, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    سورۃ یوسف قرآن مجید کی 12 ویں سورۃ ہے۔ اس میں اللہ کے نبی حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت کے اہم واقعات ذکر ہیں جس میںان کے بچپن، صالح جوانی، غریب الوطنی،غلامی کی بے بسی اور پھر دوراقتدار میں اختیارات کی آزمائشیں ذکر ہیں۔ ان تمام آزمائشوں میں وہ کس طرح اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے بتائے ہوئے دین پر ثابت قدم رہے، اس میں ہمارے لیے انتہائی قیمتی سبق موجود ہیں۔ اس سورۃ کے متعلق اپنے خیالات اور حاصل مطالعہ شئیر کر کے آپ مطالعہ قرآن کریم کے سلسلے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    شیخ محمد صالح المنجد رحمہ اللہ نے سیرتِ یوسف علیہ السلام کا ایک خوب صورت خلاصہ بیان کیا ہے:
    "حضرت یوسف علیہ السلام نے صبر کی تین اقسام کی سعادت حاصل کی۔
    1- اللہ کی اطاعت پر صبر
    2- اللہ کی نافرمانی سے صبر
    3-اللہ کی تقدیر کی تکلیفوں پر صبر"
    اللہ ہم سب کو توفیق دے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • مفید مفید x 1
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    یعقوب علیہ السلام کا "فصبرجمیل"
    صبرجمیل ،ایسا صبر جس میں شکوہ و شکایت نا ہو۔ نا اللہ سے اور نا ہی اس کی مخلوق کے سامنے ۔ اللھم اجعلنا منھم
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • مفید مفید x 1
  4. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    سبحان اللہ کیا حسین اتفاق ہے کہ آج ہی میں یہ سورہ مبارکہ پڑھتے ہوئے سویں آیت کے اس جملے کی لطافت میں کھو گیا:

    إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ

    پھر اس کے مخلتف تراجم دیکھے تو ہر جگہ پر اس کا ترجمہ پہلے سے مختلف مگر زیادہ دلچسپ لگا، یوں تو پوری سورہ ہی بے شمار اسباق لئے ہوئے ہے لیکن مجھے یوں لگا کہ اس ایک جملے میں اس کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے۔

    بے شک وہ بہت با تدبیر ہے، بے شک وہ بہت مہربان ہے اور جس پر چاہے اپنے لطف و کرم سے نوازتا ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • مفید مفید x 1
  5. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاکم اللہ خیرا۔
     
  6. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    سورۃ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے بار بار محسن (من المحسنین) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ بندوں کی طرف سے بھی ان کو محسن کہا گیا اور اللہ سبحانہ وتعالی کی جانب سے بھی۔ یہ سیرت یوسفی کا ایک انتہائی حسین رخ ہے۔
    مجھے اب یاد نہیں کہ کہاں یہ بات پڑھی تھی( ان شاءاللہ حوالہ ملنے پر یہاں شامل کر دیا جائے گا۔) کہ دو مقام ایسے ہیں جہاں ایک تو قید کی بے بسی میں ان کے محسنین میں ہونے کی گواہی دی گئی، دوسرا جب وہ عہد اقتدار میں اختیارات کے مالک تھے۔ گویا حضرت یوسف علیہ السلام نے بے بسی کے زمانے میں بھی اپنی نیک فطرت کی حفاظت کی اور عہد اختیار میں بھی۔ یہ حسن کردار کی اعلی مثال ہے۔
    وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
    اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے، اور دوسرے نے کہا میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں جسے پرندے کھا رہے ہیں، ہمیں آپ اس کی تعبیر بتایئے، ہمیں تو آپ خوبیوں والے شخص دکھائی دیتے ہیں( سورۃ یوسف 12: آیت 36)
    قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
    انہوں نے کہا کہ اے عزیز مصر! اس کے والد بہت بڑی عمر کے بالکل بوڑھے شخص ہیں۔ آپ اس کے بدلے ہم میں سے کسی کو لے لیجئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ بڑے نیک نفس ہیں (سورۃ یوسف 12: آیت 78)
    یہ دوسری گواہی دینے والے وہی ظالم بھائی تھے جنہوں نے بچپن میں ان کو کنویں میں ڈالا تھا۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  7. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    آمین!
     
  8. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  9. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    شیخ صالح المنجد لکھتے ہیں:
    " اس سورۃ سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے کسی نعمت کے لیے چن لیتا ہے۔ آپ غور کریں کہ کیسے اللہ نے آپ کو بے جان چیز کی بجائے انسان بنایا۔ سوچیے کہ کیسے اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو کافر نہیں بنایا بلکہ مسلمان بنایا۔ مزید سوچیے کہ اللہ نے آپ کو کبیرہ گناہ کرنے والے مجرموں میں سے نہیں بنایا، یا اہل بدعت میں سے نہیں بنایا، اہل سنت میں سے بنایا۔ اگر آپ کبائر کا ارتکاب نہیں کرتے تو سوچیے کہ کیسے اللہ تعالی نے آپ کو اہل کبائر میں سے بنانے کی بجائے اہل استقامت میں سے بنایا، اللہ کے فرماں بردار اور دین داروںمیں سے بنایا۔ اگر آپ طالب علم ہیں تو اللہ نے آپ کو ایک اور نعمت کے لیے چنا ہے جو علم ہے۔ اگر آپ دین کی دعوت میں مصروف ہیں تو یہ اللہ کی جانب سے ایک اور انتخاب ہے۔ اس نے آپ کو صرف اہل علم میں سے نہیں بنایا بلکہ علم پھیلانے والوں میں سے بنا دیا۔ یہ اللہ عزوجل کے اپنے بندے کے لیے انتخاب ہیں۔
    مزید کہتے ہیں:
    سورۃ یوسف سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے گھر سے اچھے بیٹے نکلتے ہیں۔ جیسا کہ آیت نمبر 6 میں ہے
    وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَيْكَ مِن قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
    ور اسی طرح خدا تمہیں منتخب(وممتاز) کرے گا اور (خواب کی) باتوں کی تعبیر کا علم سکھائے گا۔ اور جس طرح اس نے اپنی نعمت پہلے تمہارے دادا، پردادا ابراہیم اور اسحاق پر پوری کی تھی اسی طرح تم پر اور اولاد یعقوب پر پوری کرے گا۔ بےشک تمہارا پروردگار (سب کچھ) جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔
    اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ عزوجل لوگوں کو نیک کاموں کے لیے چن لیتا ہے۔ یہ انتخاب اللہ کی مرضی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے دے۔ بندوں کو ایسی چیزوں پر ایک دوسرے سے حسد نہیں کرنا چاہیے۔
    اقتباس از مائۃ فائدۃ من سورہ یوسف۔ شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ ۔ اردو مفہوم ناچیز
    کتاب کا ڈاؤن لوڈ ربط: https://islamhouse.com/ar/books/44756/
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  10. ام محمد

    ام محمد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 1, 2012
    پیغامات:
    3,120
    جزاک اللہ خیرا شیخہ عائشہ
    اس سورہ سے کیا سبق ملتا ہے اگر ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو وہ "صبر"اور اگر زیادہ الفاظ میں تو بے شمار سبق ہیں ہمارے لیے۔
    سب سے اہم بات مشکل ہو ، پریشانی ہو ، تکلیف ہو مصیبت ہو ، غلط رویے کے جواب میں بهی حق پر جمے رہنا اللہ پر توکل اور اسی سے دعا مایوس نہ ہونے کی بہترین مثالیں اس سورہ میں ہیں
    اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس سورہ میں رشتہ داروں کے رویے کے مقابلے میں کیسا رویہ رکهنا اللہ تعالی کو مطلوب ہے اس کی بهرپور تصویر کشی کی گئی ہے۔یوسف علیہ السلام کا اپنے بهائیوں کو اس خوبصورت انداز سے معاف کرنا کہ وہ شرمندہ نہ ہوں ۔واقعی بے مثال ہے۔
    اس سورہ کے اسباق پرعمل کر کےہم بہتریں معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں اللہ ہمیں سمجهنے اور عمل کی توفیق دے۔آمین آمین۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  11. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    وایاک۔ آمین۔ جزاک اللہ خیرا۔ مطالعے کے اس موضوع کا یہی مقصد ہے کہ ایسی مفید باتیں تھوڑی تھوڑی کر کے قارئین مجلس کی نظر سے گزرتی رہیں۔ امید ہے سب اپنی پسندیدہ تفاسیر سے اقتباسات لاتے رہیں گے۔

    شیخ محمد صالح المنجد حفظہ اللہ فائدہ نمبر 10 میں لکھتے ہیں۔
    " گناہ کرنے سے پہلے توبہ کا منصوبہ بنا لینا غلط ہے۔ ایسی توبہ فاسد ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کہے کہ چلو ہم گناہ کر لیں پھر توبہ کر لیں گے اور نیک بن جائیں گے یہ توبہ فاسدہ ہے۔ کیوں؟
    إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿٨﴾اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ ﴿٩
    جب انہوں نے (آپس میں) تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم جماعت (کی جماعت) ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں ۔تو یوسف کو (یا تو جان سے) مار ڈالو یا کسی ملک میں پھینک آؤ۔ پھر ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہوجائے گی۔ اور اس کے بعد تم نیک بن جانا ۔۔ ( سورۃ یوسف 12: آیت 8 تا 9)
    یہ توبہ اس لیے فاسد ہے کہ گناہ کرنے والے کو کیا معلوم کی ایک مرتبہ نیکی اور دین سے دور نکل جانے کے بعد ان کو دوبارہ واپسی نصیب ہو گی یا نہیں؟ شیطان بعض لوگوں سے یہی کہتا ہے کہ ابھی گناہ کر لو پھر توبہ کر لینا۔ یہ مسکین الٹی راہ پر چل نکلتا ہے اور گناہوں میں پڑتا جاتا ہے۔
    (اقتباس از مائۃ فائدۃ من سورہ یوسف۔ شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ ۔ اردو مفہوم ناچیز )
    یہ غلط فہمی بہت عام ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ دین کے علم کی کمی ہے۔ ہم لوگ یہ بھولنے لگے ہیں کہ سچی توبہ کی شرائط اور علامات ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی جو ہمارے دلوں کے راز تک جانتا ہے اس کی ذات سے ہم اتنے غافل ہو گئے ہیں کہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی لولی لنگڑی توبہ سے آخرت سنوار لیں گے۔ دنیا کی ہر چیز کے لیے بہترین معیار کے پیچھے جاتے ہیں لیکن اللہ کے سامنے ایسی جھوٹی معافیاں اور توبہ لے کر جانے کے منصوبے بناتے ہیں۔ ایسی باتیں کرنا دراصل خود کو دھوکا دینا ہے۔ اللہ عزوجل کے سامنے کسی کا فریب اور مکر نہیں چلتا ہاں وہ ڈھیل ضرور دیتا ہے کہ جس نے جس راہ پر جاناہے آگے تک چلا جائے۔
    اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنا دے جو بار بار خود کو پاک کرتے ہیں اور بار بار سچی توبہ کرتے ہیں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  12. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    اذھبوا بقمیصی ھذا۔۔۔ (93)
    مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ ترجمان القرآن میں لکھتے ہیں: " جب بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کی ہلاکت کی خبر باپ کو سنائی تھی تو خون آلود کرتا جا کر دکھایا تھا۔ اب وقت آیا کہ زندگی و وصال کی خوش خبری سنائی جاے تو اس کے لیے بھی کرتے ہی نے نشانی کا کام دیا۔ وہی چیز جو کبھی فراق کا پیام لائی تھی اب وصال کی علامت بن گئی۔"
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  13. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
    5" باپ کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد میں عدل کرے، جہاں تک ممکن ہو، اگر اولاد میں سے کوئی ایک زیادہ توجہ کا مستحق ہو تو کوشش کرے کہ اپنی توجہ کو ظاہر نہ ہونے دے تاکہ اولاد کے درمیان نفرت پیدا نہ ہو۔"
    8 اولاد کے درمیان غیرت کبھی ان کو ایک دوسرے کو نقصان اور تکلیف پہنچانے تک لے جا سکتی ہے۔ جیسے یوسف کے بڑے بھائیوں نے ان سے غیرت کھائی تو ان کو تکلیف پہنچانے کی پوری کوشش کی۔
    9- یہ غیرت صرف تکلیف پہنچانے کی خواہش تک ہی نہیں رہتی، منصوبہ بندی اور قتل تک آمادہ کر سکتی ہے، جیسا کہ ان لوگوں کو باپ کی توجہ کے مسئلے نے اس حدتک پہنچا دیا کہ انہوں نے اپنے بھائی کے قتل کی کوشش کی۔ (اقتلوا یوسف اوطرحوہ ارضا یخل لکم وجہ ابیکم یوسف کو قتل کر دو یا کسی جگہ پھینک دو کہ تمہارے باپ کی توجہ صرف تمہارے لیے ہو جائے۔)
    فائدہ 5، 8، 9: مائۃ فائدۃ من سورۃ یوسف از شیخ صالح المنجد حفظہ اللہ۔ اردو ترجمہ راقمہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • مفید مفید x 2
  14. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    قَالُوا إِن يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَّهُ مِن قَبْلُ ۚفَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنتُمْ شَرٌّ مَّكَانًا ۖوَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ آیت 77
    ترجمہ: بھائیوں نے کہا: "اگر اس نے چوری کی تو یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ اس سے پہلے اس کا (حقیقی) بھائی بھی چوری کر چکا ہے"۔ تب یوسف نے (جس کے سامنے اب معاملہ پیش آیا تھا) یہ بات اپنے دل میں رکھ لی۔ ان پر ظاہر نہ کی (کہ میرے منہ پر مجھے چور بنا رہے ہو) اور (صرف اتنا) کہا کہ "سب سے بری جگہ تمہاری ہوئی ( کہ اپنے بھائی پر جھوٹا الزام لگا رہے ہو) اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اللہ اسے بہتر جاننے والا ہے۔(آیت 77)
    تفسیر: (ک)جھوٹوں کا قاعدہ ہے کوئی موقع کوئی بات ہو جھوٹ بولنے سے نہیں رکتے۔ اگر مدح کا موقع ہو تو جھوٹی مدح کر دیں گے۔ مذمت کا موقع ہو تو کوئی جھوٹا الزام لگا دیں گے۔ جب بن یمین کی خرجی میں سے پیالہ نکل آیا تو بھائیوں کا سوتیلے پن کا حسد جوش میں آ گیا۔ جھٹ میں بول اٹھے۔ اگر اس نے چوری کی تو کوئی عجیب بات نہیں۔ اس کا بھائی یوسف بھی چور تھا۔ پس یہ بغض وحسد کی ایک بات تھی اس کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ واقعی ایسی کوئی بات ہوئی بھی تھی۔ قرآن نے خصوصیت کے ساتھ ان کی یہ بات اس لیے نقل کی کہ واضح ہو جائے۔ بغض وحسد انسان کو کیسی کیسی غلط بیانیوں کا عادی بنا دیتا ہے۔
    ترجمان القرآن از مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ
    مولانا کا یہ جملہ زندگی بھر کے تجربے کا نچوڑ ہے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  15. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    شیطان کا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو بہکانا

    قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (آیت نمبر 5)
    عقوب علیہ السلام نے کہا پیارے بچے! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ وه تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں، شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے

    تفسیراز عبدالرحمن کیلانی:سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کے ان منفی قسم کے جذبات سے تو واقف تھے ہی جو وہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے متعلق رکھتے تھے۔لہٰذا آپ علیہ السلام نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو تاکید کردی کہ ایسا واضح خواب وہ اپنے بھائیوں کو نہ بتائیں۔ ورنہ وہ حسد کے مارے جل بھن جائیں گے اور ممکن ہے وہ شیطان کی انگیحت پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے حق میں بری تدبیریں سوچنے لگیں۔۔۔۔۔۔


    شیطان کا حضرت یوسف کے ہمراہی قیدی کو نسیان میں ڈالنا


    وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ (آیت نمبر 42)


    اور جس کی نسبت یوسف کا گمان تھا کہ ان دونوں میں سے یہ چھوٹ جائے گا اس سے کہا کہ اپنے بادشاه سے میرا ذکر بھی کر دینا، پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاه سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف نے کئی سال قیدخانے میں ہی کاٹے


    تفسیراز عبدالرحمن کیلانی:---- اور نسیان کی نسبت شیطان کی طرف اس لیے کی گئی کہ شیطان کسی بھی اچھے کام میں ممد و معاون نہیں ہوا کرتا۔ اس کے وساوس ایسے ہی ہوتے ہیں کہ یا تو کوئی کارخیر سرانجام ہی نہ پائے یا پھر اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر جتنی اس کارخیر میں زیادہ سے زیادہ تاخیر ہو وہی اس شیطان کا مقصود ہوتا ہے جیسے اللہ کے ذکر سے غفلت کی نسبت قرآن نے عموما شیطان کی ہی طرف کی ہے۔

    یوسف علیہ السلام اور بھائیوں کا اختلاف شیطان کے بہکاوے کا نتیجہ:

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُم مِّنَ الْبَدْوِ مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِّمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (آیت نمبر 100)


    اس نے میرے ساتھ بڑا احسان کیا جب کہ مجھے جیل خانے سے نکالا اور آپ لوگوں کو صحرا سے لے آیا اس اختلاف کے بعد جو شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ڈال دیا تھا۔ میرا رب جو چاہے اس کے لئے بہترین تدبیر کرنے واﻻ ہے۔ اور وه بہت علم وحکمت واﻻ ہے

    --------------------------------------
     
    • مفید مفید x 1
  16. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا۔
     
  17. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    حضرت یوسف علیہ السلام نے برائی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس سخت امتحان کے دوران اللہ عزوجل سے یوں مدد مانگی:
    قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖوَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ﴿٣٣
    یوسف نے دعا کی کہ "اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے، اگر تو نے ان کا فن فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں تو ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور بالکل نادانوں میں جا ملوں گا"۔ (سورۃ یوسف 33: ترجمہ مولانا محمد جونا گڑھی)
    اگلی آیت میں تذکرہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ان کے خلاف ان عورتوں کی سازش ناکام بنا دی۔ بے شک اللہ خوب سننے اور خوب جاننے والا ہے۔
    ڈاکٹر محمد لقمان سلفی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
    " اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول کر لی اور انہیں گناہ میں پڑنے سے بچالیا۔ اس آیت کریمہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ کی حفاظت اور اس کے لطف وکرم کے بغیرکوئی شخص گناہ سے نہیں بچ سکتا ہے۔" (تیسیرالرحمن: ص 679 تا 680)
    آج کل بہت سے لوگ اپنی اس پریشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ گناہ کرنا بہت آسان اور گناہ سے بچنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔کچھ اپنے نفس اور کچھ اپنی اولاد کے لیے پریشان ہیں، کچھ پوری امت کے لیے، ایسے موقعے پر کرنے کا کام یہ ہے کہ تربیت و تعلیم کے ذریعے نیکی کا شعور عام کیا جائے، گناہ کے ذرائع کو بند کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا جائے، اور ساتھ میں اللہ عزوجل سے عاجزی کے ساتھ دعا کی جائے کہ وہ ہمیں گناہوں سے پاک رکھے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے اسوہء حسنہ پر عمل کرنے سے یقینا ہم کامیاب ہوں گے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  18. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,950
    عمدہ.انتہائی مفید.
    جیل خانہ کی دعا یوسف علیہ السلام نے کر تو دی. اگرچہ اس دعا کے علاوہ کوئی اور دعا بھی کرتے تو اللہ قبول کرتا. کیونکہ نبی بھی تھے. اس کے علاوہ فتن میں ثابت قدم رہنے پر اللہ کی مدد آتی ہے. لیکن یہاں پراللہ کوکچھ اور ہی منظور تھا.
    بعض اہل علم کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے امت محمد کو علم کی قدر و قیمت و برتری بتانے کے لیے دعا قبول کی. اس لیے جیل میں داخل تو فتنے کی وجہ سے ہوئے. لیکن نکلنے کا سبب صرف علم تھا. علم کی وجہ سے خزانوں کے مالک بنا دیے گئے.
    اس یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی فتنہ ہو انسان اگر رب کے ساتھ مخلص ہے، اپنے علم کی وجہ سے جلد یا دیر نکل ہی جاتا ہے. سلف سے بھی منقول ہے.کوئی بھی فتنہ جب شروع ہورہا ہوتا ہے، اہل علم کو اس کی خبر ہو جاتی ہے. جاہل کو اس وقت معلوم ہوتا ہے. جب وہ فتنہ ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے.
    اس لیے عام لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ طویل مدت تک اپنا تعلق اللہ کی معرفت، علم و اہل علم کی صحبت میں گزاریں. تاکہ کسی بھی قسم کے فتنے سے محفوظ رہ سکیں. واللہ اعلم.
    نسأل الله السلامة والعافية
     
    • مفید مفید x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں