تجھے تیرا رب بہت جلد (انعام) دے گا اور تو راضی ہو جائے گا ۔ تفسیر سعد ی (سورۃ الضحى ، سورة الشرح)

عبد الرحمن یحیی نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏دسمبر 28, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    تفسیر سورة الضحى
    بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
    وَالضُّحَىٰ ﴿١﴾وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ ﴿٢﴾مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ﴿٣﴾وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ ﴿٤﴾وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ ﴿٥﴾أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ ﴿٦﴾وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ﴿٧﴾وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ ﴿٨﴾فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ ﴿٩﴾وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ ﴿١٠﴾وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ﴿١١
    قسم ہے چاشت کے وقت کی (1)اور قسم ہے رات کی جب چھا جائے(2)نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وه بیزار ہو گیا ہے (3)یقیناً تیرے لئے انجام آغاز سے بہتر ہوگا (4)تجھے تیرا رب بہت جلد (انعام) دے گا اور تو راضی (وخوش) ہو جائے گا (5)کیا اس نے تجھے یتیم پا کر جگہ نہیں دی (6)اور تجھے راه بھوﻻ پا کر ہدایت نہیں دی (7)اور تجھے نادار پاکر تونگر نہیں بنا دیا؟ (8)پس یتیم پر تو بھی سختی نہ کیا کر (9)اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ(10)اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا ره (11)

    اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کے لیے اپنی عنایت پر دن کی قسم کھائی ہے،جب چاشت کے وقت اس کی روشنی پھیل جائے اور رات کی قسم کھائی ہے،جب ٹھہر جائے اور اس کی تاریکی چھا جائے اور فرمایا : مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ یعنی جب سے آپ پر اللہ تعالٰی کی عنایت ہے ،اس نے آپ کو نہیں چھوڑا اور جب سے اس نے آپ کی نشو ونما کی اور آپ پر مہربانی کی ، اس نے آپ پر توجہ اور عنایت کو ترک نہیں کیا بلکہ وہ آپ کی کامل ترین طریقے سے تربیت کرتا رہتا ہے اور درجہ بدرجہ آپ کو بلندی عطا کرتا رہتا ہے ۔ وَمَا قَلَىٰ '' اور وہ آپ سے بیزار نہیں ہوا۔'' یعنی جب سے اللہ تعالٰی نے آپ سے محبت کی ہے وہ آپ سے ناراض نہیں ہوا ۔کیونکہ ضد کی نفی ،اس کی ضد کے ثبوت کی دلیل ہے ۔ محض نفی، جب تک کہ وہ ثبوتِ کمال کی متضمن نہ ہو ، مدح نہیں ہوتی ۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے ماضی کا حال ہے ،جبکہ موجودہ حالت اللہ تعالٰی کی آپ کے ساتھ محبت اس میں استمرار ،کمال کے درجات میں آپ کی ترقی اور آپ پر اللہ تعالٰی کی دائمی عنایت کے لحاظ سے کامل ترین حال ہے ۔ رہا مستقبل میں آپ کا حال تو اللہ تعالٰی نے فرمایا : وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ یعنی آپ کے احوال میں سے ہر متاخر حال کو سابقہ احوال پر فضیلت حاصل ہے ،چنانچہ رسول اللہ ﷺدرجات عالیہ پر ترقی کرتے رہے ، اللہ تعالٰی آپ کے دین کو تمکن عطا کرتا رہا ، آپ کے دشمنوں کے خلاف آپ کو فتح و نصرت سے بہرہ مند کرتا رہا اور آپ کے احوال کو درست کرتا رہا یہاں تک کہ آپ نے وفات پائی ۔ آپ فضائل ،اللہ تعالٰی کی نعمتوں،آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سرور کے ایسے حال کو پہنچ گئے جہاں اولین و آخرین نہیں پہنچ سکے ۔ پھر اس کے بعد آخرت میں آپ کے حال سے متعلق اکرام و تکریم اور انواع و اقسام کے انعامات کی تفصیلات کے بارے میں مت پوچھیے، اس لیے فرمایا : وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ '' اور عنقریب آپ کو وہ کچھ عطا کرے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے'' اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی اس جامع عبارت کے بغیر تعبیر ممکن ہی نہیں۔ پھر اللہ تعالٰی ان خاص احوال کے ذریعے سے جنھیں وہ جانتا ہے ، آپ پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے ،چنانچہ فرمایا : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ یعنی آپ کو اس طرح پایا کہ آپ کی ماں تھی نہ باپ بلکہ آپ کے ماں باپ اس وقت وفات پا گئے جب کہ آپ اپنی دیکھ بھال خود نہیں کرسکتے تھے۔ آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کی کفالت کی ،پھر آپ کے دادا بھی وفات پا گئے تو آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت کی یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے اپنی نصرت اور اہل ایمان کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی۔ وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ یعنی اللہ تعالٰی نے آپ کو اس حال میں پایا کہ آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔ پس اس نے آپ کو وہ علم عطا کیا جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ کو بہترین اعمال اور ہترین اخلاق کی توفیق بخشی۔ وَوَجَدَكَ عَائِلًا یعنی آپ کو محتاج پایا فَأَغْنَىٰ پس اللہ تعالٰی نے آپ کو شہروں کی فتوحات کے ذریعے سے ،جہاں سے آپ کے لیے مال اور خراج آیا ، غنی کر دیا ۔ جس ہستی نے آپ کی یہ کمی دور کی ہے وہ عنقریب آپ کی ہر کمی کو دور کر دے گی اور وہ ہستی جس نے آپ کو تونگری تک پہنچایا ، آپ کو پناہ دی ، نصرت عطا کی اور آپ کو راہ راست سے نوازا،اس کی نعمت پر شکر ادا کیجیے۔ اس لیے فرمایا : فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ یعنی یتیم کے ساتھ برا معاملہ نہ کیجیے، آپ اس پر تنگ دل ہوں نہ آپ اسے جھڑکیں بلکہ اس کا اکرام کریں جو کچھ میسر ہے آپ اسے عطا کریں اور آپ اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں جیسا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد سے کیا جائے ۔ وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ یعنی آپ کی طرف سے سائل کے لیے کوئی ایسی بات، ڈانٹ اور ترش روئی وغیرہ صادر نہ ہو جو سائل کو اس کے مطلوب سے رد کرنے کی مقتضی ہو بلکہ آپ کے پاس جو کچھ میسر ہے اے عطا کیجیے یا اسے معروف اور بھلے طریقے سے لوٹا دیجیے ۔ اس میں مال کا سوال کرنے والا اور علم کا سوال کرنے والا دونوں داخل ہیں،بنا بریں معلم متعلم کے ساتھ حسن سلوک ، اکرام و تکریم اور شفقت و مہربانی سے پیش آنےپر مامور ہے کیونکہ ایسا کرنے میں اس کے مقصد میں اس کی اعانت اور اس شخص کے لیے اکرام و تکریم ہے جو قوم و ملک کو نفع پہنچانے کے لیے کوشاں ہے ۔ فرمایا : وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ '' اور اپنے رب کی نعمتوں کو۔'' اس میں دینی اور دنیاوی دونوں نعمتیں شامل ہیں فَحَدِّثْ '' بیان کرتا رہ ۔'' یعنی ان نعمتوں کے ذریعے سے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا بیان کیجیے اور اگر کوئی مصلحت ہو تو ان کا خاص طور پر ذکر کیجیے ، ورنہ اللہ تعالٰی کی نعمتوں کا علی الاطلاق ذکر کیجیے ،کیونکہ اللہ تعالٰی کی نعمت کا ذکر ،اس پر شکر گزاری کا موجب اور دلوں میں اس ہستی کی محبت کا موجب ہے جس نے نعمت عطا کی ،کیونکہ محسن کے ساتھ محبت کرنا دلوں کی فطرت ہے۔
     
    • اعلی اعلی x 4
  2. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    تفسیر سورة الشرح
    بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
    أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ ﴿١﴾وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ ﴿٢﴾الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ ﴿٣﴾وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ﴿٤﴾فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا﴿٥﴾إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿٦﴾فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ ﴿٧﴾وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَب ﴿٨
    کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا (1)اور تجھ پر سے تیرا بوجھ ہم نے اتار دیا (2)جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی (3)اور ہمنے تیرا ذکر بلند کر دیا (4)پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے (5)بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے (6)پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر (7)اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا (8)

    اللہ تبارک و تعالٰی اپنے رسول ﷺ پر اپنے احسان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے : أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ یعنی شرائع دین ، اللہ تعالٰی کی طرف دعوت دینے ،مکارم اخلاق سے متصف ہونے، آخرت کو مدنظر رکھنے اور نیکیوں کی تسہیل کے لیے کیا ہم نے آپ کے سینے کو کشادہ نہیں کردیا؟ پس (آپ کا سینہ) تنگ اور گھٹا ہوا نہیں تھا کہ آپ کسی بھلائی پر عمل نہ کرتے اور نہ ایسا تھا کہ آپ اس کو انبساط کی حالت میں بہت کم پاتے ۔
    وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ یعنی ہم نے آپ سے آپ کے گناہ کا بوجھ اتار دیا الَّذِي أَنقَضَ '' جس نے توڑ رکھا تھا۔'' یعنی بوجھل کیا ہوا تھا ظَهْرَكَ '' آپ کی کمر کو ۔'' جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا : لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّـهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ (الفتح ۔2) '' تاکہ جو گناہ آپ سے پہلے سرزد ہوئے اور جو پیچھے سرزد ہوئے ، ان سب کو اللہ بخش دے ۔''
    وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ یعنی ہم نے آپ کی قدرومنزلت بلند کی ،ہم نے آپ کو ثنائے حسن اور ذکر بلند سے سرفراز کیا جہاں آج تک مخلوق میں سے کوئی ہستی نہیں پہنچ سکی۔ پس جب بھی اللہ تعالٰی کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا جاتا ہے ، مثلاً: اسلام میں داخل ہوتے وقت،اذان اور اقامت کے اندر ،خطبوں میں اور دیگر امور میں جن کے ذریعے سے اللہ تعالٰی نے اپنے رسول محمد مصطفٰی ﷺ کا ذکر بلند کیا ہے ۔ امت کے دلوں میں اللہ تعالٰی کے بعد آپ کے لیے جو محبت ،تعظیم اور اجلال ہے وہ کسی اور کے لیے نہیں۔پس اللہ تعالٰی آپ کو آپ کی امت کی طرف سے افضل ترین جزائے خیر عطا کرے جو کسی نبی کو اس کی امت کی طرف سے عطا کی ہے ۔
    اللہ تعالٰی کا ارشاد : فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴿ ﴾ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا '' بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے ۔ بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے ۔'' ایک عظیم الشان خوشخبری ہے کہ جب کوئی تنگی اور سختی پائی جائے گی تو اس کے ساتھ ساتھ آسانی بھی ہوگی حتی کہ اگر تنگی گوہ کے بل میں داخل ہوجائے تو آسانی اس کے ساتھ داخل ہو گی اور اسے باہر نکال لائے گی ، جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا : سَيَجْعَلُ اللَّـهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا (الطلاق ۔7) '' عنقریب اللہ تعالٰی تنگی کے ساتھ کشائش عطا کرے گا۔'' اور جیسا کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا : '' تکلیف کے ساتھ کشادگی ہوتی ہے اور تنگی کی معیت میں کشائش ہے ۔'' (مسند احمد : 1 / 307۔308)
    دونوں آیات کریمہ میں الْعُسْرِ کو معرفہ استعمال کرنا دلالت کرتا ہے کہ وہ واحد ہے اور اليُسْر کو نکرہ استعمال کرنا اس کے تکرار پر دلالت کرتا ہے ۔پس ایک تنگی دو آسانیوں پر غالب نہیں آئے گی ۔ الف لام کے ساتھ معرفہ بنانے میں جو کہ استغراق اور عموم پر دلالت کرتا ہے ،دلیل ہے کہ ہر تنگی ،خواہ وہ اپنی انتہا کو پہنچ جائے ، اس کے آخر میں آسانی کا آنا لازم ہے ۔
    پھر اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو اور آپ کے اتباع میں تمام اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ اس کا شکر ادا کریں اور اس کی نعمتوں کے واجبات کو قائم کریں،چنانچہ فرمایا : إِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ یعنی جب آپ اپنے اشغال سے فراغت حاصل کریں اور آپ کے قلب میں کوئی ایسی چیز نہ رہ جائے جو اسے (ذکر الٰہی سے) روکتی ہو ،تب آپ عبادت اور دعا میں جدوجہد کیجیے۔ وَإِلَىٰ رَبِّكَ اور اپنے اکیلے رب کی طرف فَارْغَب ''پس متوجہ ہوجائیں۔'' یعنی اپنی پکار کے جواب اور اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لیے اپنی رغبت بڑھایے ۔ آپ ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو فارغ ہوتے ہیں تو کھیل تماشے میں مشغول ہوجاتے ہیں،اپنے رب اور اس کے ذکر سے منہ موڑ لیتے ہیں،ایسا نہ ہو کہ آپ خسارہ پانے والوں میں شامل ہوجائیں۔
    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس آیت کریمہ کے معنی ہیں کہ جب آپ نماز پڑھ کر اس سے فارغ ہوں تو دعا میں محنت کیجیے اور اپنے مطالب کے سوال کرنے میں اپنے رب کی طرف رغبت کیجیے۔ اس قول کے قائلین،اس آیت کریمہ سے ،فرض نمازوں کے بعد دعا اور ذکر وغیرہ کی مشروعیت پر استدلال کرتے ہیں ۔ واللہ أعلم .
     
  3. ابو ابراهيم

    ابو ابراهيم -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مئی 11, 2009
    پیغامات:
    3,871
    جزاک اللہ خیرا یا ابا احمد
     
  4. اعجاز علی شاہ

    اعجاز علی شاہ -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 10, 2007
    پیغامات:
    10,322
    اللہ یجزیک الجنہ یا رب
    بہت ہی مفید سلسلہ ہے
    بارک اللہ فی جھودک
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں