ہندوستانی مسلمان اور غیرمسلم تہوار دیوالی کی مٹھائی

مقبول احمد سلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏اکتوبر، 16, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    ہندوستانی مسلمان اور غیرمسلم تہوار دیوالی کی مٹھائی

    تحریر:مقبول احمد سلفی

    دنیا میں اسلام کے علاوہ بہت سے مذاہب ہیں اور اسلام سمیت تمام مذاہب میں مذہبی تہوار منایا جاتا ہے ، شاید ہی ایسی کوئی قوم یا ایسا کوئی مذہب ہے جس میں تہوار نہ منایا جاتا ہو۔ اپنے اپنے رنگ ڈھنگ میں سبھی قوم تہوار مناتی ہے ۔ ہندوستان میں دیوالی کے موقع پر مٹھائی کھانے کھلانے کی رسم بہت مشہور ہے ۔ ویسے ہندوستان کثیر الادیان، کثیراللسان اور کثیر الاقوام ہے ۔ یہاں مختلف قسم کی بولیاں بولنے والے ، مختلف قسم کی تہذیب ماننے والے اور مختلف قسم کے ادیان وملل پر چلنے والےلوگ پائے جاتے ہیں ۔ صرف مسلمانوں میں یہاں کئی فرقے ہیں اوران میں مسلکی اختلاف اس قدر شدید ہے کہ اتنی شدت شاید پوری دنیاکے مسلمانوں میں کہیں نہیں پائی جاتی ۔ مسلمانوں کے باہمی تنازعات کا یہ حال ہے تو پھر مختلف ادیان کے درمیان کیسامعاملہ ہوگا سمجھ سکتے ہیں ۔صرف ہندو قوم کی شدت منافرت اور اسلام کے تئیں بعض وعناد کی مثال دینا چاہتاہوں کہ یہاں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں بے شمار علماء ، خطباء اور واعظین ہیں ۔ اپنے اپنے مسلک ومذہب کی ترویج واشاعت میں رات دن کوشاں ہیں ، بڑے بڑے اجتماعات، کانفرنسیں، سیمنار، تبلیغی دورے اورگشت وچلہ کشی ہوتی رہتی ہیں مگر کسی میں کیامجال کہ ہندؤں میں بھی تبلیغ کرسکے؟ الا ماشاء اللہ

    اہل حدیث جماعت میں ایک شیر دل مرد آہن ڈاکٹر ذاکر نائک پیدا ہوا جنہوں نے پورے ہندوستان کی ہندو قوم کو اپنے پررونق اسٹیج سے للکارا ، ہزاروں کو حلقہ بگوش اسلام بھی کیا مگر ہند کی اکثریتی قوم ہندو اپنی کافرانہ طاقت کے بل بوتے ان کے سامنے بند باندھنےاور انہیں دعوت اسلام سے روکنے میں کامیاب ہوگئے، ان کے عالمی دعوتی ادارے پر پابندی عائد کردی گئی ۔ مجھے حیرت دعوت حق کی روک اور ڈاکٹر صاحب کی بندش پہ کم اور مسلکی بغض وعناد میں ڈوبے عیار ومکار علماء سوء پر زیادہ ہے جن میں سے بہت سے کھلے اور بہت سے درپرہ اپنے ہی دین اسلام کی اشاعت روکنے میں شازشیں رچتے رہے اوربالآخر دیار ہند میں غیرمسلموں میں تیزی پھیل رہی دعوت اسلام پہ بندش لگوانے میں کامیاب ہوگئے ۔کل قیامت میں اللہ تعالی کو ایسے علماء کیا جواب دیں گے ؟

    ہندوستان میں اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں ، گائے حلال ہے مگر ذبح نہیں کرسکتے ، قربانی نہیں دے سکتے ، حالات کا تقاضہ ہے کہ جس طرح اللہ نے تبلیغ میں حکمت وبصیرت کو مدنظر رکھنے کا حکم دیا ہے یہاں رہنے سہنے میں بھی مومنانہ فراست ، حکیمانہ طور طریق اور بصیرت اندوز بودوباش اختیار کی جائے ۔ ہندوستانی علماء کے سامنے مسلم عوام دیوالی کے موقع سے عام طور پر سوال کرتے ہیں کہ کفار کی دیوالی پہ ہم ان کی پیش کی ہوئی مٹھائی کھاسکتے ہیں کہ نہیں؟ ۔ اس سوال کے جواب میں بعض علماء ان کی مٹھائی کھانے سے سخت انداز میں منع کرتے ہیں اور بعض کے یہاں حکمت وبصیرت کے مدنظر کھانے کا حکم ملتا ہے ۔ ذیل میں اسی مسئلہ کی مختصر وضاحت مقصود ہے۔

    غیرمسلم سے اس کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق علماء کے دو نظرئے سامنے آتے ہیں ۔

    (1) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔

    (2) دوسرےنظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ۔

    پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔

    یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے مثلا

    ٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔

    ٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔

    ٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔

    ٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔

    ٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔

    ٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔

    ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ جانیں کہ اسلام امن و سلامتی اور الفت ومحبت کا درس دیتا ہے اپنے اسی خوبی سے دنیا میں پھیلا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام غیرمسلموں کے ساتھ نرمی برتنے ، احسان وسلوک کرنے اور خاص طور سے اسلام کی طرف مائل لوگوں کی تالیف قلب کرنے کا حکم دیا ہے ۔ زکوۃ کا ایک مصرف ایسے ہی قسم کے لوگ ہیں ۔اللہ تعالی غیرمسلموں سے احسان کا حکم دیتے ہوئے فرماتاہے :

    لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ(الممتحنہ: 8)
    ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے لڑائی نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کیا، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

    تمام کافروں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جائے گا۔ وہ کافر جو بے ضررہوں، یا اسلام کی طرف مائل ہوں ، یا مسلمانوں کی مدد کرنے والے ہوں ایسے لوگ ہمارے احسان کے مستحق ہیں ۔

    بعض کافروں نے عہد رسالت میں بھی اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ دیا ، تاریخ اٹھاکر دیکھیں ، شعب ابی طالب کا تین سال کا ظالمانہ محاصرہ بعض کافروں کی مدد سے ختم ہوا۔

    اسی طرح اسیران بدر سے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے :
    لو كان المُطْعَمُ بنُ عَدَيٍّ حيًّا ، ثم كلَّمَني في هؤلاء النُّتْنَى لترَكْتُهم له.(صحيح البخاري:4024)
    ترجمہ: اگر مطعم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گندے قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کرتا تو میں انہیں اس کی خاطر رہا کردیتا ۔

    مطعم بن عدی مشرک تھا لیکن اس نے رسول اللہ ﷺکی اس وقت مددکی تھی جب آپ طائف سے زخمی حالت میں واپس تشریف لائے ۔اس نے آپ ﷺکواپنی پناہ میں لیکر مکہ میں داخل کیا ۔آپ ﷺنے اس کے احسان کا بدلہ اتارنے کےلئے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے ۔

    آج بھی ایسےکفارہرجگہ موجود ہیں جو مسلمانوں کے لئے نفع بخش ہیں ، ہندوستان میں اکثر مسلمان ظلم کے شکار ہیں اور دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، ان میں سے بعض مسلمانوں کوکافروں کی امداد مل جاتی ہے جبکہ مسلمان وکلاء، مسلمان وزراءاور مسلمان امراء ورؤساء ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہتے ہیں ۔

    اس قسم کے اچھے لوگ کافر ہونے کے باوجود مسلمان کا درد محسوس کرتے ہیں اورانہیں ظلم سے نجات کے لئے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس بات کو وہ مسلمان جس کو کسی کافر نے مدد کی ہو اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں۔

    ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کےدنیاوی معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے قلبی دوستی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے۔ ان سے ملنے جلنےاورمعاملات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ایسے ماحول میں کافروں سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور مسلمانوں کی قدر کرتاہو بلکہ مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ہو تحفہ قبول نہ کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہےاور یہ اسلام کے حسن سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام اور معاون ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔جیسے ہم مسلمان اپنی عیدوبقر عید پہ کافروں کو تحائف دے سکتے ہیں بلکہ قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں اسی طرح کافر پڑوسی، میل جول والا، معاملات والا، احسان وسلوک والا، اسلام کی طرف رغبت رکھنے والا، مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ، اچھے اخلاق والا جسے اسلام کی دعوت دی جاسکے وغیرہ سے ان کے تہوار دوالی پہ مٹھائی یا وہ تحفہ اور کھانا قبول کرسکتے ہیں جو اسلام میں اصلا حلال ہو۔

    ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ کفار کے تہوار پہ مبارک باد دینا جائز نہیں ہے ، ان کے تہوار پہ خود تحفہ دنیا چائز نہیں ہے ، ان کے تہوار میں کسی کفر وشرک والے کام پر تعاون کرنا چائز نہیں ہے اوران کے تہوار میں استعمال ہونے والی مخصوص مذہبی اشیاء کی تجارت جائز نہیں ہے ۔

    بعض علماء نے بھی تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے کی بات کی ہےجن شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ ان کے علاوہ امام احمد بن حنبل اور سعودی عرب کے مشہورعالم شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    جزاک اللہ خیرا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہندو پڑوسی سے دیوالی کی مٹھائی بطور ہدیہ لے لی جائے ۔ بعد میں اگر دل نا کرے تو ضائع کردیا جائے ۔
     
  3. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    اگر کھانے کی چیز ہے تو اسے پھیکنا نعمت کا ضیاع ہے اس لئے قبول کرنے والی چیز قبول کرلی جائے اور نہ قبول کرنے والی چیز واپس کردی جائے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    یہ توواضح ہے کہ شرعی طور پر دیوالی ، ہولی وغیرہ تہواروں میں کسی بھی طرح شرکت درست نہیں ۔ جیساکہ اقتضاء صراط المستقیم میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تفصیلا ذکر کیا ہے ۔ اب یہ صرف ایک مصلحت ہوسکتی ہے ۔ اور اس مسئلے کو ہندوستانی حالات کے تناظر میں دیکھنا ہی بہتر ہے ۔ مگر کچھ لوگوں کا یہ اعتراض بھی معقول ہے کہ پھر محرم میں روافض کے ساتھ رواداری کیوں نہیں ،یا ربیع الاول میں میلاد النبی کے موقع پر جو مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے ۔ اسے بھی کھانے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے ۔ مصلحت تو ہر جگہ ہو سکتی ہے ۔
     
  6. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    غیرمسلم تہوار میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے یہ معاملہ واضح ہے اور نہ ہی اس کے تہوار پہ ہم مبارک بادی پیش کریں گے ۔
    میرا یہ مسئلہ ہندوستانی ماحول کے تناظر میں ہے اس لئے عنوان بھی ویسا ہی ہے اور تمہید بھی باندھ دی ہے ۔ دیکھیں اللہ تعالی موسی علیہ السلام کو کس قدر نرمی سے فرعون کے ساتھ بات کرنے کا حکم دیتا ہے جبکہ فرعون میں رعونت وتکبر وافر مقدار میں موجود تھا اور حق قبول کرنے والا نہیں ، یہ بات وہ ذات جو علیم مافی الصدور ہے اچھی طرح جانتا ہے پھر بھی اللہ نے نرمی اختیار کرنے اور نرمی کے ساتھ دعوت دینے کا حکم دیا اور کہا لعلہ یتذکر او یخشی ، شاید وہ نصیحت حاصل کرلے یا خوف کھالے۔ اس میں بڑی حکمت چھپی ہے جو اکثر دعاۃ سے اوجھل ہے۔
    رافضی اور بریلوی سے کیا مصالحت ؟ یہ تو اسلام کے نام لیوا ہیں اور اسلام کے نام پر کفروضلالت پر چل رہے ہیں ۔ ان میں اور کفار میں بہت فرق ہے ، کفار کو دین حق کے دلائل کی طرف رہنمائی نہیں ملی جبکہ روافض اور بریلوی تو قرآن کو اپنا دستور کہنے والے ہیں ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    586
  8. حافظ عبد الکریم

    حافظ عبد الکریم محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 12, 2016
    پیغامات:
    586
    علماء ہند میں سے بعض اس پر شدت اختیار کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں