کیا پاکستانی حکمران اور عدلیہ کافر ہے ؟!

رفیق طاھر نے 'فتنہ خوارج وتكفير' میں ‏جولائی 18, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    کیا پاکستانی حکمران اور عدلیہ


    کافر ہے ؟!

    مقدمہ

    اللہ تعالى نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور اسکو زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی سُجھایا ہے ۔ اصول وضوابط اور قوانین واحکام وضع کیے ہیں جن کے مطابق زندگی گزارنا بنی آدم کے لیے ضروری ہے ۔ اگر انسانیت ان احکامات کو ملحوظ نہ رکھے تو انکی دنیوی زندگی بھی اجیرن ہو جاتی ہے اور اخروی زندگی میں بھی عذاب الیم ہی انکا مقدر ٹھہرتا ہے ۔ لیکن ان میں سے کچھ اوامر ایسے ہیں کہ جنکی خلاف ورزی کرنے پر اللہ تعالى ناراض تو ہوتا ہے لیکن ایسے لوگوں پر اسکا غصہ جلدی یا کچھ دیر میں ٹھنڈا ہو جاتا ہے ۔اور ایسے لوگ ہی بالآخر جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہو جائیں گے ۔یا پھر کچھ لوگوں نے اپنے رب کو اس قدر منا لیا ہوگا کہ انکی لغزشوں سے اللہ انکے اعلى ترین اعمال کی وجہ سے درگزر فرمائے گا اور انہیں سیدھا جنت میں داخل فرما دے گا ۔ یعنی اگر کوئی مسلمان کفر وشرک سے بچتے ہوئے اللہ تعالى کے بعض احکامات میں نافرمانی بھی کر لیتا ہے تو اگر اس کے دل میں ایمان ہے تو بہر حال وہ جنت کا مستحق ضرور ٹھہرے گا ۔ اللہ تعالى کے قوانین اور احکامات کے خلاف فیصلہ کرنے والا شخص , خواہ قاضی ہو , حکمران ہو , امیر ومدیر ہو , اپنے گھر کا سربراہ ہو , یا کوئی اور شخص , اگر وہ مؤمن ہو , اور اللہ تعالى کے احکامات خلاف فیصلہ کرنا وہ اپنے حلال نہ سمجھتا ہو , لیکن جہالت و نادانی میں ایسا کر رہا ہو , یا اپنے کیے گئے فیصلہ کو اللہ کے حکم سے افضل وبہتر نہ سمجھتا ہو, لیکن اپنی کسی مجبور یا کج فہمی کی بناء پر خلاف شرع فیصلہ نافذ کیے ہوئے ہو , یا اپنے بنائے گئے قوانین کو اللہ کے قوانین کے مساوی اور برابر نہ قرار دیتا ہو بلکہ اپنے فیصلوں کو خدائی فیصلوں کے مقابلہ میں ہیچ ہی سمجھتا ہو , یا اللہ کے احکامات کا انکار نہ کرے اور انہیں نہ جھٹلائے اور نہ ہی اپنے فیصلہ کو اللہ کا فیصلہ قرار دے تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا , ہاں عند اللہ مجرم ضرور بن جاتا ہے کہ اس نے ایک حرام کام کا ارتکاب کیا ہے ۔
    ایسی صورت میں اگر تو فیصلہ کرنے والے نے کسی کو نقصان پہنچانے کی خاطر یا اسکی محبت میں اسے فائدہ پہنچانے کی خاطر خلاف شرع فیصلہ کر دیا ہے تو ایسا شخص حکم الہی کے مطابق ظالم قرار پاتا ہے ۔ اور اگر وہ اپنی خواہشات نفس کا اسیر ہو کر احکامات الہی کے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو وہ فاسق وگنہگار ہے ۔ لیکن عصر حاضر میں کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے شریعت کے خلاف فیصلہ کرنے والے حکام وعدلیہ کو بلا تفریق کافر اور طاغوت کہنا شروع کر دیا ہے (انصاران ِطاغوت : ص ۱۶)۔ جبکہ انکے اپنے فقہاء ومجتہدین جو شریعت اسلامیہ کے خلاف فتوے دیتے رہے ہیں انہیں اجتہادی غلطی کی سہولت مہیا کرکے عین مسلمان سمجھتے ہیں , حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک پاکستان میں نافذ قوانین فقہ حنفی کے عین مطابق ہیں , حتى کہ فقہ حنفی میں جتنے فیصلے کتاب وسنت کے صریح احکامات کے خلاف ہیں شاید اتنے فیصلے پاکستان کے قانون میں خلاف شریعت نہیں ۔ بلکہ وہ خود بھی اپنے نجی معاملات میں بے شمار خلاف شریعت فیصلے کرتے ہیں اور کبھی اسے اپنی مجبوری قرار دیتے ہیں تو کبھی ذاتی سستی سے تعبیر کرتے ہوئے عملی کوتاہی کا نام دیتے ہیں ۔ یعنی اگر خود یا انکے فقہاء و مفتیان شریعت کے خلاف فیصلہ دیں تو وہ کامل ایمان والے مؤمن قرار پاتے ہیں , لیکن اگر یہی غلطی کسی جج یا حکومت کی طرف سے ہو جائے تو اسے طاغوت قرار دیے بغیر انہیں چین نہیں آتا۔ حالانکہ خلاف شریعت فیصلہ کرنا صرف اس صورت میں کفر بنتا ہے جب فیصلہ کرنے والا اس خلاف شرع فیصلہ کو حکم الہی قرار دے , یا شرعی فیصلہ سے بہتر یا برابر سمجھے یا شریعت کے فیصلہ کو جھٹلا دے یا اسکا انکار کر دے ۔ اور ایسا کرنے والا خواہ کوئی بھی ایک عام آدمی ہو یا حکمران یا قاضی , تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ بصورت دیگر کوئی بھی شخص احکامات الہیہ کے منافی فیصلہ کرکے کفر کا مرتکب نہیں بنتا ۔
    پھر اگر کوئی شخص کسی کفریہ کا م کا ارتکاب کر بھی لے اس خاص شخص کو کافر یا مرتد اس وقت تک قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کسی خاص آدمی کو کافر قرار دینے کے لیے شریعت نے جو قانون مقرر فرمائے ہیں ان پر عمل درآمد نہ کر لیا جائے ۔ اور طاغوت تو کائنات کا سب سے بڑا کافر ہوتا ہے ۔ یعنی اکثر صورتوں میں تو خلاف شریعت فیصلہ کرنا کفر ہی نہیں ہے , اور جن صورتوں میں کفر ہے ان میں بھی کسی خاص شخص کو کافر قرار دینے کے لیے نہایت ہی باریکی کے ساتھ تحقیق کرنا ہوتی ہے اور پھر جب اسکا کفر ثابت ہو جائے تو اس پر حجت قائم کرکے اسے کافر قرار دیا جاتا ہے ۔ لیکن تعجب ہے ان جوشیلے فتوى بازوں پر جو بیک جنبش قلم اپنے سوا سب کو کافر بنانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ اس مختصر رسالہ میں ہم یہی مسئلہ سمجھا نے کی کوشش کریں گے کہ خلاف شریعت فیصلہ کرنے والا کون شخص کافر ہے اور کون کافر نہیں ہے ۔ اور اسے کتاب اللہ , سنت رسول اللہ ﷺ اور ائمہ دین کے اقوال سے مزین کریں گے ۔ ان شاء اللہ ۔
    جابر علی عسکری
    ۲۲شعبان ۱۴۳۴ھ



    خلاف شریعت فیصلہ کرنے والوں کا شرعی حکم

    اللہ سبحانہ وتعالى نے قرآن مجید فرقان حمید میں ایسے لوگوں کے لیے تین مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں جو شریعت کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں :
    وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدة : 44)
    جو بھی الله کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں
    وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (المائدة : 45)
    جو بھی الله کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ ظالم ہیں
    وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (المائدة : 47)
    جو بھی الله کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں
    یعنی خلاف شریعت فیصلہ کرنے والے کافر یا ظالم یا فاسق یعنی گنہگار ہوتے ہیں ۔ لہذا ہر ایسے شخص کو جو خلاف شریعت فیصلہ کرے , کافر قرار دے دینا درست نہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالى نے ایسے افراد کو تین مختلف نام دیے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کس قسم کے افراد خلاف شرع فیصلہ کرنے کی بناء پر کافر بنتے ہیں اور کون سے لوگ ہیں جو ظالم یا فاسق ٹھہرتے ہیں ۔
    اور اس دوران یہ بات بھی خاص توجہ طلب ہے کہ اللہ رب العالمین نے حکمران , قاضی , فقیہ , یا کسی عامی کے مابین فرق نہیں کیا , بلکہ تمام تر انسانوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے یعنی کافر , ظالم اور فاسق ۔ لہذا کسی بھی شعبہء زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص کیو ں نہ ہو وہ خلاف شریعت فیصلہ کرنے کی بناء پر کافر بھی ہو سکتا ہے , ظالم بھی ہو سکتا ہے اور فاسق بھی ۔ اور پھر فیصلوں میں اللہ تعالى نے یہ فرق نہیں کیا کہ کس شعبہء زندگی سے متعلق فیصلہ کفر ہے , یعنی فیصلہ خواہ عقائد سے متعلق ہو, عبادات سے متعلق ہو, معاملات سے تعلق رکھتا ہو , یا حدود اللہ کے بارہ میں ہو , بہر صورت وہ کفر بھی ہوسکتا ہے , ظلم بھی اور فسق یعنی گناہ بھی !
    امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں بھی لوگ خلاف شرع فیصلہ کرلیتے تھے کبھی اپنی ذات کے لیے تو کبھی کسی دوسرے شخص کے بارہ میں , ان فیصلوں میں سے اکثر کو اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے ظلم یا فسق ہی قرار دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرمائی :
    الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ (الأنعام: 82)
    وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم ساتھ نہ ملایا تو انہی کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔
    تو صحابہ کرام [FONT=&quot]] نے عرض کیا کہ ہم سے کون ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہ کیا ہو ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس ظلم سے مراد شرک اکبر ہے (صحیح بخاری :۶۹۳۷) ۔

    یعنی اللہ تعالى کی معصیت خواہ کسی بھی پیمانے پر ہو وہ ظلم قرار پاتی ہے , اور اگر یہ نافرمانی شرک اکبر کی صورت میں ہو تو انسان کو ملت اسلام سے خارج کر دیتی ہے ۔ اور صحابہ کرام [FONT=&quot]] اپنی غلطیوں کا اعتراف فرما رہے ہیں کہ بتقاضہ بشریت ہم سے غلطی سرزد ہو جاتی ہے اور اسے انہوں نے لفظ ظلم سے تعبیر کیا ۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس نے اپنی لونڈی کو ناجائز سزا دی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے سمجھایا تو اس نے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا تھا (صحیح مسلم :۵۳۷) ۔ اب اس شخص کی حیثیت اپنی لونڈی کے لیے ایک حکمران کی سی تھی لیکن اس نے اپنی لونڈی کو سزا دینے کا جو غلط فیصلہ کیا , وہ کفر نہیں تھا بلکہ ظلم تھا ۔ ایسے ہی سیدنا عمر بن الخطاب [FONT=&quot]t[/FONT] نے لوگوں کو حج تمتع (حج اور عمرہ اکٹھا ) کرنے سے منع کر دیا تھا (جامع الترمذی :۸۲۳) اور یہ فیصلہ بھی یقینا درست نہ تھا , اور انہوں نے بعد میں اس سے رجوع بھی فرما لیا تھا ۔ اسی قسم کے اور بھی بہت سے فیصلے ایسے ملتے ہیں جو شرعی احکامات کے منافی تھے لیکن فیصلہ صادر کرنے والے کو نہ تو رسول اللہ ﷺ نے کافر قرار دیا اور نہ ہی صحابہ کرام [FONT=&quot]][/FONT] نے ان پر کوئی ایسا فتوى لگایا ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات انسان لا علمی , یا اجتہادی غلطی , یا کسی مصلحت یا لالچ کے تحت غلط فیصلہ کر بیٹھتا ہے تو وہ کفر نہیں ہوتا ۔[/FONT]
    اسی بناء پر علمائے اسلام نے بھی متفقہ طور پر یہ بات کہی ہے کہ جب کوئی شخص خلاف شریعت فیصلہ کرتے ہوئے یہ سمجھے کہ اسکا فیصلہ شریعت سے بہتر ہے , تو ایسا آدمی کافر ہو جاتا ہے اور ملت اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص شرعی فیصلہ کو بہتر , اور افضل سمجھتا ہو , لیکن کسی سے انتقام لینے کی خاطر خلاف شرع فیصلہ دے دے تو وہ کافر نہیں بلکہ ظالم ہوگا ۔ اور اگر کسی کی محبت یا رشوت وغیرہ کی لالچ میں اسے فائدہ پہنچانے کی خاطر وہ شریعت مخالف فیصلہ کرے تووہ فاسق ہوگا ۔ یہی بات شیخ ا بن عثیمین نے مجموع فتاوى ورسائل میں ج۲ ص ۱۴۷-۱۴۰ پر کہی ہے , اور سعودیہ کی دائمی فتوى کمیٹی کے فتوى نمبر ۵۷۴۱ ,۵۲۲۶ میں بھی یہی بات موجود ہے ۔ اور تمام تر متقدمین مفسیرین نے بھی ان آیات کی تفسیر میں یہی وضاحت فرمائی ہے ۔
    یہی وجہ ہے کہ فقہائے احناف نے شریعت اسلامیہ کے منافی قوانین وضع کرتے ہوئے :
    صدر کو سزاؤں سے مستثنى قرار دیا (ہدایہ شریف , ج۴ ص ۹۹ , ط : البشرى) ,
    شاتم رسول ﷺ سے حد کو ختم کیا (ہدایہ , ج۲ ص ۵۹۸, عالمگیری,ج۲ ص ۲۵۳) ,
    پیسے دے کر زنا کرنے کو جائز قرار دیا (فتاویٰ عالمگیری ،ص:149، ج:2، البحر الرائق ،ص:30، ج:5) ,
    گونگے بہرے کو ہم قسم حدود معاف کر دیں (فتاویٰ عالمگیری، ص:149، ج:2) ,
    دار الحرب میں عام زناکرکے آنے والے پر حد کو ساقط قرار دیا (فتاویٰ عالمگیری، ص:149، ج:2،) ,
    کتابوں (الھدایۃ کتاب السرقۃ باب مایقطع فیہ وما لا یقطع،ص:146، ج:4مطبوعہ مکتبہ البشریٰ کراچی)
    اور قرآن مجید کی چوری کرنے والےکا ہاتھ نہ کاٹنے کا قانون پاس کیا (الھدایۃ ص:144، ج:4،فتاویٰ عالمگیری،ص: 177،ج:2) ,
    بردہ فروش (بچے اغواء کرکے بیچنے والے) پر حدکو ختم کر دیا (ص:145،ج:4،مکتبہ البشریٰ) ,
    مساجد سے چوری کرنے کو جائز بنا دیا (الھدایۃ کتاب السرقۃ باب مایقطع فیہ، ص:144-145، ج:4) ,
    پہرہ دار اور محافظ کی موجود گی میں دکانوں سے چوری کرنے والے کو کھلی چھوٹ دی (الھدایۃ ص:154، ج:4)
    اور فقہ حنفی کے ان قوانین کے مطابق ایک عرصہ تک حنفی قاضی عدالتوں میں فیصلے کرتے رہے , لیکن اس سب کچھ کے باوجود کسی نے بھی نہ تو فقہائے احناف کو کافر قرار دیا اور نہ ہی فقہ حنفی کے مطابق فیصلہ کرنے والے حکمرانوں اور قاضیوں پر کسی نے کفر کا فتوى لگایا ۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ اسکی اجازت نہیں دیتی ۔ مگر صد افسوس کہ آج فقہ حنفی کے انہی قوانین کے مطابق پاکستانی عدالتوں میں مقدمات کے فیصلے کیے جانے لگے تو چور مچائے شور والی صورت پیدا ہوگئی اور حنفیت کے علمبرداروں نے ہی انہیں طاغوتی عدالتیں , طاغوتی حکمران , اور طاغوتی فیصلوں کے لقب سے نوازنا شروع کر دیا ۔لیکن ان جاہلوں کو یہ علم نہیں ہے کہ اگر انکی بات درست تسلیم کر لی جائے تو فقہ حنفی کا ہر مفتی طاغوتی مفتی اور انکا ہر دار الافتاء طاغوتی فتوى سنٹر قرار پاتا ہے ۔
    فاعتبروا یا اولی الابصار ........!





    تکفیری دلائل کا علمی محاکمہ
    پہلی دلیل :
    شیخ محمد بن ابراہیم اور صالح الفوزان نے کہا ہے کہ ایسا حکمران جو پوری شریعت کے قوانین کو چھوڑ کر اپنے یا کسی اور کے قوانین کو نافذ کرتا ہے اور اپنے ما تحت سب پر لاگو کر دیتا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اس نے ان قوانین کو اللہ تعالى کے فیصلوں سے افضل وبہتر سمجھا ہے ۔
    محاکمہ
    اولا : یہ دلیل اس قابل ہی نہیں ہے کہ دلیل بن سکے ! کیونکہ شرعی مسائل واحکام میں دلیل تو صرف وحی الہی یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ ہی بن سکتی ہے ۔ کسی بھی فقیہ یا محدث یا مفتی کا فتوى جب تک قرآن وحدیث کے دلائل سے مزین نہ ہوگا شریعت اسلامیہ میں اسکی کوئی وقعت نہیں ہوگی ۔
    ثانیا : یہ موقف قرآن مجید فرقان حمید کے اس شرعی حکم کے خلاف ہے جس میں شک کرنے سے منع کیا گیا ہے (سورۃ الحجرات :۱۲) ۔ کیونکہ اس موقف میں فیصلہ نافذ کرنے والے کی نیت پر شک کیا گیا ہے کہ اس نے اپنے فیصلہ کو خدائی فیصلہ سے افضل وبہتر ہی سمجھا ہوگا , جبکہ دلوں کے بھید تو صرف اللہ تعالى ہی جانتا ہے ۔ اور پھر شک کی بنیاد پر تو اسلام میں نہ کوئی حد قائم کی جاتی ہے اور نہ تعزیری سزا دی جاسکتی ہے , جبکہ یہ تو کفر اسلام کا معاملہ ہے , اس میں شک پر بنیاد رکھنا کیسے جائز ہوگا ؟ حتى کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ [FONT=&quot]a نے اپنے فتاوى کی جلد۱۲ صفحہ۴۶۶ میں یہ شرعی قاعدہ نقل کیا ہے "جس شخص کا اسلام یقین سے ثابت ہو جائے اسے محض شک کی بنیاد پر دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جاسکتا" ۔[/FONT]
    ثالثا :جس طرح یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس فیصلہ نافذ کرنے والے نے یہ سمجھ کر فیصلہ نافذ کیا ہوگا اسی طرح یہ بھی احتمال پایا جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے اس نے اس وجہ سے نہ نافذ کیا ہو بلکہ کسی سے انتقام کی خاطر یا دنیوی منفعت ولالچ کی بناء پر ایسا کیا ہو , اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس نے اسکے لیے کسی تاویل کا سہارا لیا ہو , یا اسے اس بارہ میں خدائی فیصلہ کا صحیح طور پر علم ہی نہ ہو ۔ اور شرعی اصول سب کے ہا ں مسلّم ہے کہ جب کسی بارہ میں مختلف احتمالات موجود ہوں تو اس وقت کسی ایک بات کو ترجیح دینا جائز نہیں ہوتا ۔
    رابعا: انہی خامیوں اور کمزوریوں کی بناء شیخ ابن عثیمین نے اپنے پرانے موقف سے رجوع بھی کر لیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنی آڈیو کیسٹ "التحذیر فی مسئلۃ التکفیر " میں جسے ۲۲/۳/۱۴۲۰ میں ریکارڈ کیا گیا یہ فتوى دیا تھا " اگر کوئی حکمران قانون نافذ کرے اور اسے دستور بنا دے جس پر لوگ چلتے رہیں اور اس کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اس میں ظالم ہے حق تو قرآن وسنت میں ہے تو ہم ایسے شخص کو کافر نہیں کہہ سکتے , کافر تو وہ ہے جو غیر اللہ کے فیصلے کو بہتر سمجھے یا اللہ تعالى کے فیصلہ کے برابر سمجھے ۔"
    شیخ کا یہ فتوى کتابی شکل میں بھی "مجموع فتاوى ورسائل شیخ ابن عثیمین ج۲ ص ۴۵ تا ۵۰ میں موجود ہے ۔
    دوسری دلیل :
    اللہ تعالى کا فرمان ہے " وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (المائدۃ: 44) "
    اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے تو وہ کافر ہیں ۔
    محاکمہ
    ظاہری طور پر تو اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جس نے بھی اللہ تعالى کے فیصلہ کو چھوڑا تو وہ کافر ہو جائے گا ۔ لیکن اس آیت سے یہ ظاہر معنى مراد نہیں ہے ۔ اسکی قدرے وضاحت تو ہم سابقہ سطور میں کر چکے ہیں کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں کو الہی فیصلوں سے برتر سمجھتے ہیں یا مساوی قرار دیتے ہیں ۔
    اسی لیے امام ابن حزم [FONT=&quot]a نے سورۃ المائدہ کی ان تینوں آیات کی تفسیر کرنے کے بعد فرمایا "تو معتزلہ پر لازم ہے کہ وہ ہر گنہگار ظالم اور فاسق شخص کو کافر قرار دیں , کیونکہ کسی بھی قسم کی نافرمانی اور معصیت کرنے والا , اللہ تعالى کے نازل کردہ فیصلہ کے خلاف کیا ہے ۔"[/FONT]
    تیسری دلیل :
    بعض لوگ اس آیت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں :
    أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ ( المائدة : 50)
    پھر کیا وہ جاہلیت کافیصلہ چاہتے ہیں , اور اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے , ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ۔
    محاکمہ
    اس آیت کا مطلب تو صاف واضح ہے کہ جو شخص اللہ کے حکم سے دوسرے احکام کو بہتر سمجھتا ہے وہ اللہ پر یقین رکھنے والا یعنی مؤمن نہیں بلکہ کافر ہے ۔ اور اس مسئلہ میں تو کس کا کوئی اختلاف نہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالى فرما رہے ہیں کہ اہل ایمان کے لیے فیصلہ کے اعتبار سے اللہ سے بہتر کوئی نہیں ۔ لیکن وہ شخص جو اللہ کے حکم کو چھوڑتا ہے لیکن وہ بہتر اللہ کے حکم کو ہی سمجھتا ہے , وہ کافر ہے یا نہیں اسکے متعلق اس آیت میں کوئی واضاحت اور دلیل نہیں ہے ۔
    چوتھی دلیل :
    کچھ علماء نے اس آیت کو بطور دلیل پیش کیا ہے :
    فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( النساء :65)
    ہر گز ایسا نہیں ! آپکے رب کی قسم یہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک آپکو باہم جھگڑوں میں حاکم نہ مان لیں اور پھر آپکے کیے ہوئے فیصلہ کے بار ہ میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور سر تسلیم خم کر لیں ۔
    محاکمہ
    اس آیت سے مراد کفراکبر یعنی ایسا کفر نہیں جو انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کردے بلکہ مراد کفر اصغر یعنی کبیرہ گناہ ہے ۔ کیونکہ یہ آیت ایک بدری صحابی کے بارہ میں نازل ہوئی تھی جنکا سیدنا زبیر بن العوام [FONT=&quot]t سے جھگڑا ہو گیا تھا ۔ جب معاملہ نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ ﷺ نے فیصلہ زیبر [FONT=&quot]t[/FONT] کے حق میں فرما دیا ۔ تو اس نے کہا آپ ﷺ نے زبیر [FONT=&quot]t[/FONT] کے حق میں فیصلہ اس لیے دیا ہے کہ وہ آپکی پھوپھی کا بیٹا ہے ۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی (صحیح بخاری :۲۰۵۹)[/FONT]
    اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں " اور یہ وہ آیت ہے جسے خوارج ایسے حکمرانوں کی تکفیر کے لیے بطور حجت پیش کرتے ہیں جو اللہ کے نازل کردہ فیصلوں کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں (منہاج السنہ ج۵ ص ۱۳۱)۔
    یعنی بقول ابن تیمیہ [FONT=&quot]a اس آیت سے کفر اکبر مراد لینا اور حکام کی تکفیر کرنا خارجیوں کا وطیرہ ہے ۔ کیونکہ اگر اس آیت سے تکفیر کرنا جائز ہو تواس بدری صحابی کی تکفیر بھی لازم آتی ہے جس کے بارہ میں یہ آیت نازل ہوئی ۔[/FONT]
    پانچویں دلیل :
    کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں :
    أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا (سورة النساء : 60)
    کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ پر نازل شدہ (شریعت) اور آپ سے پہلے نازل شدہ (شریعتوں) پر ایمان لے آئے ہیں , جبکہ وہ طاغوت کی طرف اپنے فیصلے لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ وہ طاغوت کا انکار کرنے کا حکم دیے گئے ہیں اور شیطان تو انہیں دور کی گمراہی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے ۔
    محاکمہ
    یہ آیت بھی حکمرانو ں اور عدلیہ کو کافر قرار دینے کے لیے دلیل نہیں بنتی ! ۔ کیونکہ اس آیت میں طاغوت سے فیصلہ کروانے سے روکا جار ہا ہے ۔ جبکہ پاکستانی عدلیہ اور حکام کا طاغوت ہونا ہی ثابت نہیں ہے ۔ جیسا کہ ہم سابقہ صفحات میں واضح کر آئے ہیں کہ انکی تو تکفیر بھی نہیں ہو سکتی چہ جائیکہ انہیں طاغوت قرار دیا جائے ۔ اور طاغوت تو بد ترین اور سرکش قسم کا کافر ہوتا ہے ۔ یعنی کسی کو طاغوت کہنے کا مطلب اسے بدترین اور غلیظ ترین کافر قرار دینا ہوتا ہے ۔ اور جس شخص کا کافر ہونا ہی ثابت نہیں ہوسکا توکیسے ممکن ہے کہ اسے طاغوت قرار دے دیا جائے ۔ کیونکہ طاغوت تو وہ ہوتا ہے جو لوگوں سے اپنی عبادت کروائے , علم غیب اور اس طرح کی دیگر خدائی صفات کا دعوى کرے جیسا کہ فرعون اور نمرود وغیرہ نے کیا تھا ۔
    چھٹی دلیل
    یہ دلیل بڑی شدو مد کے ساتھ پیش کی جاتی ہے کہ تاتاریوں نے جب اپنے قوانین کے مجموعہ "الیاسق" نامی کتاب کو دستور بنا کر نافذ کر دیا تو علمائے امت نے انہیں کافر قرار دے دیا اور حافظ ابن کثیر [FONT=&quot]a نے تو ان کے کافر ہونے پر اجماع نقل کیا ہے ۔ اور آج کے حکمرانوں نے بھی خود ایک مسودہ قانون بنا کر لوگوں پر نافذ کیا ہوا ہے جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ [/FONT]
    محاکمہ
    حافظ ابن کثیر نے [FONT=&quot]a نے تاتاریوں کے کفر جو اجماع نقل کیا ہے وہ درست ہے کہ تاتاری کافر تھے , انکے کفر کی کئی ایک وجوہات تھیں کیونکہ وہ اپنے ایجاد کردہ قوانین کے مجموعہ "الیاسق" کو الہی قوانین سے اعلى وبہتر سمجھتے تھے اور انہیں اپنے حلال قرار دیتے تھے ۔ جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ [FONT=&quot]a[/FONT] نے اپنے فتاوى جلد۲۸ صفحہ ۵۳۲ پر تفصیلا بیان کیا ہے ۔ اور اسی طرح خود حافظ ابن کثیر [FONT=&quot]a[/FONT] نے بھی اپنی تفسیر میں سورۃ المائدہ کی آیت ۵۰ کی تفسیر کرتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے ۔ [/FONT]
    جبکہ پاکستان کے موجودہ مسودہ قانون میں یہ بات موجود نہیں ہے , بلکہ بات اسکے برعکس ہے کیونکہ ۱۹۷۳ء کے آئین اور پاکستان کی قرار داد مقاصد میں یہ بات درج ہے کہ ہمارے ملک کا کوئی قانون بھی قرآن وحدیث کے خلاف نہیں بن سکتا ۔ اور جب بھی کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو اس پر نہایت غور خوض اور بحث مباحثہ کے بعد اسے پاس کیا جاتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ راہنمائی کرنے والے روپے پیسے کی لالچ میں صحیح راہنمائی نہیں کرتے ۔ اور پھر اگر کوئی قانون شریعت کے خلاف بن جاتا ہے تو حکمران یا عوام یا عدلیہ میں سے کوئی بھی اسے قرآن وسنت کے مقابلہ میں افضل وبہتر نہیں سمجھتا ۔
    ساتویں دلیل :
    بعض لوگ ابن تیمیہ [FONT=&quot]a کا قول بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ہے " ایسے حکمران کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص اللہ تعالى یا نبی کریم ﷺ یا قرآن کی تعظیم دل سے تو کرتا ہے لیکن اللہ تعالى یا نبی کریم ﷺ کو گالی دیتا ہے یا قرآن مجید کی بے حرمتی کرتا ہے , تو ایسے شخص کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ زبان سے تصریح کرے بلکہ اسکا یہ عمل ہی کافی ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔[/FONT]
    محاکمہ :
    اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اللہ تبارک وتعالى کو یا امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷺ کو گالی دیتا ہے , وہ کافر ومرتد ہو جاتا ہے ۔ اگرچہ فقہ حنفی ایسے شخص کے بارہ میں نرم گوشہ رکھتی ہے جیسا کہ الھدایۃکتاب السیر ،ص:598،ج:2،فتاویٰ عالمگیری ،ص:253، ج:2میں اس شاتم رسول کافر کوجوٹیکس دیتا ہو واجب القتل نہیں قرار دیا گیا حتى کہ حنفی فقیہ ابن نجیم حنفی لکھتا ہے :’’ مؤمن کا دل نفس مسئلہ میں سبّ رسول ﷺ میں مخالف (امام شافعی ) کے قول کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن ہمارے لئے اپنے مذہب کی اتباع ضروری ہے ۔ [البحر الرائق کتاب السیر ،ص:115،ج: ۵]۔ لیکن بہر حال محدثین کرام کا طبقہ اسے واجب القتل ہی قرار دیتا ہے ۔
    مگر خلاف شرع فیصلہ کرنے اور اللہ یا اسکے رسول ﷺ کو گالی دینے کا معاملہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے ۔ کیونکہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر سب وشتم کرنے والے کے کفر پر اجماع ہے اور خلاف شرع فیصلہ کرنے والے کے کفر پر کوئی اجماع نہیں حتى کہ خود اللہ تبارک وتعالى نے قرآن مجید فرقان حمید میں بھی ایسے لوگوں کو تین مختلف طبقات یعنی کافر , ظالم , اور فاسق میں تقسیم کیا ہے ۔ باقی رہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کی تو اپنے قول کا مفہوم وہ خود صحیح طور پر سمجھنے والے تھے اور انہوں نے اسے واضح بھی کیا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں " اور شرع مبدل (یعنی تبدیل شدہ شریعت ) وہ جس میں اللہ تعالى پر اور اسکے رسول ﷺ پر جھوٹ باندھا جائے یا لوگوں پر جھوٹی شہادتوں کے ذریعہ سے جھوٹ باندھا جائے , اور یہ کھلا ظلم ہے , سو جس نے یہ کہا کہ یہ اللہ تعالى کی شریعت میں سے ہے , تو وہ بلا نزاع کافر ہے " (فتاوى ابن تیمیہ جلد۳ صفحہ ۲۶۸)۔
    یعنی امام ابن تیمیہ [FONT=&quot]a اس حکمران کے کافر ہونے کی بات کر رہے ہیں جو اپنے بنائے ہوئے قوانین کو الہی قوانین قرار دیتا ہے ۔ اور اس کے کفر اکبر ہونے میں ہمیں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ جو شخص خود قانون بنائے اور پھر یہ کہے کہ یہ اللہ کا قانون ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے ۔[/FONT]
    جبکہ ہمارے معاشرہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ دستور پاکستان , یا قانون پاکستان کو نہ تو خدائی قانون قرار دیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں خدائی قانون کا درجہ دیا جاتا ہے ۔

    خاتمہ

    اس ساری بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بہت سی صورتوں میں خلاف شرع فیصلہ کرنا کفر نہیں بنتا , اور جن صورتوں میں کفر بنتا ہے ان میں بھی کسی خاص شخص کو کافر قرار دینے سے پہلے دین اسلام میں کسی کو کافر قرار دینے کے اصول لاگو کرنا ہوں گے اور اس پر حجت قائم کرنا ہوگی ۔ اور تکفیر کے اصول و قوانین کو بالائے طاق رکھ کر کسی کو کافر قرار دینا یہ خوارج کا منہج اور طریقہ کار ہے ۔

    ـــــــــــــــــ
    بہتر فارمیٹنگ میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں:
    http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-article-875.html
     
    Last edited: ‏مارچ 17, 2016
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. طالب علم

    طالب علم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2007
    پیغامات:
    960
    محترم شیخ جزاک اللہ، بہت اچھے مضامین شئیر کر رہے ہیں آپ، اسی ضمن میں چند اور دلائل پیش کیے جاتے ہیں موجودہ دور کے تکفیری اذہان کی طرف سے، مثال کے طور پر

    نیٹو کی فوجوں کی امداد اور ان کو سپلائی کا مہیا کرنا
    مسلمانوں کو پکڑ کر یہودیوں اور عیسائیوں کے حوالے کرنا
    جزیرہ عرب میں مشرکین کو اڈے فراہم کرنا
    مسلمانوں کے خلاف کافر افواج کی مدد کرنا
    قرانی احکام کے لاگو کرنے کے لیے پارلیمینٹ کی توثیق کو لازمی سمجھنا
    "
    وغیرہ وغیرہ

    آپ سے درخواست ہے اس پر بھی روشنی ڈالیں کہ یہ کب کفر اکبر یا اصغر کی صورت اختیار کرتے ہیں، جزاک اللہ۔ کیونکہ انہی دلائل کی بنا پر پاکستانی اور سعودی حکمرانوں کی یہ 'مواحدین' تکفیر کرتے ہیں
     
  3. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
    ۱۔ جنگ میں دھوکہ تو خوب چلتا ہے , نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے "الحرب خدعۃ" یہ سب سپلائی اسی دھوکہ کی قبیل سے ہے , کیونکہ یہی سپلائی مہیا کرنے کے بہانے انکی بہت سے سپلائی لوٹی گئی اور اب وہ تمام تر جدید ترین ٹیکنالوجی مجاہدین استعمال کر رہے ہیں ۔ اور چھ سو , سات سو اور اس سے بھی زائد کینٹینرز کے لٹنے کی خبریں تو اخبارات کی زینت بھی بنی ہیں ۔
    جیسا کہ جنگ سے بھاگنا کبیرہ گنا ہ ہے لیکن پینترا بدلنے کے لیے بھاگنے کے اجازت اللہ نے دے رکھی ہے ۔ ایسے ہی مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنا کبیرہ گناہ ہے مگر کفار کو ہی نقصان پہنچانے کے لیے اس قسم کے حربے استعمال کرنا درست ہے ۔ اور آج بھارت و امریکہ واسرائیل مل کر دھائی دے رہے ہیں کہ پاکستانیوں نے ہمیں مروا دیا ۔
    اور جنگ ایسی ہی حکمت عملی کا نام ہے ۔
    ۲۔ مسلمانوں کو پکڑ کر یہودیوں اور عیسائیوں کے حوالے کسی مسلمان نے نہیں کیا اور نہ ہی کوئی مسلمان ایسا کر سکتا ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ کچھ مجاہدین اپنی غلطیوں کی بناء پر پکڑے گئے ہیں اور انکے خلاف امریکیوں نے ایکشن کیا ہے ۔ اسکا تفصیلی جواب " جابر علی عسکری " کے مضمون میں موجود ہے جو ملتقى اہل الحدیث کی زینت بنا تھا ۔
    ۳۔ یہ بات یقینا غلط ہے ۔ لیکن زیادہ سے زیادہ کبیرہ گناہ ہے , کفر یا شرک نہیں ۔ جو اسے کفر یا شرک کہتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے دعوى کی دلیل پیش کرے ۔
    ۴۔ اسکا جواب (۱) میں ہو چکا ہے ۔
    ۵۔ اسی طرح قرآنی احکام کو لاگو کرنے کے لیے کسی فقیہ کی اجازت ہونا بھی آل تقلید کے ہاں ضروری ہے ۔ کیونکہ مقلدین قرآن وحدیث کی صرف وہ بات مانتے ہیں جسے انکے امام نے ماننے کی اجازت دی ہو ۔ فماذا جوابکم فہو جوابنا !
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  4. سعد سلفی

    سعد سلفی رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏اگست 29, 2013
    پیغامات:
    25
    جزاک اللہ خیرا شیخ‌، شاندار مضمون اور خوارج کی ایک ایک تلیس کا مدلل اور کافی و شافی رد۔۔۔
     
  5. Ishauq

    Ishauq -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 2, 2012
    پیغامات:
    9,612
    جزاک اللہ خیرا
     
  6. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں