شعرائ کے کلام میں وطن سے محبت

الطحاوی نے 'نثری ادب' میں ‏ستمبر 12, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825

    شعرانسانی جذبات واحساسات کی تصویرہواکرتی ہے۔ اورشعرائ انسانی خیالات کی شدت وحرارت کو الفاظ کے پیکر میں ڈھالتے ہیں۔
    وطن سے محبت انسانی فطرت ہے اورہرانسان اپنے وطن سے فطری طورپر محبت رکھتاہے۔ شعرائ نے اس مضمون کو بھی اپنے خوبصورت اورانوکھے انداز میں قلم بند کیاہے۔
    ان اشعار کی معنوت دور حاضر میں مزید بڑھ گئی ہے جب کہ روزگار اورتلاش معاش میں انسان اپنے وطن اورملک کو چھوڑ کر ہزاروں کلومیٹر دور دربدر کی خاک چھان رہاہے۔
    حیدرآبادی بھائی سے بطور خاص گزارش ہے کہ وہ اس کو دیکھیں۔
    شعرائ کے اعتبار سے تو خدائے سخن میرتقی میر کا شعر پہلے ذکر کرناتھا مگر دکن کی جب بات آتی ہے توپھر دکن کو ہی سب پر مقدم کرناپڑتاہے۔
    وجہی نے دیاردکن کو دنیا کی انگوٹھی میں نگینہ اورملک کے سرکاتاج قراردیا۔ پھر خلاصے کے طورپر لکھا
    دکن ملک بھوتیچ خاصااے ہے
    تلنگانہ اس کا خلاصہ اے ہے

    ابن نشانی نے بیرونی حملہ آورں کے جواب میں اپنے اہل وطن کی شجاعت اوربے جگری کا فخریہ انداز میں تذکرہ کیا:
    ہمیں ہندی اگر جھگڑے پہ آویں
    گھڑی میں مار مصریاں کو بھگاویں
    اگر نکلیں جو لے باتاں میں بھالے
    وہی بانچے خدا جس کو سنبھالے

    نصرتی نے علی عادل شاہ کی عدل گستری پر اشعار لکھے مثلا:
    دکن نت ہے اس فخر سے باغ باغ
    کہ تس گھر میں تج ساگہرشب چراغ
    اب دل میں یہی ہے کہ دکھن چھوڑ نہ جانا
    جیوتی جو دکھن کھن کے رتن چھوڑ نہ جانا

    اپنے علاقہ اورشہر کی ہرچیز سے پیارہوتاہے جیساکہ اختر نے کہاتھا۔
    وسعت خلد سے بڑھ کر ہے کہیں حب وطن
    تنگی گور سے بدتر ہے۔ فضائے غربت
    میر نے بھی اپنے وطن کو جنت نشاں کہاتھا۔مثلاً
    دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
    جوشکل نظرآئی تصویر نظرآئی

    سوداکولوگوں کی طرف سے مستقل طورپر لکھنوآجانے کی دعوت دی گئی لیکن انہوں نے اپنے دیار کو چھوڑنا پسند نہیں کیا ۔ذوق نے بھی دکن کے بلاوے کو یہ کہہ کر رد کردیاتھا کہ:
    آج کل گرچہ دکن میں ہے بڑی قدرسخن
    کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑکر

    اسی طرح اکثر شاعر اپنی سرزمین سے چمٹے رہے لیکن جنہیں کسی مجبوری سے وطن کو خیرباد کہنا پڑاتو نہایت حسرت کے ساتھ ۔مثلاً میر نے اپنے وطن اصلی کو چھوڑتے ہوئے کہا:
    چلااکبر آباد سے جس گھڑی
    دروبام پر چشم حسرت پڑی
    کہ ترک وطن پہلے کیوں کرکروں
    مگر اب ہرقدم دل پر پتھر رکھوں

    پھر جب انہیں دلی سے لکھنو جانا پڑا تو پورب کے ساکنوں سے اپنی بودوباش کا حال کیسی حسرت سے بیان کیا۔
    دلی جوایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
    اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کردیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
    وطن کی جدائی میں تڑپتے رہنے کی مثال
    کلام تمنا میں بھی ملتی ہے۔
    جس شہر میں رہوں تویادآتاہے
    کرتاہوں میں جناب ایزدی میں فریاد
    معشوق کا وصل جو پہنچیں کب تک
    اورنگ آباد ،ہائے اورنگ آباد

    ایسے میں نظیر اکبرآبادی کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
    یاد آتاہے ہمیں جب وطن اپنا تواے نظیر
    سرکو حسرت سے پٹک کر کہتے ہیں ہم ہائے اے نظیر

    اس سلسلے میں سوداجیسے زندہ دل شاعر کا افسوس اس شعر سے ظاہر ہے
    بلبل کو کیاتڑپتے ہی دیکھاچمن سے دور
    یارب نہ کیجیوتوکسی کو وطن سے دور
    ناسخ کو جب غریب الوطنی کی چوٹ سہنی پڑتی تو وہ پکاراٹھے
    ناسخ وطن میں دیکھئے دیکھیں گے گھر کو کب
    غربت میں مدتوں سے ہے اپنا مکاں سرا
    منیرشکوہ آبادی کو اپنے شہر کی جدائی
    پرقدرتی افسوس تھا
    چلاہوں لکھنؤسے سوئے فرخ آباد آج
    ہزاروں حسرتیں رنج وملال میں ہے صدا

    یہ بلاانتخاب کچھ اشعار پیش خدمت ہیں۔
    گرقبول افتدزہے عزو شرف
    ماخوذ قومی یکجہتی میں اردو کا کردار
     
  2. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    ہمم نائس شیئرنگ بھائی
     
  3. الطحاوی

    الطحاوی -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 5, 2008
    پیغامات:
    1,825
    پسند کرنے کا شکریہ بھائی
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں