ماہ رجب کی بدعت

بابر تنویر نے 'ماہِ رجب المرجب' میں ‏اپریل 7, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    ماہ رجب کی بدعات
    از قلم : شیخ محمد طیب سلفی حفظہ اللہ

    {ناشر شعبہ توعیۃ الجالیات الغاط www.islamidawah.com}



    دینی بھائیو!

    رجب کا مہینہ شروع ہوچکا ہے یہ اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے جو حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے جس میں ظلم وزیادتی فسق وفجور اور ہرطرح کی گناہوں سے روکا گیا ہے ، لہذا اس ماہ میں احکام الہی کی بجا آوری کا اہتمام نیز شروفساد، شرک وکفر ،بدعات اور دیگر معصیات ربانی سے اجتناب زیادہ سے زیادہ ہونا چاہئے کیوں کہ اس ماہ کی حرمت وعزت کا یہی تقاضا ہے ، مگر حیف صد حیف مسلما ن اس حرمت والے مہینے میں خاص طور سے بہت سی بدعتوں کے مرتکب ہوتے ہیں جیسے ۔

    1- لکھی اور ہزاری روزے

    نام نہاد مسلمان اس ما ہ میں لکھی ،ہزاری اور مریم روزہ رکھتے ہیںجس کے متعلق ان کا یہ عقیدہ ہے کہ27 تاریخ کو ایک روزہ رکھنے سے لاکھوں اور ہزاروںروزوں کا ثواب ملتا ہے، اور اگلے اور پچھلے گناہ سب معاف ہوجاتے ہیں، حالانکہ یہ روزہ بدعت ہے ،اس کا کوئی ثبوت شریعت محمدیہ قرآن وحدیث میں نہیں ہے، اس کے رکھنے رکھانے سے ثواب نہیں بلکہ عذاب کا خطرہ ہے، اللہ تعالی اس سے خوش نہیں بلکہ ناراض ہوگا ، لہذا مسلمانوں کو اس بدعت سے بچنا چاہئے اور مذکورہ ( من گھڑت) روزے رکھ کر اللہ کے دین متین میں زیادتی کرکے گناہ عظیم مول نہیں لینا چاہئے، ان روزوں کے ثبوت میں نام نہاد مسلمان جو احادیث پیش کرتے ہیں وہ قطعا ثابت نہیں، ان سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے، چنانچہ علامہ شوکانی رحمة اللہ علیہ نیل الاوطار میں رقمطراز ہیں : روزئہ رجب کے متعلق جتنی روایات پیش کی جاتی ہیں وہ سب کی سب واہی اور غیر معتبر ہیں جس سے کوئی بھی عالم خوش نہیں ہوسکتا '' علامہ ابن جوزی رحمة اللہ علیہ نے ان کو موضوع اور بناوٹی کہا ہے۔

    2- صلاة رغائب

    ماہ رجب کی پہلی شب جمعہ کو نام نہاد مسلمان ایک خاص نماز ثواب جان کر پڑھتے ہیں جو صلاة رغائب کے نام سے موسوم ہے حالانکہ یہ نماز نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم صحابہ،تابعین،تبع تابعین اورآئمہ دین سے ثابت نہیں، علامہ ابن رجب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں''هذه الصلاةبدعة عندجمهورالعلماء '' کہ یہ نماز جمہور علماء کے نزدیک بدعت ہے، پھر فرماتے ہیں کہ یہ بدعت پانچویں صدی ہجری میں نکلی ہے ، چارسو سال تک مسلمانو ںکادامن اسبدعت کی آلودگی سے پاک وصاف رہا، تعجب ہے کہ آج لوگ اس بدعت اور بے بنیاد چیز کی طرف کس قدر راغب ہیں چاہے فرض نمازیںنہ پڑھیں لیکن صلوة رغا ئب قضاء نہ ہو ، بھائیو ! اللہ تعالی سے ڈرو ، اللہ اور رسول سے آگے نہ بڑھو۔

    3- جشن معراج

    اسی ماہ کی ستائیسویں شب کو نام نہاد مسلمان جشن معراج مناتے ہیں جب کہ یہ ثا بت ہی نہیں کہ اسی رات معراج ہوئی اس سلسلے میں فتح الباری شرح صحیح البخاری میں علماء کے دس سے زیادہ اقوال موجود ہیں مولانا عبد الحي حنفی لکھنوی فرماتے ہیں '' هو أمر مختلف بين المحدثين والمؤرخين '' یعنی معراج کی تاریخ میں محدثین ومورخین کا بہت کچھ اختلاف ہے ، تاریخ تو ایک طرف مہینے میں بھی اختلاف ہے ، بعض کہتے ہیں کہ ربیع الاول میں معراج ہوئی ، بعض کا قول ہے کہ ربیع الثانی میں ہوئی کسی کے نزدیک رمضان میں تو کسی کے یہاں شوال میں ، یہ اختلاف معراج کے مہینے میں ہے ، پھر تاریخ معراج میں اس سے بھی زیادہ اختلاف ہے۔

    دوستو ! معراج مکہ مکرمہ میں ہوئی، بعد ازاں دس سال آپ مدینہ میں رہے ہر سال معراج اور شب معراج آتی رہی لیکن کبھی آپ نے نہ خود کوئی جشن منایا اور نہ ہی کسی کو جشن منانے کا حکم دیا ،نہ کوئی جلوس نکالا ، نہ اس رات کی کوئی خاص فضیلت بیان فرمائی ، پھر آپ کے بعدنہ خلفائے اربعہ و دیگر صحابہ وتابعین نے جشن منایا اور نہ ہی ائمہ دین میں سے کسی کا جشن معراج منانے پر عمل ہے ، نہیں ہرگز نہیں، معلوم ہوا کہ جشن معراج منانا احداث فی الدین ہے۔

    نیز اسی رات مسجدوں گھروں اور بازاروں وغیرہ میں کثرت سے چراغاں اور روشنی کرتے ہیں کھانوںکی دعوتیں ہوتی ہیں ۔


    4- نیز براق کی تصویر ایک گھوڑے کی

    شکل پر بنائی جاتی ہے جس کے دو بازو ہوتے ہیں اور اس کا چہرہ خوبصورت عورت کے چہرے کی مانند ہوتا ہے۔

    کونڈے

    5- اس مہینے کی 22 تاریخ کو نام نہاد مسلمان حضرت جعفر صادق کے نام کےکونڈے کرتے ہیں جو آیت قرآنی وما اهل لغير الله به کی رو سے حرام ہے ، یعنی یہ غیر اللہ کے لئے نذر ماننے کے حکم میں ہے اس رسم کے متعلق ان لوگوں کایہ عقیدہ ہے کہ خود حضرت جعفر صادق نے فرمایا کہ'' 22 رجب کو کونڈے کرو اور میرے توسل سے مراد طلب کرو اور جو مراد پوری نہ ہو تو قیامت میں تمہارا ہاتھ اور میرا دامن ہوگا'' یہ سراسر افتراء اور جھوٹی بات ہے جوحضرت جعفر صادق کی طرف منسوب کی گئی ہے ، کوئی ادنی مسلمان بھی ایسی لغو و لایعنی بات نہیں کہہ سکتا چہ جائیکہ حضرت جعفر صادق ! یہ رسم خلاف شرع اور بدعت محدثہ ممنوعہ ہے کیونکہ نہ نبی کریمۖ سے اس کا ثبوت ہے نہ صحابہ کرام و تابعین سے اور نہ آئمہ اسلام سے منقول ہے یہ در حقیقت شیعوں کی ایجاد واختراع ہے ۔

    6- نیز اسی مہینے کی 6 تاریخ کو اجمیر میں خوا جہ معین الدین چشتی کے مزار پر نام نہاد مسلمان عرس ومیلہ لگاتے ہیں پھر وہاں پرجو گل کھلاتے ہیں ایک موحد مسلمان کی روح اس کو دیکھ کر کانپنے لگتی ہے، وہاں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں،سجدے کرتے ہیں ،قبر پر غلاف چڑھاتے ہیں ،پھول ڈالتے ہیں ،چیخ چیخ کر روتے ہیں، اور اپنی حاجات ومرادیںطلب کرتے ہیں، قبر کا طواف کرتے ہیں جو کھلم کھلا شرک ہے۔

    بھائیو !

    اوپر کی تشریحات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مذکورہ تمام اعمال وافعال ماہ رجب میں محض شرک وبدعت ہیں ،بنا بریں ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ ان کاموں سے خود بھی بچیں اور اپنے دوست واحباب کو بھی بچنے کی تلقین کریں، اگر ا ب تک آپ نے یہ مہینہ شرک وبدعت کے زیر سایہ گزاراہے تو اب حق بات کی وضاحت کے بعد ان کاموں سے تائب ہوکر اس سال کے اور آئندہ ماہ رجب کو سلامتی کے ساتھ گزاریں، اللہ ہمیں اتباع سنت کی توفیق بخشے کیوں کہ دونوں جہاں کی بھلائی اتباع سنت میں مضمر ہے اور سیاہ بختی سنت سے اعراض کرنے اور منہ پھیرنے میں ہے ۔

    ختم شدہ

    لنک اسلامی دعوہ
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
  2. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    592
    جزاک اللہ خیرا
    بہت عمدہ تحریر ہے
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں