نکاح کو آسان بناؤ!

سعیدہ شیخ نے 'مثالی معاشرہ' میں ‏جنوری 12, 2019 کو نیا موضوع شروع کیا

Tags:
  1. سعیدہ شیخ

    سعیدہ شیخ محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    80
    "اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمہارے لیے تمہی میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان کے پاس چین سے رہو اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی، جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں نشانیاں ہیں"۔(سورۂ روم : ۲۱)

    "وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرسکے‘‘ ۔ (سورۂ اعراف: ۱۸۹)


    اللہ تعالی نے انسانی تخلیق کے ساتھ ہی ساتھ اس کی زندگی کی تمام ضروریات کا خیال رکھ کر اس کا انتظام بھی کیا۔ جہاں بھوک پیاس کا انتظام کیا وہی اس کی فطری ضروریات کا بھی خیال رکھا ۔ چونکہ اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں کئی طرح کے جذبات رکھے ہیں, انہی میں سے ایک جنسی جذبہ بھی ہے۔ اللہ تعالی نے مرد اور عورت کے اندر صنفی کشش رکھی ہے۔ یعنی مرد جو کچھ چاہتا ہے وہ پورا کا پورا عورت کی فطرت اور جسمانی ساخت میں موجود ہے اور جو کچھ عورت چاہتی ہے وہ وہ پورا کا پورا مرد کی فطرت میں اور اس کی جسمانی ساخت میں موجود ہے اور اسی کی مناسبت سے تسکین ملتی ہے۔ اس میں بہت بڑی حکمت ہے تاکہ نوع انسانی کا سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے تکمیل پا سکے۔

    انسانی تمدن میں سب سے بنیادی چیز معاشرہ ہے۔ انسانی معاشرہ دو صنفوں (یعنی مردو عورت) سے مل کر وجود میں آتا ہے۔ اور معاشرہ میں بنیادی اہمیت عورت اور مرد کے تعلقات کو حاصل ہے۔ جہاں ایک طرف مرد و عورت کا مضبوط رشتہ ایک بہترین خاندان اور معاشرہ کو وجود میں لاتا ہے وہیں دوسری طرف زوجین کے آپسی تعلقات میں دراڑ معاشرے کے لئے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔دراصل معاشرے کی ترقی اور انحطاط معاشرے میں رہنے والے افراد کے طرز زندگی، اخلاق، سیرت اور کردار سے ہوتی ہے۔

    اسلام انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئےہیں۔ اسی لئے زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ اور رہنمائی موجود ہے۔ نکاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی اہم سنت ہے. ازدواجی تعلقات کے بارے میں قرآن کریم میں کئ آیات موجود ہیں۔ جو ہمیں اس کی اہمیت سے آگاہ کرتی ہیں اور جسکو نبی کریم صل علیہ و سلم نے ایمان سے جوڑ دیا ہے۔ آپ صل علیہ وسلم نے فرمایا،" بندہ جب نکاح کرتا ہے تو اس کا نصف دین مکمل ہو جاتا ہے ‘‘(بیہقی، الصحیحہ)

    یعنی جب بندہ نکاح کرتا ہے تو گویا نصف مذہبی فرائض کو پورا کر لیتا ہے اور باقی نصف میں وہ اللہ سے ڈر تا رہے، اور اللہ کی گواہی کے ساتھ مرد اور عورت ایک مقدس رشتہ میں بندھ جاتےہیں۔

    معاشرے میں جنس (sex) کا معاملہ بہت اہم ہے۔ اگر کسی معاشرے میں شادی بیاہ مشکل ہو جائے تو وہاں اس معاشرے میں کئی طرح کے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں اور جنسی بے راہ روی پھیلتی ہے۔ جس طرح اگر سمندر کا بہاؤ کو ایک طرف سے روک دیں گے تو وہ دوسری رخ پر بہاؤ کو لے جائے گا۔ بالکل اسی طرح اگر نکاح کو مشکل کریں گے تو انسان ناجائز طریقہ اختیار کرے گا۔ چونکہ اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں ساری چیزیں ودیعت کی ہیں غم، غصہ، خوشی، رحم بالکل اسی طرح اللہ تعالی نے انسان کی فطرت میں جنسی خواہش بھی رکھی ہے۔ جب آپ جائز و حلال طریقے پر بند باندھیں گے، تو پھر وہ ناجائز وحرام طریقے پر اس کو حاصل کرے گا اور اس سے معاشرے میں بگاڑ کی صورت پیدا ہو گی۔ اس لئے کہ فحاشی و عریانیت چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ اور شہوانی جذبات اور جنسی میلان کو ابھارنے والے عناصر چھائے ہوئے ہیں۔ جس سے معاشرے میں طرح طرح کا بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ کہیں عصمت دری کے واقعات تو کہیں معصوم بچیوں کو خوش کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جس سے جنسی جرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ اور اسی کے ساتھ اخلاقی تعلیمی کا فقدان جو نوجوان بچوں کو غلط راستوں پر لے جاتے ہیں۔

    نکاح انبیائے کرام، اور رسولوں کی سنت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: "اور یقیناً ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے، اور ہم نے ان کیلئے بیویاں اور اولاد بھی بنائیں"۔ [الرعد : 38]

    اسی طرح مؤمنوں کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : " اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں، اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا "۔ [الفرقان : 74]

    قرآن مجید میں نکاح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: "اور تم میں سے جو لوگ غیر شادی شدہ ہیں ان کے نکاح کر دو ، اور اپنی نیک صالح لونڈی، غلاموں کے بھی ،اگر وہ محتاج ہیں تو اللہ اپنی مہربانی سے انھیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے"۔ [النور : 32]

    عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نوجوانو! جو تم میں سے نکاح کے خرچ کی استطاعت رکھتا ہے، تو وہ نکاح کر لے؛ کیونکہ اس سے نظریں نیچی، اور شرمگاہ کا تحفظ حاصل ہوتا ہے، اور جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ روزے رکھے، اس طرح اسکی شہوت کم ہو جائے گی۔" (بخاری و مسلم)


    قرآن اور حدیث کی روشنی کے علم سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ نکاح کی کتنی اہمیت ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہےجو سماج کو برائی، بے حیائی اور آزاد جنسی تعلقات سے محفوظ رکھتا ہے۔ مگر اسے ایک ایسا مشکل فریضہ بنا دیا گیا ہے کہ اسے کثیر رقم، جوڑے کی رقم منگنی اور رسم و رواج نے پیچیدہ بنا دیا ہے اور اسی لئے شادی کی شرح میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرما یا: "بےشک سب زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جو آسانی سے انجام پائے۔" (مشكؤة)

    ہمارا معاشرہ کئی طبقات، مسلک اور فرقوں میں بٹا ہوا ہے۔ اور ہر ایک نے اپنی زندگی گزارنے کا ایک الگ معیار اور پیمانہ طے کیا ہوا ہے۔ جس سے دوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اور جدید تعلیم اور ترقی نے انسان میں مادیت پرستی کا رحجان پیدا کیا ہے۔ جس سے دینی اور اخلاقی اقدار کی جڑیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ دراصل شادی بیاہ کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ لوگ شادی کی جھنجھٹ میں الجھنا نہیں چاہتے اور جو لطف اور سکون شادی سے میسر ہوسکتا ہے، اسے غلط طریقوں سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس سے ناصرف نوجوان طبقہ بلکہ بڑی عمر کے لوگوں میں بھی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اسی لئے بے راہ روی اور غیر اخلاقی طرز زندگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے۔ لڑکے لڑکیاں شادی کو طول دے رہے ہیں۔ ایک طرف سماج تو دوسری طرف والدین بے جا باتوں کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی " نکاح کو آسان کرو تاکہ زنا مشکل ہوجائے" کا مفہوم یہ ہے کہ اگر نکاح کو مشکل کرو گے تو زنا آسان ہوجائے گا۔

    آج ہمارے معاشرے میں زنا عام ہوتا جارہا ہے۔ اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ نکاح کو مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ ،لاکھوں مسلمان بچیاں موجودہ زمانے کی لوازمات پورے نہ ہونے کے باعث والدین کے گھروں میں بوڑھی ہورہی ہیں ۔معاشرے کے ظالمانہ رسم ورواج نے ان کے نکاح کو ناممکن بنا دیا ہے جن میں سر فہرست جہیز ہے۔

    جہیز جو سوسائٹی کا ناسور بنا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے شادی کا تصور ناممکن ہو گیا ہے۔ والدین اپنی زندگی بھر کی کمائی بیٹیوں کے جہیز میں لگا دیتے ہیں اور خود بڑھاپے میں بے کس اور مجبور ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں نکاح میں لڑکیوں پر کسی بھی طرح کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔ لڑکے کو مہر کی رقم ادا کرنا ہوتی ہے۔ رقم بھی اس کی استطاعت کے مطابق ہو تی ہے۔ اور یہى ہمارے دین کی تعلیمات ہے۔

    مسلمانوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ قرآن وسنت پر عمل کرنا لازم وملزوم ہے نہ کہ رسومات اور غیر شرعی طور طریقہ پر- دراصل ان فضول اخراجات سے ہم معاشی طور پر کمزور ہورہے ہیں۔ مثلا جوڑے کی رقم، ہال کا خرچہ، منگنی، ہلدی مہندی کی رسم، دعوت و طعام کا انتظام وغیرہ۔۔ شادی میں بعض خاندان برابری کے چکر میں اچھے اچھے رشتے چھوڑ دیتے ہیں۔

    رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ: "تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا"۔ (ترمذی)

    آج کل کی شادیوں میں ذات وبرادری، رنگ ونسل، حسن وجمال ، دولت ومنصب، رسم وراوج ، ریاونمود ، تکلف وتصنع اور بدعات ومنکرات کی آمیزش ہوتی ہیں۔ جبکہ نبی ﷺ کے زمانے کی شادیاں بالکل سادہ اورعام ہوتی تھیں۔ معیار تقوی اور شہرت و کردار ہوتا تھا۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے: کسی عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے حسب نسب کی وجہ سے، اس کے دین کی وجہ سے، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، لیکن دیکھو ! تم دین دار عورت سے نکاح کرنا۔" (مسلم)

    لڑکی کے انتخاب کے وقت جو صفات مد نظر رکھنی چاہئیں، ان میں سب سے اہم صفت نیک اور دین دار ہونا ہے۔ رسولﷺ نے شادی کے خواہاں حضرات کی اس جانب رہنمائی فرمائی کہ وہ دینداری کا انتخاب کریں تاکہ عورت اپنے شوہر اور بچوں کا مکمل حق ادا کرسکے اور اسلامی تعلیمات اور نبی کریمﷺ کے ارشادات کے مطابق گھر کا نظم و نسق چلاسکے۔ اگر عورت دین دار نہ ہوگی تو نہ مرد کے حقوق کی حفاظت کرے گی اور نہ ہی اولاد کی تعلیم و تربیت صحیح طور پر کر پائے گی۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خوبصورتی اور حسن و جمال کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ رشتہ تلاش کرتے وقت محض خوبصورتی کو سب کچھ نہ سمجھا جائے۔ اس لئے کہ خوبصورتی تو وقتی ہے سیرت و کردار اصل جوہر ہے۔

    آج پڑھا لکھا طبقہ ہو یاکم پڑھا لکھا طبقہ، امیر ہو یا غریب، اور اکثریت شادی میں ان بے جا رسم ورواج کو اپنا کر اسے فروغ دیتے ہیں۔ جو وقت اور پیسوں کا اسراف ہیں۔ آج وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم سب مل کر اس فرسودہ رسوم و رواج کو ختم کریں۔ نکاح کو آسان عمل بنائیں تاکہ والدین اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائیں۔ نوجوان نسلیں اپنی عفت و عصمت کو پاکیزہ رکھ سکیں تاکہ سماج سے بے حیائی اور زنا کا خاتمہ ہو جائے۔ اللہ تعالی ہمیں اس بڑی سنت کو احسن طریقے سے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 5
    • اعلی اعلی x 2
    • مفید مفید x 1
  2. بابر تنویر

    بابر تنویر -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏دسمبر 20, 2010
    پیغامات:
    7,320
    آمین یا رب العالمین
     
    • متفق متفق x 1
  3. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا بہت عمدہ!
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
  4. سعیدہ شیخ

    سعیدہ شیخ محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    80
    حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ!
    اللہ تعالی ہمیں سنت پر عمل کرنے والا بنائے۔آمین !
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  5. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    بہت اچھی تحریرہے۔ پاکستان میں 37 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہیں۔ ادھر مسئلہ روزگار پیدا کرنے کا ہے، نکاح کا نہیں۔ جب روزگار ہوتا ہے گھر خود بخود بن جاتے ہیں۔ ہر طبقے کے لوگ اپنی بساط کے مطابق گھر بنا لیتے ہیں۔ فضول رسموں کے بوجھ میں سب سے زیادہ مڈل کلاس دبی ہوئی ہے۔
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
  6. سعیدہ شیخ

    سعیدہ شیخ محسن

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    80
    حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ! بالکل صحیح کہا، مسئلہ روزگار کا ہے، اس لئے کہ ہر والدین اپنے بچیوں کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔ آمین
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  7. صدف شاہد

    صدف شاہد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2018
    پیغامات:
    307
    بہت عمدہ
    جزاک اللہ خیرا
     
    • حوصلہ افزا حوصلہ افزا x 1
  8. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,954
    جزاک اللہ خیرا، عمدہ
    پہلے نکاح کے بعد ایک سے زیادہ شادیوں سے بھی نکاح کو آسان کیا جا سکتا ہے. یہ آسان ہے. پہلی یا دوسری شادی کے لیے کسی ثقہ یا اعتماد کے بندہ کا بطور ولی الامر انتخاب کرے.بہت بہتر ہے کہ اس کا انتخاب قریبی رشتہ دار خیرخواہ سے کیا جائے.تاکہ عزت سے زندگی بن جائے،یا کم ازکم کوئی خراب نا کرے.ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں.
    اللہ ہدایت دے
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں