فتنہ کےوقت ۔ ۔ ۔ ۔

فتاة القرآن نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏اپریل 11, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. فتاة القرآن

    فتاة القرآن -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 30, 2008
    پیغامات:
    1,444
    فتنہ کےوقت علیحدگی اختیار کرنےکا استحباب اورمسلمان کا اپنےدین پر خوف

    میں نے مندرجہ ذیل حدیث پڑھی ہےجسے بخاری رحمہ اللہ تعالی نےنقل کیاہےلیکن میں اس کا معنی نہیں سمجھ سکا ۔
    حدیث بالمعنی یہ ہے( ایک ایسازمانہ آئےگا کہ مسلمان کا سب سےبہترمال اس کی بکریاں ہوں گی وہ فتنہ کی وجہ سے اپنے دین کوبچاتےہوئےانہیں لےکر پہاڑوں کی طرف نکل جائےگا)
    گزارش ہےکہ آپ اس حدیث کےمعنی کی وضاحت کریں ۔


    الحمدللہ

    حدیث کی شرح :

    اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نےاپنی صحیح میں کئی ایک مقام پرنقل کیاہےان میں سےکتاب الفتن میں یہ حدیث نمبر۔(7088) ہےجسےابو سعیدخدری رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سےبیان کیاہے ۔


    ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    ( قریب ہےکہ مسلمان کاسب سےبہتر مال اس کی بکریاں ہوں جنہیں وہ لےکر پہاڑوں کی چوٹیوں اور پانی کی جگہوں پر چلاجائے تاکہ وہ فتنوں سےاپنےدین کو بچائے )۔

    اوراسی طرح امام مسلم نےبھی صحیح مسلم میں ایسی ہی حدیث بیان کی ہے :

    ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر پوچھنےلگا لوگوں میں سے سب سے افضل کون ہے ؟

    تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
    وہ شخص جوکہ اپنے مال اور جان کو لیکر اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرے

    اس شخص نےکہااس کےبعدکون افضل ہے ؟

    تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: وہ مومن جو پہاڑوں کےدرمیان گھاٹیوں میں اللہ تعالی کی عبادت کرے اور لوگوں کو شر کی وجہ سے چھوڑ دے ۔
    صحیح مسلم حدیث نمبر۔(1888)


    امام نووی رحمہ اللہ تعالی کا صحیح مسلم کی شرح میں یہ قول ہےکہ: یہاں سےخاص طور پرنفس گھاٹی مرادنہیں بلکہ اس سے مراد انفراد اور علیحدگی ہے اور شعب کو اس لئے ذکر کیا کہ وہ غالب طور پرلوگوں سےخالی ہوتی ہے
    شرح صحیح مسلم للنووی جلدنمبر۔(13۔صفحہ نمبر۔34)

    تویہ حدیث فتنوں کی کثرت کی بناپر اپنے دین پرڈرتے ہوئے اس سے بچنے کے لئے لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنے اور اور ان کےساتھ میل جول نہ رکھنےکی فضلیت پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ اگر اس نے لوگوں سے میل جول رکھا تو اپنے دین پر قائم نہیں رہ سکتا۔ وہ ان فتنوں کےسبب مرتد ہو جائےگا یا پھر حق سے ہٹ جائےگا یا شرک میں پڑجائے گا اور یا پھر اس کے ارکان اور بنیادی اشیاء ترک دے گا وغیرہ ۔


    حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی نےفتح الباری میں ذ کرکیاہےکہ:

    یہ حدیث اس بات کی دلالت ہے کہ جو اپنے دین پر ڈرے اس کے لئے علیحدگی افضل ہے ۔
    فتح الباری جلدنمبر۔(13۔صفحہ نمبر۔42)

    اور امام سندی نے نسائی کےحاشیہ میں کہا ہے کہ:

    اس حدیث میں اس بات کا جواز ہے کہ فتنوں کے دنوں میں علیحدگی اختیار کرنا جائز بلکہ یہ افضل ہے ۔نسائی حاشیہ سندی جلدنمبر۔(8۔صفحہ نمبر۔124)

    اور دوسری حدیث جوابھی ذ کر کی گئی ہے اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علیحدگی اختیار کرنے والے مومن کو فضیلت میں مجاھد فی سبیل اللہ سے کچھ کم درجہ قرار دیا ہے۔

    حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی نےفتح الباری میں کہاہےکہ:

    علیحدگی اختیار کرنے والا مومن اس لئے پیچھے ہے کیونکہ وہ جو لوگوں کےساتھ میل جول رکھتاہے وہ گناہوں کےارتکاب سے نہیں بچ سکتا اور ہو سکتا ہےکہ یہ گناہ اس کی ان نیکیوں سےزیادہ ہوجائیں جوکہ اسےلوگوں کےمیل جول کیوجہ سےحاصل ہوں ۔

    لیکن علیحدگی کی فضیلت فتنوں کےوقت کےساتھ خاص ہے
    دیکھیں فتح الباری جلدنمبر۔(6۔صفحہ نمبر۔6)

    اورفتنوں کے وقت کے علاوہ مسلمان کا اپنےدین کو بچانےکے لئے لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنے میں علماءکا اختلاف ہے ۔


    جمہور کا مسلک یہ ہےکہ اس وقت لوگوں سے اختلاط اور میل جول رکھنا علیحدگی اختیار کرنے سے بہتر ہے اور ان کےدلائل یہ ہیں :

    1۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے پہلے سب انبیاءعلیھم السلام کا یہی حال تھا اور جمہور صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنھم بھی اسی طرح تھے ۔
    دیکھیں شرح مسلم للنووی رحمہ اللہ تعالی جلدنمبر۔(13۔صفحہ نمبر۔34)

    2۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:

    ( وہ مومن جوکہ لوگوں سےمیل جول اور اختلاط رکھتاہے اور ان کی تکلیفوں پر صبر کرتاہےوہ اس مومن سےبہتر اور اجر میں بڑاہے جو کہ لوگوں سےمیل جول اور اختلاط نہیں رکھتا اور ان کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا )۔
    سنن ترمذی حدیث نمبر۔(5207) سنن ابن ماجہ ۔(2 / 493) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نےاس حدیث کوصحیح ترمذی حدیث نمبر۔(2035) میں صحیح کہاہے ۔

    امام سندی نےسنن ابن ماجہ پراپنےحاشیہ میں کہاہےکہ:

    ( حدیث اس بات پردلالت کرتی ہے کہ لوگوں سے میل جول اور تعلق رکھنے والا اور اس پر صبر کرنے والا علیحدگی اختیار کرنے والے سے افضل و بہتر ہے )
    ابن ماجہ حاشیہ سندی ۔ (2/ 493)

    اورامام صنعانی نےسبل السلام میں کہاہےکہ:

    ( اس حدیث میں اس کی فضلیت ہےجو کہ لوگوں سے ایسا میل جول رکھتا ہے جس میں وہ امربالمعروف اور نھی عن المنکرکا کام کرتارہے اور ان سےمعاملات میں بھی اچھا سلوک کرے تو وہ اس سے افضل ہےجو کہ علیحدگی اختیار کرتا اور اس میل جول پرصبر نہیں کرسکتا )
    دیکھیں سبل السلام للصنعانی ۔(4/416)

    3۔ابوہریرہ رضی اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ:

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص پہاڑوں کے درمیان گھاٹی میں سے گزرا جہاں پر میٹھے پانی کا چشمہ تھا جو کہ اسے اچھا لگا تو وہ کہنے لگا: اگر میں لوگوں سےعلیحدگی اختیار کرکے اس گھاٹی میں رہوں لیکن میں یہ کام اس وقت نہیں کروں گا جب تک کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےاجازت نہ لے لوں تو اس نے اس بات کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےذ کر کیاتو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:

    ( ایسانہ کرو کیونکہ تمہارا اللہ تعالی کے راستہ میں رہنا اس کے گھر میں نماز پڑھنےسےستر برس بہتر اور افضل ہےکیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالی تمہیں بخش دے اور تمہیں جنت میں داخل کرے ؟ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرو جس نے اللہ تعالی کے راستے میں اونٹنی کے دودھ دھونےکے درمیانی وقفےکے برابر بھی قتال وجہاد کیااس کےلئےجنت واجب ہوگئی ۔)
    سنن ترمذی حدیث نمبر۔(1574) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نےصحیح ترمذی حدیث نمبر ۔(1348) میں اسےحسن فراردیاہے ۔

    4 ۔ مسلمان کا لوگوں سے میل جول کی وجہ سےشرعی مصلحتیں حاصل ہوتی ہیں جو کہ بہت نفع بخش ہیں مثلا اسلامی اشعار کاقیام ،مسلمانوں کی تعدادمیں اضافہ ،انہیں خیر وبھلائی پہنچانا، ان کا تعاون و مدد کرناوغیرہ ، جمعہ اورنماز جنازہ میں حاضر ہونا ذکر و اذکار اور وعظ ونصیحت کی مجالس میں حاضری اور بیمار کی تیمارداری کرناوغیرہ ۔۔۔۔
    دیکھیں فتح الباری ۔(13 /43 ۔اورشرح مسلم للنووی ۔13/34)

    اوراللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

    اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم پررحمتیں نازل فرمائےآمین ۔


    واللہ اعلم .


    شیخ محمد صالح المنجد
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں