بنگلہ دیش :کبھی یہ شہر میرا تھا ،زمین میری تھی

ابومصعب نے 'مضامين ، كالم ، تجزئیے' میں ‏جون 12, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    بنگلہ دیش :کبھی یہ شہر میرا تھا ،زمین میری تھی

    ڈاکٹر سلیم خان


    انسانی تاریخ وہ مناظر دکھلاتی ہے جو کبھی کسی کے خواب و خیال میں نہیں ہوتےمثلاً کون سوچ سکتا تھا کہ جوامریکی بحری بیڑہ بنگلہ دیش کو عالمِ وجود میں آنے سے روکنے کیلئے چلا تھا وہ اکتالیس سال کے انتظارِ بسیار کے بعد بالآخر جب چٹا گانگ کے قریب مینگ جی نامی جزیرے پر پہنچے گا تواس کا خیر مقدم کیا جائیگا اور بنگلہ دیش میں امریکہ کو فوجی اڈہ قائم کرنے کی اجازت حاصل ہو جائیگی ۔ سقوطِ پاکستان یا بنگلہ دیش کی آزادی کے دن وہ ڈھاکہ سے ۱۷۶۰ کلومیٹر کے فاصلے پر خاموش تماشائی بنا ہوا تھا ۔ ساری دنیا حیرت زدہ تھی کہ آخر پاکستان کےاس حلیفِ اعظم نے آزمائش کی اس نازک گھڑی میں تاخیر کیوں کی ؟لیکن گزشتہ دنوں امریکی انتظامیہ نے جو محفوظ دستاویزات کو عوام کیلئے جاری کیا تو پتہ چلا کہ وہ وہ تاخیر سہواً نہیں بلکہ عمداً تھی ۔اس کی وجہ یہ تھی بحری بیڑے کی نقل و حرکت کا مقصد سرے سے پاکستان کی مدد کرنا تھا ہی نہیں ۔وہ تو چین کی مدد کیلئے آیا تھا اتفاق سے اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئی لیکن اب قدرت کا ایک اور کرشمہ دیکھئے کہ اس بار وہ بنگلہ دیش میں چین پر نگاہ رکھنے کیلئے یا اس خطے میں اس کے اثرات کو زائل کرنے کی غرض سے لنگر انداز ہوا ہے گویا حالات بالکل ہی ’یو ٹرن ‘لے چکے ہیں ۔ کل کے دوست آج کے دشمن ہو چکے ہیں ۔آج نہ صرف چین بلکہ پاکستا ن کابھی شمارامریکہ کے دشمنوں میں ہوتا ہے نیز ہندوستان اور بنگلہ دیش جنوب مشرق ایشیا میں امریکہ کے سب سے بڑے حلیف بنے ہوئے ہیں۔ آتش نے کیا خوب کہا تھا ؎
    زمينِ چمن گُل کھِلاتي ہے کيا کيا
    'بدلتا ہے رنگ آسماں کيسے کيسے'
    سرد جنگ کے زمانے میں ؁۱۹۷۱ غیر معمولی اہمیت کا سال تھا ۔ اس سال ہندوستان نے سوویت یونین کے ساتھ ایک اہم ترین فوجی معاہدے پر دستخط کئے تھے جس نے چین اور پاکستان دونوں کو فکر مند کر دیا تھا ۔امریکہ بھی اس پیش رفت سے گھبرا گیا تھا ۔ اس پیش رفت کا نتیجہ یہ ہوا کہ سوویت یونین کے اثرات کو زائل کرنے کی غرض سے امریکہ نے چین کے ساتھ پینگیں بڑھانی شروع کیں ۔ اسی زمانے میں ہنری کسنجر نے چین کا خفیہ دورہ بھی کیا اور چو این لائی و ہنری کی جو گفتگو منظرِ عام پر آئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ چین کو خوف لاحق ہوگیا تھا کہ یہ جنگ پھیل کر اس کیلئے کوئی مصیبت نہ بن جائے ۔ اس لئے انہوں نے امریکہ سے مدد مانگی اس کے جواب میں ساتویں بحری بیڑے نے بحر ہند کی جانب کوچ کیا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ۱۳ جون کو واشنگٹن میں امریکہ بھارت کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات کی تیاری زور و شور سےچل رہی ہے جس کی صدارت امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا مشترکہ طورپر کریں گے۔
    امریکہ اور بنگلہ دیش کی دوستی کا جواز پیش کرنے والےکالم نویس بنگلہ دیش کا موازنہ پاکستان سے کرتے ہوئے کہتے ہیں بنگالی عوام نے دو قومی نظریہ کو ٹھکرایا ہے ۔وہ مزاجاً لا مذہبیت کے قائل ہیں مراد اسلام کے دشمن ہیں ۔ ان کی حکومت نے اسلامی دہشت پسندی کے خلاف گزشتہ تین سالوں سے جہاد چھیڑ رکھا ہے ۔ ان کے ہندوستان سے نہایت خوشگوار تعلقات ہیں۔ اس لئے وہ امریکہ کے فطری ہمنوا ہیں ۔ یہ احمق دانشور نہ ہی بنگالیوں کی تاریخ و نفسیات سے واقف ہیں اور نہ ہی وہاں کھیلی جانے والی سیاست کو جانتے ہیں ۔اس لئے کہ بنگلہ دیش کی امریکہ سے دوستی اتنی حیرت انگیز نہیں ہے جتنا کہ اس کا پاکستان سے الگ ہو جانا ہے ۔ انگریزوں نے ہندوستانیوں کو آزادی کی شراب پلانے سے قبل ہی انتخابات کا چسکہ لگا دیا تھا اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ؁۱۹۳۷ کے انتخابات میں مسلم لیگ صرف بنگال میں اکثریت حاصل کرپائی تھی۔ ؁۱۹۴۵ کے انتخابات میں بھی مسلم لیگ کو اکثریت صرف بنگال اور سندھ میں ملی تھی پاکستان کا دل اور دست و بازو سمجھے جانے والے پنجاب اور صوبہ سرحد سے نہیں۔ بلوچستان تو خیر اس وقت اس عمل میں شامل ہی نہیں تھا اور توا ور پاکستان کے اولین وزیر اعظم لیاقت علی خان مشرقی پاکستان کے کوٹہ پر آئے تھے اور ڈاکٹر امبیڈکر کو پارلیمان کی رکنیت دلانے کا سہرہ بنگال کی مسلم لیگ ہی کے سر ہے ۔ تخلیق پاکستان سے قبل متحدہ بنگال کے وزیرِ اعلیٰٰ فضلِ حق تھے۔ اس زمانہ میں جب بہار کے اندر مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تو فضلِ حق نے کہا تھا کہ اس کے رد عمل میں ہندؤں کے خلاف بنگال کے اندر فساد ہوسکتا ہے ۔ اس بیان کے بعد بہار میں فسادات کا سیلاب تھم گیا تھا گویا پاکستان بنانے میں بنگال کا حصہ پنجاب سے زیادہ تھا بقول احمدفراز ؎
    کبھی یہ شہر میرا تھا، زمین میری تھی
    مرے ہی لوگ تھے میرے ہی دست و بازو تھے
    میں جس دیار میں بے یار و بے رفیق پھروں
    یہاں کے سارے صنم میرے آشنا رو تھے
    لیکن پھرایوب خان کی سفاکیوں، یحیی خان کی حماقتوں اور ذوالفقارعلی بھٹو کی شرارتوں کے سبب وہ وقت بھی آیا کہ سرزمینِ پاک دو نیم ہوگئی ۔ سبز پر چم پر ہلالی خنجرکی جگہ سوریہ دیوتا نمودار ہوگیا جس کا رنگ سرخ تھا اور احمد فراز کوڈھاکہ کے میوزیم میں وہ تصاویر دیکھنے پر مجبور ہونا پڑا جن کے بارے میں شاعر کہتا ہے ؎
    کہیں مرے سپہ سالار کی جھکی گردن
    عدو کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا سماں
    مرے خدا میرے بینائی چھین لے مجھ سے
    میں کیسے دیکھ رہا ہوں ہزیمت یاراں
    کسی زمانے میں بنگلہ دیش کو آزاد کروانے والے شیخ مجیب الرحمٰن کا سر اندرا جی کے آگے فرطِ عقیدت کے ساتھ خم تھا آج ان کی بیٹی حسینہ واجد کا سر امریکیوں کے آگے اسی طرح جھکا ہوا ہے جیسے کبھی جنرل نیازی کی گردن ہندوستانی فوج کے آگےجھکی ہوئی تھی ۔ یہ وہی بد عنوان حسینہ ہے جسےقومی خزانے کو لوٹنے سبب نہ صرف اقتدار سے محروم ہونا پڑا بلکہ جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی اور ایک سال کے بعد جب وہ ؁۲۰۰۷ میں جیل سے پیرول پر رہا ہوئی تو لندن کے راستے امریکہ پہنچ گئی ۔ اس وقت تک بنگلہ دیش کی رائے عامہ امریکہ کے خلاف تھی ۔ امریکہ کی عراق فوج کشی کے خلاف زبردت عوامی مظاہرے ہو تےرہے تھے ۔ امریکیوں نے ؁۲۰۰۸ میں خوفزدہ ہو کر بنگلہ دیش کو ایک خطرناک ملک قرار دے دیا تھا لیکن شیخ حسینہ واجد کے ساتھ جو عہد وپیمان آج سے پانچ سال قبل امریکہ کی سر زمین پر ہوئے تھے، اقتدار پر قابض ہونے بعد بڑی سعادتمندی سے وہ انہیں نبھا رہی ہے ۔
    امریکہ کو اس بات علم ہے اس کے استعماری عزائم کو اگر کوئی چیلنج کر سکتا ہے تو وہ اسلام پسند قوتیں ہیں۔اس لئے اس نے حسینہ واجد کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف لگا دیا ۔ چالیس سال پرانے جنگی مقدمات کا دفتر کھول دیا گیا اوراس کے ذریعہ امریکہ مخالف طاقتوں کو دہشت زدہ کر دیا گیا ۔ اب صورتحال یہ ہے جماعت کے معصوم رہنما جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور امریکی بھیڑئیے دندناتے پھر رہے ہیں ۔ ایک جزیرہ دشمن کوسونے کی طشتری پر رکھ فوجی اڈہ بنانے کیلئے دیاجارہا ہے لیکن نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ روکنے والا ہے ۔
    گزشتہ ماہ کے اوائل میں امریکی وزیرخارجہ ہلری کلنٹن نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور عوام سےکہا کہ وہ اپنی اندرونی رنجشیں بھلا دیں، اس لئے کہ امریکہ بنگلہ دیش سے بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ ہلری کلنٹن نےاپنے دورے کے پہلے دن ڈھاکہ میں وزیر اعظم شیخ حسینہ اور وزیر خارجہ دیپو مونی سےملاقات کی، یہ وہی دیپو دیدی ہیں جن سے گزشتہ سال امریکی حکومت نے نیویارک میں جاری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کہا تھا کہ وہ طالبان کے خلاف جاری فوجی کارروائی میں حصہ لینے کیلئے اپنے فوجی افغانستان روانہ کرے۔اس کے بعدبنگلہ دیشی وزرات خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں اعتراف کیا گیا تھا کہ ڈھاکہ حکومت امریکہ کی درخواست پرغور کر رہی ہے۔ڈھاکہ حکومت کی طرف سے اس درخواست پرغور کرنے کےاعلان کے بعد ہی افغان طالبان نے بنگلہ دیش کی حکومت کو خبردار کیا تھا بنگلہ دیش افغانستان میں فوج بھیجنے کی تاریخی غلطی سے گریز کرے۔امریکہ کی جانب سے کئے جانے والے اس بیجا مطالبے پر غور کرنا خود اپنے آپ میں ایک شرمناک حرکت ہے ۔
    بنگلہ دیش دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے حسینہ واجد کے علاوہ حزب مخالف کی رہنما بیگم خالدہ ضیا سےبھی ملاقات کی اور مختلف اسٹرٹیجک اور معاشی تعاون کے امور پر گفتگوکی ۔بنگلہ دیش کے اندرامریکی سرمایہ کاری اور وہاں کی منڈیوں میں زیادہ سے زیادہ رسائی پر بھی غور ہوا لیکن ذرائع ابلاغ میں زیر بحث حزب مخالف کے رہنماؤں کی گمشدگیوں کےمعاملہ پر مکمل خاموشی چھائی رہی ۔ اس سال ۲۲ سیاسی رہنماوں کے غائب ہونے کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے تسلیم کیا ہے ۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے قائم کردہ وہ بدنامِ زمانہ ٹریبونل ہے جس کی بابت نیویاک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کہہ چکی ہے کہ حکومت کی جانب سے قائم کردہ جنگی جرائم کے ٹربیونل کا قانونی طریقہ کار بین الاقوامی معیارات پر پورا نہیں اترتا۔ اگر ملزموں کے ساتھ بین الاقوامی معیار کے مطابق انصاف کرنا ہے تو ٹریبونل کو اپنے طریقۂ کار میں تبدیلیاں کرنی ہوں گی ۔ جنگی جرائم کے تحت گرفتار ہونے والوں میں نہ صرف جماعت ا سلامی بنگلہ دیش بلکہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن بنگلہ دیشی نیشنل پارٹی کے رہنما بھی شامل ہیں ۔ تمام ملزمین نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ حکومت ان کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہی ہےاوراس نے اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے مذکورہ ٹربیونل قائم کر رکھا ہے ۔لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ ہلری کلنٹن اس مسئلہ پراظہارِ خیال کریں گی لیکن انہوں نے بند کمرے میں فوجی اڈہ قائم کرنے کی تفصیل طہ کرنے کے علاوہ جو کچھ کیا وہ محض ریاکاری تھی ۔
    سرد جنگ کے ختم ہو جانے کے بعد امریکہ کو نظریاتی سطح پر سب سے بڑا چیلنج اسلام کی جانب سے ملا اور عسکری ومعاشی سطح پر چین سے ۔ یہ بھی ایک حسنِ اتفاق ہے کہ امریکی استعماریت کے سب سے بڑے دشمن چین اور ایران گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے دوست ہو گئے ۔ اس لئے اب امریکہ کی توجہات یوروپ کے بجائے ایشیا کی جانب مرکوز ہو گئی ہیں۔ اس حقیقت کا عتراف اسی ہفتہ امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کیا وہ بولے ایشیا پردھیان مرتکز کرنے کی ایک نئی حکمت عملی کےطور پر، آئندہ کئی برسوں تک امریکہ کے بحری جنگی بیڑوں کو کثیر تعداد میں ایشیا پیسفک کے خطےمیں منتقل کیا جائے گا۔ اِس وقت بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس میں امریکی بحری فوج تقریبا۵۰۔۵۰فی صد کے تناسب سے تعینات ہے، جسے اب بحر الکاہل میں ۶۰فی صد اور بحر اوقیانوس میں ۴۰فی صد کردیا جائے گااوریہ نئی تعیناتی ؁۲۰۲۰ تک مکمل ہو جائیگی۔انہوں نے بحرالکاہل میں امریکی فوجی مشقوں کو وسیع کرنے اور بحر ہند کی بندرگاہوں کے دورے کرنے کا یقین دلایااور برملا اعتراف کیا کہ جنوبی سمندرِ چین کا خطہ جس کےتقریباً مکمل رقبے پر چین دعویدار ہےامریکہ کیلئے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔پنیٹا نے ویسے تو یقین دلایا کہ بحری افواج کی نئے سرے سے منتقلی چین کےعزائم کو مدِنظر رکھ کر نہیں کی جا رہی بلکہ وہ توعلاقائی تنازعات کو نبٹانے میں چین کی حمایت کے خواہاں ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ چین کے خلاف گھیر ابندی کی یہ ایک سعی ہے چونکہ مائمنار کے کو کو جزیرے میں چین نے اپنا اڈہ قائم کر لیا ہے اس کا توڑ کرنے کی غرض سے امریکہ نے مائمنار کے پڑوسی بنگلہ دیش کا رخ کیا ہے۔
    موجودہ عالمی صورتحال میں امریکہ کا ہندوستان کے بجائے بنگلہ دیش کو اپنا کلیدی شراکت دار قرار دینا اس کی حکمتِ عملی میں ایک بنیادی تبدیلی کا غماز ہے ۔۱۱ ستمبر کے بعد چونکہ اسلام کے خلاف ہوا کھڑا کیا گیا تھا اور ہندوستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ دہشت گردی برپا کرکے اسے اسلام سے جوڑ دیا گیا تھا اس لئے امریکہ کو یہ توقع تھی کہ پاکستان اور اسلام کی دشمنی میں وہ ہندوستان کو ایران ،افغانستان اور چین کے خلاف استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن مالیگاوں ، مکہ مسجد ، اجمیر شریف اور سمجھوتہ ایکسپریس کے دھماکوں میں جب ہندو انتہا پسند تحریکوں کےملوث ہونے کا عقدہ کھلا اور ان کے اسرائیل اور امریکی انتہا پسند مذہبی تنظیموں کے ساتھ تعلقات ظاہر ہوئے تو امریکی منصوبے کو پہلا دھچکا لگا ۔ ممبئی میں تاج محل ہوٹل کے حملے میں ریمنڈ ڈیوس نے سارے معاملے کو مشکوک کر دیا اور جس طرح امریکی انتظامیہ نے اس کو تحفظ فراہم کیا اس سے تعلقات کسی نہ کسی حدکشیدہ ضرور ہوئے گوکہ ذرائع ابلاغ میں اس پر لب کشائی سےاحتراز کیا گیا ۔ اس کے بعد ایران پر معاشی پابندیوں کے معاملے نے امریکہ کو ہندوستان نے پوری طرح مایوس کر دیا ۔ ہندوستان کےداخلی صورتحال حکام کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایران گیس پائپ لائن منسوخ کردیں یا ایران سے تیل خریدنا بند کردیں جبکہ وہ سہولت پر سہولت دئیے جارہا ہے ۔اس لئے امریکہ نے سوچا کہ ہندوستان کے بجائے کسی اور انحصار مفید تر ہے ۔ اپریل میں بنگلہ دیش کے ساتھ سیکیورٹی کے مسئلہ پر خاص گفت و شنید ۔ مئی میں وزیر خارجہ نے بنگلہ دیش کا دورہ کیااور جون میں فوجی اڈے کی تیاری شروع ہو گئی ۔ یہ سب اسی ایک سلسلے کی کڑیاں ہیں جو فی الحال امریکی انتظامیہ کے گلے کا طوق بنی ہوئی ہیں اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس مصیبت سے کیوں کر جان چھڑائی جائے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بہت پر مغز تجزیہ ہے۔ جزاك اللہ خيرا۔
     
  3. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    نہ وہ ملک ہمارا تھا نہ زمیں ہماری تھی، زباں الگ، ثقافت الگ اور تو اور کوئی سرحدی رابطہ بھی نہ تھا!!!

    ہاں ایک ایسی پینگ ضرور تھی جس کے عین نیچے غلیظ پانی کا جوہڑ موجود ہو، اور اس پر آپ کو بیٹھنے کے لئے ایک طرف کی خشکی کی جانب کھینچنا پڑے، اور جب بھی چھوڑیں تو بالکلا درمیان میں جا رکے۔۔۔۔۔۔ اقتدار کا جھولا جھولنے کے لئے دلچسپ کھیل تھا ورنہ بنگلہ دیش کو شروع دن سے ہی الگ ملک ہونا چاہئے تھا!
     
  4. dani

    dani نوآموز.

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 16, 2009
    پیغامات:
    4,329
    اللہ ہماری کوتاہیاں معاف کرے
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں