پندرھویں شعبان اور اس کی بدعات

ابوعکاشہ نے 'ماہِ شعبان المعظم' میں ‏اگست 4, 2008 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,951
    پندرہویں شعبان اور اس کی بدعات:


    اسلام ایک مکمل دین ہے، اس میں ذرہ برابر بھی کمی وبیشی کی گنجائش نہیں ہے ۔
    ارشاد باری تعالی ہے :
    [ar](الیوم اکملت لکم دینکم ،واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا)[/ar]
    ترجمہ : آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا ،،(سورئہ مائدہ:٣)

    نیز اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
    [ar](ام لہم شرکاء شرعوا لہم من الدین ما لم یاذن بہ اللہ ، ولولا کلمة الفصل لقضی بینہم ، وان الظالمین لہم عذاب الیم)[/ar]
    ترجمہ : کیا ان لوگوں نے ایسے(اللہ کے)شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فر مائے ہوئے نہیں ہیں ،اگر فیصلے کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کردیا جاتا،یقینا(ان)ظالموں کے لئے ہی دردناک عذاب ہے ،،(سورہ شوری:٢١)

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    [ar]من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھورد[/ar]
    ترجمہ : جس نے کار خیر سمجھ کر کوئی کام کیا اور اس کا م کامیں نے حکم نہیں دیا تو وہ عمل مردود ہے ،،.(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب :٨ حدیث نمبر :١٧١٨)
    ایک مسلمان کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی اتباع ہی کافی ہے ،
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
    [ar]فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین ، تمسکوا بہا وعضوا علیہا بالنواجذ ویاکم ومحدثات الامور ، فن کل محدثة بدعة ، وکل بدعة ضلالة ،،وفی روایة النسائی ٫٫وکل ضلالة فی النار[/ar]
    ترجمہ : مسلمانو! تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے ہی کو اختیار کرنا اور اسے مضبوطی سے تھامے رکھنا اور دین میں اضافہ شدہ چیزوں سے اپنے کو بچاکررکھنا اس لئے کہ دین میں نیا کام ( چاہے وہ بظاہر کیسا ہی ہو) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ ہر گمراہی جہنم تک لے جانے والی ہے ،،( ابو داود کتاب السنۃ باب :٥حدیث : ٤٦٠٧ اور نسائی کتاب الخطبۃ باب :٢٢حدیث :١٥٧٦)
    اس معنی کی بیشمار آیات واحادیث ہیں جو صریح طور پر دلالت کر تی ہیں کہ اللہ تعالی نے اس امت( محمدیہ )پر اپنے دین کی تکمیل فرمادی ہے .اللہ کے مشروع کردہ جملہ اقوال وافعال کو امت کے سامنے بیان کرنے کے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی قول وعمل ایجاد کر کے دین کی طرف منسوب کیا جائے گا وہ بد عت ہوگا اور ہر بدعت بدعتی کے منہ پر دے ماری جائیگی۔

    بعض لوگوں کی ایجاد کردہ بدعات میں سے بعض بدعتیں شعبان کی پندرہویں رات کی ہیں، مگر جمہور علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پندرہویں شعبان اور اس کی رات کی فضیلت میں وارد ہونے والی روایتیں ضعیف اور بعض موضوع اور بے اصل ہیں ۔

    اگر کسی رات کو عبادت کے لئے خاص کرنا جائز ہوتا تو جمعہ کی رات دیگر راتوں کی بہ نسبت عبادت کیلئے زیادہ موزوں اور مناسب تھی ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن سے متعلق فرمایا:
    [ar]خیر یوم طلعت علیہ الشمس،یوم الجمعة[/ar]
    ترجمہ : سب سے اچھا دن کہ جس دن سورج طلوع ہوا، وہ جمعہ کا دن ہے( مسلم کتاب الجمعہ باب:٥حدیث:١٧)
    لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی رات کو اس دن کی بے شمار فضیلتوں کے باوجودعبادت کیلئے خاص کرنے سے منع فرمادیا:
    [ar]لاتختصوا لیلة الجمعة بقیام من بین اللیال[/ar]
    جمعہ کی رات کو عبادت کیلئے خاص مت کرو،،مسلم کتاب الصیام باب:٢٤حدیث:١٤٨)

    تو دیگر راتوں کو بدرجہ اولٰی کسی بھی قسم کی عبادت کے لئے خاص کرنا جائز ودرست نہیں مگر یہ کہ کوئی صحیح دلیل ہو جس سے تخصیص کا پتہ چلتا ہو.البتہ ماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنا تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھاہے کہ شعبان سے زیادہ(رمضان کے بعد) کسی مہینہ میں روزہ رکھتے ہوں،چند دن چھوڑ کر پورے ماہ روزہ رکھتے تھے،،( ترمذی کتاب الصوم باب:٣٧حدیث: ٧٣٦)اسی طرح ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ٫٫میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے علاوہ کسی اور دو مہینے مسلسل روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ،،(ترمذی کتاب بالصوم باب:٣٧حدیث:٧٣٦)

    ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شعبان میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے مگر پندرہویں شعبان کی تخصیص کے ساتھ نہیں ، ہمیں بھی چاہئے کہ اس مہینہ میں ہم زیادہ سے زیادہ روزہ رکھیں ، تاہم پندرہویں شعبان کے بعد روزے نہ رکھے جائیں کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر شفقت کی بناپر منع فرما دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:
    [ar]اذا بق نصف من شعبان فلا تصوموا،،
    یعنی پندرہیوں شعبان کے بعد روزہ مت رکھو،،(ترمذی کتاب الصوم باب:٣٨حدیث:٧٣٨)[/ar]

    پندرہویں شعبان کے بعد ممانعت اس لئے ہے کہ پورے شعبان کے روزے رکھ کر کہیں نقاہت اور کمزوری نہ آجائے اور پھر رمضان کے روزے رکھنے میں دقت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے، رہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ تو انہیں خصوصی طاقت عطا کی گئی تھی. اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ،آمین یا رب العالمین

    پندرہویں شعبان کی فضیلت سے متعلق کچھ ضعیف اور موضوع روایتیں:
    پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت سے متعلق متعدد روایتیں ہیں اور وہ سب کی سب ضعیف یا پھر موضوع ہیں جن سے استدلال کرنا درست نہیں.ضعیف حدیث کے سلسلہ میں ایک اہم قائدہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ذکر کیا ہے وہ فرماتے ہیں: ضعیف حدیثوں پر عبادات کے باب میں اس وقت عمل کیا جائیگا جب کہ اس کی اصل صحیح دلیل سے ثابت ہو لیکن پندرہویں شعبان کی رات کو منانے والے جشن کے بار ے میں کوئی دلیل اصل نہیں ہے ،،(خانہ ساز شریعت٤٧)
    پندرہویں شعبان سے متعلق کچھ ضعیف اور موضوع رواتیں تنبیہ اور آگاہ کرنے کی خاطر یہاں ذکر کی جاتی ہیں کیوں کہ انہیں روایتوں کی وجہ سے امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد راہ حق سے دور ہوئی ہے ، وہ روایتں مختصراً مندرجہ ذیل ہیں:
    ١۔پندرہویں شعبان کی رات کو بارہ رکعت والی نمازپڑھنے کی فضیلت سے متعلق روایت (امام ابن جوزی فرماتے ہیں : یہ روایت صحیح نہیں ہے)
    ٢۔ پندرہویں شعبان کی رات کو سو رکعت والی نماز پڑھنے کی فضیلت والی روایت(امام شوکانی فرماتے ہیں: یہ روایت موضوع ہے )
    ٣۔نصف شعبان کی رات کو قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے والی روایت(علامہ البانی فرماتے ہیں: یہ روایت بہت ضعیف ہے یا موضوع ہے )
    ٤۔شب برات کا ایک روزہ ساٹھ سال گزشتہ اور ساٹھ سال آئندہ کے روزے کے برابر ہے (امام ابن جوزی فرماتے ہیں: اس روایت کی اسناد تاریک ہے)
    ٥۔پندرہویں شعبان کی رات کوچودہ رکعت والی نمازپڑھنے کی فضیلت سے متعلق روایت(امام بیہقی فرماتے ہیں: یہ روایت موضوع ہے)
    ٦۔پندرہویں شعبان کی رات کو قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت والی روایت(علامہ البانی فرماتے ہیں: یہ روایت ضعیف ہے )
    ٧۔پندرہویں شعبان کی رات کوجاگ کر عباد ت کرنے سے متعلق فضیلت والی روایت(علامہ عبید اللہ رحمانی فرماتے ہیں:یہ روایت ضعیف ہے )
    ٨۔پندرہویں شعبان کی رات کو سال بھر کی موت وحیات کا فیصلہ ہونے والی روایت( علامہ البانی فرما تے ہیں: یہ روایت ضعیف ہے)
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت میں جتنی روایات ہیں سب ضعیف اور باطل ہیں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں اسی لئے ایسی حدیثیں بخاری ومسلم میں جگہ نہ پا سکیں.جب ضعیف حدیث حجت ہی نہیں تو یہ فضیلت ثابت کہاں سے ہوتی ؟اگر یہ رات فضیلت کی رات ہوتی تو صحابہ کرام میں اس کا چرچا ہوتا ، مشہور اور ثقہ راوی اسے روایت کرتے اتنی اہم بات جس کا عام چرچا ہونا چاہئے صرف ضعیف راویوں ہی کو کیسے معلوم ہوئی؟اس لئے ان ضعیف روایتوں کا سہارا لے کر اس رات کی فضیلت کو بیان کرنا یا اسے تہوار کی شکل دینا قطعاً جائز ودرست نہیں۔

    پندرہویں شعبان کی چند اہم بدعات
    یوں تو پندرہویں شعبان کی بہت ساری بدعات ہیں اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا چلاجارہا ہے، مگر بطور نمونہ یہاں چند کاذکر کیا جاتا ہے .
    ١۔پندرہویں شعبان کی رات کومحفلیں منعقد کرنا،مسجدوں میں جمع ہوکر قیام اللیل کرنا اور اجتماعی دعائیں کرنا.
    ٢۔مسجدوں میں مخصوص نماز پڑھنے کیلئے جمع ہونا مثلاسو رکعتیں ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص پڑھکر ادا کرنا.
    ٣۔پندرہویں شعبان کی رات کو مخصوص دعائیں کرنا جیسے [ar]اللہم یا ذا المن ولا یمن[/ar] ....الخ،،.
    ٤۔پندرہویں شعبان کی رات کو خصوصیت کے ساتھ قیام اللیل کرنا اور دن میں روزہ رکھنا.
    ٥۔پندرہویں شعبان کی رات کو خصوصیت کے ساتھ سورہ یسن کی تلاوت کرنا، اور قبروں کی زیارت کرنے کیلئے قبرستان جانا.
    ٦۔ما ہ شعبان میں مردوں کی روحوں کی طرف سے صدقات وخیرات کرنا
    .٧۔ماہ شعبان میں ایصال ثواب کی غرض سے قرآن خوانی کروانا.
    ٨۔پندرہویں شعبان سے ایک دو دن پہلے قبروں کو درست کرنا،لیپنا پوتنا،پندرہویں شعبان کی رات کو اس پر چراغاں روشن کرنا ،قمقمہ جلانا،پھول پتیاں چڑھانا،اگربتیاں جلاناوغیرہ یہ مجوسیوں اور ہندؤں کے رسم ورواج ہیں .
    ٩۔ پندرہویں شعبان کو مختلف قسم کے حلوے پکانا .
    ١٠۔مردوں کی عید سمجھنا ، بعض مسلمانوں کا یہ عیقدہ ہے کہ کوئی شخص شب برات سے پہلے مرجائے اور جب تک شب برات میں حلوہ پور ی اور چپاتی پر فاتحہ نہ کی جائے وہ مردوں میں شامل نہیں ہوتا ہے .
    ١١۔یہ عقیدہ رکھنا کہ پندرہویں شعبان کو حلوہ وغیرہ نہ بنایا جائے تو مردوں کی روحیں دیواریں چاٹ کر واپس چلی جاتی ہیں .

    اللہ تعالی ہم سب کو ان بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے ،آمین
     
  2. مجیب منصور

    مجیب منصور -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏جنوری 29, 2008
    پیغامات:
    2,150
    بھترین مضمون ہے اللہ تعالی ہم سب کو بدعات اور بدعتیوں سے محفوظ فرمائے ۔۔آمین۔۔۔
     
  3. مون لائیٹ آفریدی

    مون لائیٹ آفریدی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏ستمبر 22, 2007
    پیغامات:
    4,799
    ثم آمین
     
  4. سید تفسیر حیدر

    سید تفسیر حیدر -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏جون 1, 2007
    پیغامات:
    99
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. asimmithu

    asimmithu -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏فروری 26, 2010
    پیغامات:
    182
    جزاک اللہ بھائی بہت ہی مفید پوسٹ۔
    آج کل پھر یہ دن آنے والا ہے اللہ ہم سب کو بدعات سے بچائے اور قرآن و سنت کے مطابق اعمال کرنے کی ہی توفیق عطاء فرمائے آمین
     
  6. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    آمین
     
  7. جاسم منیر

    جاسم منیر Web Master

    شمولیت:
    ‏ستمبر 17, 2009
    پیغامات:
    4,636
    جزاکم اللہ خیرا
    اللہ تعالیٰ ان بدعات سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔
     
  8. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں