خطبہ حرم مدنی 09-02-2018 "بچوں کی محبت بھری تربیت کیسے کریں؟" از ثبیتی حفظہ اللہ

شفقت الرحمن نے 'خطبات الحرمین' میں ‏فروری 9, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. شفقت الرحمن

    شفقت الرحمن ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2008
    پیغامات:
    753
    ﷽​
    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 23 -جمادی اولی- 1439 کا خطبہ جمعہ "بچوں کی محبت بھری تربیت کیسے کریں؟" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اسلام نے ہر شخص کو ذمہ داری سونپی ہے اور پھر اس ذمہ داری کے بارے میں پوچھا بھی جائے گا، ان ذمہ داریوں میں بچوں کی اسلامی اخلاقیات پر تربیت سر فہرست ہے، انہوں نے کہا کہ تربیت کیلیے سب سے زیادہ توجہ طلب انسانی قلب ہوتا ہے کیونکہ اگر دل ٹھیک ہو تو سب کچھ ٹھیک اور اگر یہی خراب ہو تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ تربیت کے تمام مراحل میں محبت ناگزیر جزو ہے؛ کیونکہ محبت روح کو مخاطب کرتی ہے اور زیر تربیت افراد کے دل میں اتر کر پیغام پہنچاتی ہے، چنانچہ آپ ﷺ اس کا خصوصی خیال رکھتے اور بچوں کو پیار کرتے تھے، آپ ﷺ بچوں کے ساتھ مزاح بھی کرتے اور ان کے ساتھ گھل مل جاتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تربیت کیلیے دعا انتہائی مؤثر ترین ہتھیار ہے اور ویسے بھی مومن شخص ہر وقت اللہ تعالی سے خیر کی دعا میں مشغول رہتا ہے، جبکہ اولاد کیلیے دعا تو انبیائے کرام کا شیوہ ہے ، ان دعاؤں کا ذکر قرآن مجید میں متعدد بار آیا ہے، نیز بچوں کو غصے میں آ کر بد دعا بھی نہیں دینی چاہیے یہ شرعاً ممنوع عمل ہے، تربیت میں پڑھانے اور سنانے کی بجائے کردار زیادہ مؤثر ہوتا ہے، اس لیے تربیت کنندہ کو عملی نمونہ بن کر زیر تربیت افراد کی عملی تربیت کرنی چاہیے۔ تربیت کے مراحل میں مطلوب محبت ایسی معیاری ہوتی ہے کہ غصے میں بھی زائل نہیں ہوتی یہی نبی ﷺ کا شیوہ تھا۔ زیر تربیت افراد کی عزت افزائی اور ان کے ساتھ نرم گفتگو از بس ضروری ہیں، اگر دل میں محبت ہو تو اس کا اثر اعضا اور جوارح پر بھی رونما ہوتا ہے، لبوں کی مسکراہٹ اور زبان کے الفاظ بھی اس محبت سے متاثر نظر آتے ہیں، تربیت کرتے ہوئے مخصوص لمحات اور اوقات کو ضائع مت جانیں دیں اور یہ مت کہیں کہ ابھی بچہ چھوٹا ہے، تمام بچوں کے ساتھ عدل کریں، بیٹیوں کی خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں خاص توجہ دیں، بچوں کو فراغت کی بجائے ہر وقت کسی بھی مفید سرگرمی میں مگن رکھیں، غلطی کرنے پر فوری تنبیہ کریں، بچوں کی ہر خواہش پوری مت کریں، بسا اوقات سختی کا اظہار بھی محبت کا مظہر ہوتا ہے، بچوں کے سامنے ان کی والدہ کو مت ڈانٹیں اس کا منفی اثر بہت گہرا ہوتا ہے، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ موجودہ جدید ذرائع نے گھروں کی چار دیواری کو خطرے میں ڈال دیا ہے ان کی وجہ سے ہر چیز کے معنی اور مفہوم تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں، ایسے میں تعلیمی اور تربیتی اداروں کو ایسے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے جو نوجوانوں کو معاشرے کا مفید فرد بنانے میں معاون ہوں اور انہیں جدید دور کے خطرات سے تحفظ فراہم کر سکیں، پھر آخر میں انہوں نے سب کیلیے جامع دعا کروائی۔

    خطبہ کی عربی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ حاصل کرنے کیلیے یہاں کلک کریں۔

    پہلا خطبہ:
    تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں کہ اس نے قرآن کریم کو تربیت کا سب سے بہترین ذریعہ بنایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اللہ کی آیات سے لوگوں کا تزکیہ ہوتا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے بھی لوگوں کا ایمان اور روحانی صفائی کے ذریعے تزکیہ فرمایا۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے انہوں نے شان و شوکت اور قلبی صفائی کی جانب امت کی رہنمائی فرمائی۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:

    میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہو؛ کیونکہ تقوی دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں کا منبع ہے۔

    اسلام نے مسلمان کے دل میں ذمہ داری کا معنی اور مفہوم خوب اجاگر کیا ہے، ان میں بچوں کی پرورش اور اسلامی اقدار و اخلاقیات پر تربیت ؛ اہم ترین ذمہ داری ہے، دینی اقدار ہی در حقیقت اخلاقیات کا منبع ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا) بخاری

    اگر تربیت میں کمی ہو تو زیرِ تربیت شخص اپنی بھوک اور خواہشات کے درپے ہو جاتا ہے، شہوانیت اور دنیاوی لذتوں میں ڈوب جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَهُمْ} جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اللہ یقیناً انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہ رہی ہیں اور جو کافر ہیں وہ چند روز فائدہ اٹھا لیں، وہ اس طرح کھاتے ہیں جیسے چوپائے کھاتے ہیں اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ [محمد: 12]

    تربیت کے معاملے میں سب سے اہم عضو دل ہے؛ لہذا اگر دل ٹھیک ہو تو سارا جسم ٹھیک اور اگر دل ہی خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، اللہ تعالی نے یہی بات کچھ اس طرح فرمائی: {فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ} بیشک آنکھیں نابینا نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں موجود دل نابینا ہو جاتے ہیں۔[الحج: 46]

    چنانچہ اگر دل صحیح اور روشن ہو تو عقل میں بھی پختگی آتی ہے، زندگی رنگین ، اور اعضا خشوع سے نہال ہو جاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ} کیا ایمان لانے والوں کیلیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر اور نازل شدہ حق کی بدولت خشوع سے بہرہ ور ہو جائیں۔[الحديد: 16]

    یہ یقینی بات ہے کہ محبت نبی ﷺ کی سیرت میں بنیادی حیثیت رکھتی تھی، محبت در حقیقت روح کو مخاطب کرتی ہے، پھر تربیت کے بعد صلاحیتیں اجاگر کرنے کیلیے دل کا دل سے رابطہ اور تعلق استوار کرتی ہے، اسی لیے اللہ تعالی کی طرف سے والدین کے دل زیرِ تربیت اولاد کی محبت سے معمور ہوتے ہیں، اسی کے متعلق سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ مجھے اٹھا کر اپنی ایک ران پر بٹھاتے اور دوسری ران پر حسن کو بٹھاتے اور دونوں کو ساتھ ملا لیتے " پھر آپ فرماتے: ( اَللَّهُمَّ ارْحَمْهُمَا فَإِنِّيْ أَرْحَمْهُمَا [یا اللہ! ان دونوں پر رحم فرما؛ کیونکہ میں بھی ان کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہوں]) بخاری۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ فرماتے تھے: ( اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا [یا اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، اس لیے توں بھی ان سے محبت فرما])ترمذی نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

    محبت کے ساتھ بچوں کی تربیت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ بچوں کو بوسہ دیں، انہیں اپنے سینے سے لگائیں، ایک بار نبی ﷺ نے حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا تو آپ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بیٹھے ہوئے تھے، یہ منظر دیکھ کر اقرع بن حابس نے کہا: "میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (جو رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا) اس روایت کو ترمذی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

    ایک بار رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسن اور حسین دونوں آ گئے ، دونوں نے سرخ قمیصیں پہن رکھی تھیں، حسن اور حسین چلتے اور لڑھک جاتے ، اس پر رسول اللہ ﷺ منبر سے نیچے اترے اور دونوں کو اٹھا لیا اور پھر اپنے سامنے بٹھایا، اس کے بعد فرمایا: (اللہ تعالی نے سچ فرمایا ہے: {إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ} بیشک تمہاری دولت اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں۔[التغابن: 15] میں نے ان دونوں بچوں کو چلتے اور لڑھکتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا، اور میں نے اپنی گفتگو روک کر انہیں اٹھا لیا) ترمذی اور نسائی نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

    رسول اللہ ﷺ چھوٹے بچوں کے ساتھ مزاح بھی کرتے اور ان کے ساتھ گھل مل جاتے تھے، آپ بچوں کی امتیازی صفات کو بھی مد نظر رکھتے تھے، آپ نے ایک بچے کو بلاتے ہوئے فرمایا تھا: (دو کانوں والے!) اس روایت کو نسائی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ایک بچے سے از راہ مزاح فرمایا تھا: (ابو عمیر! نغیر [بلبل کے چھوٹے بچے] نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟) بخاری، مسلم

    والدین کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ محبت بھری تربیت کے ساتھ دائمی دعا مفید ترین چیز ہے، زیرِ تربیت بچوں کیلیے ہمیشہ کامیابی، کامرانی، بہتری اور سلامتی کی دعا کرتے رہیں؛ کیونکہ رحمن کے بندوں کی عادت ہے کہ وہ ہمیشہ دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں: {رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ} ہمارے پروردگار ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد میں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔[الفرقان: 74] ایسے ہی زکریا علیہ السلام نے فرمایا تھا:{فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا (5) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا} تو مجھے اپنی طرف سے وارث عطا فرما [5] وہ میرا بھی وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی، اور میرے پروردگار اسے تو اپنا پسندیدہ بھی بنا لے۔[مريم: 5، 6] اور ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے ہوا فرمایا:{رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ} میرے پروردگار! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ [الصافات: 100] ایک اور مقام پر ابراہیم علیہ السلام کی دعا ذکر کی:{رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي} میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔[إبراهيم: 40]

    جبکہ بچوں کو بد دعا دینے سے روکا گیا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تم اپنے آپ کو بد دعا مت دو، نہ ہی اپنی اولاد کو بد دعا، اپنی دولت اور املاک کو بھی بد دعا مت دو؛ مبادا قبولیت کی گھڑی ہو اور تمہاری بد دعا قبول ہو جائے) مسلم

    بہترین عملی نمونہ بن کر دکھائیں تو یہ تربیت کی بنیاد اور تزکیہ نفس کیلیے مشعل ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ} کہہ دو: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[آل عمران: 31]

    اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کردار کی دعوت ؛ گفتار، پڑھانے اور سنانے سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے، کردار کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (2) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ} اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں [2] اللہ کے ہاں یہ سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو تم کرتے نہیں [الصف: 2، 3]

    محبت ناگوار اور غیر مناسب مواقع پر بھی قائم دائم رہنی چاہیے، یہی نبی ﷺ کی سیرت ہے۔ ایک بار ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: "اللہ کے رسول! میں تباہ ہو گیا" آپ نے فرمایا: (تمہیں کیا ہوا!) تو اس نے کہا: "میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے تعلقات قائم کر بیٹھا ہوں!" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (تمہارے پاس کوئی غلام آزاد کرنے کیلیے ہے؟) تو اس نے کہا: "نہیں " تو آپ ﷺ نے فرمایا: (کیا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو؟) اس نے کہا: "نہیں" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟) اس نے کہا: "نہیں" راوی کہتے ہیں: کہ نبی ﷺ خاموش ہو گئے، ہم بھی ابھی بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کے پاس کھجوروں کا ٹوکرا لایا گیا ، تو آپ ﷺ نے پوچھا: (سائل کہاں ہے؟) تو اس نے کہا: "میں ہوں" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ کھجوروں کا ٹوکرا لے جاؤ اور صدقہ کر دو) تو اس شخص نے پوچھا: "اللہ کے رسول! کیا اپنے سے بھی بڑے غریب پر کروں؟ اللہ کی قسم! دونوں لابوں کے درمیان میرے گھرانے سے غریب گھرانہ کسی کا بھی نہیں ہے!" اس پر نبی ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کی کچلیاں نظر آنے لگیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: (چلو پھر گھر والوں کو ہی کھلا دو) بخاری

    محبت کی پرچھاؤں میں تربیت کار حکمت اور بہترین اسلوب سے مستغنی نہیں ہو سکتا، محبت کے ساتھ نرم خوئی اور دھیما لہجہ بھی ضروری ہے۔ نیز سختی، کرختگی اور ذلیل کرنے سے دور رہنا بھی ضروری ہے، اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو فرمایا : {ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ }اپنے پروردگار کے راستے کی جانب حکمت اور بہترین نصیحت کے ذریعے دعوت دو۔ [النحل: 125]

    اور نبی ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ: (بیشک اللہ تعالی نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ نیز نرمی پر وہ کچھ عطا کر دیتا ہے جو سختی یا نرمی کے علاوہ کسی بھی چیز پر عطا نہیں کرتا۔)مسلم

    رسول اللہ ﷺ نے ہی مسجد میں پیشاب کر دینے والے خانہ بدوش صحابی کے بارے میں فرمایا تھا : (اسے چھوڑ دو، اور اس کے پیشاب پر پانی کا بڑا ڈول بہا دو۔ تمہیں آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا، تمہیں سختی کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ) بخاری

    بالکل اسی طرح زیر تربیت افراد کا احترام کرنا، خندہ پیشانی سے اسے ملنا اور گرمجوشی کے ساتھ اس کا استقبال کرنا بھی نبوی منہج ہے، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "فاطمہ رضی اللہ عنہا ایسے چلتی ہوئی آئیں جیسے نبی ﷺ چلا کر تے تھے" تو نبی ﷺ نے انہیں فرمایا: (میری بیٹی ، خوش آمدید)"اس کے بعد آپ ﷺ نے انہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا" بخاری، مسلم

    محبت کے ساتھ کسی کی تربیت کریں تو پورا جسم بھی فعال دِکھتا ہے، چنانچہ سچی مسکراہٹ، رحمت بھرا ہاتھ، ڈھارس باندھتے ہوئے کلمات اور شفقت بھرے جذبات سامنے آتے ہیں۔

    تربیت کنندہ کسی بھی ایسے وقت کو ضائع نہیں جانے دیتا جس میں زیر تربیت فرد کا دل موم ہو، وہ فوری اخلاقیات کا بیج بو دیتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ زیر تربیت فرد ابھی عمر میں چھوٹا ہے، جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "ایک بار میں نبی ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:" (لڑکے! میں تمہیں کچھ باتیں سکھاتا ہوں: تم اللہ کو یاد رکھنا وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تم اللہ کو یاد رکھنا تم اللہ تعالی کو اپنی سمت میں پاؤ گے ) ترمذی نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

    محبت بھری تربیت کے ساتھ ایک ایسی فضا کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس میں اپنائیت اور شرعی حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے تفریح کا سامان بھی ہو، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "میں ایک بار نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں تھی تو میں نے آپ ﷺ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا اور جیت گئی، لیکن جب میرا جسم بھاری ہو گیا تو پھر دوبارہ دوڑ کا مقابلہ کیا تو آپ مجھ سے جیت گئے" اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ اُس جیت کا بدلہ ہے) اس روایت کو ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کہتی ہیں کہ: "میں نے ایک بار رسول اللہ ﷺ کو اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا اور حبشی لوگ مسجد میں [جنگی کھیل]کھیل رہے تھے، رسول اللہ ﷺ مجھے اپنی چادر سے چھپا رہے تھے اور میں ان کا کھیل دیکھ رہی تھی" بخاری، مسلم

    محبت بھری تربیت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اولاد سے محبت کرتے ہوئے عدل سے کام لیں؛ اس لیے سب کے ساتھ برابری کی سطح پر محبت کریں، کسی کو امتیازی سلوک کا نشانہ مت بنائیں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس شخص کیلیے گواہ بننے پر انکار کر دیا تھا جس نے اپنے صرف ایک بیٹے کو تحفہ دیا تھا، اور اسے فرما دیا تھا: (میں ظلم کا گواہ نہیں بنتا) بخاری

    محبت سے بھر پور تربیت ، جذبات کی قدر، اور احساسات کا ادراک نبوی طریقہ اور فطری ضرورت ہے، اس کی بیٹیوں کی پرورش میں زیادہ ضرورت ہوتی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص بیٹیوں کا ذمے دار ہو اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک اپنائے، تو بیٹیاں اس کے اور جہنم کے درمیان پردہ بن جائیں گیں) بخاری، مسلم، یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ انہیں تعلیم دیں، عفت اور پاکدامنی پر ان کی تربیت کریں، انہیں بے پردگی اور دیگر اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے محفوظ رکھیں۔

    بچوں کو سنجیدہ سرگرمیوں میں مشغول کرنا، انہیں اچھے منصوبے بنانے میں مگن رکھنا اور رفاہی سرگرمیوں میں مصروف رکھنے سے ان کے خیالات بلند ہوتے ہیں، وہ فضول اور بے فائدہ امور میں گھرنے سے بچ جاتے ہیں۔

    محبت بھری تربیت سے متصادم امور میں یہ چیز شامل ہے کہ بچوں کے ساتھ حد سے زیادہ لاڈ پیار کریں، ان کے تمام تر مطالبے پورے کریں، ان کی غلطیوں پر تنبیہ نہ کریں؛ اس لیے بسا اوقات سختی بھی محبت کا مظہر ہوتی ہے۔

    بچوں کے سامنے ان کی ماں کے ساتھ سختی کرنے سے محبت کا چشمہ خشک ہو جاتا ہے، اسی طرح والدین کی جانب سے اعلانیہ گناہ کرنا اور شرعی احکامات کو پامال کرنے سے بھی تربیت منہدم ہو جاتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (انسان کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو ضائع کر دے) ابو داود اور احمد نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

    اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔


    دوسرا خطبہ:
    تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں۔ ڈھیروں، پاکیزہ اور برکتوں والی تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جیسی ہمارے رب کو پسند ہوں اور اس کی رضا کا باعث بنیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہی بلند و بالا ہے۔ اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور پاکیزہ ترین رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، تمام صحابہ کرام اور آپ کے پیروکاروں پر رحمتیں نازل فرمائے ۔

    حمد و صلاۃ کے بعد: میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔

    عصر حاضر میں اثر انگیزی کے وسائل بہت آگے نکل چکے ہیں، ان کی وجہ سے سوچ، فکر، مفاہیم اور تعامل میں بہت زیادہ تبدیلی آ گئی ہے، بلکہ ان وسائل نے تربیت کے حوالے سے گھر اور چار دیواری کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا ہے؛ ایسے میں محبت بھری تربیت کی اہمیت مزید دو چند ہو جاتی ہے کہ اس دور میں باہمی اعتماد کی فضا کس قدر مضبوط ہونی چاہیے۔ اخلاقی اقدار مزید ٹھوس بنانے کیلیے اسلوب تربیت میں جدّت لانے کی ضرورت ہے، تعلیمی اور تربیتی اداروں کے عزائم بلند کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ وہ مستقبل کو تحفظ دینے کی غرض سے اپنا پیغام نوجوانوں تک پہنچا سکیں، اپنے ملک اور وطن کی دولت کا تحفظ کر سکیں، اس کیلیے اخلاقیات اور مبادیات نوجوانوں کے دلوں میں راسخ کریں، نوجوانوں کے خواب شرمندہ تعبیر کرنے میں ان کی مدد کریں، ان کی پریشانیوں کو دور کریں، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَة} ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ، اس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔[التحريم: 6]

    اللہ کے بندو!

    رسولِ ہُدیٰ پر درود پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: { إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو۔ [الأحزاب: 56]

    اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

    یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، ان کے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، نیز اپنے رحم ، کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

    یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! تیرے اور دین دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔ یا رب العالمین!

    یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعا! یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعا! یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعا!

    یا اللہ! پوری دنیا میں اعلائے کلمہ کیلیے جہاد کرنے والوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کی مدد، نصرت اور حمایت فرما۔

    یا اللہ! پوری دنیا میں کمزور مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! کمزور مسلمان بھوکے ہیں ان کے کھانے پینے کا بندوبست فرما، ننگے پاؤں ہیں انہیں جوتے فراہم کر، یا اللہ! ان پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے، ان کا بدلہ چکا دے، یا قوی! یا عزیز! یا اللہ! پوری دنیا میں مجاہدین کی مدد فرما، یا اللہ! سرحدوں پر مامور ہمارے فوجیوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کی خصوصی مدد فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے مال و دولت، اہل و عیال اور عزت آبرو کی حفاظت فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ہماری سیکورٹی فورس کے جوانوں کی حفاظت فرما، اور ان کے عزائم بلند فرما، یا قوی! یا متین!

    یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور جنت کے قریب کرنے والے اعمال کی توفیق مانگتے ہیں اور جہنم کے ساتھ جہنم کے قریب کرنے والے اعمال سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

    یا اللہ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں چاہے کوئی جلدی ملنے والی یا دیر سے، یا اللہ ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی برائی سے پناہ مانگتے ہیں چاہے چاہتے وہ جلد آنے والی ہے یا دیر سے ۔

    یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، تقوی، تونگری، عفت اور پاکدامنی کا سوال کرتے ہیں۔

    یا اللہ! ہم تجھ سے شروع سے لیکر آخر تک، ابتدا سے انتہا تک ، اول تا آخر ہر قسم کی جامع بھلائی مانگتے ہیں، نیز تجھ سے جنتوں میں بلند درجات کے سوالی ہیں۔

    یا اللہ1 ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ فرما، یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ فرما، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف نہ ہو، یا اللہ! ہماری رہنمائی فرمائی اور ہمارے لیے راہ ہدایت پر چلنا بھی آسان فرما، یا اللہ! ہم پر زیادتی کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

    یا اللہ! ہمیں تیرا ذکر، شکر، تیرے لیے مر مٹنے والا، تیری طرف رجوع کرنے والا اور انابت کرنے والا بنا۔

    یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہماری کوتاہیاں معاف فرما، ہماری حجت کو ٹھوس بنا، اور ہمارے سینوں کے میل کچیل نکال باہر فرما۔

    یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال، تیری طرف سے ملنے والی عافیت کے خاتمے، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہمہ قسم کی ناراضی سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

    یا اللہ! ہمارے سارے گناہ معاف فرما دے، یا اللہ! ہم نے اپنے آپ پر جو بھی زیادتی کی ہے یا اللہ! معاف فرما دے۔ یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہم پر اپنی برکتوں، رحمتوں ، فضل اور رزق کے دروازے کھول دے۔

    یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان پر رحم فرما، ہمارے والدین کی مغفرت فرما، تمام مریضوں کو شفا یاب فرما، یا قوی! یا عزیز!

    یا اللہ! ہماری زندگی ، کارکردگی میں برکت فرما، ہماری بیویوں ،اولاد اور دولت میں برکت فرما، یا اللہ! ہم جہاں بھی ہوں ہمیں برکت سے نہال رکھنا، یا رب العالمین!

    یا اللہ! تو ہی ہمارا معبود حقیقی ہے، تیرے سوا ہمارا کوئی معبود نہیں، تو ہی غنی ہے ہم تو فقیر ہیں، ہمیں بارش کی نعمت عطا فرما اور ہمیں مایوس مت فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! تیرے رحمت کے صدقے ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ رحمت والی بارش ہو عذاب ، بلاؤں، منہدم کرنے والی اور غرق کرنے والی نہ ہو، یا ارحم الراحمین!

    یا اللہ!ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ!ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کی تیری رضا اور رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کے ولی عہد کو ہر خیر کے کام کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! تمام مسلمان حکمرانوں کو کتاب و سنت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!

    {رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ} ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23] {رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [الحشر: 10] اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے[الحشر: 10] {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}[البقرة: 201] ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

    {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]

    تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بہ خوبی واقف ہے۔

    پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ / پرنٹ کرنے کیلیے کلک کریں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 4
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,396
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. سیما آفتاب

    سیما آفتاب محسن

    شمولیت:
    ‏اپریل 3, 2017
    پیغامات:
    484
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں