غزوہ نجران

محمد نعیم نے 'سیرت النبی (ص) : الرحیق المختوم' میں ‏نومبر 16, 2009 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد نعیم

    محمد نعیم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 26, 2007
    پیغامات:
    901
    غزوہ نجران :

    یہ ایک بڑی فوجی طلایہ گردی تھی جس کی تعداد تینن سو تھی ۔ اس فوج کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ربیع الآخر 3ھ میں بحران نامی ایک علاقے کی طرف تشریف لے گئے تھے ۔۔۔۔۔ یہ حجاز کے اندر فرع کے اطراف میں ایک معدنیاتی مقام ہے ۔۔۔۔۔ اور ربیع الآخر اور جمادی الاولٰی کے دو مہینے وہیں قیام فرما رہے ۔ اس کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے ۔ کسی قسم کی لڑائی سے سابقہ پیش نہ آیا ۔ (12)



    -------------------------------
    12۔ ابن ہشام 2/50،51 ۔ زادالمعاد 2/91 ۔ اس غزوے کے اسباب کی تعیین میں مآخذ مختلف ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ مدینہ میں یہ خبر پہنچی کہ بنو سلیم مدینہ اوراطراف مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر جنگی تیاریاں کر رہے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے کسی قافلے کی تلاش میں نکلے تھے ۔ ابن ہشام نے یہی سبب ذکر کیا ہے اور ابن قیم نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ چنانچہ پہلا سبب سرے سے ذکر نہیں کیا ہے ۔یہی بات درست بھی معلوم ہوتی ہے ۔ کیونکہ بنو سلیم فرع کے اطراف میں آباد نہیں تھے بلکہ نجد میں آباد تھے جو فرع سے بہت زیادہ دور ہے ۔
     
    Last edited by a moderator: ‏فروری 18, 2011
  2. محمد نعیم

    محمد نعیم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 26, 2007
    پیغامات:
    901
    سریہ زید بن حارثہ

    سریہ زید بن حارثہ :

    جنگ احد سے پہلے یہ مسلمانوں کی آخری اور کامیاب ترین مہم تھی جو جمادی الآ خرہ 3ھ میں پیش آئی۔
    واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ قریش جنگ بدر کے بعد سے قلق و اضطراب میں مبتلا تو تھے ہی مگر جب گرمی کا موسم آگیا ور ملک شام کے تجارتی سفر کا وقت آن پہنچا تو انہیں ایک اور فکر دامن گیر ہوئی ۔ اس کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ صفوان بن امیہ نے ۔۔۔۔۔ جسے قریش کی طرف سے اس سال ملک شام جانے والے تجارتی قافلے کا میر کارواں منتخب کیاگیا تھا ۔۔۔۔۔ قریش سے کہا: " محمد اور اس کے ساتھیوں نے ہماری تجارتی شاہراہ ہمارے لیے پر صعوبت بنا دی ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اس کے ساتھیوں سے کیسے نمٹیں ۔ وہ ساحل چھوڑ کر ہٹتے ہی نہیں اور باشندگان ساحل نے ان سے مصالحت کر لی ہے ۔ عام لوگ بھی انہیں کے ساتھ ہو گئے ہیں ۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کون سا راستہ اختیار کریں؟ اگر ہم گھروں ہی میں بیٹھ رہیں تو اپنا اصل مال بھی کھا جائیں گے اور کچھ باقی نہ بچے گا ؛ کیونکہ مکے میں ہماری زندگی کا دارومدار اس پر ہے کہ گرمی میں شام اور جاڑے میں حبشہ سے تجارت کریں "۔
    صفوان کے اس سوال کے بعد اس موضوع پر غور و خوض شروع ہو گیا آخر اسود بن عبدالمطلب نے صفوان سے کہا : " تم ساحل کا راستہ چھوڑ کر عراق کے راستے سفر کرو "۔ واضح رہے کہ یہ راستہ بہت لمبا ہے ۔ نجد سے ہو کر شام جاتا ہے اور مدینہ کے مشرق میں خاصے فاصلے سے گزرتا ہے ۔ قریش اس راستے سے بالکل ناواقف تھے اس لیے اسود بن عبدالمطلب نے صفوان کو مشورہ دیا کہ وہ فرات بن حیان کو ۔۔۔۔۔ جو قبیلہ بکر بن وائل سے تعلق رکھتا تھا ۔۔۔۔۔ راستہ بتانے کے لیے رہنما رکھ لے ۔ وہ اس سفر میں اس کی رہنمائی کر دے گا ۔
    اس انتظام کے بعد قریش کا کارواں صفوان بن امیہ کی قیادت میں نئے راستے سے روانہ ہوا مگر اس کارواں اور اس کے سفر کے پورے منصوبے کی خبر مدینہ پہنچ گئی ۔ ہوا یہ کہ سلیط بن نعمان جو مسلمان ہو چکے تھے نعیم بن مسعود کے ساتھ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، بادہ نوشی کی ایک مجلس میں جمع ہوئے ۔۔۔۔۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے ۔۔۔۔۔ جب نعیم پر نشے کا غلبہ ہوا تو انہوں نے قافلے اور اس کے سفر کے پورے منصوبے کی تفصیل بیان کر ڈالی ۔ سلیط رضی اللہ عنہ پوری برق رفتاری کے ساتھ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور ساری تفصیل کہہ سنائی ۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً حملے کی تیاری کی ۔ اور سو سواروں کا ایک رسالہ حضرت زید بن حارثہ کلبی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دے کر روانہ کر دیا۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے نہایت تیزی سے راستہ طے کیا اور ابھی قریش کا قافلہ بالکل بے خبری کے عالم میں قردہ نامی ایک چشمے پر پڑاؤ ڈالنے کے لئے اتر رہا تھا کہ اسے جا لیا اور اچانک یلغار کرکے پوے قافلے پر قبضہ کر لیا ۔ صفوان بن امیہ اور دیگر محافظین کارواں کو بھاگنے کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا ۔
    مسلمانوں نے قافلے کے راہنما فرات بن حیان کو اور کہا جاتا ہے کہ مزید دو آدمیوں کو گرفتار کر لیا ۔ ظروف اور چاندی کی بہت بڑی مقدار ، جو قافلے کے پاس تھی ، اور جس کا اندازہ ایک لاکھ درہم تھا ، بطور غنیمت ہاتھ آئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس نکال کر مال غنیمت رسالے کے افراد پر تقسیم کر دیا اور فرات بن حیان نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کرلیا ۔ (13)
    بدر کے بعد قریش کے لیے یہ سب سے الم انگیز واقعہ تھا جس سے ان کے قلق و اضطراب اور غم و الم میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ اب ان کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو اپنا کبر و غرور چھوڑ کر مسلمانوں سے صلح کرلیں یا بھر پور جنگ کرکے اپنی عزت رفتہ اور مجد گزشتہ کو واپس لائیں اور مسلمانوں کی قوت کو اس طرح توڑ دیں کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھاسکیں ۔ قریش مکہ نے اسی دوسرے راستے کا انتخاب کیا ؛ چنانچہ اس واقعہ کے بعد قریش کا جوش انتقام کچھ اور بڑھ گیا اور اس نے مسلمانوں سے ٹکر لینے اور ان کے دیار میں گھس کر ان پر حملہ کرنے کے لیے بھر پور تیاری شروع کردی ۔ اس طرح پچھلے واقعات کے علاوہ یہ واقعہ بھی معرکہ احد کا خاص عامل ہے ۔

    -----------------------

    13۔ ابن ہشام 2/51، 50 ۔ رحمۃ اللعالمین 2/219
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں