دل کی غفلت اور اس کی علامات وعلاج

مقبول احمد سلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏جنوری 25, 2021 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. مقبول احمد سلفی

    مقبول احمد سلفی ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏اگست 11, 2015
    پیغامات:
    871
    دل کی غفلت اور اس کی علامات وعلاج

    مقبول احمد سلفی
    اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ طائف

    اللہ تعالی نے جتناخوبصورت انسانی جسم بنایا ہے اتنا ہی خوبصورت دل بھی بنایا ہے، یہ اپنی صورت میں بھی حسین وجمیل ہے اور روحانی طورپر بھی صاف وشفاف ہے ۔جس طرح خارجی اور ضرررساں عوامل سے جسم متاثر ہوتا ہے اور مرض وتکلیف سے دورچار ہوتا ہے اسی طرح داخلی طورپر روحانیت کو بیمار کرنے والے اسباب سے دل کو مرض وتکلیف لاحق ہوتی ہے۔روحانی طورپر متاثر ہوکر جب دل سخت، ٹیڑا، اندھا، بیمار، مہرشدہ، پردہ پڑا ہوا، تالا لگا ہوااور مردہ ہوجاتا ہے تو پھر اس کا شمار غافل میں ہوتا ہے یعنی اب وہ حق سے اور فائدہ مند چیزوں سے غافل ہوجاتا ہے، اس کے بعد دل نہ جسم کو حقیقی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی انسان کبھی حقیقت کا ادراک کرسکتا ہے۔اس بات کو دوسرے الفاظ میں کچھ اس طرح تعبیر کرسکتے ہیں کہ پورے جسم کا مدار دل ہے جب تک دل روحانی طورپر درست رہتا ہے تب تک پورا جسم اس سے فائدہ اٹھاتا ہے اور جب بیمار ہوجاتا ہے اس وقت سے جسم کو فساد لاحق ہوجاتا ہے۔ اس سے متعلق فرمان رسول ﷺ وارد ہے ۔
    ألَا وإنَّ في الجَسَدِ مُضْغَةً: إذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وإذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، ألَا وهي القَلْبُ(صحيح البخاري:52)
    ترجمہ: سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوگا تو سارا بدن درست ہوگا اور جب وہ بگڑا تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے ، سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔
    حدیث بھی وحی الہی ہے ، مطلب یہ ہوا کہ جس خالق نے انسانی جسم بنایا ہے اس نے دل کو پورے جسم کا محور بنایا ہے ، اس کا ٹھیک ہونا پورے جسم کے ٹھیک ہونے کی علامت ہے اور اس کا بگڑجانا پورے جسم کی تباہی وبربادی کا سبب ہے۔
    یہاں دل سے متعلق ایک بات اور جان لیتے ہیں کہ پورے جسم میں دل اس قدر اہم کیوں ہے ، اللہ نے کس مقصد کے تحت دل بنایا ہے ؟ چنانچہ اس بارے میں جہنمیوں کی صفت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے :
    وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف:179)
    ترجمہ: اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے ، یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ، یہی لوگ غافل ہیں۔
    یہاں اللہ رب العالمین نے آنکھ ، کان اور دل کےمتعلق بتایا کہ سب فائدہ اٹھانے کی چیزیں ہیں، ان اعضاء کو کام میں لاکر اپنے خالق کو پہچانے، اس کی آیات کامشاہدہ کرے اور حق والی باتوں کو سنے لیکن جب انسان ان اعضاء سے فائدہ نہیں اٹھاتا اور خالق کے بتائے ہوئے مقصدمیں استعمال نہیں کرتا تو وہ غافل شمار کیا جاتا ہے ، ایسا غافل جس کی مشابہت جانوروں سے دی گئی ہے بلکہ اس سے بھی بدتر۔
    اس آیت سے ہمیں یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ دل کا فطری عمل حق کو سمجھنا، انسانی وجود کا مقصدسمجھنا اور حق تعالی کی معرفت حاصل کرناہے، جب انسان دل کے اس فطری عمل کو انجام نہیں دیتا تو اس کو اور اس کے دل کو غافل کہاجاتا ہے دراصل یہی دل کی غفلت ہے۔
    دل کی غفلت منافقین، مشرکین اور کفاروملحدین کی علامت ہے اس لئے دل کی غفلت کو معمولی تصور نہ کریں ، ایک مسلمان بھی کافروں جیسی غفلت کا شکار ہوکر ان کی صف میں داخل ہوسکتا ہے اور انہیں جیسے انجام سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم مسلمان بھی غفلت کے شکار ہیں مگر کم ہی لوگ احساس کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ (الانبیاء:1)
    ترجمہ: لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا ہے پھر بھی وہ بے خبری میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
    اس آیت کی روشنی میں مسلمانوں کا جائزہ لیں کہ کتنے لوگ دین پر صحیح سے عمل کررہے ہیں ، مقصدحیات اور دین کے تقاضے پورا کررہے ہیں اور آخرت کی فکر کرکے اس کی تیاری میں لگے ہیں ؟ جواب ہوگابہت تھوڑے ۔ہم نے دل کی غفلت کا یہ مرض کیسے پال لیا ، کیا یہ اچانک جسم کو لگ گیا ؟ نہیں ۔ ہم نے اس کے لئے بہت محنت کی ہے ۔ جس طرح ایک بچے پر بامشقت محنت کرکے مختلف مراحل سے گزارکر کھاناپینا،چلناپھرنا، سوناجاگنا،بولناچالنااورلکھنا پڑھنا سکھاتے ہیں اسی طرح دل کو مسلسل نجس غذا فراہم کرنے کی وجہ سے غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ہم فرائض چھوڑتےہیں ، شعائر اسلام سے روگردانی کرتے ہیں ، کفر ونفاق اور معصیت وگناہ کے کام کرتے ہیں تو ان کاموں سے دل پہ غفلت کا پردہ پڑجاتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :كَلَّابَلْ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ (المطففین:14)
    ترجمہ: یوں نہیں ، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے۔
    یہاں جو رین کا ذکر ہے اس کا مطلب گناہوں کی وہ سیاسی ہے جو مسلسل معصیت کرنے سے دل پر چھا جاتی ہے اور دل کو کالا کلوٹا کردیتی ہے ۔
    ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    إنَّ العبدَ إذا أخطأَ خطيئةً نُكِتت في قلبِهِ نُكْتةٌ سوداءُ، فإذا هوَ نزعَ واستَغفرَ وتابَ سُقِلَ قلبُهُ، وإن عادَ زيدَ فيها حتَّى تعلوَ قلبَهُ، وَهوَ الرَّانُ الَّذي ذَكَرَ اللَّه كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ(صحيح الترمذي:3334)
    ترجمہ: بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہو جاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ «ران» ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت «كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون»(یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے) میں کیا ہے۔
    جس طرح دل کی غفلت جسم کے لئے انتہائی سنگین مرض ہےاسی طرح اس غفلت کا انجام بھی بہت بھیانک ہے ، آخرت میں جو معاملہ ہوگا وہ ہوگا ہی دنیا کی سزا بھی بہت سخت ہے ، اللہ فرماتا ہے :وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (الحشر:19)
    ترجمہ: اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے اللہ کے احکام کو بھلادیا تو اللہ نے بھی انہیں اپنی جانوں سے غافل کردیا اور ایسے ہی لوگ نافرمان(فاسق) ہوتے ہیں۔
    یعنی اللہ نے بطور جزا انہیں ایسا کردیا کہ وہ ایسے عملوں سے غافل ہوگئے جن میں ان کا فائدہ تھا اور جن کے ذریعے سے وہ اپنے نفسوں کو عذاب الہی سے بچا سکتے تھے ۔ یوں انسان خدا فراموشی سے خودفراموشی تک پہنچ جاتا ہے ۔اس کی عقل اس کی صحیح رہنمائی نہیں کرتی ، آنکھیں اس کو حق کا راستہ نہیں دکھاتیں اور اس کے کان حق کے سننے سے بہرے ہوجاتے ہیں نتیجتا اس سے ایسے کام سرزد ہوتے ہیں جن میں اس کی اپنی تباہی و بربادی ہوتی ہے۔ (تفسیر احسن البیان)
    اب آپ کے سامنے دل کی غفلت کی اہم علامات ذکرکرتاہوں جن کے ذریعہ اپنا محاسبہ کرسکتے ہیں اور معلوم کرسکتے ہیں کہ ہمارے اندر غفلت پائی جاتی ہے یا نہیں ؟ چنانچہ چار بڑی علامات کوذکر کرنا چاہتا ہوں جو اہم الاہم ہیں ۔
    (1) دل کی غفلت کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ انسان کا دل اللہ کی اطاعت کے کاموں میں مثلا نماز، روزہ ، تلاوت، ذکروغیرہ میں سستی محسوس کرے جبکہ معصیت کے کاموں میں مثلا ناچ گانے، موسیقی، فلمیں ، غیبت، بے حیائی ، حرام خوری اور حرام کاری میں سستی محسوس نہ كرے۔ اللہ نے منافق کی ایک نشانی بتلائی کہ جب وہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو سستی کرتا ہے ۔ (النساء:142)
    (2) غفلت کی ایک دوسری علامت یہ ہے کہ انسان معصیت کو معمولی سمجھتا ہے یعنی وہ نہ معصیت کواہمیت دیتاہے، نہ اسے ارتکاب معاصی پہ کسی کا خوف ہے اور نہ ہی اس سے بچنے کی فکر ہوتی ہے۔ وہ انجام وسزا سے بے خوف ہوکر گناہ کررہاہوتا ہے۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے اندازہ لگائیں کہ مومن گناہوں سے کس قدر خوف کھاتا ہے اور منافق کا حال کیسا رہتا ہے؟
    إنَّ المؤمنَ يرى ذنوبَه كأنه قاعدٌ تحت جبلٍ يخاف أن يقعَ عليه، وإن الفاجرَ يرى ذنوبَه كذبابٍ مر على أنفه(صحيح البخاري:6308)
    ترجمہ: مومن اپنے گناہوں کو ایسا خیال کرتا ہے جیسے پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہوا شخص یہ خوف کرتا ہے کہ کہیں پہاڑ اس پر نہ گر پڑے اور فاجر گناہ کو ایسا سمجھتا ہے کہ ناک پر سے مکھی اڑ گئی۔
    (3) غفلت کی ایک تیسری علامت یہ ہے کہ آدمی معصیت کوپسندکرتا ہے یعنی چاہت کے ساتھ برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس لئے وہ اس پہ شرمندہ ہونے کے بجائے فخر کرتا ہے اور لوگوں میں فخریہ بیان بھی کرتا ہے۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایاہے:
    كلُّ أمَّتي مُعافًى إلَّا المُجاهِرينَ ، وإنَّ منَ المُجاهرةِ أن يعمَلَ الرَّجلُ باللَّيلِ عملًا ، ثُمَّ يصبِحَ وقد سترَه اللَّهُ ، فيقولَ : يا فلانُ ، عمِلتُ البارحةَ كذا وَكذا ، وقد باتَ يسترُه ربُّهُ ، ويصبِحُ يَكشِفُ سترَ اللَّهِ عنهُ( صحيح البخاري:6069)
    ترجمہ:میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی ( گناہ کا ) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔
    گناہوں کا صدور تمام بنی آدم کی خصلت ہےاور ان پر شرمندہ ہونااور توبہ کرلینا مومن کی پہچان ہے مگر ان سے محبت کرنا، گناہ کرکے شرمندہ نہ ہونا، علی الاعلان گناہوں کا ارتکاب اور ان کا پرچار فاسق وفاجر کی علامت ہے۔
    (4) غفلت کی ایک چوتھی علامت یہ ہے کہ انسان مقصد حیات کو بھلاکر زندگی کو بے کاری اور فضول کاموں میں صرف کررہاہو۔ اس علامت کو مسلم سماج پر پیش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ ضیاع وقت میں مبتلا ہے ۔ اس معاملے میں عالم وجاہل، استاد وطلبہ، طفل وجوان اور عورت ومردکے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ،ہرکوئی دنیاوی حب اور معاشرتی رواج کے حساب سے گب شپ، لایعنی کام ، مہینوں مہینوں کے ٹورنامنٹ، لہوولعب، سیر وتفریح، وٹی وی سیریل، ڈرامے ، فلمیں ، موبائل وانٹرنیٹ کا بے مقصد كثرت استعمال، چغل خوری ، غیبت اور محفل وبازار کو بلامقصد آبادکرنے میں لگا ہوا ہے ۔ اگر یہ کہاجائے کہ دنیا كى نوے فیصد آبادی بلامقصد زندگی گزاررہی ہے یا اوقات کے ضیاع مبتلا ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا، ایسے ہی پس منظر میں رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے : نِعْمَتانِ مَغْبُونٌ فِيهِما كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّةُ والفَراغُ(صحيح البخاري:6412)
    ترجمہ:دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، صحت اور فراغت۔
    کسی کو اگر اللہ نے دولت دی یا عہدہ ومنصب دیا یا سماج میں شہرت ومقام دیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غافلوں میں سے نہیں ہے ،دنیا کی نعمتیں گناہگار کو بھی ملتی ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے اندر غفلت کی مذکورہ چار علامات میں کوئی علامت تو نہیں پائی جاتی ہے ، اگر پائی جاتی ہے تو واقعی ہمارا دل غفلت کا شکار ہے ۔ اب مختصر طورپر جان لیتے ہیں کہ اسلام نے دل کی غفلت کا علاج کیا بتلایا ہے تاکہ ہم غفلت کا علاج کرکے دل کو ایمان وتقوی اور سکون وراحت والا بناسکیں ۔
    دل کی غفلت کا سب سے کارگر علاج اللہ کا ذکر ہے ، اللہ کا فرمان ہے: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(الرعد:28)
    ترجمہ: یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔
    ذکرالہی سے دل كو اصل روحانی غذا ملتی ہے جس سے اس کو سکون ملتا ہے اور زندہ رہتا ہے اور عدم ذکر سے مردہ ہوجاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
    مَثَلُ الذي يَذْكُرُ رَبَّهُ والذي لا يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الحَيِّ والمَيِّتِ(صحيح البخاري:6407)
    ترجمہ: اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ جیسی ہے۔
    ذکرالہی میں اس قدر برکت ہے کہ وہ دل کو ہی نہیں اس جگہ اور گھر کو بھی زندہ کردیتا ہے جہاں ذکر کیا جاتا ہے ۔ رسول اللہ فرمان ہے :
    مَثَلُ البَيْتِ الذي يُذْكَرُ اللَّهُ فِيهِ، والْبَيْتِ الذي لا يُذْكَرُ اللَّهُ فِيهِ، مَثَلُ الحَيِّ والْمَيِّتِ(صحيح مسلم:779)
    ترجمہ: جس گھر میں اللہ کی یاد ہوتی ہے اور جس گھر میں نہیں ہوتی وہ مثل زندہ اور مردہ کے ہے۔
    یہی وجہ ہے کہ جب ایک صحابی نے رسول سے کہا:اے اللہ کے رسول! اسلام کے احکام تو میرے لئے بہت ہیں کچھ ایسی چیز بتادیجئے جن پر مضبوطی سے جما رہوں تو آپ نے فرمایا: لا يزالُ لسانُك رطبًا من ذكرِ اللهِ عزَّ وجلَّ(صحيح ابن ماجه:3075) یعنی تمہاری زبان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تر رہے ۔
    ذکرمیں اللہ کی توحید کا بیان ، عبادت،تلاوت، تسبیح وتہلیل، دعاومناجات اور توبہ استغفار سب شامل ہیں ۔ نماز ذکر کی عظیم صورت ہے اور سکون قلب کا باعث ہے ، اللہ فرماتا ہے : واقم الصلاۃ لذکری یعنی تم میرے ذکرکے لئے نماز قائم کیا کرو۔ بلکہ پنچ وقتہ نمازوں پہ محافظت غفلت کو دور کرتی ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
    من حافظ على هؤلاءِ الصلواتِ المكتوباتِ ؛ لم يُكتَب من الغافلين ، ومن قرأ في ليلةٍ مئةَ آيةٍ ؛ كُتِبَ من القانتين(صحيح الترغيب:1437)
    ترجمہ: جو شخص پنج وقتہ نمازوں کی محافظت کرتا ہے وہ غافلوں میں سے نہیں لکھا جاتا ہے اور جو رات میں سو آیات کی تلاوت کرتا ہے اطاعت گزاروں میں لکھا جاتا ہے۔
    اسی طرح ہم اللہ کا ذکر بجا لانے اور دلوں کی غفلت دور کرنے کے لئے ترجمہ وتفسیرکے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کریں ، نبی ﷺ نے جو تسبیحات سکھائی ہیں انہیں جانیں اور ان کا ورد کیا کریں جیساکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ کامعمول تھا ۔ نماز کے بعد کے اذکار ، صبح وشام کے اذکار اور سونے جاگنےاور دیگر مقامات کے اذکار کا اہتمام کریں۔ علم وذکر کی محفلوں میں شرکت کریں اور اہل ذکر کی مصاحبت اختیار کریں ۔ اللہ سے طاعت پر قلبی ثبات کی دعا کرتے رہیں ،نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
    ما مِن قلبٍ إلَّا بينَ إصبعينِ من أصابعِ الرَّحمنِ ، إن شاءَ أقامَهُ ، وإن شاءَ أزاغَهُ وَكانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يقولُ: يا مثبِّتَ القلوبِ ، ثبِّت قلوبَنا على دينِكَ(صحيح ابن ماجه:166)
    ترجمہ:ہر شخص کا دل اللہ تعالیٰ کی دونوں انگلیوں کے درمیان ہے، اگر وہ چاہے تو اسے حق پر قائم رکھے اور چاہے تو اسے حق سے منحرف کر دے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے تھے:اے دلوں کے ثابت رکھنے والے! تو ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔
    توبہ سے دلوں پہ پڑنے والی گناہوں کی سیاہی ختم ہوتی ہے لہذا توبہ کا التزام کریں ساتھ ساتھ ذکر سے غافل کرنے والے اعمال سے اجتناب بھی کرنا ہے ۔دنیا کی چاہت اور اس کا حصول ذکرالہی سے روکتاہے چنانچہ اپنے اندر سے حرص مال وزراور دنیا طلبی نکال پھینکناہے ، اللہ کا فرمان ہے :
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ(المنافقون:9)
    ترجمہ: اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کریں وہ بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں۔
    دلوں کی غفلت دورکرنے کے لئے موت کو کثرت سے یاد کریں اوراپنے اندر آخرت کی فکرپیدا کرتے ہوئے اس کی تیاری کریں ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں