خطبہ حرم مدنی 12-04-2019 "ماہِ شعبان میں رسول ﷺ کا طرز عمل" از آل شیخ حفظہ اللہ

شفقت الرحمن نے 'خطبات الحرمین' میں ‏اپریل 12, 2019 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. شفقت الرحمن

    شفقت الرحمن ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2008
    پیغامات:
    753
    ﷽​
    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 07 شعبان 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "ماہِ شعبان میں رسول ﷺ کا طرز عمل" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ماہ شعبان میں بہت کم روزے چھوڑتے اور زیادہ تر ایام روزوں میں گزارتے تھے، آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ اس ماہ میں اعمال اللہ تعالی کے ہاں پیش کیے جاتے ہیں اس لیے میں روزے کی حالت میں رہنا پسند کرتا ہوں، آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ دو فضیلت والے مہینوں رجب اور رمضان کے درمیان شعبان کے مہینے سے لوگ غافل رہتے ہیں۔ سلف صالحین اس مہینے میں ماہ رمضان کی تیاری کے لئے قرآن مجید کو بہ کثرت یاد کرتے تھے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ شعبان کے آخری دنوں میں رمضان کے لئے احتیاط کے نام پر روزے رکھنا صریح حدیث کی مخالفت ہے، ایسے ہی شک کے دن کا روزہ رکھنا بھی صحیح نہیں، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: ایسی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے کہ جس میں نصف شعبان کی رات یا دن کو کوئی مخصوص عبادت کرنے کی تخصیص ہو، پھر آخر میں انہوں نے جامع دعا فرمائی۔

    اردو ترجمہ سماعت کرنے کے لئے کلک کریں۔

    عربی خطبہ کی ویڈیو حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

    پہلا خطبہ
    تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں وہ نیک لوگوں کا والی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی الٰہ الحق اور ہر چیز واضح کرنے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے ، چنیدہ نبی اور امام الانبیاء و المرسلین ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:

    لوگو! اللہ عزوجل سے ڈرو، اور اسی کی اطاعت کرو، نیز اسلام کو مضبوطی سے تھام لو، اپنے اندر تقوی الہی پیدا کرو گے تو عظیم ترین سعادت کے مستحق بن جاؤ گے {وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ} اور زادِ راہ لے لو، بیشک بہترین زادِ راہ تقوی ہے، اے عقل والوں مجھ سے ہی ڈرتے رہو۔ [البقرة: 197]

    اللہ کے بندو!

    ماہ شعبان بھی دیگر مہینوں کی طرح ہے کہ مسلمان اس میں اللہ کی جانب سے فرض کردہ ا مور بجا لائے، اللہ تعالی کی اطاعت کرے ، تمام تر گناہوں اور حرام کاموں سے اپنے آپ کو بچائے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ} اللہ کی جانب ہی استقامت اختیار کرو اور اسی سے بخشش مانگو۔[فصلت: 6]

    مزید یہ کہ ماہ شعبان کے ایسے فضائل ہیں جن پر مومن کو فوری طور عمل پیرا ہو جانا چاہیے، انہیں پانے کے لئے موقعے کو غنیمت جانے، چنانچہ بخاری اور مسلم میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ -اللہ تعالی ان سے اور ان کے والد سے بھی راضی ہو-کہتی ہیں کہ: (میں نے رسول اللہ ﷺ کو ماہ رمضان کے علاوہ کسی بھی مہینے میں پورے ماہ کے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا، اور نہ ہی آپ ﷺ کو شعبان سے بڑھ کر کسی مہینے میں [نفل] روزے رکھتے ہوئے دیکھا )

    بخاری اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: (رسول اللہ ﷺ شعبان سے بڑھ کر کسی بھی مہینے میں [نفل] روزے نہیں رکھتے تھے؛ کیونکہ آپ اس پورے مہینے کے روزے رکھتے) تاہم پورے مہینے کے روزے رکھنے کی روایت اکثر اور زیادہ تر دنوں کے روزے رکھنے پر محمول کی گئی ہے، جیسے کہ ابن مبارک اور ابن حجر رحمہما اللہ وغیرہ نے اس کی وضاحت کی ہے؛ کیونکہ صحیح مسلم میں ہے کہ: (رسول اللہ ﷺ چند دنوں کے علاوہ مکمل شعبان کے روزے رکھتے تھے)

    ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "شعبان کے روزے دیگر تمام مہینوں سے افضل ہیں۔" یہاں ان کی مراد مطلق روزے ہیں۔

    صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہ حدیث دلیل ہے کہ آپ ﷺ ماہ شعبان کو دیگر کسی بھی مہینے سے زیادہ روزوں کے لئے خاص فرماتے تھے"

    اسلامی بھائیو!

    اس مہینے کے دوران ایسے کام کرنے میں بالکل تاخیر نہ کرو جو تمہیں اللہ عزوجل کے قریب کر دیں، کیونکہ اس مہینے کی فضیلت ہے، اس مہینے کا سلف صالحین کے ہاں ماہِ قرّاء نام مشہور تھا؛ کیونکہ قرائے کرام کثرت کے ساتھ اس ماہ میں قرآن کریم کی دہرائی کرتے ہیں اور تلاوت قرآن کے لئے یکسو ہو جاتے ہیں۔ اس ماہ میں قرائے کرام قیام رمضان کی تیاری کے لئے کثرت سے قرآن کریم یاد کرنے کی پابندی کرتے ہیں۔

    اس لیے تاخیر مت کریں، فوری اور جلدی سے اس ماہ کو متنوع عبادات، نوافل اور نیکیوں سے معمور کر دیں، چنانچہ امام احمد اور نسائی نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: " اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتے ہیں؟" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ وہ مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان کے درمیان آنے کی وجہ سے لوگ اس سے غفلت کر جاتے ہیں، حالانکہ یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں رب العالمین کے ہاں انسانوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے عمل پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں۔) اس حدیث کو امام احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اہل علم نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

    ابن رجب رحمہ اللہ اس حدیث کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ وہ مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان کے درمیان آنے کی وجہ سے لوگ اس سے غفلت کر جاتے ہیں ، یہ کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ چونکہ اس مہینے کے آگے پیچھے دو عظیم مہینے ہیں ایک حرمت والا تو دوسرا روزوں کا مہینہ تو لوگ ان دونوں میں مشغول رہتے ہیں اور اس مہینے سے غفلت برتتے ہیں۔۔۔" انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ: "لوگ مشہور مہینے میں مصروف ہو کر شعبان کو بھول جاتے ہیں، یا پھر لوگ [شعبان کی]غیر مشہور فضیلت کو حاصل کرنے کا موقع ضائع کر بیٹھتے ہیں"

    جبکہ مسند احمد، سنن ابو داود اور نسائی وغیرہ میں جو حدیث آئی ہے کہ : (جب شعبان آدھا رہ جائے تو روزے مت رکھو) اس کے بارے میں اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند اور متن دونوں ہی محقق علمائے کرام کے ہاں منکر ہیں، نیز جن اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا بھی ہے تو ان کے ہاں اس کا معنی یہ ہے کہ جس کی روزے رکھنے کی عادت نہیں ہے تو اس کے لئے شعبان آدھا رہ جانے پر رمضان کے لیے احتیاط کے نام پر روزے رکھنا مکروہ ہے، بلکہ بعض اہل علم کے ہاں یہ احتیاط بدعت ہے۔

    اسلامی بھائیو!

    سنت کے مسلمہ اصولوں میں یہ شامل ہے کہ جس کسی مسلمان کی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھنے کی عادت نہ ہو، یا جو سوموار اور جمعرات کے روزوں کا عادی نہ ہو تو اس کے لئے رمضان سے ایک یا دو دن پہلے احتیاط کے نام پر روزہ رکھنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (رمضان سے قبل ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھو، سوائے اس شخص کے جو پہلے سے روزے رکھنے کا عادی ہو تو وہ رکھ لے) متفق علیہ

    سیدنا عمار بن یاسر-اللہ تعالی ان سے اور ان کے والد سے راضی ہو-کہتے ہیں کہ: "جس شخص نے ایسے دن میں روزہ رکھا جس کے متعلق شک تھا تو اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی" اس حدیث کو ابو داود اور ترمذی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ نیز امام بخاری نے اس کو بالجزم صیغے کے ساتھ معلق روایت کیا ہے۔

    اس لیے اللہ کے بندو! اس ماہ میں اور دیگر مہینوں میں اپنے اوقات کو ایسے کاموں سے معمور رکھو جو تمہیں اللہ تعالی کے قریب کر دیں، نیکیوں اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ} اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی جانب بڑھو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جسے متقین کے لئے تیار کیا گیا ہے۔[آل عمران: 133]

    اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ}اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لئے کیا پیش کیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ یقیناً اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ [الحشر: 18]

    اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور اللہ تعالی سے اپنے لیے اور سب مسلمانوں کے لئے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں۔



    دوسرا خطبہ
    ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ، دنیا اور آخرت میں وہی الہ ہے۔ اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد اللہ کے بندے اور اس کے چنیدہ رسول ہیں۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل اور متقی صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

    اہل ایمان!

    نصف شعبان کی رات کو قیام اور دن کو صیام کے ساتھ مختص کرنا ایسا کام ہے جس کی کوئی صحیح دلیل معصوم ﷺ سے نہیں ملتی، بلکہ بہت سے محققین اور علمائے کرام نے اس سے روکا ہے اور صراحت کے ساتھ اس عمل کو بدعت قرار دیا ہے۔

    اگر کسی نے رسول اللہ ﷺ کی جانب منسوب اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے کہ جس میں ہے کہ: (اللہ تعالی نصف شعبان کی رات لوگوں پر نظر فرماتا ہے ، پھر مشرک اور عداوت رکھنے والے کے سوا سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔) تو اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ اس رات یا دن میں کو کوئی مخصوص عبادات کی جائیں۔

    اللہ کے بندو!

    رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام پڑھنا افضل ترین عبادت ہے۔ یا اللہ! ہمارے نبی اور رسول محمد ﷺ پر رحمتیں، برکتیں، اور سلامتی نازل فرما ۔

    اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔

    یا اللہ! تمام صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین نیز ان کے نقش قدم پر روزِ قیامت تک بہترین انداز سے چلنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔

    یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! جو بھی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں برے ارادے رکھے اس کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا۔ یا اللہ! اس کی عیاری اسی کی تباہی کا باعث بنا۔ یا اللہ! اس کی عیاری اسی کی تباہی کا باعث بنا، یا ذالجلال والا کرام!

    یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ہم سب مسلمانوں کو ماہ رمضان نصیب فرما، یا اللہ! ماہ رمضان کو ہمارے لیے بابرکت بنا دے، یا رحمن!

    یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے اوقات تیری اطاعت میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرما۔ تیرے قرب اور رضا کی جستجو میں صرف کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ذالجلال والا کرام!

    یا اللہ! ہمارے حکمران اور ان کے ولی عہد کو تیرے پسندیدہ اور رضا کے موجب کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ذالجلال والا کرام!

    یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو صرف وہی کام کرنے کی توفیق عطا فرما جن میں ان کی رعایا کا بھلا ہو۔

    یا اللہ! مسلمانوں میں سے بہترین افراد کو ان کی حکمرانی عطا فرما، یا اللہ! انہی لوگوں کو زمام حکومت عطا فرما، جو تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیرا خوف ان کے دلوں میں ہیں۔ یا اللہ! انہی لوگوں کو زمام حکومت عطا فرما، جو تجھ سے ڈرتے ہیں اور تیرا خوف ان کے دلوں میں ہیں۔ یا اللہ! شریر حکمرانوں کو خود ہی کفایت کر جا، یا اللہ! شریر حکمرانوں کو خود ہی کفایت کر جا، یا اللہ! شریر حکمرانوں کو خود ہی کفایت کر جا، یاحیی! یا قیوم!

    یا اللہ! مسلمانوں کی پریشانیاں ختم فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں کی پریشانیاں ختم فرما دے، یا اللہ! مسلمانوں کی تکالیف دور فرما دے، یا اللہ! غریب مسلمانوں کو غنی بنا دے۔

    یا اللہ! تمام بیمار مسلمانوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! یاحیی! یا قیوم! تمام مسلم خطوں میں امن و سلامتی مستحکم فرما دے، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو امن و سلامتی کی نعمت عطا فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو امن و شانتی نصیب فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو امن و شانتی اور خوشحالی نصیب فرما، یا ذالجلال والا کرام!

    یا اللہ! سب مومن اور مسلمان مرد و زن کی مغفرت فرما دے، یا اللہ! زندہ اور فوت شدہ سب کی مغفرت فرما دے۔

    یا اللہ! ہم تجھ سے سخت آزمائشوں، بدبختی کے حصول ، برے تقدیری فیصلوں، اور دشمنوں کی پھبتی سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

    یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال، تیری عافیت کے خاتمے، تیری اچانک پکڑ، اور ہمہ قسم کی تیری ناراضی سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

    ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔

    پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پرنٹ کرنے کیلیے کلک کریں۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
    • مفید مفید x 1
  2. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا شیخ!
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...
Similar Threads
  1. اہل الحدیث
    جوابات:
    0
    مشاہدات:
    724
  2. شفقت الرحمن
    جوابات:
    1
    مشاہدات:
    1,565
  3. شفقت الرحمن
    جوابات:
    4
    مشاہدات:
    1,850
  4. ابو ھشام
    جوابات:
    0
    مشاہدات:
    881
  5. شفقت الرحمن
    جوابات:
    1
    مشاہدات:
    1,037

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں