جب بیٹی گھر سے بھاگ جائے

کنعان نے 'مثالی معاشرہ' میں ‏جولائی 13, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    جب بیٹی گھر سے بھاگ جائے
    13 جولائی 2017

    ماں باپ اپنی اولاد کو جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ وہ سماجی اور مذہبی طور پر معاملات کو اپنی اولاد سے زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ سولہ سترہ سال کے لڑکے یا لڑکی کا ایسا تجربہ نہیں ہوتا کہ وہ ساری زندگی کو گزارنے کے لیے اپنی مرضی سے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کر لیں۔ محبت، عشق نوجوان لڑکے لڑکیوں میں آج کل کھیل تماشہ بنا ہوا ہے۔ چند دہائیاں قبل اُمرا ء کے ہاں یہ لوسٹوری والا کھیل کھیلا جاتا تھا۔ اور ایسا مڈل کلاس اور معاشی طور پر کمزور طبقات میں اِس طرح محبتیں پروان چڑھانا یا بھاگ کر شادی کرنا انتہائی معیوب تصور کیا جاتا تھا ۔ لیکن وطن عزیز میں موبائل فون ، کیبل ٹی وی اور انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کے استعمال کی بہتات نے یہ بیماری اُمراء سے نکل کر اب غریب غرباء تک بھی پہنچ گئی ہے۔ صرف لاہور کی فیملی کورٹ چلیں جائیں روزانہ کی بنیاد پر بے شمار کیسیز خُلہ کے لیے درج ہوتے ہیں ۔ اور خُلع لینے والی لڑکیوں کی کثیر تعداد اُن پر مشتمل ہوتی ہے جنہوں نے بھاگ کر شادی کی یا پسند کی شادی کی۔

    ہمارے معاشرے میں سکول، مسجد اور گھر یہ تینوں اتنے اہم ادارے تھے لیکن موبائل فون کے استعمال کی بہتات سوشل میڈیا کیوجہ سے تینوں ادارے اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ اور عورت جو کہ گھر کی عزت ہے وہ گھر کی دہلیز کو پار کر کے اپنی من پسند زندگی کی خاطر سماج کے سارے رشتے توڑ دیتی ہے۔ لیکن اِس طرح ہونے والی شادیاں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ چند دن پہلے لاہور میں غیرت کے نام پر ایک اور لڑکی درندگی کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔ لاہور کے علاقہ فیکٹری ایریا میں پسند کی شادی کرنے پر 18 سالہ لڑکی کو اسکی ماں نے بیٹے اور داماد سے ملکر گلا گھونٹنے کے بعد زندہ جلا دیا تھا۔ وہ ایک ہفہ قبل گھر سے غائب ہو گئی تھی اور اپنے ہمسایہ نوجوان حسن سے عدالت میں پسند کی شادی کر لی جس پر اسکے گھر والے سخت خفا تھے۔

    ایسی خبروں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گھر جیسی جنت کو کس طرح دوزخ بنا دیا گیا ہے۔ حتیٰ کے ایسے گروہ بھی سرگرم عمل ہیں جو شادی کا جھانسہ دے کر بعدازاں لڑکیوں کو بیرون ملک اسمگل کر دیتے ہیں اور یوں ایسی لڑکیاں ساری زندگی گناہوں کی دلدل میں پھنسی رہتی ہیں۔ چونکہ معاشرہ کے نفوس پذیری کے حامل افراد بھی اِس وقت ہوس زر کے عادی ہو چکے ہیں ۔ اِس لیے اخلاقیات والا شعبہ بانجھ ہو چکا ہے۔عزتیں نیلام ہو رہی ہیں اور زندگی میں سے روحانیت امن چین سکون ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اپنی نئی نسل کو اندھے کنویں میں گرنے سے کیسے بچایا جائے۔


    تحریر: صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


    ح
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • ظریفانہ ظریفانہ x 1
  2. شرجیل احمد

    شرجیل احمد رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏جون 19, 2017
    پیغامات:
    56
    اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے!
    پیار، محبت، گھر سے بھاگ کر شادیاں، ان سب کا ایک بڑا عنصر ہمارا مادر پدر آزاد ہوتا ہوا میڈیا ہے۔ اگرچہ ایسی خبریں آج سے پچاس سال پہلے بھی تھیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ کورٹ میرج کو جائز شادی سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔ تاہم 1990 کی دہائی کے اواخر میں پاکستان میں جب کیبل ٹی وی کا سلسلہ شروع ہوا اور پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی بہتات ہوئی جنھوں نے کمرشلز کے حصول کے لیے ڈراموں اور دیگر پروگراموں میں عشق محبت کو اپنا محورومرکز بنا کر والدین کو ظالم دکھا کر گھر سے بھاگنے والوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا تو ایسے واقعات میں بتدریج اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ عدالتوں نے بھی ولی کی اجازت کے بغیر شادیوں کو قبول کرنا شروع کر دیا۔ ایسے ہی ایک بدقسمت باپ سے جب میری بات ہوئی تو اس بے چارے کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کی بیٹی نے ایسا قدم کیوں اٹھایا۔ کب عشق کا بھوت سوار ہوا اور کیسے یہ معاملہ پنپتا ہی چلا گیا۔ بقول اس کے اس کی بیٹی تو بڑی فرماں بردار، صوم و صلوۃ کی پابند اور باحجاب رہنے والی تھی۔ ایک سوال پر اس نے بتایا کہ بچپن سے آج تک اپنی بیٹی کو ہر آسائش فراہم کی جس میں گھر میں ڈیڑھ سو چینل والا ٹی وی بھی شامل تھا جس کے ڈرامے وہ بڑے ذوق شوق سے دیکھتی تھی۔ کاش کہ وہ باپ سمجھ سکتا کہ ان ڈراموں کے ذریعے کچے ذہنوں کی کیسے برین واشنگ ہو رہی ہے اور والدین اپنی اچھی تربیت کے زعم میں اسی مغالطے میں رہتے ہیں کہ ان کے بچے ٹی وی پر دکھائی جانے والی غلط باتوں کا اثر نہیں لے سکتے۔ حقیقت میں میڈیا کے زیراثر وہ اپنے والدین کی اچھی تربیت کو رفتہ رفتہ ظلم اور جبر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور موقع ملتے ہی اس سے راہ فرار اختیار کر جاتے ہیں۔
    اللہ نئی نسل کو ان نئے نئے فتنوں سے محفوظ فرمائے!
     
    Last edited: ‏جولائی 22, 2017
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • متفق متفق x 1
    • معلوماتی معلوماتی x 1
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    آمین. ہمیشہ اخبار، میں یہی خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ بیٹی گھر سے بھاگ گئی. کبھی یہ خبر نہیں دیکھی ہے . فلاں شخص شریف گھرانے کی لڑکی کو بھگا کر لے گیا. یہ مادر پدر آزاد میڈیا تو ہے ہی. مگر اس کے پیچھے بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں کا سازشی گروہ ہے جو عورتوں کے حقوق کے لیے کام کررہا ہے..جو ان خبروں کو زیادہ ہائی لائیٹ کرتا ہے. .عورت چاہے کیسے بھی ہو، بہر حال فطری طور پر کمزور ہوتی ہے. اسے گمراہ کرنا آسان ہے. اور یہ مرد ہی کر سکتا ہے.الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا وغیرہ پر بھی یہی لوگ موجود ہیں. ان کے جال سے نکلنا آسان نہیں ہے.
     
    • متفق متفق x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں