تراجم بخاری کا تعارف از حافظ عبدالمنان محدث نور پوری رحمہ اللہ

آزاد نے 'حدیث - شریعت کا دوسرا اہم ستون' میں ‏مارچ 7, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. آزاد

    آزاد ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 21, 2007
    پیغامات:
    4,558
    تراجم بخاری:

    تراجم بکسر جیم ہے۔ اگر بضمہ جیم ہوتو مصدر بن جائے گا۔ تراجم جمع ہے، اس کا واحد ترجمہ ہے۔ اگر بضمہ جیم پڑھیں تو معنیٰ ہوگا: پتھر مارنے میں دو آدمیوں کا شریک ہونا۔ لیکن یہ لفظ تراجِم ہے ۔ جیسے تجربہ کی جمع تجارب آتی ہے۔ ترجمہ کے تین معانی ہوتے ہیں۔
    لفظ تراجم کے معانی:​

    معنیٰ اول:
    کسی بات کو ایک زبان سے دوسری زبان میں بیان کرنا۔ جیسے کہا جتا ہے: [font="al_mushaf"]ترجم الکلام بالاردیۃ
    ۔ اس نے کلام کا ترجمہ اردو زبان میں کیا۔
    معنیٰ ثانی:
    کسی آدمی کے نسب، اس کی سیرت اور اخلاق کو بیان کرنا، جیسے ترجمۃ الرجال یا یہ کہا جائے : [font="al_mushaf"]ذکر البخاری فی ترجمۃ الاعمش[/font] ۔ ’تراجم علماء حدیث ہند‘ کتاب ہے۔
    معنیٰ ثالث:
    کسی چیز کا آغاز اور ابتدائی حصہ۔ جیسے ترجمۃ الکتاب، کتاب کا ابتدائی حصہ۔ تو یہاں تراجم ابواب بخاری میں یہ آخری معنیٰ مراد ہے:باب کا ابتدائی حصہ۔ امام بخاری نے اپنی کتاب کے تراجم ابواب میں بہت سے علمی، فقہی، اصولی اور لغوی حقائق اور دقائق کو سمو دیا ہے، جن کے سمجھنے سے بڑے بڑے فحول علماء بھی قاصر رہے ہیں۔ اور عظیم رجال ان تک رسائی حاصل کرنے سے حیران ہیں۔ حتیٰ کہ مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں: بخاری سے پہلے کسی مصنف نے اس قسم کے تراجم ابواب قائم نہیں کئے اور نہ ہی ان کے بعد اس قسم کے تراجم ابواب وجود میں آئے۔ گویا امام بخاری اس دروازے کو کھولنے والے تھے اور خود ہی اس دروازے کو بند کردینے والے ہیں۔ ’[font="al_mushaf"]فکان ہو الفاتح لذلک الباب وصار ہو الخاتم۔[/font]
    تراجم کے اندر امام بخاری نے ترجمۃ الباب سے متعلق آیات، صحابہ اور تابعین کے فتاویٰ اور اہل لغت کے کلام کو درج کیا ہے۔ اور بہت سے تراجم میں مرفوع معلقات بھی لائے ہیں۔ ان تراجم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری کو حدیث، تفسیر، تاریخ، لغت، اصول اور علم کلام پر پورا پورا عبور حاصل ہے۔ اس لیے یہ بات مشہور ہوچکی ہے: ’[font="al_mushaf"]فقہ البخاری فی تراجمہ[/font]۔‘
    کہ امام بخاری کی فقہ ان کے تراجم میں موجود ہے۔
    وہ کتب جو تراجم بخاری کےحل کےلیے لکھی گئیں:

    تراجم بخاری کی دقت کے پیش نظر علماء نے اس کے حل کےلیے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ نیز بخاری کی شروح میں حل تراجم کےلیے حل تراجم کےلیے خاص توجہ دی گئی ہے۔
    خطیب سکندریہ علامہ ناصر الدین احمد بن منیر نے تراجم بخاری پر ایک مستقل کتاب لکھی، جس کے اندر تقریباً چار سو تراجم کا حل موجود ہے۔ قاضی بدر الدین نے اس کتاب کی تلخیص کی اور اس پر اپنی طرف سے کچھ اضافہ کیا۔ ایک مغربی عالم اور محدث محمد بن منصور نے ایک کتاب ’[font="al_mushaf"]فک اغراض البخاری المبہمۃ فی الجمع بین الحدیث والترجمۃ[/font]‘ لکھی۔ اس کتاب کے اندر بخاری کے سو تراجم کی تشریح موجود ہے۔ یہ بہت مفید کتاب ہے۔ اسی طرح خطیب سکندریہ کے بھائی علامہ زین الدین نے اپنی شرح کے اندر تراجم بخاری کے حل کی طرف کافی توجہ دی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ حل تراجم کےلیے دقائق اور رموز کے بیان کرنے میں بہت بڑا کام کیا ہے۔ ابوعبداللہ بن رشید سبتی کی ایک کتاب ’ترجمان التراجم‘ بھی تراجم بخاری پر تصنیف کردہ ہے۔ یہ کتاب الصیام پر جاکر ختم ہوگئی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ کتاب ناقص ہونے کے باوجود بہت مفید ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے بھی ایک رسالہ لکھا ہے۔ یہ رسالہ مطبوعہ بخاری کے شروع میں لگا ہوتا ہے، جو تراجم کے سلسلے میں کافی مفید ہے۔
    تراجم بخاری کی انواع:

    نوع اول:
    امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے اندر بعینہ وہ الفاظ نقل کردیتے ہیں جو باب کے اندر درج شدہ حدیث کے ہوتے ہیں۔ اس مقام پر مترجم لہ حدیث اور مترجم بہ کلام کے درمیان مناسبت واضح ہوتی ہے۔
    نوع ثانی:
    مترجم بہ مترجم لہ کا کچھ حصہ ہوتا ہے۔ ایسے مقام پر بھی باب اور حدیث کے درمیان مناسبت واضح ہوتی ہے، کوئی دقت پیش نہیں آتی۔
    نوع ثالث:
    مترجم بہ مترجم لہ کا معنیٰ و مفہوم ہوتا ہے۔ اس نوع کے تراجم میں مناسبت واضح ہوتی ہے، کوئی اشکال نہیں ہوتا۔
    نوع رابع:
    مترجم بہ خاص ہوتا ہے او رمترجم لہ حدیث عام ہوتی ہے۔ اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ حدیث کے الفاظ عام ہیں لیکن مراد خاص ہے۔
    نوع خامس:
    مترجم بہ کے اندر عموم ہوتا ہے او رمترجم لہ حدیث خاص ہوتی ہے ۔ اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ حدیث تو خاص ہے لیکن اس کا خصوص مقصود نہیں، مقصود عموم ہے۔
    نوع سادس:
    مترجم بہ کے اندر تقیید ہوتی ہے اور مترجم لہ کے اندر اطلاق ہوتا ہے۔ اس مقام پر غرض یہ ہوتی ہے کہ حدیث گو مطلق ہے لیکن وہاں اطلاق مراد نہیں۔ بلکہ مراد تقیید ہے۔
    نوع سابع:
    مترجم بہ میں اطلاق اور مترجم لہ میں تقیید ۔ ایسے مقام پر غرض بخاری یہ ہوتی ہے کہ حدیث کے اندر مذکور قید احترازی نہیں، نہ ہی قید مراد ہے ، بلکہ اطلاق مراد ہے۔
    نوع ثامن:
    مترجم بہ میں تفصیل اور مترجم لہ میں اجمال ہوتا ہے ۔ ایسے مقام پر غرض یہ ہوتی ہے کہ امام بخاری وہاں حدیث کے اجمال کی تفصیل بیان کرنا چاہتے ہیں۔
    نوع تاسع:
    تاویل ظاہر یعنی مترجم لہ حدیث ظاہر ہے۔ ترجمۃ الباب میں امام بخاری اس کی تاویل کردیتے ہیں۔ اس مقام پر غرض یہ ہوتی ہے کہ حدیث کا ظاہر مراد نہیں۔
    نوع عاشر:
    ایضاح مشکل مترجم لہ حدیث کے اندر کوئی اشکال ہوتا ہے۔ ترجمۃ الباب میں امام بخاری اس کی وضاحت فرمادیتے ہیں تاکہ وہ اشکال دور ہوجائے۔
    النوع الحادی عشر:
    تاویل مشترک حدیث کے اندر اشتراک ہوتا ہے۔ امام بخاری ترجمۃ الباب میں ان متعدد معانی میں سے ایک معنیٰ متعین کردیتے ہیں۔
    النوع الثانی عشر:
    اثبات حکم ایک فقہی مسئلہ ترجمۃ الباب میں ذکر کردیتے ہیں۔ حدیث لاکر اس حکم کو ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔
    النوع الثالث عشر:
    کسی مذہب یا صاحب مذہب کی تردید ترجمۃ الباب میں امام بخاری کسی کا مذہب بیان کردیتے ہیں ، نیچے حدیث لاکر اس کی تردید کردیتے ہیں کہ یہ مذہب صحیح نہیں۔
    النوع الرابع عشر:
    امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب کے اندر ادنیٰ چیز کا ذکر کرتے ہیں ، نیچے جو حدیث لاتے ہیں، اس میں اعلیٰ چیز کا حکم ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر امام صاحب کی غرض یہ ہوتی ہے کہ جب اعلیٰ چیز کا حکم یہ ہے تو ادنیٰ چیز کا حکم بطریق اولیٰ یہ ہونا چاہیے۔
    النوع الخامس عشر:
    ترجمۃ الباب کے اندر اعلیٰ چیز کا ذکر ہوتا ہے اور حدیث میں ادنیٰ چیز کا ذکر ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر مقصود یہ ہوتا ہے کہ جب ادنیٰ چیز پر یہ حکم جاری ہورہا ہے تو اعلیٰ چیز پر اس کو بطریق اولیٰ جاری ہونا چاہیے۔
    النوع السادس عشر:
    باب بلاترجمہ ۔ بسا اوقات ایسےموقع پر امام صاحب کی غرض یہ ہوتی ہے کہ نیچے میں نے حدیث بیان کردی ہے ، اوپر باب کا عنوان بھی دے دیا ہے، اب قاری خود استنباط کرے کہ اس حدیث سے کون سا ترجمہ نکلتا ہے؟ اس قسم کے ابواب کا مقصد تشحیذ اذہان ہوتا ہے۔ اسی لیے علماء فرماتے ہیں کہ یہ کتاب مجتہد گر ہے۔
    النوع السابع عشر:
    باب بلا ترجمہ کبھی متقدم باب کا حصہ ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام بخاری ایک باب منعقد فرماتے ہیں، اس کے نیچے بہت سی احادیث ہوتی ہیں جن سے وہ باب والا مسئلہ نکل رہا ہوتا ہے۔ ان احادیث سے کوئی دوسرا مسئلہ بھی نکلتا ہے تو درمیان میں کوئی اور باب قائم کردیتے ہیں۔ اس قسم کے تراجم ایسے ہوتے ہیں جیسے دوسرے مصنفین کے نزدیک فائدہ ہوتا ہے۔ اس کو باب فی باب کہتے ہیں۔
    النوع الثامن عشر:
    باب بلا ترجمہ بمنزلہ تحویل اسناد۔ امام بخاری ایک باب منعقد فرماتے ہیں اور نیچے کئی احادیث درج فرماتے ہیں۔ کسی حدیث پر صرف باب کا لفظ درج کردیتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حدیث پہلی ہی ہے ، صرف سند کو دوبارہ لانا مقصود ہوتا ہے ۔ جیسے امام بخاری اور دوسرے محدثین ’ح‘ کا لفظ لاتے ہیں۔
    النوع التاسع عشر:
    ترجٕمۃ الباب کے اندر کسی ضعیف حدیث کے لفظ درج کردیتے ہیں۔ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ ضعیف حدیث جس کے الفاظ ترجمۃ الباب میں مذکور ہیں، ایسی کسی سند سے جو میری شرط کے مطابق صحیح ہو، ثابت نہیں۔ مگر یہ مسئلہ میری شروط کے مطابق دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔
    النوع العشرون:
    کسی ضعیف حدیث کے معنیٰ کو ترجمۃ الباب میں بیان کردینا۔ ایسے مقامات پر امام بخاری کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں گو احادیث ضعیف ہیں، مگر قرآنی آیات اور دوسری احادیث صحیحہ سے یہ مسئلہ ثابت ہے۔
    النوع الحادی والعشرون:
    ترجٕمۃ الباب کے اندر ایسا مسئلہ درج کردینا جو ضعیف احادیث کے خلاف ہو، ایسے مقام پر امام بخاری ان احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
    النوع الثانی والعشرون:
    امام بخاری ایک باب منعقد فرماتے ہیں۔ ترجمہ بھی ذکر کرتے ہیں۔ لیکن نیچے حدیث درج نہیں کرتے، یعنی حدیث درج کیے بغیر ہی آگے دوسرا باب شروع کردیتے ہیں۔ ایسی صورتوں میں امام بخاری کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس باب کے مطابق پہلے حدیث بیان کرچکے ہیں۔ اس باب میں تکرار سے بچنے کےلیے حدیث چھوڑ دی ہے۔ کبھی کبھار وہ حدیث بخاری میں ہوتی ہی نہیں۔ تو مقصد یہ ہوتا ہے کہ ترجمۃ الباب کےلیے حدیث خود تلاش کریں۔
    النوع الثالث والعشرون:
    امام بخاری ایک باب منعقد فرماتے ہیں، ترجمۃ الباب بھی ذکر کرتے ہیں لیکن نیچے کوئی حدیث درج نہیں کرتے اور نہ ہی کتاب میں اس قسم کی حدیث ہوتی ہے تو ایسی جگہ امام بخاری کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میری شرائط کے مطابق کوئی حدیث ایسی نہیں جو اس باب میں درج ہوسکے، لہٰذا اس باب کو حدیث کے بغیر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ غرض مسئلہ بتانا ہوتا ہے۔
    النوع الرابع والعشرون:
    امام بخاری ایک باب منعقد کرتے ہیں، اس میں ایک مسئلہ درج فرماتے ہیں۔ بظاہر کم فائدہ معلوم ہوتا ہے لیکن بنظر دقیق معلوم ہوتا ہے کہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ مثلاً: امام بخاری فرماتے ہیں: ’[font="al_mushaf"]باب قول الرجل: فاتتنا الصلاۃ[/font]۔‘ کہ یہ لفظ بولنا جائز ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی مسئلہ معلوم ہوتا ہے لیکن یہاں ان لوگوں کی تردید مراد ہے جو اس نظریہ کے قائل ہیں۔ شاہ ولی اللہ کہتے ہیں کہ ایسی جگہ ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق کے بعض ابواب کا تعاقب مقصود ہوتا ہے۔
    النوع الخامس والعشرون:
    تاریخ وسیر کے متعلق ایک مسئلہ درج کرتے ہیں۔ فقیہ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ کوئی اہم باب مقرر نہیں کیا گیا۔ مگر مؤرخین اور سیرت دانوں کےلیے وہ بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
    علماء نے ان کے علاوہ بھی تراجم بخاری کی انواع بیان کی ہیں۔ ان تمام انواع سے امام بخاری کی فقاہت ، دقت علم اور وسعت نظر کا پتہ چلتا ہے۔
    مترجم بہ اور مترجم لہ کی اصطلاح:

    مترجم بہ:
    بیان کیا جاتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لفظ باب سے لے کر مرفوع حدیث شروع سے پہلے تک جو عبارت نقل کریں گے، خواہ وہ قرآن مجید کی آیت ہو، قول ہو، کسی صحابی کااثر ہو، یہ سب مترجم بہ ہوگا۔ مترجم بہ کا مطلب ہوتا ہے: ترجمہ میں ذکر کی ہوئی چیز۔ لہٰذا یہ سب کچھ مترجم بہ ہوگا۔
    مترجم لہ:
    باب کے نیچے جو حدیث درج کریں گے، اس کو مترجم لہ کہا جا تا ہے کیونکہ اوپر جو ترجمہ ذکر کیا گیا ہے، وہ اسی حدیث کی خاطر ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ حدیث مترجم لہ ہوگی۔ مولانا انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں کہ مترجم لہ او رمترجم بہ کی اصطلاح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ میں درج کی، مگر شرح کے اندر وہ اس پر قائم نہ رہے۔ مثلاً: صحیح بخاری، ص: 110، ج: 1 میں امام بخاری نے بات قائم کیا ہے:
    ’’[font="al_mushaf"]باب یہوی بالتکبیر حین یسجد وقال نافع: کان ابن عمر یضع یدیہ قبل رکبتیہ۔[/font]‘‘
    اس کے بعد جو حدیث لائے ہیں، اس کے الفاظ یہ ہیں:
    ’’[font="al_mushaf"]ثم یقول : اللہ اکبر حین یہوی ساجد، ثم یکبر حین یرفع راسہ من السجود[/font]۔‘‘
    اس حدیث میں ’’[font="al_mushaf"]یدیہ قبل رکبتیہ[/font]‘‘ کا ذکر ہی نہیں۔ صرف سجدہ کو جاتے ہوئے تکبیر کہنے کا ذکر ہے۔ اب اس مقام پر اشکال پیدا ہوگیا کہ حدیث کا تعلق سجدے کے ساتھ تو ہے لیکن عبداللہ بن عمر کا جو اثر نقل کیا ہے، وہ ظاہر نہیں ہورہا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کےلیے بہت سی باتیں لکھی ہیں، لیکن پیچیدگی حل نہیں ہوئی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن عمر کے اثر کو مترجم بہ بنا دیا ہے۔ یہ مترجم لہ نہیں ہے تو حافظ صاحب نے بخاری کے قول ’’[font="al_mushaf"]یہوی بالتکبیر[/font]‘‘ کو مترجم لہ اور ان کے قول ’’[font="al_mushaf"]قال نافع[/font]‘‘ کو مترجم بہ بنا دیا حالانکہ ان کی پہلی اصطلاح کے مطابق دونوں ہی مترجم بہ ہیں۔ یعنی اس طرح اب ان کی اصطلاح بدل گئی، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اشکال سے بچنے کےلیے پہلی اصطلاح چھوڑ دی۔
    مولانا انور شاہ کشمیری کی یہ بات غلط ہے۔ حافظ ابن حجر نے اپنی اصطلاح نہیں چھوڑی، بلکہ دونوں کو مترجم بہ ہی بنایا ہے۔ یہ اصطلاح چھوڑنے سے اشکال حل بھی نہیں ہوتا۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ’’[font="al_mushaf"]والذی یظہر ان اثر ابن عمر من جملۃ الترجمۃ فہو مترجم بہ لا مترجم لہ[/font]۔‘‘
    جو بات ظاہر ہے ، وہ یہ ہے کہ ابن عمر کا اثر ترجمۃ الباب کا حصہ ہے، اور یہ مترجم بہ ہے، مترجم لہ نہیں ہے۔ بخاری کا قول ’’[font="al_mushaf"]یہوی بالتکبیر[/font]‘‘ تو سب کے نزدیک مترجم بہ ہی ہے ، مترجم لہ نہیں۔ حافط ابن حجر نے اسے مترجم لہ نہیں کہا تو حافظ ابن حجر اپنی اصطلاح پر قائم ہیں۔ مولانا شاہ صاحب کو عدم توجہ کی وجہ سے بھول ہوگئی ہے۔

    مرآۃ البخاری از حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ
    ص: 103 تا 112
    کمپوزنگ: آزاد​
    [/FONT]
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں