بے نور ہوجائے اس کا چہرہ۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ حدیث ہے؟

محمد اویس مصباحی نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏ستمبر 11, 2018 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد اویس مصباحی

    محمد اویس مصباحی رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏ستمبر 2, 2017
    پیغامات:
    6
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین

    بے نور ہوجائے اس کا چہرہ۔۔۔۔کیا یہ حدیث ہے؟
    (من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار)

    آج کے اس دور پرفتن میں بھی حدیث گڑھنے والے موجود ہیں۔ یاد رکھیے حدیث گڑھنا کوئی معمولی گناہ نہیں ہے بلکہ جھنم میں لے جانے والا کام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کرنا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی ہو ایسے ہی ہے جیساکہ وہ اس دنیا میں اپنے لیے جھنم کی تیاری کررہا ہے۔ بہت سارے لوگ واٹسپ، فیسبک، یوٹیوب وغیرہ سوشل میڈیا پر کوئی حدیث یا واقعہ ارسال کرتے وقت لکھ دیتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "بے نور ہوجائے اس کا چہرہ جو کوئی بھی میری حدیث سن کر آگے نہ پہنچائے"
    हजरत मोहम्मद सल्लल्लाहु अलेही वसल्लम ने फरमाया बेनूर हो जाए उसका चेहरा जो कोई भी मेरी हदीस सुन कर आगे ना पहुंचाएं
    اس موضوع حدیث کے ساتھ کسی بھی معتبر و مستند تو کجا کسی غیر مستند کتاب کا بھی حوالہ پیش نہیں کیا جاتا یے۔حوالہ پیش کرنے کے لیے ضروری یے کہ وہ حدیث کسی کتاب میں موجود ہو۔ یاد رکھیے اس مذکورہ موضوع حدیث کا حوالہ کسی بھی کتاب سے تا قیامت پیش نہیں کیا جاسکتا ہےاگرچہ واضعین حدیث اپنے ساتھ چند وضاعین احادیث کو اور اس عمل بد میں شامل کرلیں۔۔۔۔۔۔۔

    یاد رکھیے ہر زمانہ میں وضع حدیث کا سلسلہ جاری رہا ہے۔وضاعین حدیث کی تعداد میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جنگ صفین ہوئی اور لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ایک شیعہ، دوسرا خوارج اور تیرے کا تعلق مسلمانوں سے تھا۔ جب شیعوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت اطہار کی شان میں احادیث گڑھنے کام شروع کیا اور تقریبا چار لاکھ احادیث حضرت علی اور اہل بیت کی شان میں گڑھ ڈالیں تو دوسروں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں لاکھوں احادیث گڑھ کر امت مسلمہ کے سامنے پیش کردیں۔۔۔۔۔

    حدیث گڑھنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنے مذہب اور نظریہ کی تائید کے لئے احادیث کو وضع کیا۔
    کچھ لوگوں نے صحیح احادیث کے ساتھ موضوعات کو ملا کر احادیث سے اعتماد ختم کردینے کے لیے احادیث وضع کیں۔
    بعض جاھل صوفیوں نے ترغیب و ترہیب کے متعلق احادیث وضع کیں۔
    کچھ مفاد پرستوں نے دنیوی فوائدکی تحصیل کے لئے وضع حدیث کا پیشہ اپنایا۔
    بعض لوگوں نے تو وضع حدیث کو پیشہ بنا لیا تھا ، لوگوں کو حدیثیں گھڑ کر دیتے اور اس کے بدلے میں پیسے لیتے، جیسے ابو سعید المدائنی(تدریب الراوی ۳۳۷)
    حضرت شعبہ فرماتے ہیں کہ ابو مہزم یزید بن ابی سفیان البصری بصرہ کی مسجد میں پڑا رہتا تھا ، اگر کوئی شخص اسے ایک درہم دیتا تو وہ اس کے لئے پچاس حدیثیں وضع کر دیتا۔ (الاباطیل و المناکیر-باب فی ان اللہ تعالی قدیم-)
    لیکن محدثین کرام کے مساعی جلیلہ نے صحیح احادیث کو غیر صحیح سے ممتاز کرکے پیش کیا۔ ایسے قواعد کی بنیاد ڈالی کہ جن کے ذریعہ موضوع احادیث کو احادیث مبارکہ سے الگ کیا جاسکے۔ صحت حدیث، سقم حدیث اور ضعف حدیث کو پہنچانا جاسکے۔
    ملا علی قاري رحمه الله تعالى تحریر فرماتے ہیں:
    جب عبد اللہ ابن مبارك رحمه الله تعالى (امام اعظم كے تلمیذ رشید) سے پوچھا گیا کہ یہ جو موضوع روایتیں ہیں ان کی نشاندہی کرنے والا کون ہوگا ؟انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالی ان کے لئے ماہر نقاد پیدا فرمائیگا ، پھر یہ آیت پڑھی {انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحفظون} حضرت عبد اللہ ابن مبارک کی مراد یہ ہے کہ قرآن کی حفاظت کی میں اس کے معانی کی بھی حفاظت داخل ہے، اور قرآن کے جملہ معانی میں سے احادیث نبویہ بھی ہیں جو الفاظ قرآن کی توضیح و تفصیل کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے {لتبین للناس ما نزل الیھم} پس حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کتاب و سنت دونوں کی حفاظت کی ذمہ لی ہے۔ (شرح نخبۃ الفکر- اسباب الوضع- لعلی القاریؒ)

    اسلامی بادشاہوں نے بھی بہت سارے ایسے لوگوں کو قتل کیا جو حدیث گڑھا کرتے تھے چنانچہ علامہ وجیہ الدین گجراتی نے اس تعلق سے نظہۃ النظر کے حاشیہ میں ایک واقعہ نقل کیا ہے
    ایک مرتبہ ہارون الرشید کو ایک بے دین‘ ملحد‘ زندیق شخص کی موجودگی کے متعلق معلوم ہوا۔ہارون رشید اس قسم کے فتنہ پرور لوگوں سے خوب واقف تھے۔ انہوں نے حکم دیا کہ اس زندیق کا سر قلم کردیا جائے۔زندیق کو معلوم ہوا تو اس نے ہارون سے کہا: چلئے‘ میں تو قتل ہو جائوں گا مگر آپ ان ایک ہزار جھوٹی احادیث کا کیا کریں گے جو میں نے خود بنا کر احادیث نبویہ میں شامل کردی ہیں۔ ان میں ایک لفظ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا نہیں ہے۔ ہارون نے برجستہ کہا: او خدا کے دشمن! کوئی فکر کی بات نہیں! ہمارے پاس ابو اسحاق فزاری اور ابن المبارک (امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد) جیسے لوگ موجود ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مکمل چھان پھٹک کرکے ایک ایک حدیث سے جعلی اور من گھڑت الفاظ نکال باہر کریں گے۔

    وضعِ حدیث پروعید

    عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى عن أنس أن النبي صلي الله عليه وسلم قال " من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار " (مسند الإمام الأعظم)
    امام ابوحنیفہ رحمہ الله تعالیٰ حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو مجھ پر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانہ جھنم میں بنالے۔
    امام بخاري نے اس طرح روایت کیا ہے
    عن عَلِيّ يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (لاَ تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَلِجِ النَّارَ)) (صحيح البخاري، رقم الحديث:١٠٦)
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر جھوٹ مت بولو۔ کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہو۔
    عن عامر بن عبد الله بن الزبير ،‏‏‏‏ عن أبيه ،‏‏‏‏ قال قلت للزبير إني لا أسمعك تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كما يحدث فلان وفلان‏.‏ قال أما إني لم أفارقه ولكن سمعته يقول ‏ ‏ من كذب على فليتبوأ مقعده من النار ‏(صحيح البخاري، الرقم:١٠٧)
    میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں، کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔

    عن عبد العزيز ،‏‏‏‏ قال أنس إنه ليمنعني أن أحدثكم حديثا كثيرا أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏ ‏ من تعمد على كذبا فليتبوأ مقعده من النار ‏(صحيح البخاري، الرقم:١٠٨)
    مجھے بہت سی حدیثیں بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
    یہ حدیث متواتر ہے۔اس حدیث کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کرنا گناہ کبیرہ اور جھنم میں لے جانے والا عمل ہے۔
    اس لیے حدیث کو ارسال کرتے وقت اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ کہیں وہ حدیث موضوع تو نہیں ہے۔ یاد رکھیے موضوع حدیث کی روایت کرنا ناجائز و حرام ہے حتی کے بعض محدثین نے کفر تک لکھا ہے۔ ہاں اگر موضوع حدیث کو روایت کرتے وقت اس کے موضوع ہونے کی صراحت کردی جائے تو جائز ہے۔

    سوشل میڈیا پر جو موضوع حدیث (بے نور ہوجائے اس کا چہرہ۔۔۔۔۔۔۔) شئر کی جارہی ہے وہ حدیث نہیں ہے۔بلکہ اس کا حدیث کی کتابوں میں نام و نشان بھی نہیں ہے۔
    البتہ ایک حدیث ہے جو اس طرح مروی ہے
    عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَوَعَاهَا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بَلَّغَهَا عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرِ فَقِيهٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ۔ (سنن ابن ماجہ، باب من بلغ علما، رقم الحدیث:٢٣٦)
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری حدیث سنی، اور اسے محفوظ رکھا، پھر میری جانب سے اسے اوروں کو پہنچا دیا، اس لیے کہ بہت سے علم دین رکھنے والے فقیہ نہیں ہوتے ہیں، اور بہت سے علم دین رکھنے والے اپنے سے زیادہ فقیہ تک پہنچاتے ہیں ۔

    اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ جو شخص حدیث کو شپئر نہ کرے اس کا چہرہ بے نور ہوجائے جیساکہ آج کے بعض لوگ سوشل میڈیا پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا میری آپ سے مودبانہ اور مخلصانہ گزارش ہے کہ آپ کسی بھی موضوع حدیث کو شئر کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں بھی اس کار بد سے روکنے کی پیہم کوشش کرتے رہیں۔۔۔۔
    جزاک اللہ احسن الجزا فی الدارین۔

    محمد اویس مصباحی
     
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    صرف موضوع ہی نہیں بلکہ ضعیف احادیث کو بھی ارسال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ اگر ضعیف ہونے کی صراحت کر دی جائے تو حرج نہیں ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں