سعودی بدّو نے 80 سال پہلے مملکت میں کیسے تیل کی دریافت میں مدد دی تھی؟

کنعان نے 'اسلام ، سائنس اور جدید ٹیکنولوجی' میں ‏مارچ 5, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. کنعان

    کنعان محسن

    شمولیت:
    ‏مئی 18, 2009
    پیغامات:
    2,852
    سعودی بدّو نے 80 سال پہلے مملکت میں کیسے تیل کی دریافت میں مدد دی تھی؟
    اتوار 4 مارچ 2018م

    سعودی رہبر خمیس بن رمثان 1959ء میں صرف 50 سال کی عمر میں مہلک مرض کینسر کا شکار ہو کر چل بسے تھے۔
    [​IMG]

    آج سے ٹھیک 80 سال پہلے مارچ 1938 ء میں سعودی بدّو خمیس بن رمثان نے امریکی پیٹرولیم جیالوجسٹ ( ماہر ارضیات) میکس اسٹینکی کو سعودی عرب میں تیل کے پہلے کنویں کی دریافت میں مدد دی تھی۔ یہ کنواں اب دمام نمبر 7 کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    میکس اسٹینکی کو سعودی عرب میں تجارتی پیمانے پر تیل کی دریافت کا کریڈٹ دیا جاتا ہے لیکن اس دریافت میں خمیس رمثان کا بڑا کردار تھا۔ وہ صحرا پیمائی کے ماہر تھے ۔ وہ ستاروں کی چال کی مدد سے اپنا راستہ ڈھونڈ نکالتے تھے اور انھیں یہ بھی علم تھا کہ تیل کی تلاش کے لیے بہتر جگہ کہاں ہو سکتی ہے۔

    اسٹینکی کیلی فورنیا عربین اسٹینڈرڈ آئل کمپنی کے 1936ء سے 1950ء تک چیف جیالوجسٹ رہے تھے ۔ یہ کمپنی اب آرامکو کے نام سے معروف ہے۔ انھوں نے امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی سے 1921ء میں جیالوجی میں گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ سعودی عرب آنے سے قبل کیلی فورنیا ، الاسکا ، کینیڈا ، کولمبیا اور نیوزی لینڈ میں تیل کی تلاش کے منصوبوں پر کام کر چکے تھے۔ ان کا 1952ء میں انتقال ہوا تھا۔

    سعودی حکومت نے 1933ء میں امریکی کمپنی اسٹینڈرڈ آئل آف کیلی فورنیا کو ملک میں تیل کی تلاش کی اجازت دی تھی۔ اسی نے بعد میں سعودی عرب میں کیلی فورنیا عربین اسٹینڈرڈ آئل کمپنی کے نام سے اپنی ذیلی کمپنی قائم کی تھی۔ اس نے سعودی عرب کے مشرقی علاقے کے امیر ( گورنر) عبداللہ بن جلوائی سے یہ درخواست کی تھی کہ اس کے ماہرین ارضیات کی رہنمائی کے لیے ماہر صحرائی رہبرمہیا کیے جائیں۔ اس پر خمیس بن رمثان کو ماہرین ارضیات کی رہ نمائی پر مامور کیا گیا تھا۔ اس وقت وہ اپنے قبیلے عجمان کے ساتھ الضحنہ کے صحرا میں مقیم تھے۔ انھوں نے 1934ء میں اس کمپنی کے لیے کام شروع کیا تھا۔

    4 مارچ 1938ء کو میکس اسٹینکی اور خمیس رمثان تیل کا پہلا کنواں دریافت کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ اسی کو بعد میں دمام نمبر سات کا نام دیا گیا تھا۔ امریکی ماہرین رمثان کی ذہانت و فطانت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔ انھوں نے جب تیل کی تلاش میں مدد دی تھی تو تب جی پی ایس اور تیل اور گیس کو نکالنے کے لیے جدید آلات کا وجود تک نہیں تھا۔

    امریکی جیالوجسٹ تھامس برگر اپنی کتاب ’’آؤٹ اِن دا بلیو‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ ہم جب کنویں سے واپس مڑے تو خمیس نے بتایا کہ وہ پہلے کبھی ادھر نہیں آیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اگر یہ معاملہ تھا تو پھر آپ کو کیسے پتا چلا کہ تیل کا کنواں یہیں ہو سکتا ہے؟ انھوں نے کوئی 12 میل دور ریت کی پہاڑیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’کیا آپ نے اس پہاڑی کو وہاں دیکھا تھا ۔ ایک روز میں ایک ٹیلے پر تھا تو مجھے ایک شخص نے بتایا کہ عین العبد اس طرف ریت کے ایک اور ٹیلے کی جانب ہے‘‘۔

    ’’ یہ بہت آسان ہے۔ آپ کو کسی نے کوئی 15 میل دور ریت کے ٹیلے کی نشان دہی کی پھر آپ چند سال کے بعد دوبارہ اسی جگہ پر آتے ہیں اور مخالف سمت سے آتے ہوئے، اس ٹیلے کو شناخت کر لیتے ہیں اور اس طرح یقینی طور پر کوئی بھی جان سکتا ہے کہ کنواں کہاں واقع تھا؟‘‘

    آرامکو پون صدی سے زیادہ عرصے کے بعد بھی خمیس بن رمثان کو بھولی نہیں ہے اور اس نے گذشتہ سال اپنے ایک آئیل ٹینکر کو ان کے نام سے موسوم کیا تھا۔ آرامکو نے پہلے بھی ابن رمثان کے نام کو فراموش نہیں کیا تھا اور اس نے ان کی مہارت اور خدمات کے اعتراف میں 1974ء میں اپنے تیل کے سب سے پہلے کنویں کا نام ان سے منسوب کر دیا تھا۔
    تیل کا یہ کنواں مشرقی صوبے میں دریافت ہوا تھا اور یہیں سے سب سے پہلے تیل نکالا گیا تھا۔

    ابن رمثان ان مشہور رہبروں میں سے ایک تھے جن کی مہارت اور تجربے کو ماہرین ِ ارضیات نے سعودی عرب میں تیل کی تلاش ، ڈرلنگ ( کھدائی) اور تیل نکالنے کے وقت بھی سراہا تھا۔ وہ پہلے رہبر تھے جنھیں سعودی حکومت نے تیل کی تلاش کی ذمے داری سونپی تھی۔ بعد میں 1934ء میں آرامکو کو یہ ذمے داری سونپ دی گئی تھی۔


    سعودی عرب کے یہ مشہور رہبر مہلک مرض کینسر سے ایک ناکام جنگ لڑنے کے بعد 1959ء میں آرامکو کے ایک اسپتال میں چل بسے تھے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 50 سال تھی۔ سعودی عرب میں تیل کی دریافت میں ان کے کردار کو آج بھی سراہا جاتا ہے اور ان کی تیل کا سراغ لگانے کے لیے غیرمعمولی صلاحیت اور مہارت کی تعریف کی جاتی ہے۔

    شکریہ: العربیہ ڈاٹ نیٹ

     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • دلچسپ دلچسپ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں