داعى كى صفات ۔

عقرب نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏مئی 16, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عقرب

    عقرب Guest

    داعى كى صفات



    السلام عليكم ورحمة الله وبركاته۔

    اپنی بات كو شروع کرنے سے پہلے میں تمہید کے کچھ الفاظ رقم کرنا چاہوں گا تاکہ اپنی بات اور مقصد کو احسن طریقے سے پڑھنے والوں کے اذہان میں بیٹھا سکوں، قرآن پاک کے نزول کا اصل مقصد بنی نو انسان کی ہدایت اور اُسے گمراہی سے باہر نکالنے کی وہ تعلیم تھی جس کو اپنانے والوں نے تاریخ میں اپنے ناموں کو سنہری حرفوں سے درج کروایا اور آنے ولی نسلوں کے سامنے اپنی زندگی کو بطور نمونہ پیش کر کے یہ ثابت کردیا کے کلام اللہ (وحی) کے ماننے والے ہی دنیا اور آخرت میں فلاح پاتے ہیں۔


    اُمت مسلمه کے زوال کے اسباب پر اگر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو قرآن پاک (وحى) کو ہماری دینی فکر میں بنیادی حیثیت قطعی طور پر حاصل نہیں ہے۔ دراصل قرآن پاک کی بنیادی دعوت توحید و آخرت کی دعوت ہے۔ جو اس دعوت کو اپنے نازل كرده تعلیمات کی حدود میں رکھ کر عقلی دلائل کے ساتھ انسان کے سامنے پیش کرتا ہے، اور پوری قوت کے ساتھ اپنی ان بنیادی تعلیمات کو لوگوں سے منوانے کی کوشش کرتا ہے جس کی دعوت حضرات انبیاء نے ہر دور میں انسان کے سامنے پیش کی، جنهوں نے ان تعلیمان کو قبول کر لیا تو دوسری کوشش اپنے ماننے والوں کے دلوں میں اس دعوت کو راسخ کرنا ہے۔


    قرآن کے نزدیک آخرت اور توحید کوئی علمی نوعیت کی چیزیں نہیں جنہیں مان کرهم انسان انہیں عقائد کے خانے میں ڈال دے بلکہ درحقیقت یه تعمیرِ سیرت کی وہ اساسات ہیں، جن کے بغیر ایک سچی ایمانی زندگی کبھی معرضِ وجود میں نہیں آسکتی۔


    همارے سامنے صحابہ کرام کی زندگی قرآن کریم کی اسی دعوت کا چلتا پھرتا زندہ نمونہ هے صحابہ کرام کی زندگی کا اہم مرکزی خیال اللہ کے حضور پیشی میں کامیاب ہونا ہی الله كى عطاء كى گئى زندگی کا نصب العین تھا۔ وہ ہر ہر لمحہ اپنے رب کی یاد میں جیتے تھے۔ روز محشر جہنم کا اندیشہ اور جنت کی اُمید ان کی زندگی میں کئے جانے والے ہر فیصلے کی بنیاد ہوا کرتی تھی۔


    اس فکرى قوت كے بغیر.! کلام اللہ جس اخلاقی نوعیت کی دینداری کا مطالبہ اپنے ماننے والے سے کرتا ہے، وہ کبھی وجُود میں نہیں آسکتی۔ اس چھوٹی سی تمہید کے بعد میں اپنے موضوع کی طرف پلٹتا ہوں جو ہے داعى كى صفات اللہ پاک نے قرآن کی سورہ الاعراف کی آیت نمبر (١٩٩-٢٠٢) میں پیغمبر آخرالزماں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔


    اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نرمی ودرگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کئے جاؤ اور جاہلوں سے نہ اُلجھو اگر کبھی شیطان تمہیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں اُن کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی بُرا خیال اگر اُنھیں چھُو بھی جاتا ہے تو وہ فورا چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر اُنہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لئے صحیح طریق کار کیا ہے سوائے اُن کے (شیاطین کے) بھائی بند تو وہ اُنہی کی کج روی میں کھینچ لئے چلے جاتے ہیں اور اُنھیں بھٹکانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ ​


    ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت وتبلیغ اور ہدایت اور اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات بتائے گئے ہیں اور مقصد صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اُن تمام لوگوں کو یہی حکمت سکھانا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے ضامن ہیں اُنہیں ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہئے۔


    سب سے پہلی صفت جو ایک داعی حق کے لئے زیادہ ضروری ہے وه یہ ہے کہ اُسے نرم خو، متحمل اور عالٰی ظرف ہونا چاہئے اُس کو اپنے ساتھیوں کے لئے شفیق عامة الناس کے لئے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لئے حلیم ہونا چاہئے اسے اپنے رفقاء کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہئے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی۔ حتٰی کے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہئے اور نہایت ناگوار باتوں کو بھی اپنی عالٰی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہئے مخالفین کی طرف سے کتنی ہی سخت کلامی بہتان تراشی، ایذاء رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو اس کو هميشه عفو درگزر سے کام لیتے ہوئے رفع کردینا چاہئےز


    اسی چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا کے میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ غضب اور رضا دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں جو مجھے میرے حق سے محروم کرے میں اسے اس کا حق دوں جو میرے ساتھ ظلم کرے میں اس کو معاف کروں۔​




    اور اسی چیز کی ہدایت آپ اُن لوگوں کو کرتے تھے جنھیں آپ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کے بشروا ولا تنفروا ويسروا ولا تعسروا یعنی جہاں تم جاؤ وہاں تمہاری آمد لوگوں کے لئے مژدہ جان فزا ہو نہ کے باعث نفرت اور لوگوں کے لئے تم سہولت کے موجب بنو نہ کے تنگی و سختی کے۔


    اور اسی بات کی تعریف اللہ سبحان وتعالٰی نے سورہ الٰ عمران کی آیت نمبر ١٥٩ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرمائی۔

    یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم درش خو اور سنگدل ہوتے تو یہ سب لوگ تمہارے گردوپیش سے چھٹ جائے۔​


    دعوت حق کی کامیابی کا دوسرا گُر یہ ہے کے داعی فلسفہ طرازی اور وقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی سیدھی اور صاف پھلائیوں کی تلقین کرے جنھیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا مانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لئے وہ عقل عام کافی ہوتی ہے جو ہر انسان کو اللہ کی جانب سے حاصل ہے اسطرح کی اپیل عوام وخواص سب کو متاثر کرتی ہے اور ہر سامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ نکال لیتی ہے اور جو لوگ ایسی معروف دعوت کے خلاف شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں کیونکہ عام انسان خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں جب یہ دیکھتے ہیں کے ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاقی اور انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفین کے حق سے پھرتے اور دعوت حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کے آخر کار میدان مقابلہ میں تقلید اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہ چھوڑی ہو یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تھوڑی ہی مدت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کے کہیں سوفیصد اور کہیں نوے فیصد لوگ مسلمان ہوگئے۔


    دعوت کے کام میں جہاں یہ بات نہایت ضروری ہے کے طالبین خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کے جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں داعی کو اس معاملے میں سخت محتاط ہونا چاہئے کہ اس کا خطاب صرف اُن لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لئے تیار ہوں اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی، جھگڑالو پن اور طعن تشنع شروع کردے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کردینا چاہئے اس لئے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت دعوت اور اصلاح نفوس میں چرخ ہونا چاہئے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجاتی ہےـ حق کا کام بہرحال ٹھنڈے ذہن سے ہی ہوسکتا ہے اور وہی قدم صحیح اُٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہوکر ہیں بلکہ موقع محل کو دیکھ کر خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے لیکن شیطان جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے حق پھیلانے والے پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعی حق کو اُکسائے کے اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہئے۔ یہ اپیل جو شیطان داعی حق کے نفس سے کرتا ہے اکثر بری پُر فریب تاویلوں اور مذہبی اصطلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے لیکن اس کی تہہ میں بجز نفسیانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی اسی لئے آخری دو آیتوں میں ارشاد ہوا ہے کہ جو لوگ متقی (یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہش مند) ہیں تو اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی بُرے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فورا چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انھیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوت حق کا مفاد کس طرز عمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے۔


    رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لو لگی ہوتی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتے اور اس سے مغلوب ہوکر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انہیں لئے پھرتا ہے اور کہیں جاکر ان کے قدم نہیں رُکتے مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے۔


    اس ارشاد کا ایک عمومی محل یہ بھی ہے کہ اور وہ یہ کے اہل تقوٰی کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیر متقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے جو لوگ حقیقت میں اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کے بُرائی سے بچیں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ بُرے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر اُن کے دل کو چھو جاتا ہے تو اُنہیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی انگلی میں پھانس چبھ جائے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گرجانے سے محسوس ہوتی ہے چونکہ وہ بُرے خیالات، بُری خواہشات اور بُری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لئے اُسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لئے پھانس یا آنکھ کے لئے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند انسان کے لئے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ۔ پھر جب یہ کھٹک انہیں محسوس ہوجاتی ہے تو اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اُن کا ضمیر بیدار ہوکر اس غبار شرکو اپنے اوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے بخلاف اس کے جو لوگ نہ اللہ سے ڈرتے ہیں نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے ان کے نفس میں بُرے خیالات بُرے ارادے ، بُرے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے بالکل اسی طرح جیسے کسی دیکچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اور وہ بے خبر ہوکر اس کے اندر کیا پک رہا ہے یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اُسے کچھ احساس نہ ہو کے وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے۔


    المیہ یہی ہے کے ہمارے ہاں دین کے نام پر بہت سے لوگ اكٹھے ہو کے بہت کچھ کررہے ہیں، مگر توحید و آخرت کو زندگی بنالینے کی سوچ جو ہر نبی اور ہر رسول کی دعوت تھی، کبھی بھی کسی داعی کی دلچسپی کی چیز نہیں رہی۔ ان کی دلچسپی سیاست کے ہنگامے، لوگوں کی شکل و صورت کی تبدیلی، مناظرہ بازی، گمراہی و تکفیر کے فتووں تک محدود رہتی ہے۔ ہماری دینی فکر میں اگر کہیں آخرت کی بات ہوتی ہے تو فضائل کے اُس اسلوب میں، جس میں چند ظاہری اعمال ادا کرلینے کے بعد بندہ مومن اس جنت میں جانے کا مستحق ہوجاتا ہے، جہاں ہر چیز ستر ہزار کی تعداد میں حُوريں ہوتی ہے۔ اگر کہیں الله کی بات ہوتی ہے تو صرف اس لیے کہ کچھ لوگوں کو ’’مشرک‘‘ قراردے دیا جائے۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں