تفسیر سورہ رعد - فہم القرآن

ابوعکاشہ نے 'ماہِ رمضان المبارک' میں ‏اپریل 18, 2023 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,966
    تفسیر سورہ رعد - فہم القرآن

    سورت کے نام:
    الرعد۔

    وجہ تسمیہ:
    الرعد: سورت کے اندر اللہ نے رعد (کڑک) کا ذکر کیا ہے، اور اسے دو متضاد چیزوں کے درمیان جمع کیا ہے:
    - ایک ناحیے سے یہ لوگوں کیلئے خوف اور رعب کا باعث ہے جبکہ دوسرے ناحیے سے اس کے اندر لوگوں کیلئے خیر کا باعث ہے یعنی اس کے اندر بارش ہوتی ہے۔
    - خارج سے اس کی آواز ڈراؤنی ہوتی ہے جبکہ باطن میں یہ اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔

    سورت کے آغاز و اختتام میں مطابقت:
    - سورت کا آغاز اس گفتگو سے ہوا ہے کہ اکثر لوگ ایمان والے نہیں ہیں، ارشاد باری تعالی ہے: (المر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الْحَقُّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ) ترجمہ: یہ قرآن کی آیتیں ہیں، اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے، سب حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں ﻻتے۔ (الرعد: ۱)۔
    - اور سورت کا اختتام بھی کافروں پر گفتگو سے ہوئی ہے جو کہ ایمان والے نہیں ہیں، ارشاد باری تعالی ہے: (وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ) ترجمہ: یہ کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں۔ آپ جواب دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہی دینے واﻻ کافی ہے اور وه جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔ (الرعد: ۴۳)۔
    اس میں اس بات کی تنبیہ ہیکہ ان کے پاس حق نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس پر ایمان لاتے ہیں باوجودیکہ حق بہت ہی واضح اور قوی ہے۔

    سورت کا مرکزی نکتہ:
    حق کی طاقت اور مضبوطی۔

    سورت کے موضوعات:
    ۱- اللہ کے کائناتی نشانیوں کا مشاہدہ کرنا اور ان میں غور و فکر کرنا، تاکہ اس سے اللہ کی الوہیت پر دلیل بنایا جائے ۔
    ۲- پچھلی امتوں کی ہلاکت اور اسکے اسباب سے آگاہی۔
    ۳- عقل کے استعمال کی فضیلت اور عقل والوں کے اوصاف اور انکے جزاء کا بیان۔
    ۴- انبیاء ورسل کے تعلق سے اللہ کی سنت کا بیان کہ وہ بھی بیوی بچوں والے ہوتے ہیں تاکہ یہ بعد والوں کیلئے نمونہ بن سکیں، اور بعد والے اس ذمیداری کو نبھا سکیں۔
    ۵- حق کی طاقت اور باطل کی کمزوری پر مثال بیان کرنا:
    - اس سورت نے واضح طور پر یہ بتادیا ہے کہ حق بالکل واضح ہے خواہ اسے لوگوں کی نگاہیں دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں، اور باطل بالکل کمزور شکست خوردہ ہے، گرچہ یہ لوگوں کو غالب دکھائی دے۔
    ۶- باطل کی متعدد شکلیں ہیں: ( گناہوں کا پھیلاؤ- فسق وفجور اور بے حیائی- جھوٹے تاجر- ظالم- کمزور کے حق کو مارنے والا طاقتور )۔
    اس طرح اس سورت کا پیغام بالکل واضح ہے کہ ہم ظاہر سے دھوکہ نہ کھائیں بلکہ ضروری ہے کہ ہم باطن میں بھی دیکھیں اور غور کریں، کیوں کہ حق ہی غالب ہوتا ہے اور باطل کمزور۔

    فوائد اور اہم نکات:
    ۱- پوری کائنات اللہ کو سجدہ کرتی ہے سوائے نافرمان اور کافر کے۔
    ۲- اللہ نے بیان کیا کہ اسکے ذکر سے سب کے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، حتی کہ کافروں کے دلوں کو بھی سکون ملتا ہے، اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت سن کر ایک کافر بھی خود کو سکون محسوس کرتا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: (الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ) ترجمہ: جو لوگ ایمان ﻻئے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔ (رعد: ۲۸)۔
    ۳- یہ اللہ کی سنت رہی ہے کہ گناہوں سے نعمتیں چھن جاتی ہیں، اسلئے اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس پر اللہ کی نعمتوں کا تسلسل باقی رہے تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور گناہوں کے سبب اس کے عذاب کا مستحق نہ بنے، دیکھیں آیت نمبر ۱۱۔
    ۴- عربی زبان کی تعلیم کا اہتمام کرنا چاہئے اس لئے کہ یہ قرآن کی زبان ہے، اور اسکے سمجھنے میں یہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے، دیکھیں آیت نمبر ۳۷۔
    ۵- ارشاد باری تعالی ہے: (اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ) ترجمہ: خدا وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو (اتنے) اونچے بنائے۔ پھر عرش پر جا ٹھہرا اور سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا۔ ہر ایک ایک میعاد معین تک گردش کر رہا ہے۔ وہی (دنیا کے) کاموں کا انتظام کرتا ہے (اس طرح) وہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم اپنے پروردگار کے روبرو جانے کا یقین کرو (الرعد:۲)۔
    (بغیر ستون کے): اس میں دو قول ہے:
    پہلا: آسمان بغیر ستون کے کھڑا ہے۔
    دوسرا : یہ ستونوں پر ہے مگر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔
    مگر راحج قول پہلا لگتا ہے اسلئے کہ اللہ تعالی نے دوسری جگہ فرمایا ہے: (أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ) ترجمہ: کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لئے مسخر کر دی ہیں اور اس کے فرمان سے پانی میں چلتی ہوئی کشتیاں بھی۔ وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر نہ گر پڑے، بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت ونرمی کرنے واﻻ اور مہربان ہے۔ (الحج: ۶۵)۔ (اضواء البیان )۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں