لا ناھیہ اور لا نافیہ میں فرق

ہدایت اللہ فارس نے 'عربی علوم' میں ‏نومبر 4, 2020 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ہدایت اللہ فارس

    ہدایت اللہ فارس -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2020
    پیغامات:
    11
    تحریر: حافظ ہدایت اللہ فارس

    لاناھیہ میں طلب کا معنی پایا جاتا ہے، اور یہ صرف فعل مضارع پر ہی داخل ہوتا ہے اور اس کے آخر کو جزم دیتا ہے۔ اگر حرف علت وغیرہ ہو تو گرادیتا ہے ۔ جبکہ لا نافیہ میں اخبار کا معنی پایا جاتا ہے، اور یہ فعل مضارع پر کویی عمل نہیں کرتا ہے اسی طرح سے یہ جملہ اسمیہ پر بھی داخل ہوتا ہے۔۔

    لاناھیہ کی مثال۔۔ یا بني لا تشركْ بالله (اے بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنا)
    ولا تنس نصيبك من الدنيا (اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول)
    ولا تبطلوا أعمالكم ( اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو)
    ان تمام مثالوں میں لا ناھیہ ہے جو کہ طلب کا معنی دے رہا ہے جیسے اوپر کی مثال " لا تشرک باللہ " میں شرک سے بچنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اور فعل مضارع " تشرکْ " کو جزم دیا ہے اسی طرح باقی کی مثالوں میں بھی طلب کا معنی پایا جارہا ہے جو کہ ترجمہ سے واضح ہے اور آخر سے حرف علت و نون کو گرادیا ہے ۔۔

    لا نافیہ کی مثال ۔
    لا یحبُ اللہ الجھر بالسوء۔۔۔ ( برائى کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ پسند نہیں کرتا)

    فإن الله لا يرضى عن القوم الفاسقين . ( اللہ تعالیٰ ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہیں ہوتا)
    ولكن أكثرهم لا يعلمون ( لیکن ان میں کا اکثر نہیں جانتے )

    ان مثالوں میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لا نافیہ نہ تو فعل کو جزم دینے کا کام کیا ہے اور نہ ہی آخر سے حرف علت و نون کو گرانے کا کام کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ان تمام مثالوں میں اخبار کا معنی پایا جارہا ہے ناکہ طلب کا ۔۔

    لا نافیہ جملہ اسمیہ میں جیسے ۔۔ لا الہ الا اللہ۔ ۔۔، لا فیہا غول۔۔۔، لا ریب فیه۔۔ وغیرہ ذلک

    #نوٹ: اگر مضارع میں " لا" داخل ہوا ہو اور ہمیں معلوم کرنا ہو کہ یہ نافیہ ہے یا ناھیہ تو ہمیں پہلے اس کلام میں غور کرنا ہوگا کہ آیا اس میں طلب کا معنی پایا جارہا ہے یا اخبار کا اگر طلب ہو تو " ناھیہ" اور اگر اخبار ہو تو " نافیہ ۔۔۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں