جرائم۔ میڈیا ہائپ اور اسلامی نقطہ نظر

ابومصعب نے 'ذرائع ابلاغ' میں ‏دسمبر 25, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    اصل واقعہ تفصیل کے ساتھ دہلی میں ایک لڑکی عصمت دری کا معاملہ ساری دنیا کے لئے ہائپ بنا ہوا ہے۔اور غم و غصہ کی لہر بدقسمتی سے چاروں‌طرف ایک رجحان بنکر سامنے آئی ہے. لیکن یہ واقعہ ہو یا پھر ایسے دوسرے واقعات صرف کچھ مقاصدکے لئے تشہیر کئے جاتے ہیں ورنہ وکٹم سے کسی کو لینا دینا نہیں‌ہوتا۔ کیونکہ ایسے ہزاروں‌واقعات میں‌سے کسی ایک واقعہ کو لیکر اس قدر طوفان کے کچھ معنی نہیں۔ کنسر ن یہ ہے کہ ایسے واقعات صرف سیاسی فوائد کے لئے استعمال نہیں‌ہونے چاہئےکہ یہ ایک ہولناک واقعہ ہے اور وغیرہ، اسکے بجائے ایسے واقعات جو کہ تمام طرح‌کی سوسائیٹیز میں ہورہے ہیں‌کی بنیاد بھی تلاش کریں اور اسکے سد باب مذہبی نقطہ نظر ہی سے تلاش کریں، اورنہ صرف سیاسی اور کچھ دوسرے مقاصد ہی کا حصول ہوگا۔



    دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا ہی کی ایک فرقہ پرست پارٹی نے عصمت دری کے واقعات کے حوالے سے یہ کہا کہ ایسے جرائم کے لئے "اسلامی شرعی" سزا جیسی سزا ہونی چاہئے۔ واقعی کہیں‌نہ کہیں‌حق کا اعتراف چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے ہو ہی جاتا ہے۔

    ایسے واقعات کا سد باب تو ہوتا رہے، لیکن اگر واقعی حل کے حوالے سے سوچا جائے تب مختلف مذاہب کی آئیڈیالوجی کا تقابل کیا جائے تب اسلام ہی وہ واحد راستہ نظر آتا ہے، جہاں‌خواتین کو وہ مقام دیا گیا ہے، اور انکے اور سوسائیٹی کے درمیاں‌وہ حد فاصل کھینچ کر ایک ایسا اخلاقی سسٹم بنایا گیا ہے جہاں ایسے کرائم کی گنجائش کم سے کم ہوکر رہ جاتی ہے، یا پھر سزا کے طور پر شریعت ایسی سزائیں تجویز کرتی ہے جو کہ "کوڑوں‌کی سزا" یا پھر "سنگساری " سے تعبیر ہے۔

    بہرحال اصلاحی پہلووں‌ پر نظر پاکیزگی قلب ہی کے ساتھ ممکن ہے، ورنہ ذاتی یا اجتمای سیاسی اور دوسرے مفادات کے تحت میڈیا ہائپ کے تحت کسی بھی واقعہ کو "یوز یا اکسپولائیٹ " کیا جاسکتا ہے، اور یہ صرف میڈیا ہائپ ہے۔ جبکہ واقعات کو حوالہ بناکر نہ ملالہ کا واقعہ ہائپ ملالہ کی مدد ہے اور نہ دہلی کیس اس وکٹم کی مدد، بلکہ یہ تو صرف ذاتی مقاصد کے حصول کا ایک سیاسی انداز ہے۔

     
    Last edited by a moderator: ‏دسمبر 25, 2012
  2. ابومصعب

    ابومصعب -: منفرد :-

    شمولیت:
    ‏اپریل 11, 2009
    پیغامات:
    4,063
    یہاں‌ اس آرٹیکل میں‌ایک ہندو صحافی نے گجرات، کشمیر اور دوسرے ایریاز میں‌مسلمز کے ساتھ ایسے واقعات پر کیوں‌کوئی آواز نہیں‌اٹھایا، اس پر سوال اٹھایا۔
    مزید انہوں نے ہندووں‌کے وہ طبقات جنکو وہ پچھڑے ہوئے قرار دیتے ہیں، جن میں‌دلت وغیرہ ہیں ان کے ہزاروں‌کیسز کے باوجود ایسا کوئی میڈیا ہائپ نظر نہیں‌آیا اس پر بھی سوال اٹھایا ہے۔

    واقعی یہ تبصرہ اپنے اندر سوسائتی کے تئیں، جرائم اور پھر اس پر ڈبل اسٹانڈرز کو واضح‌کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
     
    Last edited by a moderator: ‏دسمبر 25, 2012
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں