عورت، آدھی گواہی، اور قرآن کا بیان

دانیال ابیر نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏اگست 11, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    یہ تحریر منطق، فلسفہ اور "علمی انانیت" سے آزاد ہو کر لکھ رہا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ ہم قرآن کے فرمودات کو بھی سمجھیں، کیونکہ یہ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بھی قرآن میں تفکر کریں۔ محض ایک مخصوص مکتبہ فکر کو اپنا لینے یا اپنی پسند کے علماء کا تحفظ کرنے سے دین کی خدمت نہیں ہوتی۔ میرا مقصد کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں ہے ان حقائق کو سامنے لانا ہے جن کو نام نہاد علماء نے فراموش کردیا اور اسلام میں "برہمن ازم" کو متعارف کروایا۔

    دیکھئے قرآن کیا کہتا ہے


    انسانوں کا ہر معاشرہ اپنے مخصوص اوصاف کا حامل ہوتا ہے۔ یہ اوصاف اسے دوسرے معاشروں سے مخلتف یا ممتاز بناتے ہیں۔ معاشرتی اقدار کی تعمیر و تشکیل میں مرد و عورت دونوں کا حصہ اور اثر ہوا کرتا ہے۔ انسانی معاشروں کے کئی معاملات عورتوں کے ہاتھ میں ہیں لیکن معاشرہ پر چھاپ یا بالا دستی مرد کی نظر آتی ہے۔ مرد کا جسمانی طور پر عورت سے طاقتور ہونا یا معاشی جدوجہد میں نمایاں کردار، ایسے اہم عوامل ہیں جو اس کی بالا دستی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اگر عورت کسی طرح اپنی اور خاندان کی معاش کا بندوبست خود کرنے لگے تو جسمانی لحاظ سے مضبوط ہونے کے باوجود مرد کی حیثیت میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔

    مردانہ تسلط بعض نظریات ی طرح محض ایک نظریہ نہیں۔ بلکہ کئی نفسیاتی خواہشات کی طرح ایک شدید خواہش ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مرد نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے کبھی اپنی طاقت ، کبھی معاشرتی قوانین اور کبھی مذہبی عقائد کا بے دریغ سہارا لیا۔ قبل مسیح کے معاشروں میں مصر، یونان، بابل، ایران اور ہندوستان میںپروہتوں کی خواہشات کی تکمیل یا ہندو معاشرہ میں شوہر کے مرنے پراس کی بیوہ کو بھی چتا میں جلا ڈالنا اس کی چند مثالیں ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خطوں میں قائم معاشروں میں عورت کے بارے میں تقریبا یکساں تصورات ملتے ہیں۔ جن میں بالعموم عورت کو ناپاک، برائیوں کی طرف راغب کرنے والی، کمتر اور حقیر مخلوق قرار دیا جاتا رہا۔

    ان منفی نظریات کے علی الرغم تمام الہامی مذاہب نے عورت کے انسانی وجود کا ایک حصہ قرار دے کر اس کی عزت و توقیر کا اعلان اور اس کے احترام کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں خاص طور پر دین ابراہیمی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلمات میں کہیں بھی عورت کے درجہ اور رتبہ میں کمی کا ذکر نہیں۔ لیکن ان پغبران علیہ السلام کے بعض پیروکاروں نے ان پر نازل ہونے والے الہامی پیغامات تک میں تحریف کر ڈالی۔ ایسے لوگ عورت کے بارے میں پغمبروں کی تعلیمات، ہدایات اور احکامات کو کیا خاطر میں لاتے۔ چنانچہ عورت کی بے حرمتی اور بے توقیری کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ چلتا رہا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا۔ آغاز اسلام تک یہ سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری رہا۔

    خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساری نوع انسانی پر اللہ تعالی کا عظیم ترین احسان ہے۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا محبوب بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا۔ یہ رحمت طبقہ نسواں پر بھی سایہ فگن ہوئی۔ اسلام نے مردوں کو یہ باور کروایا کہ عورت اور مرد دونوں آدم کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالی کے نزدیک بہتری کا معیار مرد یا عورت ہونا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے نزدیک بہتر وہ ہے جو زیادہ متقی ، زیادہ پرہیز گار ہے۔ اسلام میں عورت کا احترام محض تذکرہ نہیں ہے بلکہ اسلام کی تبلیغ اور ریاست کے معاملات میں عورت کی عملی شمولیت نوع انسانی کے واضح سبق ہے۔ بڑی حیرت ہوتی ہے جب عورت کو جسے اسلام نے عزت اور احترام کی رفعتیں عطا فرمائیں بعض لوگ یا بعض طبقات مرد کے مقابلے میں نصف قراد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی گواہی کو ہر مقام پر نصف قراد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات اسلامی تعلیمات کی روح اور احکامات سے کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ قرآن پاک میں کہیں بھی یہ حکم نہیں ہے کہ ایک عورت کی گواہی آدھی سمجھی جائے گی۔ آپ قرآن کی ایک ایک آیت کو نہایت غور سے پڑھئے آپ کو اس ہدایت پر مبنی کوئی آیت پورے قرآن پاک میں کہیں بھی نہیں ملے گی۔

    تو پھر عورت کی آدھی گواہی کی بات کہاں سے آئی ہے ؟

    سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۲ میں اللہ تعالی نے قرض کی معاملہ میں احکامات عطا فرمائے ہیں ۔ سورہ بقرہ کی یہ آیت قرآن پاک کی سب سے طویل آیت ہے۔ اس آیت میں کئی احکام بیان ہوئے ہیں۔ ایک حکم تو یہ ہے کہ جب ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ ایک حکم یہ ہے کہ لکھنے والا پوری ذمہ داری کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ تحریر کرے۔ ایک حکم یہ ہے کہ اس معاملہ پر یعنی اس تحریری معاہدہ کے دو گواہ بنائے جائیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دو مردوں کو گواہ بنا لیا جائے اور اگر ﴿اس موقع پر﴾ دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ کر لو۔ ان لوگوں نے میں جن پر تم راضی ہو۔ آگے چل کر بیان ہوتا ہے کہ ﴿ایسا اس لئے ہے کہ﴾ اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔

    یہ ہے وہ آیت قرآنی جسے عورت کی گواہی کو نصف قرار دینے والے لوگ اپنے لئے بطور دلیل بیان کرتے ہیں۔

    دنیا بھر کے نظام قوانین کو سامنے رکھا رکھئے۔ دنیا بھر کے قوانین شہادت کے سامنے رکھئے۔ پاکستان مین رائج ہونے والے ایویڈنس ایکٹ ۱۸۷۲ یا مروجہ قانون شہادت آرڈیننس مروجہ ۱۹۸۴ کو سامنے رکھئے۔ ایک بات دنیا کے ہر قانونی نظام کے قانون شہادت میں یکسان ملے گی۔ کہ کسی واقعہ یا کسی معاملہ کو گواہ عدالت میں پیش ہوکر اپنی گواہی جن الفاظ میں قلمبند کرواتا ہے وہ اس کی اصل گواہی کے طور پر لکھ لی جاتی ہے۔ جج کے سامنے اپنی زبان سے ایک مرتبہ الفاظ ادا کر لینے کے بعد گواہ کے پاس خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اپنا بیان تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہاں گواہی دینے کے دوران گواہ اپنی گزشتہ بات میں کوئی تبدیلی کروانا چاہے تو اسے رضاکارانہ طور پر تبدیلی کے زمرہ کے تحت علیحدہ سے لکھا جائے گا لیکن اس بات سے اس کی گواہی کی وقعت کم ہو جائے گی۔

    دوسری طرف قرآن کے عطا کردہ قانونی نظام میں صرف مالی معاملات میں شہادت دیتے وقت عورت کو ایک بے مثال حق دیا گیا ہے۔ وہ حق یہ ہے کہ اگر عورت چاہے تو اپنے بیان کے مندرجات تبدیل کروا سکتی ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ حق مرد کو حاصل نہیں ہے۔

    اور بنا لیا کرو دو گواہ اپنے مردوں میں سے اور اگر نہ ہوں دو مرد تو ان لوگوں میں جن پر تم راضی ہو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنالو تاکہ اگر ایک کوئی بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے

    قرآن پاک کی اس آیت کے مطابق مالی معاملات میں دو عورتیں بطور گواہ جج کے سامنے پیش ہونگی ۔ اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے گی۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ دوسری گواہ جج کے سامنے اپنی گواہی ریکارڈ کروائے گی بلکہ یہ واضح ہے کہ دوسری عورت پہلی عورت کو ہی مخاطب کرے گی اور اسے یاد دلائے گی کہ مالی معاملہ اس طرح نہیں اس طرح ہوا تھا۔ اس آیت کی رو سے حاصل ہونے والے حق کے تحت یاد دلائے جانے پر پہلی عورت جج کے سامنے اپنا ترمیم شدہ بیان دے گی۔ لیکن یہ ترمیم شدہ بیان پہلے بیان کے ترمیم کے تحت نہیں بلکہ اصل بیان کے طور پر ہی ریکارڈ ہوگا۔

    دنیا کے کسی قانونی نظام میں یہ حق نہ مرد کو حاصل ہے نہ عورت کو کہ گواہی کے وقت اپنا بیان تبدیل کر سکے۔ لیکن اسلام نے مالی معاملات میں گواہی دیتے وقت عورت کو یہ بے مثال حق دیا ہے کہ اسے بھول چوک کی رعایت دی گئی ہے۔

    اس ایک آیت کے علاوہ جو صرف مالی معاملات پر گواہی کے بارے میں چند شرائط بیان کرتی ہے دیگر کسی جگہ بھی گواہی کے لئے مرد اور عورت کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ہے ۔ سورہ النساء کی آیت ۱۳۵ میں ہے

    اے ایمان والو، انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارے والدین اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔


    یہاں گواہی کے لئے اہل ایمان کو کہا جارہا ہے۔ اہل ایمان میں مرد و عورت دونوں شامل نہیں ہیں ؟

    سورہ مائدہ کی آیت ۱۰۶ میں گواہی کے لئے دو معتبر لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ پابندی نہیں بتائی گئی کہ ایک معتبر مرد اور دو معتبر عورتیں ۔ اب یہ دو معتبر لوگ دو مرد یا ایک مرد اور ایک عورت یا دو عورتیں نہیں ہو سکتے ؟

    صحابی رسول حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خاتون غنیہ سے نکاح کر لیا۔ ایک عورت نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اور تمہاری منکوحہ دونوں کو اپنا دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیںہے نہ تم نے پہلے کبھی مجھ سے یہ بات کہی۔ پھر انہوں نے اپنی بیوی کے رشتہ داروں سے معلوم کروایا انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اس عورت نے عقبہ کو دودھ پلایا ہے۔ آخر کار حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرہ بیان کیا۔ دودھ پلانے والی عورت تن تنہا یہ واقعہ بیان کر رہی تھی۔ دوسرا کوئی گواہ اس کی گواہی نہیں دے رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رضاعت کے بارے میں اس عورت کا کہا تسلیم فرمایا۔ غنیہ کو عقبہ کی رضاعی بہن قراد دیا۔ عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے غنیہ کو چھوڑ دیا اور دوسری جگہ نکاح کیا۔

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کے کہیں بھی اس بات کا اظہار نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو آدھا وجود تسلیم کیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بھرپور عزت و احترام عطا فرمایا اور انہیں وہ حقوق عطا فرمائے جو آج سے سو سال قبل تک بھی غیر اسلامی معاشروں میں عورت کو حاصل نہ تھے۔

    دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا خلافت راشدہ ۔ اسلام کی تبلیغ ، اسلامی مملکت کے دفاع اور استحکام۔ ریاستی معاملات مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور معاشرہ کے مختلف شعبوں میں عظیم مسلم خوانین نے نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    یہ شرف ایک عورت کو ۔ ۔ ۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حاصل ہوا کہ آپ نے سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی۔

    کیا اس گواہی کی حقانیت اور اس کے مکمل ہونے میں کسی کو کوئی شک ہو سکتا ہے ؟

    اسلامی قانون کے بنیادی ماخذ دو ہیں ایک قرآن اور دوسرا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔ ۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگاہی کا ذریعہ احادیث ہیں اور احادیث کا بہت بڑا علم امت مسلمہ کو اپنی عظیم ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ذریعے حاصل ہوا۔

    حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں قرآن پاک کو تحریری شکل میں یکجا کر کے ایک نسخہ تیار کیا گیا۔ یہ مکمل قرآنی آیات کا پہلا نسخہ تھا۔ اسلامی ریاست کی جانب سے قرآن پاک کے اس پہلے تحریری نسخہ کو بطور امانت رکھوانے کےلئے کس ہسنی کا انتخاب کیا گیا ؟

    ایک عورت کا ۔ ۔ ۔ ۔۔

    ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس یہ بطور امانت رکھوایا گیا۔


    اسلام کے تبلیغی ، ریاستی، تعلیمی ار روحانی معاملوں میں خواتین کی بھرپور شمولیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ قرآن اور اسلام کی نظر میں انسان کا مطلب صرف مرد نہیں بلکہ مرد اور عورت ہیں۔ اسلام عورت کو کمتر یا نصف قرار نہیں دیتا ہے بلکہ عورت کے بارے میں مختلف منفی نظریات اور تصورات کی تردید کرتے ہوئے عورت کو مکمل احترام، اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال اور سماج کے مختلف شعبوں اور روحانی شعبوں میں بھرپور شمولیت کے مواقع مکمل احترام اور تحفظ کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔
     
  2. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    لگتاہے آپ نے اس موضوع پر مشہور حدیث نصف العقل والدین نہیں پڑھی جس میں خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نصف العقل کی وضاحت یہ فرمائی ہے کہ ان کی گواہی مردوں کی گواہی کا نصف ہے۔اورنصف دین اس لئے کہ مخصوص ایام کی وجہ سے وہ عبادات نہیں کرسکتیں۔
     
  3. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    شائد آپ کی نظر سے یہ تھریڈ نہیں گزرا ۔۔۔۔۔
    عورت : ناقص العقل و ناقص الدین ۔۔۔؟!
    وہ حدیث جس میں عورت کی نصف گواہی کا ذکر ہے ، صحیحین کے علاوہ 10 مزید کتبِ احادیث میں اس کا بیان ہوا ہے۔
    اگر کوئی حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعی میں حجت سمجھتا اور جانتا مانتا ہے تو حدیثِ صحیح کے سامنے آ جانے پر عقلی اور منطقی بحث سے گریز اس کے لئے بہترین راہ ہے۔
     
  4. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    جمشید بھائی قرآن کو پڑھیئے اور اس میں بھی تفکر کیجئے پلیز، عقل اور وجدان دو مختلف جیزیں ہیں۔ صرف منطقی فلاسفی سے قرآن کی نفی نہیں‌کی جا سکتی :00026:

    بات درست ہے سرکار ۔ ۔ ۔ مگر قرآن جو کہہ رہا ہے اس کو "درجہ ثانی" دے کر کیا درست فیصلہ لیا جاسکتا ہے۔ احادیث قرآن کے بعد ہی آتی ہیں۔ مین نے یہاں تک کہا کہ کوئی ایک آیت اور دکھا دیں ایسی جو اس بات کو ثابت کرتی ہوں۔ ہر چیز میں شک ہو سکتا ہے مگر قرآن ناقابل تبدیل ہے اور اس کی حفاطت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے لی ہے۔

    اکتسابی بحث سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے سرکار۔۔ ۔ روٹی کا ذائقہ زبان سے چکھ کر محسوس ہوتا ہے ۔ محض روٹی دیکھ کر اس کے ذائقے سے متعلق بحث کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہ لاکھوں کتابیں اب تک ہمارے درمیان روز ایک نئی بحث چھیڑتی ہیں اور ہم ناقص العقل ان کے چکر میں قرآن جیسی منبع رشد و ہدایت کو سرہانے ٹکا کر لکھنے والوں کی آراء پر رائے زنی کرتے رہتے ہیں۔:)
     
  5. باذوق

    باذوق -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 10, 2007
    پیغامات:
    5,623
    اگر آپ قرآن کو احادیث کے بغیر سمجھنے کا عقلی دعویٰ رکھتے ہیں تو بےشک رکھئے۔
    بحث اور رائے زنی ہمارا شیوہ بہرحال نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک حجت عقلی مباحث نہیں‌ بلکہ آیاتِ ربانی اور احادیثِ صحیحہ مشترکہ طور پر دونوں بھی اس لیے حجت ہیں کہ شریعت ہمارے نزدیک دونوں کو ملا کر بنتی ہے !!
     
  6. منہج سلف

    منہج سلف --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2007
    پیغامات:
    5,047
    السلام علیکم محترم دانیال بھائي!
    آپ کی باتوں کو میں نے بغور پڑھا اور سمجھا۔۔۔۔
    ماشاءاللہ بہت اچھی محنت کی ہے۔
    اب میں آپ کو قرآن کو پڑھنے، اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے طریقہ سے متعارف کرواتا ہوں، ہوسکے آپ کو کسی نے اس چيز کے بارے میں بتایا نہ ہو۔ :00002:
    میرے پیارے بھائی! ایک بات یاد رکھیں کہ شریعت تب ہی مکمل ہوتی ہے جب دونوں چيزيں یکجا ہوجائيں۔
    اور وہ دونوں چيزیں قرآن و حدیث ہے۔ الحمداللہ
    ان دونوں کو اگر الگ کیا جائے تو شریعت نامکمل ہے۔
    ہم کسی بھی آیت کو پڑھیں گے اور اس پر غور و فکر کریں گے تو ہمیں صحیح حدیث کا سہارہ لینا پڑے گا اس کے بغیر ہم قرآن کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھ نہیں سکیں گے۔
    تو اس کے لیے ہمیں ہر آیت کو حدیث کے اصل متن کے ساتھ سمجھنا ہوگا تب جاکر ہم اس آیت کی افادیت کو سمجھ سکیں گے اور اس چيز کا بھی پتہ چلے گا کہ اس آیت کو اس نطام میں کہاں فٹ کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ پورا قرآن قیامت تک کے ہر نطام کی بہتری کے لیے نازل ہوا ہے۔
    تو یہ بات تو مکمل ہوئی کہ قرآن کو حدیث کے بغیر سمجھا اور عمل نہیں کیا جاسکتا۔ ان شاءاللہ

    اب دوسری بات آتی ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث کے سمجھنے کے لیے اسلاف کے عمل کی بھی ضرورت پڑے گی کہ انہوں نے قرآن و حدیث کو سمجھ کر کس طرح ان پر عمل کیا!!
    آپ کو ایک مثال دیتا ہوں بھائی:
    سنت کیا چيز ہے؟
    سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا نام ہے۔
    نبی کریم نے جو کہا وہ حدیث ہے اور اس پر عمل کرکے دکھایا وہ سنت بن گئي۔ صلی اللہ علیہ وسلم
    اور ان کے بعد اسلاف نے جس طرح قرآن و حدیث پر بقیہ امت کو عمل کرکے دکھایا وہ ہمارے لیے حجت بن گئي۔ الحمداللہ
    اب آج کل کے دور میں ہمیں شریعت پر عمل کرنے کے لیے تین چيزوں کی ضرورت ہے، یہ کہیں کہ اس پر فتن دور میں ان تین چيزوں کے بغیر ہم شریعت کو اپنے اوپر اور اس نظام میں نافذ نہیں کرسکتے۔
    وہ تین چيزيں کیا ہیں؟
    1- قرآن
    2- صحیح حدیث (بمع سنت رسول) صلی اللہ علیہ وسلم
    3- عمل اسلاف (سلف صالحین کا طریقہ) رضی اللہ و رحمہ اللہ علیہ اجمعین


    اب ہم کسی بھی آیت پر تفکر کریں گے تو ہمیں اس آیت کو ان بقیہ دونوں شریعت کے اصولوں سے گذاریں گے تب جاکر ہم اس کی اصل روح تک پہنچيں گے اور اس کی افادیت کو سجھ سکیں گے۔ ان شاءاللہ
    اب آپ میرے اوپر والے بتائے ہوئے تین شرعی اصولوں کو سمجھیں، ان پر غور و فکر کریں اور جب آپ ان تینوں کیٹیگریز کو (جو شریعت کو سمجھنے کے لیے اشد ضروری ہیں) دل و دماغ سے قبول کیا تو پھر آپ کو اس آیت کے اصل روح کو سمجھنے کے لیے کسی سے بھی پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور اگر پھر بھی آپ کا دماغ اس کو قبول کرنے میں شکوک و شبہات کا مظاہرہ کرے تو میں مزید کھول کر سمجھانے کے لیے حاضر ہوں بھائی۔ ان شاءاللہ
    اللہ آپ کو خوش رکھے اور دین کی سمجھ عطا فرمائے بمع ہدایت کے۔ ان شاءاللہ
    امید کر دل و دماغ کو کھول کر اور شریعت کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر اس کو پڑھیں گے بھائی۔ ان شاءاللہ
    والسلام علیکم
     
  7. ابن عمر

    ابن عمر رحمہ اللہ بانی اردو مجلس فورم

    شمولیت:
    ‏نومبر 16, 2006
    پیغامات:
    13,354
  8. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    بہت اچھی باتیہں سننے کو مل رہے تھیں مگر دانیال بھائی کہاں چلے گئے
     
  9. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    میں یہیں ہوں بھائی مگر لگتا ہے میرے دوست اللہ اس کے رسول کی سوچ سے دور ہوتے جا رہیے ہیں
     
  10. دانیال ابیر

    دانیال ابیر محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 10, 2008
    پیغامات:
    8,415
    مین کسی ایک مکتبہ فکر کا حامی نہیں ہوں۔ ۔ ۔ ۔ میں اللہ کے قوانین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کا طالبعلم ہوں۔ ۔ ۔ ۔ مین کسی ملا یا ملاؤں یا مملکتون کے نام نہاد شیطانن صفت بادشاہوں کا رائج کردہ اسلام اپنے ذاتی فوائد یا کم علمی کی نظر کر کے اپنی آخرت خراب نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔۔

    مجھے کسی کے جواب کا کوئی انتطار نہیں ہے
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں