دعا میں فوت شدہ انبیاء اور صالحین کا وسیلہ لینا جائز نہیں

جمیل نے 'اسلامی متفرقات' میں ‏مارچ 31, 2010 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. جمیل

    جمیل ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2009
    پیغامات:
    750

    یہ جواب مجھے غلط لگتاہے:۔ کیوں کہ
    الدعاء ھو العبادۃ دعا عبادت ہے۔ اور عبادات سب توقیفی ہوتے ہیں۔اللہ کے رسول نے جیسی عبادت کرنا سکھلائے ہیں ویسے ہی کی جانی ہے۔کیونکہ دین مین اپنے سے پیدہ کردہ ہر نئي بات،نیاطریقہ ،اور نئي کیفیت۔ سب بدعات ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی قبولیت کے اوقات ،جیسے رات کے آخری پہر اور آذان اور اقامت کے درمیان وغیرہ دعا کی قبولیت کے اوقات ہیں۔ اور دعا کی قبولیت کے اسباب میں حضور قلبی، سے اللہ کے گڑگڑانا۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا۔ وغیرہ
    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئي بات منقول نہیں ہے کہ آپ نے کبھی اپنے صحابہ سے کہا ہو تم لوگ میرے وسیلہ سے دعا مانگنا۔ اور نا ہی صحابہ رضوان اللہ علیھم سے ایسا کرنا ثابت ہے
    اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف موضوع اور منگھڑت بات منسوب کی جاتی ہے کہ آپ نے کہا کہ تم دعا میں میرا وسیلہ پکڑنا کیونکہ میرا مقام اور مرتبہ اللہ کے ہاں بلند ہے
    جائز وسیلہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے اسماء وصفات کے وسیلہ سے دعا کرسکتے ہیں۔ یا پھر نیک اعمال کو واسطہ یا وسیلہ بنایا جاسکتاہے، دعا کو قبولیت کے لیے۔
    اسلام ویب ۔نیٹ عربی میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں
     
  2. رفیق طاھر

    رفیق طاھر علمی نگران

    رکن انتظامیہ

    ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2008
    پیغامات:
    7,940
  3. جمیل

    جمیل ركن مجلسِ شوریٰ

    شمولیت:
    ‏جولائی 20, 2009
    پیغامات:
    750
  4. khuram

    khuram رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2010
    پیغامات:
    277
    میں اپنی دعاء میں اپنے نیک اعمال (جن کے بارے میں مجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں مقبول ہیں یا میرے منہ پر ماردیئے جائیں گے)کو واسطہ یا وسیلہ بنا سکتا ہوں مگر اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پاک ( جن کے بارے میں ہر مسلمان کا یہ ایمان کامل ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں سب سے ذیادہ مقبول ذات ہیں) کو وسیلہ یا واسطہ نہیں بنا سکتا شاید آپ یہی بات ہمیں سمجھانا چاہ رھے ہیں یا کچھ اور ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  5. عبدل

    عبدل -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جون 29, 2010
    پیغامات:
    320
    مشرکین مکہ کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ اپنے اور اللہ کے درمیان انبیاء اور اولیاء کا واسطہ اور وسیلہ ڈالتے تھے- جیسا کہ قرآن میں سورہ زمر آیت نمبر( 3) اس آیت کا ترجمہ ھے کہ وہ لوگ جو اللہ کے علاوہ اولیاء کو پکڑتے ھیں وہ کہتے ھیں کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں گے -
    سورہ یونس آیت نمبر 18 میں اللہ نے مشرکیں کا عقیدہ بیان کیا ھے -یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ھین جو نہ ان کو ضرر پہچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہچا سکیں اور کہتے ھیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں -
    خرم بھائی اب آپ غور کریں کہ اگر انبیاء کی ذات مقدسہ کا واسطہ وسیلہ جائز ھوتا تو اللہ کبھی نہ روکتا -
     
  6. khuram

    khuram رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2010
    پیغامات:
    277
    میں کوئی بہت ذیادہ پڑھا لکھا شخص نہیں ہوں اور آپ سے ایک سوال کرنا چاھتا ہوں کہ کیا ہمارے اعمال نیک جن کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کے وہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں یا پھر ہمارے منہ پر ماردئے جائے گے ان کو وسیلہ اور واسطہ بنانا جائز اور کسی نیک زندہ انسان (جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوگا یا نہیں اور جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہے یا مردود ) کی دعا کو واسطہ یا وسیلہ بنانا جائز
    لیکن جن کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے سب سے ذیادہ مقبول بندے ہیں ان کو اپنی دعاؤں میں واسطہ یا وسیلہ بنانا ناجائز یہ بات مجھ جیسے کم فہم کی عقل میں نہیں آرہی

    سورۃ زمر آیت 3 کی تفسیر ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ابن کثیر یوں بیان کرتے ہیں

    " پھر مشرکوں کا ناپاک عقیدہ بیان کیا کہ وہ فرشتوں کو اللہ کا مقرب جان کر ان کی خیالی تصویریں بناکر ان کی پوجا پاٹ کرنے لگے یہ جان کر کہ یہ اللہ کے لاڈلے ہیں ہمیں جلدہی اللہ کا مقرب بنادیں گے "
     
  7. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ


    خرم صاحب! یہ آپ پر منحصر ہے، کہ آپ اپنی عقل و نفس کی پیروری کریں یا کتاب و سنت کی۔ کتاب و سنت سے کسی شخص کی ذات کا وسیلہ ثابت نہیں۔ سوائے اس کے کہ اس کی زندگی میں اس سے دعا کروائی جائے۔ آپ کو قرآن و سنت کا طریقہ دعا تسلیم ہے کہ آپ دعا میں اپنے اعمال کا وسیلہ اختیار کریں ، تو یہ ایمان ہے۔ اگر آپ اپنی عقل کی پیروری کرتے ہوئے کسی شخص یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اختیار کریں گے تو یہ کفر ہی ہے۔ اب آپ پر منحصر ہے، آپ اپنی عقل کی مانیں یا قرآن و حدیث کی۔
    باقی رہی بات ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ابن کثیر کی تو ان کی یہ بات بالکل درست ہے، مشرکین کا عقیدہ بالکل ناپاک ہے۔ شاید آپ کی عقل کے مطابق مشرکین کے عقیدے پاک ہوں۔ یہ آپکی عقل کا فطور ہے ، یا آپ کے عقیدے کہ مماثلت میں ان سے محبت کا شاخسانہ۔ فتدبر!!!



    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
     
  8. سلمان ملک

    سلمان ملک -: ماہر :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 8, 2009
    پیغامات:
    924
  9. khuram

    khuram رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2010
    پیغامات:
    277
    یہ کیسا عقیدہ ہے جس کا رد صرف ایک عقلی دلیل سے ہی ہوگیا ؟؟

    اور جہاں تک بات ہے سورۃ زمر کی آیت کی تو اس کی جو تفسیر ابن تیمیہ ( جو سماع موتیٰ کے مطلقاً قائل تھے اور آج کے نجدی اس عقیدے کو گمراہ عقیدہ کہتے ہیں ) کے شاگرد رشید ابن کثیر اس طرح بیان کرتے ہیں

    " پھر مشرکوں کا ناپاک عقیدہ بیان کیا کہ وہ فرشتوں کو اللہ کا مقرب جان کر ان کی خیالی تصویریں بناکر ان کی پوجا پاٹ کرنے لگے یہ جان کر کہ یہ اللہ کے لاڈلے ہیں ہمیں جلدہی اللہ کا مقرب بنادیں گے "

    یعنی فرشتوں کو اللہ کا مقرب جاننے کی بناء ان مشرکوں کی مذمت نہیں کی گئی جبکہ فرشتوں کو مسلمان بھی اللہ کا مقرب مانتا ہے بلکہ ان مشرکوں کی مذمت اس وجہ سے کی گئی کہ ان لوگوں نے فرشتوں کی خیالی تصاویر بنا کر ان کی پوجا پاٹ شروع کردی اور یہ گمان کرنے لگے کہ اس پوجاپاٹ کے نتیجہ میں ہم جلد ہی اللہ کے مقرب ہوجائیں گے کیا اس تفسیر کا یہ مطلب صحیح ہے؟؟؟؟
     
  10. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ
    خرم صاحب! قرآن و سنت کے عقیدے کا باطل ہونا ہی محال ہے، ہاں قرآن و سنت سے آپ کی عقلی دلیل کا رد ہوا ہے، آپ نے پھر الٹی گنگا بہا دی!!
    جنون کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنون
    جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے​

    آپ کو اس مفہوم میں کوئی شک ہے؟


    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
     
  11. khuram

    khuram رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2010
    پیغامات:
    277
    آپ نے بجا ارشاد فرمایا کہ جو عقیدہ قرآن و سنت کے مطابق ہو اس کا رد اکیلی عقلی دلیل سے ہو ہی نہیں سکتا لیکن معذرت کے ساتھ آپ کے اس عقیدہ توسل کا رد صرف عقلی دلیل سے ہو گیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا یہ عقیدہ قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے آپ کا کیا خیال ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
     
  12. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
    خرم صاحب! قرآن و حدیث کے سامنے آپ کی "عقل شریف" مردود ثابت ہوئی ہے!

    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
     
  13. ابو انس سلفی

    ابو انس سلفی -: محسن :-

    شمولیت:
    ‏اکتوبر، 23, 2010
    پیغامات:
    128
    شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

    " ليكن اگر كوئى شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وسيلہ سے مانگے اور كہے كہ ميں تجھ سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے مقام اور مرتبہ اور واسطہ سے مانگتا ہوں تو جمہور علماء كے ہاں يہ بدعت اور ايمان ميں نقص ہے، اور وہ مشرك نہيں ہو گا، اور نہ ہى كافر ہو گا، بلكہ وہ مسلمان ہے ليكن يہ اس كے ايمان ميں نقص اور ضعف كا باعث ہے، جس طرح دوسرى معصيت و نافرمانى ہيں جو دين سے خارج نہيں كرتى؛ كيونكہ دعا اور دعاء كے وسائل توقيفى ہيں اور شريعت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے واسطہ سے دعا كرنا ثابت نہيں، بلكہ يہ تو لوگوں كى ايجاد ہے.

    اس ليے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے واسطہ يا انبياء كے واسطہ يا نبى كے مقام اور انبياء كے مقام كا واسطہ دے كر يا كسى اور كے واسطے اور وسيلے سے دعا كرنا يا اہل بيت كے وسيلہ سے دعا كرنا يہ سب بدعات ميں شامل ہوتا ہے، اس كو ترك كرنا واجب ہے، ليكن شرك نہيں.

    بلكہ يہ شرك كے وسائل ميں سے وسيلہ شمار ہوتا ہے، اس ليے ايسا كرنے والا مشرك نہيں، ليكن اس نے ايسى بدعت كا ارتكاب كيا ہے جس سے اس كے ايمان ميں كمى و نقص پيدا ہوا ہے اور ايمان كمزور ہو جاتا ہے جمہور اہل علم كا يہى مسلك ہے "

    ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 7 / 129 - 130
     
  14. khuram

    khuram رکن اردو مجلس

    شمولیت:
    ‏مارچ 16, 2010
    پیغامات:
    277
    بلا تبصرہ

    ابن داؤد صاحب فرماتے ہیں کہ

    اور ابن باز کہتے ہیں کہ

     
  15. ابن داود

    ابن داود -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏اگست 9, 2010
    پیغامات:
    278
    السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ!
    میں کافی عرصے سے مجلس پر کچھ تحریر نہیں کر رہا تھا، کچھ دیگر مصروفیات بھی تھیں اوراکثر "خرم صاحب" اور فرقان خان" صاحب جیسے لوگوں کی سخن سے ناشناسی بھی اس کا باعث رہی۔ مجھے پھر یاد آتا ہے کہ:
    سخن شناس نئی درلبرا خطا اینجاست​
    خرم صاحب! آپ کم سے کم اردو ہی سیکھ لیں! کفر کا مرتکب ہونے اور کافر ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
    اور شیخ بن باز رحمۃ اللہ علیہ کے فتوی میں "شرک " ہونے کی نفی ہے، "کفر" ہونے کی نفی نہیں!!
    اور کافر ہونے کی نفی ہے، کفر ہونے کی نفی نہیں!!!
    فتدبر!! گر عقل باشد!!


    ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
    صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
    ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
     
    Last edited by a moderator: ‏مارچ 19, 2011
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں