خطبہ حرم مدنی 06-10-2017 " دورِ جدید کی بد تہذیبی: پگڑی اچھالنا" از ثبیتی حفظہ اللہ

شفقت الرحمن نے 'خطبات الحرمین' میں ‏اکتوبر، 7, 2017 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. شفقت الرحمن

    شفقت الرحمن ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جون 27, 2008
    پیغامات:
    753


    فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 16-محرم الحرام- 1439 کا خطبہ جمعہ " دورِ جدید کی بد تہذیبی: پگڑی اچھالنا" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ انسانیت کے ارتقائی مراحل کی تکمیل کیلیے اسلام نے پہلے پر امن زندگی کا مفہوم بتلایا پھر اس کی تکمیل کیلیے ترغیب دیتے ہوئے تعلیمات بتلائیں ،اس کے بعد تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلیے کڑی سزائیں رکھیں، اس طرح اسلام نے جرائم کی روک تھام کیلیے جرائم سے پہلے اور بعد میں مثبت اقدامات کیے ، ان جرائم میں سے ایک کسی کی پگڑی اچھالنا ہے جو کہ متاثر شخص کو اندر سے توڑ کر خود کشی پر بھی مجبور کر سکتا ہے، ایسے لوگوں سے آہنی ہاتھوں نمٹنا از بس ضروری ہے۔ حالانکہ مومن ایسی مذموم صفت سے مبرّا ہوتا ہے لیکن سوشل میڈیا ایسی حرکتوں سے بھرا ہوا ہے جس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ لوگ اب برائی کھلے عام کرنے لگے ہیں، پھر ان برائیوں پر مشتمل ویڈیو کلپ دھڑلے سے نشر کیے جاتے ہیں جو کہ انتہائی بری عادت ہے۔ دوسری جانب تمام دانش مند اس بات پر متفق ہیں کہ اس بد تہذیبی کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دلوں میں مذہبی اور دینی غیرت اجاگر کی جائے، ایمان اتنا پختہ ہو کہ قرآنی تعلیمات سے ذرا بھی ہٹنے کو دل نہ کرے، ہمارا ہر عمل کتاب و سنت کی روشنی سے منور ہو، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو مناسب رہنمائی دینے سے لڑکے اور لڑکیوں کو ایسی حرکتوں سے مکمل تحفظ دیا جا سکتا ہے اور ان کی توانائیوں کو ملک و قوم کی ترقی کیلیے کھپایا جا سکتا ہے، ایسے ہی والدین اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور اپنے لڑائی جھگڑوں کو بچوں پر اثر انداز مت ہونے دیں، اور شادی کی صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں کی جلد شادیاں کر دیں، سب سے آخر میں خطیب محترم نے جامع دعا کروائی۔

    خطبہ کی عربی آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ حاصل کرنے کیلیے یہاں کلک کریں۔

    پہلا خطبہ:

    تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں، اسی نے فرمایا:{الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ} جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم [یعنی شرک] کی آمیزش نہیں کی تو انہی کیلیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔[الأنعام: 82] میں اللہ سبحانہ و تعالی کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں وہی ان کا مستحق ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی نے اپنے بندوں پر سورۂ عصر نازل فرمائی۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ ایمان، تقوی اور صبر میں سب کیلیے عملی نمونہ ہیں۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں نازل فرمائے جب تک راتیں آتی رہیں اور نورِ صبح پھیلتا رہے۔

    حمد و صلاۃ کے بعد:

    میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102]

    اسلام نے انسانیت کو اعلی مقام دینے کیلیے پر اطمینان اور امن و سلامتی والی زندگی کا فہم عطا کیا، پھر شریعت اسلامیہ کے احکامات میں ہر قسم کی رہنمائی بھی دی، نیز پوری امت کو اعلی اخلاقی اقدار کی باڑ عطا کی جس کے باعث امت کے تمام گوشوں تحفظ ملا، ساتھ میں بلند اخلاقی اقدار اور اعلی کردار کی دعوت دی جو کہ امت کو گھٹیا اور گرے ہوئے کردار سے کہیں بلند کر دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ} اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102] اور ایسے ہی فرمایا: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} میں نے آج تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ،اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ،نیز میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے۔[المائدة: 3]

    اسلامی تعلیمات نے جرائم کو پھیلنے سے روکنے کیلیے جرائم کے اسباب ہی دفن کر دئیے ہیں، جرائم کی وجہ بننے والی چیزوں کا خاتمہ کیا اور ان کے سر اٹھنے سے پہلے ہی ان کی سر کوبی کر دی؛ صرف اس لیے کہ معاشرے کا امن برقرار رہے اور ہر فرد کے حقوق کو تحفظ ملے۔

    اسی طرح اسلام نے منبعِ جرائم خشک کرنے کیلیے معاشرے کی اعلی اخلاقی اقدار پر تربیت کی، ان کے اندر اتنی اخلاقی غیرت پیدا کی جو انہیں برائی سے روک دے، پھر اس کے بعد شریعت نے شرعی حدود، قصاص اور تعزیری سزائیں پورے معاشرے کے امن کیلیے قائم کیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} اور قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے، اے عقل والو تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[البقرة: 179]

    ایسے جرائم جن کی تباہ کاریوں سے لوگ چیخ اٹھے ہیں اور اہل دانش ان جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر متفق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جائیں، یہ جرم گمراہی، ایذا رسانی اور دھوکا دہی جیسے گناہوں میں ملوث ہونے کا موجب بنتا ہے، کسی کی پگڑی اچھالنا گھٹیا حرکت ہے اور تباہ کن خرابی ہے، اس سے جذبات بھڑکتے ہیں اور حساسیت بڑھتی ہے۔

    کسی کی عزت اچھالنے کے نقصانات شدید نوعیت کے ہوتے ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی جانب سے حرام کردہ گناہوں میں ملوث ہو جاتا ہے، معاشرے میں بے چینی پیدا ہوتی ہے، بلکہ متاثر شخص میں ایسے نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جو اسے اندر سے توڑ دیتے ہیں اور وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔

    دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے والے اجڈ اور گھٹیا لوگوں کی روک تھام شرعی واجب ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضرورت بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا} اور جو لوگ مومن مرد و خواتین کو بلا وجہ اذیت دیتے ہیں تو وہ بہتان اور واضح گناہ اٹھا رہے ہیں۔[الأحزاب: 58] اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں روزِ قیامت بد ترین شخص وہ ہے جس کی بدی سے بچنے کیلیے اسے لوگ چھوڑ دیں یا مسترد کر دیں)

    پگڑی اچھالنے کے عمل کو جرم قرار دینا اور اس کی روک تھام کیلیے اقدامات کرنا بہت بڑا عمل ہے، اس میں حکم الہی کا نفاذ بھی ہے کہ اس سے ان لوگوں کی سرزنش ہے جو دھرتی پر فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، فتنوں کو چنگاری دکھا کر امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور باطل امور میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

    اللہ تعالی کے احکامات لوگوں کی عزت، شہرت اور مقام مرتبے کا تحفظ کرتے ہیں، جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (دھرتی پر قائم کی جانے والی ایک حد اہلیان دھرتی کیلیے چالیس دن کی موسلا دھار بارش سے بھی بہتر ہے)ابن ماجہ

    یہ بھی دیکھیں کہ قرآن مجید مومنوں کو مخاطب کر کے صلائے عام لگاتا ہے کہ شیطانی راستوں اور شیطان کے نقش قدم پر مت چلو، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ} ظاہری یا باطنی بے حیائی کے قریب بھی مت جاؤ [الأنعام: 151]

    ایسے ہی فرمایا: {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ} اے ایمان والو! شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، جو بھی شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو شیطان اسے فحاشی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔[النور: 21]

    یہ سب احکام اس لیے ہیں کہ برائی کے راستے ہی بند ہو جائیں اور اہل ایمان میں بے حیائی پھیلانے والے باز آ جائیں۔

    کسی کی عزت اچھالنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے، ایسی حرکت وہی کرتے ہیں جو کمزور دل اور بے عقل ہوں، جن کے دلوں میں بیماری ہو، جن کے ہاں اخلاقی گراوٹ پائی جائے، مروّت کا پاس نہ رکھتے ہوں، اور یہی عزتیں اچھالنے والے قبیح اعمال میں ملوث ہوتے ہیں۔

    کسی کی پگڑی اچھالنے کی کئی ایک صورتیں ہیں، اس کیلیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں، پگڑی اچھالنے کی ابتدا بد زبانی اور بد کلامی سے شروع ہوتی ہے جو کہ پگڑی اچھالنے والے منہ پھاڑ کر کرتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ( اپنے آپ کو فحش گوئی سے بچاؤ؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی بھی فحش گو اور بد کردار شخص کو پسند نہیں فرماتا) ایسے ہی ایک اور حدیث میں فرمایا: (مومن لعن اور طعن کرنے والا نہیں ہوتا، نہ ہی وہ فحاشی پر عمل کرتا ہے اور نہ ہی فحش باتیں کرتا ہے)

    نیز آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: (ہر ابن آدم زنا میں ملوث ہے، چنانچہ آنکھیں زنا کرتی ہیں اور آنکھوں کا زنا نظر ہے، ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں ہاتھوں کا زنا پکڑنے میں ہے، پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا چلنے میں ہے، منہ بھی زنا کرتا ہے منہ کا زنا بوسے دینا ہے۔) اس روایت کو احمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند امام مسلم کے معیار کے مطابق ہے۔

    اور جب انسان کی زبان لغو باتوں میں مگن ہو تو انسان اپنے آپ کو دنیا میں تباہی کے در پے کر دیتا ہے اور اسی کی وجہ سے آخرت میں اسے افلاس کا سامنا کرنا پڑے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: {مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ} کوئی بھی بات منہ سے نکالتا ہے تو چوکنّا نگران [اسے لکھنے کیلیے] اس کے پاس ہی ہوتا ہے۔[ق: 18]

    کسی کی پگڑی اچھالنے کا عمل ہر میدان میں بڑھتا جا رہا ہے، زندگی کے تمام گوشوں پر اس کا راج ہے، بلکہ [سوشل میڈیا کی]تصوراتی دنیا جو کہ وقت اور جگہ کی حدود سے بھی آزاد ہے اس میں یہ مزید پھل پھول رہا ہے کہ ، ایسے ایسے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں کہ پہلے ان کا تصور تک بھی نہیں تھا؛ ان کی وجہ سے دلوں میں کدورتیں بھر گئیں ہیں، دماغ خراب ہو گئے ہیں اور طبعی فطرت کو بھی اس نے تباہ کر دیا ہے۔

    پگڑی اچھالنے کے طریقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ سوشل میڈیا پر گھٹیا قسم کے ویڈیو کلپ نشر کیے جائیں کہ جن کی وجہ سے برائی پروان چڑھتی ہے، بے حیائی پھیلتی ہے، اشتعال انگیزی پیدا ہوتی ہے اور ناقابل بیان نقصانات ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} بیشک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں فحاشی پھیلے ان کیلیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے، اور اللہ تعالی سب جانتا ہے اور تمہیں علم نہیں ہے۔[النور: 19]

    ایسے ویڈیو کلپ نشر کرنے اور ان کی ترویج میں اپنا کردار ادا کرنے والوں کا انجام انتہائی برا اور بھیانک ہوتا ہے، ان کا خاتمہ درناک اور المناک ہوتا ہے، اللہ تعالی ہم سب کو برے خاتمے سے محفوظ رکھے۔

    فرمانِ باری تعالی ہے: {لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ} روزِ قیامت وہ اپنے گناہوں کا پورا بوجھ اٹھائیں گے اور ان لوگوں کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جن کو اِنہوں نے علم نہ ہونے کے باوجود گمراہ کیا تھا۔[النحل: 25] اور ایسے ہی فرمایا: {وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ} اور لازمی طور پر وہ اُن کا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور اپنا بوجھ بھی اٹھائیں گے اور یقیناً ان کی افترا بازیوں کے متعلق قیامت کے روز ان سے پوچھا جائے گا [العنكبوت: 13]

    کسی کی عزت کو نشانہ بنانے کی بیماری اس لیے پھیلی ہے کہ بہت سے لوگ اعلانیہ گناہ کرنے لگے ہیں، احتیاط سے کام نہیں لیتے، برائی پر فخر محسوس کرتے ہیں اور برائی کو اچھائی سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف گھروں میں حد سے زیادہ خشک مزاجی نے نوجوان لڑکیوں ، بچوں اور خواتین کو ایسے لوگوں کیلیے بہت ہی آسان ہدف بنا دیا ہے۔

    اہل علم، دانش مند، با اثر شخصیات اور صحیح فکر رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ اس موذی مرض سے بچاؤ کا سب سے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دینی غیرت دلوں میں پیدا کی جائے، دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے اور قرآنی تعلیمات پر مضبوطی سے کار بند رہنے کی تلقین کی جائے، قول و فعل پر تقوی کے آثار نظر آئیں، نظریں جھکی ہوئی ہوں، لباس ڈھانپنے والا ہو، دل و دماغ عفت اور خوفِ الہی سے سرشار ہو۔

    یہ بات کسی سے بھی مخفی نہیں ہے کہ نوجوان تابناک قوت ہیں، ان میں ابھرنے والا جوش پایا جاتا ہے، اگر نوجوانوں کو اِن امتیازی خوبیوں کے ساتھ ایسی رہنمائی بھی ملے جس میں ان کی صلاحیتیں نکھریں اور انہیں کچھ کر دکھانے کا موقع دیا جائے تو نوجوان سیدھے راستے پر قائم رہتے ہیں وہ اپنی فکر اور مشغلے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں، اس طرح نوجوان کارکردگی اور تعمیر و ترقی میں عملی شریک ہو جاتے ہیں ، آخر کار نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ مثبت سرگرمیوں میں مصروف ہو کر عزتیں اچھالنے جیسی فضولیات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

    اسی طرح والدین اور اولاد کے درمیان اعتماد بھرا تعلق بھی ایک مضبوط شخصیت کو پروان چڑھاتا ہے، اس سے مثبت طریقے اور سلیقے کو مہمیز ملتی ہے، یہ اعتماد لڑکوں میں بہادری کو پروان چڑھاتا ہے اور بزدلی کو اتار پھینکتا ہے، نیز دوسری طرف اس اعتماد سے بچیوں کو عفت، پاکدامنی اور باپردگی پر تربیت ملتی ہے۔ جبکہ ایسے خاندان جو ہمیشہ مسائل، لڑائی جھگڑوں اور انتشار میں پنپتے ہیں تو ایسے گھرانے بد کردار لوگوں کیلیے زر خیز زمین ثابت ہوتے ہیں۔

    اسی طرح جلدی شادی کرنے سے جسمانی ضروریات پوری ہوتی ہیں اور اس سے دل کی خالی جگہ پر ہو جاتی ہے ، شادی انسان کو اخلاقی برائیوں سے بھی تحفظ دیتی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (نوجوانو! تم میں سے جو شادی کی ضروریات کا مالک ہے تو وہ شادی کر لے؛ کیونکہ شادی نظروں کو جھکانے اور شرمگاہ کو محفوظ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔)

    اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔


    دوسرا خطبہ:

    تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلیے ہیں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، تمام صحابہ کرام اور آپ سے نسبت رکھنے والوں پر رحمتیں نازل فرمائے۔

    حمد و صلاۃ کے بعد: میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔

    اور اس موضوع میں یہ بھی ہے کہ: بچوں کے چال چلن پر کڑی نظر رکھنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اسے معمولی مت سمجھیں؛ خصوصاً ایسے حالات میں جب بچوں کی جانب سے مشکوک حرکتیں سامنے آئیں۔

    کسی کی عزت سے کھیلنے اور دیگر جرائم کا خاتمہ کرنا معاشرے کے تمام افراد کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ویسے بھی جس شخص کو قرآنی تعلیمات اور ایمانی رہنمائی جرائم سے نہ روکے تو اس وقت حکومت کی جانب سے آہنی ہاتھوں نمٹنا لازمی ہو جاتا ہے، چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "بیشک اللہ تعالی سلطان کے ذریعے ایسی حرکتوں کا بھی سد باب فرما دیتا ہے جن کا خاتمہ قرآن کے ذریعے نہیں فرماتا"

    اللہ کے بندو!

    رسولِ ہُدیٰ پر درود پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: }إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا{ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ [الأحزاب: 56]

    اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

    یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، اور اپنے رحم ، کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

    یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! تیرے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

    یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعاء! یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا ہمارے ملک کے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعاء!

    یا اللہ! ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

    یا اللہ! ہم تجھ سے ہر قسم کی خیر کا سوال کرتے ہیں چاہے وہ فوری ملنے والی یا تاخیر سے، ہمیں اس کے بارے میں علم ہے یا نہیں۔ اور اسی طرح یا اللہ! ہم ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں چاہے وہ فوری آنے والا ہے یا تاخیر سے، ہمیں اس کے بارے میں علم ہے یا نہیں۔

    یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور تونگری کا سوال کرتے ہیں۔

    یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے لیکر انتہا تک ہر قسم کی جامع خیر کا سوال کرتے ہیں، شروع سے لیکر اختتام تک ، اول سے آخر تک ، ظاہری ہو یا باطنی سب بھلائیوں کا سوال کرتے ہیں، اور جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں، یا رب العالمین!

    یا اللہ! ہمارے اگلے پچھلے، خفیہ اعلانیہ تمام گناہوں سمیت ان گناہوں کو بھی بخش دے جنہیں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے، تو ہی پست و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔

    یا اللہ! ہمارے غیر دانستہ اور دانستہ کیے ہوئے گناہ، مزاح اور سنجیدگی میں کیے ہوئے سب گناہ معاف فرما دے، یا اللہ! ہمارے گناہوں میں یہ ایسے سب گناہ موجود ہیں۔

    یا اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند بھی فرماتا ہے، لہذا ہمیں تو معاف فرما دے! یا اللہ! یا ارحم الراحمین! ہمارے سب گناہ معاف فرما دے۔

    یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کرنا، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کو غلبہ نہ دینا، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لیے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ہم پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

    یا اللہ! ہمیں تیرا ذکر، شکر اور تیرے لیے ہی مر مٹنے والا بنا، تیری طرف رجوع کرنے والا اور تجھ ہی سے توبہ مانگنے والا بنا۔

    یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہ معاف فرما، ہمارے دلائل ثابت فرما، ہماری زبانوں کو درست سمت عطا فرما، اور ہمارے سینوں کے میل نکال باہر فرما۔

    یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال ، تیری طرف سے ملنے والی عافیت کے خاتمے ، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہمہ قسم کی ناراضی سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

    یا اللہ! ہمارے سب معاملات سنوار دے، یا اللہ! ہمیں ایک لمحے کیلیے بھی ہمارے اپنے رحم و کرم پہ مت چھوڑنا اور نہ ہی اپنی کسی مخلوق کے رحم و کرم پہ چھوڑنا۔

    یا اللہ! ہم پر اپنی رحمت، برکت، فضل اور رزق کے دروازے کھول دے۔

    یا اللہ! ہماری دولت، اولاد، نسل اور بیویوں میں برکت فرما، یا اللہ! ہم جہاں بھی ہوں ہمیں بابرکت بنا، یا ارحم الراحمین!

    یا اللہ!ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رضا کے موجب اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو تمام اچھے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب کے مطابق عمل کرنے اور شریعت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین!

    {رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ} ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23] {رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [الحشر: 10] اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے[الحشر: 10] {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201] ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]

    {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو [النحل: 90]

    تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔

    پی ڈی ایف فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ یا پرنٹ کیلیے کلک کریں
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • اعلی اعلی x 1
  2. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    جزاکم اللہ خیرا.
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں