لاہور:ٹی وی ایکٹریس کی کم سن ملازمہ تشدد کے بعد قتل

عائشہ نے 'خبریں' میں ‏جنوری 29, 2019 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    کچھ عرصہ قبل میری فرینڈ نے ٹی وی پروگرام کا ربط بھیجا۔ شام میں کچن میں کام کرتے وقت پروگرام سننا شروع کیا۔ اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان میں حالات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں۔یہ ایک تحقیقی صحافتی پروگرام کا ربط تھا جس میں بتایا گیا کہ ایک ٹی وی ایکٹریس نے اپنے گھر کے کام کے لئے ایک کمسن لڑکی کو ملازمہ رکھا۔ محض چھ ماہ کے عرصے میں اسکو اس حد تک بھوکا رکھا گیا اور اتنے خوف ناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ ایک بڑھیا دکھائی دینے لگی۔ ایک دن تشدد کی تاب نہ لاکر وہ بے ہوش ہوگئی تو سر سے بہتے خون کے ساتھ اسی واش روم میں بند کردیا گیا جہاں وہ عام طور پر سوتی تھی۔جی ہاں اس سے سونے کے لئے واش روم دیا گیا تھا جس میں کوئی بستر نہیں تھا شدید سردی کے موسم میں وہ واش روم کے فرش پر سوتی تھی۔ مر جانے پر اس کی لاش گندے نالے میں پھینک دی گئی، اور اس کے گھر والوں کو کہا گیا کہ وہ گھر سے زیورات چرا کر بھاگ گئی ہے اس دوران مالکن نے مزید مکاری کر کے ون فائیو پولیس کو اطلاع دی کہ ان کی ملازمہ گھر سے زیورات چرا کر کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔اس کی جان لوٹنے والوں نے اس کی عزت پر بھی بہتان لگا دیا۔ لیکن اس معصومہ کی لاش گندے نالے سے برآمد ہونے پر ایکٹریس، اس کی ماں اور رشتہ دار خاتون کے رچائے گئے ڈرامے کی حقیقت کھل گئی۔ بچی کا چہرہ بلیڈ سے کاٹا گیا تھا، اس کی ہڈیاں ٹوٹیں ہوئی تھیں اور ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ بااثر خاندان اپنی خواتین کو بچانے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ انٹرویو کے دوران ان عورتوں نے سائکوپیتھک انداز سے بات کی۔ انہیں اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ انہوں نے ایک انسانی جان کے چلے جانے پر ایک آنسو بھی نہیں بہایا ۔ انہیں اس بات کی شرمندگی بھی نہیں ہے کہ انہوں نے کتنا مکارانہ جال پھیلایا۔ جھوٹ مکاری اور دجالی کی شوبز انڈسٹری کی تربیت ایک کمسن بچی پر آزماتی رہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ مظلومہ مقتولہ کا باپ اور بھائی ٹھیک ٹھاک صحت مند اور برسرروزگار ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ لوگ اپنی بہن، اپنی بیٹی کو چند وقتوں کی روٹی بھی نہیں کھلا سکتے تھے؟ ایک 15 سال کی دھان پان لڑکی آخر کتنی روٹیاں کھا لیتی؟ لڑکی کی ماں زندہ نہیں تھی، کیا باپ اور بھائی کی انسانیت بھی مر گئی تھی کہ صرف ڈھائی ہزار کے عوض انہوں نے چھ ماہ تک اپنی بیٹی دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی، اس سے ملاقات بھی نہیں کی ، اس کا احوال بھی نہیں پوچھا اور مالکن کی طرف سے اس سے ملاقات نہ کرانے پر کسی اضطراب کا اظہار بھی نہیں کیا؟کیا یہی مردانگی ہے؟ کیا یہ ہے وہ تحفظ جو باپ اور بھائی کی طرف سے بیٹی اور بہن کو ملتا ہے؟ یہ ہیں وہ خون کے رشتے جن کو ڈھائی ہزار روپے کما کر دینے کی خاطر وہ دن رات دوسروں کی دی گئی ذلت برداشت کرتی تھی؟ جب اپنے اس حد تک بے حس ہوجائیں تو غیروں کو بھیڑیا بننے سے کون روک سکتا ہے؟ اس لڑکی کو کسی غیر نے قتل نہیں کیا اس معصوم بچی کو اپنوں کی بے حسی اور سنگ دلی کھا گئی۔صرف ایک چیز کا اطمینان ہے کہ معصوم عظمی اب ہر دکھ اور تکلیف کے احساس سے آزاد ہو چکی ہے۔اگر وہ زندہ ہوتی تو اس معاشرے کے پاس اسے دینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ اللہ تعالی اس صحافی کو نیک جزا دے جس نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اس معصومہ کو بعد از مرگ ہی سہی انصاف دلانے کی کوشش کی۔
     
    Last edited: ‏جنوری 29, 2019
  2. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    اف،
    ایک جاں بلب کے سامنے مکروہ و بھیانک قہقہے۔ اللہ غارت کرے ان ظالموں کو۔ آمین
    انسانیت اس حد تک گر سکتی ہے، کبھی سوچ بھی نہی سکتا تھا۔ مرتے ہوئے زخمی کتے کو بھی لوگ پانی پلا دیتے ہیں۔ کسی کو نزع کے عالم میں دیکھتے ہوئے خدا یاد آ جاتا ہے۔ مگر یہ معاشرے کے کیسے بھیانک کردار ہیں۔
    آپ کی بات صحیح ہے کہ اس ظلم میں سب سے زیادہ حصہ اس معصوم کے والدین کا ہے۔ جنھوں نے چند ٹکوں کی خاطر اپنے جگر کے ٹکڑے کو بیحس لوگوں کو بیچا۔ اب یہی لالچی والدین چند لاکھ روپے لے کر ان ظالموں کو معاف بھی کر دیں گے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  3. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    پولیس نے مقدمہ والد کی مدعیت میں درج کیا ہے تو یہی منطقی نتیجہ ہو گا۔حالاں کہ پولیس کو اس بات کی تفتیش کرنی چاہئے تھی کہ یہ چائلڈ بانڈڈ لیبر کا کیس تو نہیں۔
    اس کے علاوہ اسی احاطے میں رہنے والے پڑوسیوں کے کردار کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے جب کہ وہ اس بھیانک جرم کو چھپانے میں بہت حد تک ملوث ہیں ایک ہی گھر میں ایک احاطے میں رہنے والے لوگ لڑکی کی گرتی ہوئی صحت اور فزیکل ابیوز دیکھتے رہے لیکن ان سے اتنا بھی نہیں ہوسکا کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو فون کر دیتے۔ بعد میں انٹرویو دینے کا کیا فائدہ جب پہلے انسانیت کی مدد نہیں کر سکے۔
     
    • متفق متفق x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں