والد سے قصاص کا حکم اور نیا پاکستانی قانون

منہج سلف نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏جولائی 30, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    والد سے قصاص کا حکم اور نیا پاکستانی قانون


    دفعہ 306 کی شق "b اور c" کو ہم نے موخر کردیا تھا- ان شقوں کو ترمیمی بل میں دفعہ 300 "اa" ذریعے ختم کیا جارہا ہے (جوکہ اب تک ختم ہوچکا ہوگا)- موجودہ دفعہ 306 کی شق "b" میں کہا گیا ہے کہ اگر والد اپنی اولاد یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی خواہ کتنی ہی نیچے تک چلی جائے کے قتل کا مرتکب ہو تو قصاص کا حق ساقط ہوجائے گا- اسی طرح کلاز "سی" میں کہا گیا ہے کہ مقتول باپ کے بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی خواہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کا ہو، اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا-
    ان دونوں شقوں کو منسوخ کرنے کی تجویز، قرآن کریم، حدیث رسول ۖ، فقہ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ہے- قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے:
    { اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول ۖ}
    " احکام اللہ اور احکام رسول اللہ ۖ کی اطاعت کرو"-
    ایسی ہی اولی الامر کی اطاعت بھی رسول اللہ ۖ کے فیصلے کی تابع ہوگی-

    حضرت عمر بن خطاب رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
    " باپ کو اس کے بیٹے کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا-" (سنن ابن ماجہ: 2694)

    مزید براں جامع ترمذی اور سنن دارمی میں حصرت ابن عباس رض سے روایت ہے جس میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا:
    " مساجد میں حدود کا نفاذ نہ کیا جائے اور نہ ہی باپ سے بیٹے کا قصاص لیا جائے گا"

    حصرت عمر رض کے دور خلافت میں ایک شخص کو لایا گیا جس نے اپنے بیٹے کو قتل کردیا تھا تو آپ نے اس کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا:
    " میں تجھے قتل کردیتا اگر میں نے رسول اللہ ۖ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ باپ سے بیٹے کا قصاص نہ لیا جائے-"
    (مسند احمد:1/16-22، سنن بیہقی: 8/ 72، دارقطنی: 3/140)
    شاھ ولی اللہ نے بھی عمر رض کے فیصلے کا ذکر اپنی معروف کتاب " ازالۃ الخفاء" میں کیا ہے- اس دور کے عظیم محدث شیخ ناصر الدین البانی نے ابن عباس رض کی روایت کو حسن اور عمر رض کے روایت کو حدیث صحیح بتلایا ہے-
    جسٹس عبدالقادرہ عودہ رح لکھتے ہیں:
    " قصاص کے امتناع کے عمومی اسباب میں سے پہلا یہ ہے کہ مقتول قاتل کو جز ہو۔۔۔۔۔۔"

    ایسے ہی ائمہ اربعہ رح کے نزدیک باپ بیٹے پر قتل سے کمتر کسی بھی جرم کا ارتکاب کرے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا-"
    (اسلام کا فوجداری قانون: 2/395، 295 تا 298)
    یہاں ہم اپنے ایک کیس کا فیصلہ جو سپریم کورٹ کے فل بینچ نے ہماری رویو پٹیشن پو صادر کیا، کا حوالہ دیں گے- یہ فیصلہ خلیل الزماں کیس کے نام سے 1993 میں رپورٹ ہوا ہے جس میں اسی مسئلہ کے بارے میں حدیث اور فقہ کے حوالوں سے بحث کرتے ہوئے قرار دیا گیا ہے کہ "باپ سے بیٹے کے قتل پر قصاص نہیں لیا جائے گا-"
    فاضل عدالت عطمی نے اسلامی قانون کے اس فیصلے میں " کتاب الاختیار" اور " بدائع الصنائع فی الترتیب الشرائع" کے حوالے دیے ہیں- شق "c" میں کہا گیا ہے کہ اولاد اپنے باپ، دادا کی ولی (وارث مقتول) ہونے کے اصول کی بنا پر قصاص سے مستشنی ہوگی-
    معلوم ہوتا ہے کہ ترمیمی بل کے مرتبین کو ماں، باپ، بیٹا، بیٹی کے فطری پیار محبت اور شفقت کے رشتوں کا پوری طرح ادراک ہی نہیں- انہوں نے اسے سانپ اور سنپولیوں کا رشتہ سمجھ لیا ہے- کہا جاتا ہے کہ مادہ سانپ اپنے بچوں کی پیدائش پر ہی حیوانی بھوک مٹانے کی خاطر خاصی تعداد میں ان کو ہڑپ کرجاتی ہے- ماں باپ اور اولاد کو وہ شاید اسی طرح کی مخلوق سمجھتے ہین- معلوم نہیں ہمارے دور جدید کے ان خود ساختہ فقیہان مجلس شوری (پارلیمنٹ) کو یہ استحقاق کہاں سے حاصل ہوگیا کہ وہ قرآن و سنت اور آئین پاکستان کے خلاف قانون سازی کریں- یہ دین و آئین اور اسلام کے خلاف بغاوت ہے- کتاب زندہ قرآن حکیم کی موجودگی میں ایسی اپنی موت آپ ہی مرجائيں گی-
    ان حضرات کو کیا یہ علم نہیں کہ بعض لوگ جائیداد بچانے کی خاطر اپنی خواتین کی شادی معاذ اللہ قرآن سے کرکے ان کو زندہ درگور کردیتے ہیں، اس کارے میں وہ کیوں قانون سازی نہیں کرتے؟ کیا انہیں علم نہیں کہ بعض قتل غیرت، کارو کاری، کالا کالی کے نام پر زمینوں اور جائیداد کے تنازعات کی دشمنوں کی بنا پر ہوتے ہیں- یہ فساد فی الارض زمیندارانہ، جاگیدارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے-
    یہ اس نظام کی ہلاکت خیز خرابیوں کو جڑ سے کاٹنے کے لیے قانون سازی کیوں نہیں کرتے؟
    اس کی بجائے یہ اس درخت کی شاخوں کو کاٹنے پر آمادہ ہیں جس کی شاخوں پر یہ خود بیٹھے ہوئے ہین- ان کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی عقل نارسا کو حکمت الہی کے تابع کردیں اور ان غیر اسلامی ترامیم سے دستبردار ہوکر اور اس کو ختم کرکے دین و دنیا میں سرخرو ہوجائيں- ان شاءاللہ
    اقتباس: ماہنامہ محدّث نومبر 2004
    از: محمد اسماعیل قریشی (سینیئر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ9
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں