حضرت ام عبداللہ بنت ابی دومہ رضی اللہ عنھا

نصر اللہ نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏فروری 22, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. نصر اللہ

    نصر اللہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏دسمبر 19, 2011
    پیغامات:
    1,845
    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    حضرت عبد اللہ بنت ابی دومہ
    حضرت ام عبد اللہ رضی اللہ عنھاکےاصل نام کا پتہ نہیں لگ سکا۔یہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے زمانے میں انکی عمر بیس سال کے قریب تھی۔جس خاندان کی یہ رکن تھیں وہ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت و ارشاد کا سخت مخالف تھا۔ان کے اسلام کا باعث حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خاندان تھا ۔ان کی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں آمد ورفت تھی۔ایک مرتبہ حضرت ابو بکر قرآن مجید کی تلاوت کر ر ہے تھےکہ ان کے کانوں میں ان کی آواز پڑی۔انہوں نے غور سے سننا شروع کیا تو نہایت متاثر ہوئیں۔اس وقت حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ جو آیات پڑھ رہے تھے ان کا مطلب یہ کہ ( اے رسول اکرم)آپ (ان کی حالت پر ) تعجب کا اظہار کرتے ہیں اور یہ لوگ ہیں کہ مذاق بازی پر اترے ہوئے ہیں،جب انہیں سمجھایاجاتا ہےتو سمجھتے نہیں ہیں اور جب کچھ نشانیاں دیکھتے ہیں تو بات ہنسی مذاق میں ٹال دیتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ یہ تو اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کہ کھلا جادو ہے کیا جب ہم مرگئے اور مٹی ہوگئے اور ہڈیوں کے سوا کچھ باقی نہ رہا تو کیا ہم(قبروں سے)اٹھا ئے جائیں گے اور کیا ہم سے پہلے جو ہمارے آباو اجداد گزر چکے ہیں انھیں بھی اٹھایا جائے گا؟(اے رسول اکر مﷺ)آپ کہہ دیں ہاں تم ذلیل ہو گئے۔
    ادھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ آیات تلاوت کر رہے تھے اور ادھر حضرت ام عبد اللہ بنت ابی دومہ رضی اللہ عنھا رورہی تھیں۔انہیں معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺکو لوگ جادو گراور مجنوں کہتے ہیں لیکن اس سلسلے میں انہیں زیادہ دلچسپی نہ تھی۔اب قرآن کی چند آیات پردہ سماعت سے ٹکرائیں تو اسلام اور رسول اللہ ﷺکی پاکیزہ تعلیمات کی طرف طبیعت راغب ہوئی اور اس سے مختلف پہلوؤں پر غور وفکر شروع کیا۔وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں۔ لیکن ذہن میں ان آیات کےالفاظ اورمعانی گھومتے رہے۔دن کو بھی یہ کیفیت ذہن پر طاری رہی اوررات بھی اسی حالت میں بسر کی دوسرے روزپھرحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مکان پر تشریف لائیں۔اتفاق سے اس وقت بھی وہ تلاوت قرآن پاک میں مصروف تھےاورسورہ بنی اسرائیل کی وہ آیات پڑھ رہے تھے جن میں فرماگیا ہے کہ(اے رسول ) آپ کا رب یہ فیصلہ کرچکاکہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو صرف اسی کے آگے سر جھکاؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کر اگر تمہارے سامنے ان دونوں (ماں باپ)میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف بھی نہ کہواور نہ انھیں جھڑکو ا ن کے ساتھ کندھے جھکادو اور اللہ سے یہ التجا کرو کہ اے اللہ ان پراسی طرح رحم فرماجس طرح کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پاپاور میری تربیت کے فرائض سرانجام دے۔تمہارا رب تمھارے دل کی باتوں سے پوری طرح باخبر ہے اگر تم نیک ہو گے تو وہ رجوع کرنےوالوں کے لئے مغفر ت کے سامان فراہم کرتاہے۔(دیکھو)تم قرابت داروں کو ان کاحق دو،مسکینوں ،محتاجوں اور مسافروں کے حقوق بھی ادا کر اوران کی خبر گیری کرو۔بے موقع مال خرچ نہ کراوراسے فضول مصر ف میں نہ لاؤ۔۔۔۔۔
    ان آیات نے ان کواورمتاثر کیااوروہ چپکے سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ جو کچھ آپ پڑھ رہے ہیں میں اسے کل سے سن رہی ہوں۔یہ نہایت دلنشیں اور اثر انگیز کلام ہے۔میں اس شخص سے ملنا چاہتی ہوں جو آپ کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں اسی وقت رسول اکرمﷺ کی خدمت میں لے گئے اور وہ کلمہ شہادت پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہو گئیں۔
    قبول اسلام کے بعد ان کی دنیا بالکل بد ل گئی گھر آئیں تو ان میں ایک انقلاب پیدا ہو چکاتھا اور گفتگو اور سوچ بچار کاسانچا کوئی اور ہی صورت اختیار کرگیا تھا۔سب سے پہلے اپنی والدہ سے ہم کلام ہوئیں ان کی والدہ اس وقت اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی سخت مخالف تھیں،انہیں بیٹی کی اسی کیفیت سے شدید کوفت ہوئی اور کہا تم نے اپنے خاندان کو ذلیل کر دیاہے۔ہم محمد ﷺ کے دین کو غلط اور خطرناک سمجھتے ہیں یہ شخص اپنے آباو اجداد اور خاندان کے مذہب اور رسوم و عوائد کو ترک کر چکاہے اور ایسی راہ پر گام زن ہوگیا ہےجو کسی صورت میں بھی صحیح نہیں تم اس کے دین سے باز آجاؤ اور اسی طریقے پر قائم رہو جو اب تک ہم میں رائج ہے۔یہ شخص جسے تم اللہ کا رسول کہہ رہی ہو جادوگرہے۔ بیٹی نے ماں کی ان باتوں کو ماننے سے انکار کیا اور دین محمد ﷺ کو سچا دین قرار دیااور کہا کہ میں وہ کلام اپنے کانوں سے سن چکی ہوں،جسے تم جادوگر کا کلام کہتے ہو۔وہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا اور نہ جادوگر یا کاہن اس قسم کی باتیں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ اللہ کا کلام ہے اور برحق ہے اور رسول اللہﷺ پر نازل کیا گیا ہے۔ماں بیٹی کے اس اندز گفتگو پر سخت بر افروختہ ہوئی اور خوب سزادی،لیکن بیٹی پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔اس کے بعد جب ان کے باپ بھائیوں اور خاندان کے دوسرے افراد کو علم ہوا تو انھوں ے بھی خفگی کا اظہار کیا پہلے تو سمجھانے کی کوشش کی جب اس میں کامیاب نہ ہو سکے تو مارپیٹ تک نوبت پہنچی لیکن وہ بدستور اپنے موقف پر قائم رہیں۔یہ ان کےلیے سخت ابتلا کا دور تھا،جس سے نہ ان کے ذہن و فکر میں کوئی تبدیلی نمودار ہوئی اور نہ پائے ثبات و استقلال میں کوئی جنبش پید اہوئی۔
    ان کی شادی خاندان ہی کے ایک شخص سے ہوئی تھی اوراس سےدو بچے بھی تھے۔اس نے بھی ہر طرح سے سمجھانے کی کوشش کی،لیکن جب اس نے دیکھا کہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا تو بیوی کو طلاق دے کر گھرسے نکال دیا اور بچوں کو اپنے پاس رکھ لیا۔یہ عورت کےلئے ایک نازک مرحلہ ہوتاہے۔مگر اس سے بھی وہ کامیابی سے گزرگئیں اور کسی قسم کا ملال نہ زبان سے ظاہر ہونے دیا اور نہ عمل و حرکت سے۔ان کا دوسرا نکاح مشہور صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ہوا،لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ نکاح کس وقت اور کس دور میں ہوا۔
    حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بھی ان کے اولاد پیدا ہوئی مگر اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہو سکا۔
    حضرت ام عبد اللہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے متعدد احادیث روایت کیں،نیز انھوں نے اپنے شوہر حضرت ابو موسیٰ اشعری سے بھی احادیث روایت کیں۔پھر خود ان سے بھی بہت سے لوگوں نے احادیث بیان کیں جن میں حضرت عیاض اشعری ، یزید بن اوس،عبد الرحمن بن ابی لیلی،عبدالاعلی نخعی اور ثابت بن قیس ایسے مشاہیر راوی شامل ہیں۔
    ان کی وفات اس دو رمیں ہوئی جس وقت خلیفہ رابع حضر ت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ برسر پیکار تھے۔سیر و تاریخ کی بعض کتابوں میں منقول ہے کہ کوفہ میں فوت ہوئیں۔
    اسلام کی بیٹیاں
    از محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ
     
  2. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    جزاک اللہ خیرا
     
  3. بنت امجد

    بنت امجد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 6, 2013
    پیغامات:
    1,568
    جزاک اللہ خیرا
     
  4. ام ثوبان

    ام ثوبان رحمہا اللہ

    شمولیت:
    ‏فروری 14, 2012
    پیغامات:
    6,690
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. ام احمد

    ام احمد محسن

    شمولیت:
    ‏جنوری 7, 2008
    پیغامات:
    1,333
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں