وَعَلٰي اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ

محمد آصف مغل نے 'نقطۂ نظر' میں ‏جولائی 15, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    ہمارے اصولوں اور طریقہ کار کا سارا زور اس حقیت کے اظہار پر ہو گا کہ ہم اپنے دئیے ہوئے نظام کو معاشرتی زندگی کے اس مردہ اور سڑے ہوئے نظام کے مقابلے میں اس طرح پیش کریں کہ ہمارا دیا ہوا نظام کہیں زیادہ بہتر اور شاندار معلوم ہو۔

    ہمارے مفکرین، غیر یہودی عقائد کی تمام تر کمزوریوں کو زیر بحث لائیں گے لیکن چونکہ ہمارے مذہب کے بارے میں سوائے ہمارے کسی اور کو اس کا علم ہی نہیں ہے اور ہم میں سے کوئی فرد بھی اس کا راز فاش کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا اس لئے کوئی شخص ہمارے مذہب پر اس کے اصلی نقطہ نظر سے بات نہیں کر سکے گا۔

    ان ملکوں میں جو ترقی پسند اور روشن خیال کہے جاتے ہیں ہم نے ایک بے مقصد، گندا، غلیظ اور گھناؤنا ادب روشناس کرا دیا ہے قوت حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصے تک ہم اس کی ہمت افزائی کریں گے تاکہ ان تقریروں اور جماعت کے لائحہ عمل کے مقابلے میں جو ہمارے اعلیٰ حلقوں کی طرف سے پیش کیا جائے گا، اس قسم کے ادب سے بین فرق محسوس کرایا جا سکے۔

    ہمارے دانا افراد جنہیں غیر یہود کی قیادت کی تربیت دی گئی ہے، تقریریں لکھیں گے، منصوبے بنائیں گے، یادداشتیں اور مضامین لکھیں گے جو غیر یہودی دماغوں کو متاثر کرنے میں استعمال کئے جائیں گے تاکہ انہیں گھیر کر علم کی اس فہم اور ترتیب کی طرف لایا جائے جو ہم نے ان کیلئے متعین کی ہوئی ہے۔
     
  2. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    پندرھویں دستاویز
    استیصال

    بیک وقت عالمی انقلاب۔ فری میسن کا مقصد اور سمت، منتخب امت۔ طاقتور کا غیر استدلالی حق۔ اسرائیل کا بادشاہ​
    جب یہ بات حتمی طور پر ثابت ہو جائے گی کہ مروجہ نظام ہائے حکومت میں سے کوئی نظام بھی کامیابی سے نہیں چلایا جا سکتا اور آخر کار ہم ایک فوری انقلاب کے ذریعہ جو یوم مقررہ پر برپا کیا جائے گا اپنی بادشاہت یقینی طور پر قائم کر لیں گے۔ (یہ وقت آنے میں کچھ عرصہ درکار ہو گا اور اس میں ممکن ہے کہ ایک صدی تک لگ جائے) تو ہم ایسے اقدامات کریں گے کہ سازش نام کی کوئی چیز ہمارے خلاف نہیں کی جا سکے گی۔ اس مقصد کے پیش نظر جو بھی ہماری حکومت بنانے کی راہ میں مزاحمت کر کے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے گا اسے ہم بیدردی سے قتل کر دیں گے۔ خفیہ انجمنوں جیسے نئے ادارے قائم کرنے کی سزا بھی موت ہو گی۔ وہ ادارے جو اس وقت موجود ہیں وہ سب کے سب ہمارے علم میں ہیں اور ہمارے لئے ہی کام کر رہے ہیں اور پہلے بھی کرتے رہے ہیںـ۔ ہم ان اداروں کو توڑ کر ان کے اراکین کو یورپ سے دور براعظموں میں جلا وطن کر دیں گے۔ یہی عمل ہم فری میسن کے ان غیر یہودی اراکین کیساتھ کریں گے جنہیں ہمارے متعلق کچھ معلومات ہیں ایسے لوگ جنہیں ہم بوجوہ معاف کر دیں گے انہیں مستقل طور پر جلا وطنی کے خوف میں مبتلا رکھا جائے گا۔ ہم ایسا قانون نافذ کریں گے جس کی رو سے خفیہ انجمنوں کے اراکین یورپ سے، جو ہماری حکومت کا مرکز ہو گا، جلا وطن کئے جا سکیں گے۔ ہماری حکومت کے فیصلے حتمی ہوں گے اور ان پر کوئی اپیل نہیں کی جا سکے گی۔
     
  3. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    غیریہودی معاشروں میں، جہاں ہم نے نفرتوں اور احتجاج کے بیج بو کر ان کی جڑیں بہت گہری کر دی ہیں، وہاں امن و امان قائم کرنے کا واحد طریقہ ایسے سفاکانہ اقدامات ہیں جو اقتدار کی قوت کو واضح طور پر منوا سکتے ہوں۔ ظاہر ہے کہ کچھ لوگ ان اقدامات کا شکار بھی ہوں گے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئیے۔ ایک بہتر مستقبل کیلئے ان کی قربانی ضروری ہے۔ ہر حکومت جو اپنے وجود کے جواز کیلئے صرف حقوق ہی نہیں اپنے فرائض کی انجام دہی بھی ضروری خیال کرتی ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کو خوشحالی سے ہمکنار کرے خواہ اس کیلئے قربانیاں ہی کیوں نہ دینی پڑیںـ۔

    حکومت کے استحکام کی اہم ترین ضمانت اس کے چہرے پر قوت کا ہالہ بنانا ہے اور یہ ہالہ صرف اس بے لچک زبردست قوت کے استعمال سے ہی بنتا ہے جس کے چہرے پر باطنی پراسرار قوتوں کی وجہ سے ناقابل تسخیر ہونے کا نشان مرتسم ہو۔ یعنی خدا کے منتخب کردہ ہونے کا نشان۔ روسی مطلق العنانی کچھ عرصہ پہلے تک اسی طاقت کے بل پر چلتی تھی۔ یہ مطلق العنانی ، کلیسا کی طاقت کے استشناء کے علاوہ دنیا بھر میں ہماری واحد اور خطرناک ترین دشمن تھی۔

    وہ مثال ذہن میں رکھئے کہ جب اطالیہ خون میں نہایا ہوا تھا تو اس نے اس سلا (sulla) کا ایک بال بھی بیکا نہ کیا جس نے یہ خون کی ہولی کھیلی تھی۔ اپنی قوت کی وجہ سے عوام کی نظر میں وہ دیوتا بنا رہا۔ حالانکہ اس نے ان کے پرخچے اڑا دئیے تھے لیکن جب وہ جرأت اور بیباکی کیساتھ اطالیہ واپس آیا تو عوام نے اسے ناقابلِ شکست تسلیم کر لیا۔ یاد رکھئے جو شخص اپنی جرأت اور ذہنی قوت سے لوگوں پر تنویم کا عمل کر سکتا ہے لوگ اس پر ایک انگلی تک نہیں اٹھاتے۔
     
  4. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    ۱۔ سلا (lucius cornelius sulla) رومن جنرل اور آمر ۱۳۸؁ قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ ۹۰ ؁ قبل مسیح سے ۸۹ ؁ قبل مسیح تک اطالیہ کی خانہ جنگی میں باغیوں کی سرکوبی کی اور بعد میں جب اس کے دشمنوں نے اس کے خلاف سازش کی تو اس نے روم پر چڑھائی کر کے ان کا مکمل قلع قمع کر دیا۔ اس کے بعد جب وہ مشرقی محاذ پر مصروف جنگ تھا اور اس کے دشمن دوبارہ برسراقتدار آگئے تو ۸۳ ؁ قبل مسیح میں کولن گیٹ کے خونی معرکہ میں دشمن کا مکمل صفایا کر کے روم پر بلا شرکت غیرے اقتدار کا مالک بن بیٹھا۔

    اس دوران جب تک ہم اپنی بادشاہت قائم نہیں کر لیتے، ہمارا عمل اس کے متضاد ہو گا۔ ہم فری میسن لاجوں کو دنیا کے تمام ملکوں میں قائم کر کے ان کی تعداد میں اضافہ کریں گے۔ ان لاجوں کا رکن ان لوگوں کو بنایا جائے گا جو سرکاری عہدوں میں ممتاز عہدوں پر فائز ہوں گے یا ہونے والے ہوں گے۔ یہ لاج جاسوسی کیلئے اہم ترین کردار ادا کریں گے اور رائے عامہ کو متاثر کریں گے۔ ان تمام لاجوں کو ہم ایک مرکزی تنظیم کے تحت لے آئیں گے اور سا کا علم صرف ہمیں ہی ہو گا۔ دوسرے اس سے واقف نہیں ہو سکیں گے۔ یہ مرکزی تنظیم ہمارے دانا بزرگوں پر مشتمل ہو گی۔ لاجوں کے اپنے نمائندے ہوں گے جو متذکرہ بالا مرکزی تنظیم کیلئے پردے کا کام کریں گے۔ مرکزی تنظیم نصب العین ظاہر کرنے والے لفظ (watch word) اور لائحہ کار جاری کرے گی۔ یہ لاج وہ بندھن ہوں گے جو تمام انقلابیوں اور آزاد خیالوں کو ایک دوسرے سے منسلک کر دیں گے۔ ان میں معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ہو گی۔ انتہائی خفیہ سیاسی سازشوں کا علم صرف ہمیں ہو گا اور جس روز اس سازش کا ذہنی خاکہ مرتب کیا جائے گا اسی وقت سے ا س پر ہماری رہبرانہ دسترس ہو گی۔ لاج کے اراکین میں تمام بین الاقوامی اور قومی پولیس کے اہلکار ہوں گے۔ ہمارے کام کیلئے پولیس کی خدمات بے بدل ہیں چونکہ پولیس اس حیثیت میں ہوتی ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے ماتحتوں سے مخصوص کام لینے کی اہلیت رکھتی ہے بلکہ ہماری کارگزاریوں کیلئے ایک پردہ بن کر عوام کے عدم اطمینان اور بے چینی کی وجوہات بھی گھڑ سکتی ہے۔
     
  5. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    عوام کا وہ طبقہ جو ہماری خفیہ تنظیم میں شامل ہونے پر آمادہ ہو جاتا ہے وہ ہے جو محض اپنے بذلہ سنجی کے زور پر زندہ رہتا ہے۔ یہ پیشہ ور عہدے دار ہوتے ہیں اور عام طور پر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ذہنوں پر خواہ مخواہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ ان لوگوں کیساتھ معاملہ کرنے میں ہمیں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ ان لوگوں کو ہم اپنی ا یجاد کردہ مشین میں چابی دینے کیلئے استعمال کریں گے۔ اگر دنیا میں کہیں ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہمیں عوام کے اتحاد میں دراڑ ڈانے کیلئے تھوڑا سا جھنجھوڑنا پڑا ہے۔ لیکن اگر اس دوران میں کوئی سازش جنم لیتی ہے تو اس کا سربراہ سوائے ہمارے کسی معتبر گماشتے کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ قدرتی طور پرظاہر ہے کہ ہمارے علاوہ کوئی دوسرا فری میسن سرگرمیوں کی سربراہی کا اہل نہیں ہو سکتا چونکہ صرف ہمیں ہی اس کاعلم ہے کہ کدھر جانا ہے۔ ہم ہی ہر سرگرمی کی منزل مقصود سے واقف ہیں جبکہ غیر یہودی اس سے قطعی نابلد ہیں۔ وہ تویہ تک نہیں جانتے کہ کسی عمل کا فوری رد عمل کیا ہو گا۔ عام طور پر ان کے مدنظر ذاتی انا کی وہ وقتی تسکین ہوتی ہے جو ان کی رائے کے مطابق نتائج حاصل کرنے پر ملتی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس کا بنیادی خیال ان کی اپنی اختراع نہیں تھا بلکہ یہ خیال ہم نے ا ن کے ذہن میں پیدا کیا تھا۔
     
  6. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    غیر یہودیوں میں، لاجوں میں شامل ہونے کا محرک یا تو ان کا جذبہ تجسس ہوتا ہے یا یہ امید کہ وہ حکومت کے خوان نعمت سے خوشہ چینی کر سکیں گے۔ کچھ لوگ اس لئے شامل ہونا چاہتے ہیں کہ حکومت کے عہدے داروں میں، ان کے ناقابل عمل اور بے سروپا خیالی منصوبوں کو سننے والے سامعین مل جائیں گے۔ وہ اپنی کامیابی کے جذبے اورتعریف کے ڈونگرے بر سوانے کے بھوکے ہوتے ہیں اور یہ کام کرنے میں ہم بڑے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ ہماری ان کی ہاں میں ہاں ملانے کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح ہم ان کی اس خود فریبی کو جس میں وہ اس طرح مبتلا ہوتے ہیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ بے حسی، انہیں ہماری تجویزیں غیر محتاط انداز میں قبول کرنے پر مائل کرتی ہے اور وہ بزعم خود پورے اعتماد کیساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خود ان کے منزہ عن الخطاء نظریات ہیں جو ان کے الفاظ میں جلوہ گر ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے طور پر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کیلئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کسی اور کا اثر قبول کریں۔ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ غیر یہود کا ذہین ترین آدمی بھی خود فریبی کے جال میں پھنس کر کس حد تک غیر شعوری سادہ لوحی کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کیساتھ ہی اسے ذرا سی ناکامیابی پر بددل کیا جا سکتا ہے۔ خواہ اس کی ناکامیابی کی نوعیت اس سے زیادہ کچھ نہ ہو کہ اس تعریف میں ذرا سی کمی کر دی جائے جس کا وہ عادی ہو چکا ہے۔ اسے دوبارہ کامیابی حاصل کروانے کیلئے غلاموں کی طرح فرمانبردار بنایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم ان کے منصوبوں کی کامیابی سے صرف نظر کرنا شروع کریں تو غیر یہودی اپنی تعریف سننے کیلئے اپنے کسی بھی منصوبے کو قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائیں گے۔ ان کی یہ نفسیاتی کیفیت ہمیں ان کا رخ حسب دالخواہ سمت میں موڑنے میں ہمارا کام عملی طور پر آسان کر دیتی ہے۔ یہ جو شیر نظر آتے ہیں ان کے سینوں میں بھیڑ کا دل ہے اور ان کے دماغوں میں بھوسہ بھرا ہوا ہے۔
     
  7. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    ہم نے انہیں انفرادیت کو اجتماعیت کی علامتی اکائی میں ضم کرنے کے نظریہ کا کاٹھ کا گھوڑا دیدیا ہے۔ انہیں آج تک اس بات کا شعور نہیں ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو گا کہ یہ کاٹھ کا گھوڑا، فطرت کے اہم ترین ازلی قانون کی ضد اور نفی کا مظہر ہے۔ اور وہ قانون یہ ہے کہ ہر اکائی دوسری سے مختلف ہے اور انفرادیت کے قیام کیلئے تو یہ قانون قطعیت پر مبنی ہے۔

    اگر ہم ان کی احمقانہ کور چشمی کو اس حد تک پہنچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں تو کیا یہ اس بات کا ثبوت اور حیرت انگیز طور پر صاف اور صریح ثبوت نہیں ہے کہ غیر یہود کا دماغ ہمارے دماغ کے مقابلے میں کتنا ناپختہ ہے یہی وہ خاص وجہ ہے جو ہماری کامیابی کی ضامن ہے۔

    زمانہ قدیم میں ہمارے دانا بزرگوں نے یہ اصول قائم کر کے کتنی دور اندیشی کا ثبوت دیا تھا کہ اہم مقاصد حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی ذریعہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہئیے اور مقصد کے حصول کیلئے کتنی ہی جانوں کی قربانی دینی پڑے انہیں شمار نہیں کرنا چاہئیے۔ ہم نے غیر یہودی نسل کی قربان ہونے والی بھیڑوں کو شمار نہیں کیا۔ حالانکہ ہم نے بھی اپنے بہت سے آدمیوں کی قربانی دی ہے لیکن اس کے بدلے میں اب ہم نے انہیں دنیا میں وہ حیثیت دیدی ہے جس کا وہ خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے تھے۔ ہم میں سے قربانیاں دینے والوں کی تعداد نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے ہماری قوم تباہی سے محفوظ رہی۔
     
  8. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    موت سب کا لابدی انجام ہے۔ ہم جو اس منصوبے کے بانی ہیں، اپنا انجام قریب لانے کے مقابلے میں یہ بہتر سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں کا انجام قریب تر لے آئیں جو ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ ہم فری میسن کے اراکین کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں کہ سوائے ہماری برادری کے کوئی کبھی بھی اس پر شبہ نہیں کر سکتا۔ حد یہ ہے کہ جن کے نام موت کا پروانہ جاری ہوتا ہے وہ تک شبہ نہیں کر سکتے۔ جب ضرورت ہوتی ہے تو ان کی موت بالکل اس طرح واقع ہوتی ہے گویا وہ کسی عام بیماری میں مرے ہوں۔ یہ معلوم ہونے کے بعد برادری کے اراکین تک احتجاج کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ یہ طریقے استعمال کر کے، ہم نے فری میسن کے درمیان سے اپنے اختیار کے استعمال کے خلاف احتجاج کی جڑیں تک نکال پھینکی ہیں۔ ہم غیر یہود کو آزاد خیالی کی تبلیغ کی ساتھ ساتھ خود اپنے آدمیوں اور اپنے گماشتوں کو بے عذر اطاعت کی حالت میں رکھتے ہیں ہمارے اثر کے تحت غیر یہودیوں کے قوانین پر عمل درآمد کم سے کم ہو گیا ہے۔ قانون کے شعبے میں آزاد خیال تشریحات کے رواج پانے کی وجہ سے قانون کی احترام کی دھجیاں اڑ چکی ہیں۔ اہم ترین اور بنیادی معاملات اور مسائل میں جج صاحبان وہی فیصلہ کرتے ہیں جو ہم انہیں املاء کراتے ہیں۔ وہ مسائل کو اسی روشنی میں دیکھتے ہیں جس کے ذریعہ ہم انہیں غیر یہود کی انتظامیہ کو پابند کرا سکیںـ یہ کام ان لوگوں کے ذریعہ کروایا جاتا ہے جو ہمارے آلہ کار ہوتے ہیں حالانکہ ظاہری طور پر ہمارا ان سے کوئی ربط ضبط نہیں ہوتا۔ یہ کام اخباروں سے یا دوسرے ذرائع سے بھی کروایا جا سکتاہے۔ حد یہ ہے کہ سینئیر اور انظامیہ کے اعلیٰ اراکین ہمارے مشوروں پرعمل کرتے ہیں۔ غیر یہود کا اجڈ دماغ تجربے اور مشاہدے کی صلاحیت سے عاری ہے اور اس سیاق و سباق میں پیش بینی کا تو بالکل ہی اہل نہیں ہے کہ اگر کسی مسئلے کو ایک خاص انداز سے ترتیب دیا جائے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے۔
     
  9. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    ہم میں اور غیر یہود میں فکری استعداد کا یہ فرق ہمارے منتخب امت ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کیلئے کافی ہے۔ اعلیٰ انسانی صفات اگر ہمارا طرئہ امتیاز ہیں تو غیر یہود اپنے اجڈ دماغ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں لیکن سامنے کی چیز نظر نہیں آتی۔ وہ کوئی اختراع نہیں کر سکتے (غالباً سوائے مادی ایجادات کے) اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ خود قدرت نے ہمارے لئے قیادت کرنا اور دنیا پر حکومت کرنا مقدر کر دیا ہے۔

    جب ہماری اعلانیہ حکومت کا وقت آئے گا اور وقت اپنی نعمتوں کا انکشاف کرے گا تو ہم ازسر نو قانون سازی کریں گے۔ ہمارے بنائے ہوئے تمام قوانین، جامع، واضح اور مستحکم ہوں گے اور انہیں کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہو گی تاکہ ہر شخص آسانی سے سمجھ سکے۔ ان قوانین کی قدر شترک احکامات کا سختی سے نفاذ ہو گا۔ اور یہ اصول درجہ کمال تک لے جایا جائے گا۔ اس کے بعد تمام بدعنوانیاں ختم ہو جائیں گی چونکہ چھوٹی سے چھوٹی اکائی تک ہر شخص اقتدار بالا کو، جو قوت کا نمائندہ ہو گا جواب دِہ اور ذمہ دار ہو گا۔ نچلی سے نچلی سطح تک عہدے کے غلط استعمال پر اتنی بے رحمی سے سزا دی جائے گی کہ کوئی بھی اپنی طاقت کے غلط استعمال کا تجربہ کرنے کیلئے بے چین نہیں ہو گا۔

    ہم انتظامیہ کے ہر عمل کی، جس پر حکومت کا نظام سکون سے چلنے کا دارو مدار ہوتا ہے، بڑی سختی سے نگرانی کریں گے۔ اس میں ذرا سا بھی تساہل ہر شعبے میں تساہل پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی غیر قانونی حرکت یا طاقت کا ناجائز استعمال سخت ترین سزا سے نہیں بچ سکے گا۔
     
  10. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    اخفائے جرم، انتظامیہ کے افراد کی ملی بھگت یا ایک دوسرے کی غلطیوں سے اغماض اور اس قسم کی تمام بدعنوانیاں شدید ترین سزا کی پہلی مثال کے بعد ہی ناپید ہو جائیں گی۔ ہماری قوت کا ہالہ، عظیم ترین وقار کے حصول کی خاطر، خفیف سی خلاف ورزی پر مناسب یعنی سخت ترین سزا کا متقاضی ہو گا۔ سزا پانے والا، خواہ اس کی سزا جرم کی نسبت سے متجاوز ہی کیوں نہ ہو، ایسا سپاہی تصور کیا جائے گا جو انتظامیہ کے میدانِ جنگ میں، اقتدار، اصول اور قانون کی خاطر مارا جائے۔ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ جن کے ہاتھوں میں حکومت کے گھوڑے کی عنان ہو وہ حکومت کی شاہراہ سے بھٹک کر کر اپنی نجی پگڈنڈی پر چلنا شروع کر دیں۔ مثال کے طور پرہمارے ججوں کو یہ معلوم ہو گا کہ اگر ان کے دل میں رحم کا حماقت آمیز جذبہ پیدا ہوا تو وہ انصاف کے اس اصول کو توڑیں گے جو انسانوں کی کوتاہیوں پر جرمانے کی عبرتناک سزائیں دینے کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ نہ کہ اس لئے کہ وہ ججوں کی روحانی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ بنے۔ اس قسم کی صلاحیتوں کا اظہار نجی زندگی میں تو مستحسن ہو سکتا ہے لیکن حکومت کے میدان میں ہرگز نہیں جو انسانی زندگی کی تربیت کی بنیاد ہے۔

    قانون کے شعبے میں کام کرنے والے ہمارے اہلکار پچپن سال کی عمر کے بعد ملازمت نہیں کر سکیں گے۔ اوّلاً اس لئے کہ بوڑھے کسی موافقت یامخالفت کے میلان میں بہت ضدی ہو جاتے ہیں اور نئی جہات کو قبول کرنے کے اہل نہیں رہتے۔ ثانیاً اس لئے کہ یہ پابندی لگانے کے بعد ہم لوگوں کو آسانی سے تبدیل کر سکیں گے اور اس طرح وہ ہمارے دباؤ کا آسانی سے شکار ہو سکیں گے۔ ہر وہ شخص جو اپناعہدہ برقرار رکھنا چاہے گا اسے اس کااہل ثابت کرنے کیلئے آنکھیں بند کر کے ہمارے احکامات کی پیروی کرنی پڑے گی۔ عام طور پر ہم اپنے جج ایسے لوگوں میں سے منتخب کریں گے جو یہ بات اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ان کا کام سزا دینا اور قانون کا اطلاق کرنا ہے اور حکومت کی تربیتی حکمت عملی کی قیمت پر، غیر یہودی ججوں کی طرح، اپنی آزاد خیالی کے اظہار کے خواب دیکھنا نہیں ہے۔
     
  11. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    اہلکاروں کو تبدیل کرنے کے طریقے کار سے، ان لوگوں کا اجتماعی اتحاد، جو اس محکمے میں کام کرتے ہیں، ختم ہو جائے گااور ان سب کو حکومت کے مفادات سے منسلک کر دے گا جس پر ان کی قسمت کا انحصار ہے۔ ججوں کی نئی نسل کو بتا دیا جائے گا کہ اس قسم کی بدعنوانیاں جن سے مروجہ نظام میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہو بالکل ناقابل معافی ہیں۔

    موجودہ حکمران، ججوں کا تقرر کرتے وقت، چونکہ اس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ ان میں احساس ذمہ داری اور اس اہمیت کا شعور پیدا کیا جائے جو اس منصب کیلئے ضروری ہے اس لئے اس زمانے میں غیر یہودی جج بغیر اپنے عہدے کی اہمیت کااحساس کئے ہوئے ہر قسم کے جرم میں رعایت دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

    جس طرح درندے اپنے بچوں کو شکار کی تلاش کیلئے کھلا چھوڑ دیتے ہیں بالکل اسی طرح غیر یہودی اپنی رعایا منفعت بخش عہدوں پر بغیر یہ سوچے سمجھے تعینات کردیتے ہیں کہ انہیں جن عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے ان عہدوں کو کس مقصد کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حکومتیں خود اپنی انتظامیہ کی طاقت کے غلط استعمال کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہیں۔ ان حرکتوں کے نتائج کی روشنی میں ہم اپنی حکومت کیلئے ایک اور نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔

    ہم حکومت کے ان تمام عہدوں سے جو حکومت چلانے والے ماتحت افسران کو تربیت دینے پر مامور ہیں، آزاد خیالی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ ان عہدوں پر صرف ان لوگوں کاتقرر کیا جائے گا جنہیں ہم نے حکومت کے انتظامی امور میں تربیت دی ہو گی۔
     
  12. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    پرانے افسران کو ریٹائر کرنے پر ایک اعتراض یہ کیا جاسکتا ہے کہ اس سے خزانے پر کافی بوجھ پڑے گا۔ اس کا جواب میں یہ دیتا ہوں کہ اوّل تو جن لوگوں کو ریٹائر کیا جائے گا انہیں کوئی متبادل نجی ملازمت مہیا کر دی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ ساری دنیا کی دولت کاارتکاز ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے ہماری حکومت کو اخراجات کی چنداں پرواہ نہیں ہو کی۔ ہماری مطلق العنانی کے ہر عمل میں ایک منطقی تسلسل ہو گا اور ہر ضابطے میںجھلکتی ہوئی ہماری قوت ارادی احترام کی نظروں سے دیکھی جائے گی اور اس وجہ سے ہر قانون کی بے چوں چراں تعمیل کی جائے گی۔ اس کے علاوہ شدید ترین سزاؤں کا خوف ساری بڑبڑ اور بے اطمینانی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے گا۔ ہم مرافعہ (cassation) کا حق موقو کر دینگے اور یہ صرف ہماری صوابدید کے مطابق ہو گا یعنی ہمارے حکمران کی مرضی پر موقوف ہوگا۔ ہم ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے مقرر کئے ہوئے جج کوئی غلط فیصلہ صاد رکریں۔ لیکن اس کے باوجود اگر کوئی اس قسم کا واقعہ ہو جائے تو ہم خود اس فیصلے پر نظرثانی کر سکتے ہیں لیکن اس جج کو اسکے فرائض منصبی سے نافہمی اور اپنے تقرر کے مقصد سے لاعلمی کی اتنی شدید سزا دیں گے کہ آئندہ کوئی دوسرا جج اس قسم کی حرکت کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ میں مکرر کہتا ہوں کہ یہ بات بالکل واضح طور پر سمجھ لینی چاہئیے کہ ہمیں اپنے نظم و نسق کے ہر قدم کا علم ہو گا جس کی ہم بڑی کڑی نگرانی کریں گے تاکہ عوام ہم سے مطمئن رہیں۔ ایک اچھی حکومت سے اچھے افسروں کی امید کرنا عوام کا حق ہے۔
     
  13. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    ہماری حکومت ظاہر بظاہر سرداری نظام پر کام کرے گی۔ اس میں حکمران کی حیثیت ایک سرپرست یا باپ جیسی ہو گی۔ ہماری قوم اور ہمارے عوام اس کی شخصیت کو باپ کی حیثیت میں پہچانیں گے جو ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہے اور ان کے ہر عمل کو دیکھتا ہے۔ حکمران، رعایا باہمی تعلقات اور عوام سے اپنے تعلقات پر نظر رکھے گا۔ اس کے بعد وہ اس رنگ میں ایسے رنگ جائیں گے کہ انہیں اپنے حکمران کی سرپرستی اور رہنمائی کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر وہ امن و سکون سے رہنا چاہیں گے تو وہ ہمارے حکمران کی مطلق العنانی ایسے تسلیم کریںگے کہ حکمران سے ان کی اطاعت دیوتاؤں کی اطاعت کی سرحدوں کو چھونے لگے گی خصوصیت سے ایسی صورت میں کہ انہیں یہ اطمینان ہو کہ جنہیں ہم نے ان کا حاکم مقرر کیاہے وہ خود اپنے حکم نہیں چلاتے بلکہ حکمران اعلیٰ کے حکم کی آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے ہیں وہ اس بات پر خوشی محسوس کریں گے کہ ہم نے زندگی کے ہر شعبے کو اس طرح منظم کر دیاہے جس طرح عقلنمد والدین اپنے بچوں کی زندگی فرض اور اطاعت کی بنیاد پر استوار کرتے ہیں۔

    جہاں تک رموزِ مملکت کا تعلق ہے تو دنیا کے عوام ان سے اتنے ہی نابلد رہیں گے جیسے شیرخوار بچے۔ بالکل اسی طرح نابلد جیسی انکی حکومتیں ہیں۔
     
  14. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ ہماری مطلق العنانی کی بنیاد حق اور فرض پر استوار ہو گی۔ ایک ایسی حکومت جو اپنی رعایا کیساتھ باپ جیسا سلوک کرتی ہے اس کی اوّلیں ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام کو فرض کی ادائیگی پر مجبور کرنے کا حق استعمال کرے۔ طاقتور ہونے کی وجہ سے اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس طاقت کو انسانیت کی اس سمت میں رہنمائی کرنے کیلئے استعمال کرے جو فطرت نے اس کیلئے متعین کیا ہوا ہے۔ یعنی عوام کو اطاعت کی طرف مائل کرنا۔ دنیا کی ہر شے اطاعت کی کیفیت میں ہے۔ اگر یہ اطاعت انسان کی نہیں ہے تو حالات کی ہے یا پھر اس کے ضمیر کی ہے۔ بہرحال جو بھی طاقتور ہے اس کی اطاعت فرض ہے۔ وہ طاقت ہم ہی ہیں اور اسے عمل خیر کیلئے استعمال کریں گے۔

    غلطی پر سزا دینے میں دوسروں کیلئے عبرت کا عظیم پہلو مضمر ہے۔ اس لئے ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ اور جھجھک کے ان افراد کو قربان کرنے پر مجبور ہوں گے جو ہمارے مروجہ نظام میں شگاف ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

    جب اسرائیل کا بادشاہ اپنے مقدس سر پر وہ تاج پہنے گا جو یورپ نے اسے پیش کیا ہو گا تو اسے اس کے توسط سے ساری دنیا کی سرداری مل جائے گی۔ وہ ناگزیر قربانیاں جو اسرائیل کا بادشاہ موقع کی مناسب کے مطابق پیش کرے گا ان قربانیوں کے مقابلے میں بہت کم ہوں گی جو غیر یہودی ایک دوسرے پر سبقت لیجانے اور عظمت حاصل کرنے کے جنون میں صدیوں سے دیتے رہے ہیں۔

    ہمارا بادشاہ عوام سے مستقل رابطہ رکھے گا اور جمہوریت کی حمایت میں تقریریں کرے گا اور ان تقریروں کی شہرت چار دانگ عالم میں ہو گی۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  15. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    سولہویں دستاویز
    ذہنی تطہیر

    درسگاہوں کو خصی کرنا ۔ تعلیم کی آزادی کا خاتمہ

    تمام اجتماعی قوتوں کا (سوائے اپنے آپ کے) استعمال کرنے کیلئے ہم سب سے پہلے اجتماعیت کے پہلے مرحلے یعنی تعلیمی درسگاہوں کو خصی کریں گے۔ ان درسگاہوں میں اب ایک نئی جہت میں دوبارہ تعلیم دی جائے گی۔ ان کے عہدہ داروں اور معلموں کو ایک تفصیلی خفیہ لائحہ کار کے ذریعہ ان کے منصب کیلئے تیار کیا جائے گا، جس سے وہ، بلا استشناء بال برابر بھی اختلاف نہیں کر سکیں گے۔ ان کا خصوصی احتیاط کیساتھ تقرر کیا جائیگا اور ایسی جگہ رکھا جائیگا جہاں وہ مکمل طور پر حکومت کی نظر میں رہیں گے۔

    ہم تعلیمی نصاب سے ملک کے قانون کا مضمون خارج کر دینگے۔ اس کے علاوہ اور تمام مضامین بھی جن کا تعلق امور مملکت سے ہو سکتا ہے نصاب سے خارج کر دئیے جائیں گے۔ یہ مضامین صرف ان چند درجن افراد کو پڑھائیں جائیں گے جنہیں داخلہ لینے والوں میں سے ان کی غیر معمولی صلاحیت کی بنیاد پر منتخب کیا جائے گا۔ یونیورسٹیوں کو ایسے کم حوصلہ لوگ پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو آئین کے بارے میں ایسے منصوبے گھڑیں جیسے کوئی طربیہ یا المیہ ڈرامہ لکھ رہے ہیں یا سیاسی حکمت عملی کے بارے میں اپنا دماغ کھپانا شروع کر دیں جس کے بارے میں ان کے باپ بھی سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔
     
  16. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001
    امور مملکت کے بارے میں اکثر لوگوں کی گمراہ کن قلیل واقفیت شیخ چلیوں اور بُرے شہریوں کو جنم دیتی ہے غیر یہودیوں کی مثال آپ کے سامنے موجود ہے کہ انہوں نے ہر ایرے غیرے کو اس قسم کی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے کر کیا تیر مارا۔ انہیں تعلیم دینے میں ہمیں وہ تمام اصول مد نظر رکھنے چاہئیں جنہوں نے اتنے شاندار طریقے سے ان کے سار ے نظام کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ لیکن جب ہم اقتدار حاصل کر لیں گے تو نصاب سے ہر قسم کے انتشار پھیلانے والے مضامین نکال دیں گے اور نوجوانوں کو اقتدار کی اطاعت اور حکمران سے محبت کرنے کی تعلیم دیں گے اور ان کو اچھی طرح ذہن نشین کروا دیں گے کہ حکمران ہی ان کا واحد سہارا اور امن و امان قائم کرنے کا ضامن ہے۔
    قدیم ادبیات عالیہ اور عہد عتیق کی تاریخ جیسے مضامین کی بجائے، جن سے اچھے کے مقابلے میں بُرے سبق زیادہ ملتے ہیں، نصاب میں مستقبل کا لائحہ عمل شامل کیا جائے گا۔ پچھلی صدیوں کے وہ تمام واقعات جو ہمارے لئے نامرغوب ہیں انسانی یاداشت سے محو کر دئیے جائیں گے ا ور صرف وہ واقعات باقی رکھے جائیں کے جن سے غیر یہودی حکومت کی لغزشوں کی عکاسی ہوتی ہو۔
    عملی زندگی کا مطالعہ، مروجہ نظام کی پابندی اور فرائض، عوام کے باہمی تعلقات، برائی اور خود غرضی کی مثالوں سے اجتناب، جن سے بُرائی کے جراثیم پھیلتے ہیں، تعلیمی نصاب میں سرفہرست ہونگے۔ ہر شعبہ زندگی کیلئے ایک علیحدہ منصوبہ ترتیب دیا جائیگا اور ہر ایک کو یکساں تعلیم نہیں دی جائیگی۔ اس مسئلہ کا ہر پہلو غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ ہر شعبہ زندگی کی تربیت ان قیود کی پابند ہو گی جو اس کی مقصدیت اور عملی زندگی کے مطابق ہو گی۔
     
  17. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001
    کبھی کبھی اتفاقیہ طور پر کوئی ذہین آدمی ایک شعبہ زندگی سے دوسرے شعبہ زندگی میں جانے میں کامیاب ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ لیکن اس اتفاقیہ ذہین آدمی کی خاطر غبی الذہن افراد کو اس شعبہ تعلیم میں داخلہ دینے کا اذن عام دینا شدید حماقت ہو گی۔ظاہر ہے کہ وہ اس شعبے میں بالکل نامناسب ہوں گے اور اس طرح انہیں ان لوگوں کی جگہ ہتھیانے کا موقعہ مل جائے گا جو بربنائے پیدائش یا ملازمت اس شعبے سے تعلق رکھتے ہوں گے اور اس کے اہل ہوں گے۔ آپ کو خود معلوم ہے کہ غیر یہودیوں نے، جنہوں نے اس حماقت کو روا رکھا، اپنے آپ کو کس حال تک پہنچا دیا۔

    حکمران کو عوام کے دل و دماغ پر اپنا سکہ بٹھانے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے دور حکومت میں پوری قوم کو اسکولوں اور بازاروں میں، اس کے مقاصد، عمل، شرافت اور کریم النفسی پر مبنی اقدامات کے بارے میں آگاہ رکھا جائے۔

    ہم تعلیم کے شعبے میں ہر قسم کی آزادی ختم کر دیں گے۔ ہر عمر کے طالب علموں کو یہ حق دیا جائے گا کہ تعلیمی اداروں میں اپنے والدین کیساتھ اسی طرح اکٹھے ہو سکیں جس طرح کسی کلب میں جمع ہوتے ہیں۔ ان اجتماعات میں تعطیلات کے دوران مدرسین، انسانی تعلقات کے مسائل، مثال کے قوانین، غیر شعوری تعلقات سے پیدا ہونے والی قیود اور آخر میں ان نظریات کے فلسفے کے بارے میں جن کا ابھی دنیا کو علم نہیں ہے، اس طرح پڑھائیں گے گویا وہ ان مضامین پر آزادانہ گفتگو کر رہے ہوں۔

    ان نظریات کی نشوونما کر کے ہم ا نہیں اپنے مذہب کی جانب عبوی مرحلے میں، مذہبی عقیدے کی حد تک لے جائیں گے۔ زمانہ حال اور مستقبل میں اپنے لائحہ کار کے مکمل بیان کرنے کے بعد میں آپ کو ان نظریات کے اصول پڑھ کر بتاؤں گا۔

    مختصراً صدیوں کے تجربے سے یہ معلوم ہونے کے بعد کے لوگ نظریات پر زندہ رہتے ہیں اور انہی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور یہ کہ لوگ یہ نظریات اس تعلیم سے اخذ کرتے ہیں جو ہر دور میں یکساں کامیابی سے دی جاتی رہی ہے (گو کہ طریقہ تعلیم مختلف رہاہے) ہم اس آزادی فکر کا آخری قطرہ تک اپنے استعمال کیلئے ضبط کر کے پی جائیں گے جس کا رخ مدتوں سے ہم ان مضامین اور نظریات کی طرف موڑے ہوئے تھے جو ہمارے کام آنے والے تھے۔

    فکر کو لگام دینے کا طریقہ، معروضی سبق پڑھانے کے نام نہاد طریقے کے ذریعہ پہلے ہی سے کام کر رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ غیر یہودیوں کو تفکر سے عاری اجڈ اطاعت شعاروں میں تبدیل کر دیا جائے جو صرف اس بات کی منتظر ہوں کہ چیزیں ان کی آنکھوں کے سامنے پیش کی جائیں تو وہ ان پر کوئی رائے قائم کریں۔ فرانس میں ہمارے بہترین گماشتے، بورژوا، معروضی سبق پڑھانے کے نئے لائحہ کار کا پہلے ہی مظاہرہ کر چکے ہیں۔
     
  18. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001
    سترھویں دستاویز
    اختیارات کا ناجائز استعمال
    انصاف سے بددلی۔ نصرانی مذہب کا استیصال۔ یہودی سردار ساری دنیا کا پاپائے اعظم۔ خفیہ پولیس میں مخبروں کی بھرتی​

    وکالت کا پیشہ، سرد مہری، بے رحم، ضدی اور بے اصولے انسان پیدا کرتا ہے جو ہر موقع پر غیر جذباتی اور خالصتاً قانونی نقطئہ نظر کے علم بردار ہوتے ہیں۔ ان کی پرانی عادت ہے کہ وہ ہر چیز کو صرف اس کی خاصیت کی دفاعی قدر کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ اس کے نتائج کو مفاد عامہ کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ عام طور پر وہ کسی بھی مقدمے کی پیروی کرنے سے انکار نہیں کرتے اور ملزم کو ہر قیمت پر بری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور قانون کے معمولی معمولی نکات میں مین میخ نکال کر اس کی مٹی پلید کرتے ہیں۔ اس لئے ہم اس پیشے کو اس کی مقررہ حدود میں رکھیں گے اور یہ انتظامیہ کے ماتحت کام کرے گا۔

    جس طرح ججوں کیلئے فریق مقدمہ سے رابطہ قائم کرنا ممنوع ہے بالکل اسی طرح وکیلوں کو بھی فریق مقدمہ سے رابطہ قائم کرنے کے حق سے محروم کر دیا جائے گا۔ انہیں مقدمات صرف عدالت کے توسط سے ملیں گے اور انہیں صرف روئدادوں اور دستاویزوں پر مبنی یادداشتوں کا مطالعہ کرنے کی اجازت ہو گی۔ وہ اپنے موکل کی عذرداری اس وقت کریں گے جب پیش کردہ شواہد کی روشنی میں عدالت ان پر جرح مکمل کر چکی ہو گی۔ انہیں عذرداری کی نوعیت اور اہمیت کا لحاظ کئے بغیر ایک رقم بطور اعزاز ملے گی۔ اس طرح ان کی حیثیت، انصاف کے مفاد میں، قانونی شعبے کے صرف ایک نامہ نگار کی سی رہ جائے گی اور جس طرح وکیل سرکار استغاثہ کے مفاد کا نامہ نگار ہوتا ہے، مدعی علیہ کا وکیل اس کے مقابلے میں صفائی کا نامہ نگار ہو گا۔ اس عمل سے عدالت کی کاروائی مختصر ہو جائے گی او راس طرح ایک ایماندار اور غیر جانبدار عذرداری کی روایت قائم ہو گی جو ذاتی مفاد کی بجائے اثبات جرم کے یقین پر مبنی ہو گی۔ اس کیساتھ ہی وکیلوں کے درمیان یہ مجرمانہ کاروبار بھی ختم ہو جائے گا کہ جو زیادہ فیس دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے ہی جتوایا جائے۔
     
  19. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001
    دنیا بھر میں مذہب کے تبلیغی مراکز کو تباہ کرنے کیلئے جو اس زمانے میں بھی ہماری راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، ہم عرصہ دراز سے کوشش کررہے تھے کہ عوام کے دل سے علماء کا احترام ختم کر دیا جائے۔ اب روز بروز عوام میں ان کا اثر ختم ہوتا جا رہا ہے ہر جگہ ضمیر کی آزادی کو قبول عام حاصل ہو رہا ہے اور اب یہ چند سالوں کی بات ہے کہ نصرانی مذہب صفحہ ہستی سے بالکل نیست و نابود ہو جائے گا۔ جہاں تک دوسرے مذاہب کا تعلق ہے انہیں ختم کرنے میں ہمیں اتنی دشواری نہیں ہو گی لیکن ان کے بارے میں کچھ کہنا ابھی ذرا قبل از وقت ہے۔ ہم پادریوں کا دائرہ عمل اتنا تنگ کر دیں گے کہ عوام میں ان کا اثر ترقی معکوس کرنے لگے گا۔

    جب پاپائی عدالت کو ختم کرنے کا آخری مرحلہ آئے گا تو ا یک نادیدہ ہاتھ کی انگلی اس عدالت کی طرف اشارہ کرے گی اور جب مختلف قومیں اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں گی تو ہم کلیسا کے حامی بن کر اس کی حفاظت کیلئے اٹھ کھڑے ہوں گے اور گو ظاہر بظاہر اس کا مقصد یہ ہو گا کہ ہم خون خرابہ بچانے کیلئے ایسا کر رہے ہیں لیکن اس طرح ہم ان کا اعتماد حاصل کر کے ان کی جڑوں میں بیٹھ جائیں گے اور یقین مانئے ہم اس وقت تک ان سے چمٹے رہیں گے جب تک ان کی جڑیں کھوکھلی نہ کر دیں۔

    یہودیوں کا بادشاہ ساری دنیا کا پاپائے اعظم اور بین الاقوامی مذہب کا سردار ہو گا۔ نوجوانوں کو رسمی مذاہب کی اپنے طرز پر تعلیم دینے اور اس کے بعد اپنے مذہب کی واضح تعلیم دینے کی درمیانی مدت میں، ہم موجودہ مذاہب پر اعلانیہ انگلی نہیں اٹھائیں گے لیکن ہم اس قسم کے اعتراضات ضرور ابھارتے رہیں گے جن کا مقصد انہیں فرقوں میں تقسیم کرنا ہو گا۔
     
  20. ابو عبیدہ

    ابو عبیدہ محسن

    شمولیت:
    ‏فروری 22, 2013
    پیغامات:
    1,001
    بالعموم ہمارا پریس ملکی امور، مذاہب اور غیر یہود کی نااہلی کو تنقید کانشانہ بنائے رکھے گا اور کسی اخلاقی اصول کو مد نظر رکھے بغیر ہر وہ طریقہ، جو صرف ہماری فطین قوم ہی استعمال کر سکتی ہے، استعمال کرے گا جس سے ان کا وقار مجروح کیا جا سکے۔

    ہماری بادشاہت وشنو دیوتا کی عملی تجسیم ہو گی جس میں اس کی شخصیت جھلکے گی ہمارے سو ہاتھوں میں سے ہر ایک میں معاشرتی زندگی کی مشینوں کی کمانیاں ہوں گی۔ ہم بغیر سرکاری پولیس کی مدد کے ہر چیز سے واقف ہوں گے غیر یہودی حکومتوں کی پولیس کو ہم نے جومحدود اختیارات دلوائے تھے اس کی وجہ سے ان کی پولیس یہ معلومات فراہم ہی نہیں کر سکتی تھی۔

    ہمارے لائحہ کار کے مطابق عوام کی ایک تہائی آبادی بقیہ دو تہائی کو حکومت کی رضاکارانہ خدمت کے اصول پر اپنے احساس ذمہ داری کی وجہ سے زیرنگرانی رکھے گی۔ ایسی صورت میں جاسوسی کرنا اور مخبر بننا کوئی بے عزتی کی بات نہیں رہے گی بلکہ اس کے برخلاف قابلِ فخر بات سمجھی جائے گی۔ بے بنیاد الزام تراشی کی بہرحال بے حد سخت سزا دی جائے گی تاکہ اس حق کو ناجائز استعمال کرنے کا کوئی احتمال نہ رہے۔

    ہمارے مخبر معاشرے کے ہر طبقے میں ہوں گے۔ ان میں انتظامیہ کے ا علیٰ طبقے کے افراد بھی ہوں گے جو اپنا بیشتر وقت تفریحات میں صرف کرتے ہیں اور ان میں اخباروں کے مدیر، طابع، ناشر، کتب فروش، دفتروں میں کام کرنے والے کلرک، مال بیچنے والے، مزدور، کوچوان اور نجی ملازمین وغیرہ بھی ہوں گے۔ ان لوگوں کے نہ تو اپنے کوئی حقوق ہوں گے اور نہ انہیں اپنے طور پر کوئی کاروائی کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ یعنی یہ ایک ایسی پولیس ہو گی جس کے پاس اختیار نہیں ہوں گے۔ یہ لوگ صرف مشاہدہ کر کے اس کی اطلاع بہم پہنچائیں گے۔ ان کی فراہم کردہ اطلاع کی تصدیق اور اس کے نتیجے میں ہونے والی گرفتاریوں کا فیصلہ ایک دوسرا ذمہ دار گروہ کرے گا جس کا کام پولیس کے کام کی نگہداشت ہو گا جب کہ گرفتاریوں کا اصل کام فوجی پولیس اور بلدیہ کی پولیس کرے گی۔

    اگر کوئی فرد، ملکی معاملات کے بارے میں کچھ دیکھنے یا سننے کے بعد، اس کی اطلاع نہیں دے گا تو جرم ثابت ہو جانے کے بعد اسے بھی اخفائے جرم کا مجرم گردانا جائے گا۔

    بالکل اسی طرح جیسے آج کل ہماری برادری کے لوگ خود اپنے احساس ذمہ داری کی بنا پر، اپنے ان افراد خاندان کے خلاف جو کابال (kabal) کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہوئے پائے جائیں۔ کابال (kabal) سے منحرف ہونے کا جرم عائد کرنے کیلئے مجبور ہیں اسی طرح ہماری بادشاہت میں جوساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہو گی ہماری رعایا کا یہ فرض ہو گا کہ اس سلسلے میں حکومت کی خدمات انجام دیں۔

    اس قسم کی تنظیم اختیارات کے ناجائز استعمال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی خواہ وہ طاقت کا غلط استعمال ہو یا رشوت ستانی ہو۔ غرض اس طرح وہ ساری بدعنوانیاں ختم کر دی جائیں گی جو ہم نے اپنے مشوروں سے اور مافوق بشریت انسان کے حقوق کے نظریہ کے نام پر غیر یہودی رسم و رواج میں داخل کر دی تھیں۔انتظامیہ میں بدعنوانی کی صلاحیتیں ابھارنے کیلئے ہم اور کس طرح ان علتوں کو فروغ دے سکتے تھے۔

    منجملہ اور بہت سے ذرائع کے، سب سے زیادہ اہم ہمارے وہ گماشتے ہیں جنہیں امن و امان قائم کرنے پر مامور کیا جاتا ہے۔ ان عہدوں پر ہونے کی وجہ سے انہیں انتشار پھیلانے کی اپنی شیطانی صفات یعنی خود فریبی پر اصرار، طاقت کا غیر ذمہ دارنہ استعمال اور سب سے پہلے اور اہم ترین بات ضمیر فروشی کو ابھارنے اور اسے بروئے کار لانے کے مواقع میسر ہوتے ہیں۔
     

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں