مسلم حاکم اور حکومت وقت کی اطاعت(شریعت وعلماء کرام کے فتاوی کی روشنی میں)

ابوبکرالسلفی نے 'اتباعِ قرآن و سنت' میں ‏فروری 16, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    جائز امور میں احکام وقت وسلاطین کی اطاعت و فرمانبرداری کی فرضیت و جوب
    الحمدللہ والصلاۃ السلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والا ،وبعد
    نیک وجائز کاموں میں مسلم امراء سلاطین کی اطاعت کی فرضیت ایک ایسا امر ہے جو اہل السنہ والجماعۃ کے اصل اصول میں سے گردانا جاتا ہے، اور یہی وہ اصول ہے جس میں اہل سنہ واہل بدعت سے الگ ایک ممتاز نظر آتے ہیں، اور اسلام کے اسلام کے لازمی ارکان میں سے ایک یہ ہے کہ اجتماعیت کے بغیر کوئی دین نہیں ہے، اور امامت کےبغیر کوئی اجتماعیت نہیں ہے اور سمع واطاعت کے بغیر کوئی امامت نہیں ہے، اور جب جہالت عام ہوجاتی ہے اور اہل السنۃ کے عقائد پر افکار منحرفہ کی دھول جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے تو ایسے وقت میں ان کا اس بنیادی اصول سے تمسک اور زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے، اور یہ اس کا اور بھی زیادہ خیال رکھتے ہیں۔
    (الورد المقطوف فی وجوب طاعۃ ولا ۃ امرالمسلمین بالمعروف/الشیخ فوزی اثری ط۔مکتبۃ الفرقان)
    اس لئے اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے میں قارئیں کرام کے لئے یہ مختصر ساکتابچہ ترتیب دیا ہے جس میں مسلمان حکمران کی اطاعت وفرمانبرداری کی اہمیت خوب کوب واضح کی گئی ہے۔ ہماری اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اسے قارئین کے لئے فائدہ مند بنائے، اور اسے اپنی رضا کے لئے خالص کرے۔

    قرآن کریم سے دلائل:
    يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
    ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کیا طاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکام وقت کی پھر اگر کسی معاملے میں تم میں تنازعہ واقع ہوجائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہویہ تمہارے لئے انجام کے لحاظ سے بہتر اور احسن ہے۔
    (سورۃ : النساء، آیت نمبر 59)
    علامہ شیخ عبد الرحمٰن سعدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت میں اللہ تعالی نے اولو الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے، اولو الامر سے مراد اہل حل وعقد علماء وحکام وقت ہیں، کیونکہ لوگوں کے دینی ودنیوی معاملات اللہ کی اطاعت میں ، اور ان کی پیروی فرمانبرداری سے ہی سدھرسکتے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ وہ کسی گناہ یامعصیت کے کام کا حکم نہ دیں، اور اگر وہ کوئی ایسا حکم دیتے ہیں جس میں اللہ کی نافرمانی ہے تو ایسی صورت میں اللہ کی کوئی اطاعت نہیں ہے، اور شائد یہی بات ہے کہ جب حکام وقت کی اطاعت کا ذکر کیا گیا تو فعل اطیعوا حذف کر دیا گیا جبکہ رسولﷺ کے ساتھ یہ فعل ذکر کیا گیا: اس کی وجہ یہی ہے کہ رسول ﷺ اللہ کیا اطاعت کے سوائے کسی چیز کا حکم نہیں دیتے ،اور جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی ، لیکن جہاں تک اہل حل وعقد کا تعلق ہے تو ان کی اطاعت کو مشروط کیا گیا کہ یہ اطاعت اللہ کی معصیت میں نہ ہو۔(تیسیر الکریم الرحمٰن فی تفسیر کلام المنان ص: 183، ط: الرسالۃ)
    اس آیت میں حکام وقت کی اطاعت کی فرضیت کا بیان ہے، اور یہ مطلق ہے، اس کی تقیید سنت میں یوں آئی ہے کہ اطاعت صرف جائز کاموں میں ہے نہ کہ اللہ کی معصیت میں۔ اس کی دلیل آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (اہل حل وعقد کی) اطاعت تو صرف جائز کاموں میں ہے۔(بخاری:7257، مسلم: 1840)۔

    سنت نبویہ سے حکام وقت کی فرضیت کے دلائل
    1۔ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کیااطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔ (بخاری: 2957، الفاظ بخاری کے ہیں، نیز دیکھئے مسلم:1835)۔
    2۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان پر سمع واطاعت فرض ہے چاہے اسے پسند ہو یا نا پسند ہو، الا یہ کہ اگر اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے ، اگر امیر اسے نافرمانی کا حکم دے تو نہ تو اس پر سننا ہے او نہ ماننا ۔(بخاری 7144، مسلم: 1839 الفاظ مسلم کے ہیں)۔
    3۔ حذیفۃ بن الیمانؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہا آپ ﷺ نے فرمایاؒ میرے بعد ایسے امام ہوں گے جو نہ تو میری سنت پر چلیں گے اور نہ میرے طریقے کی پیروی کریں گے ان میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے ہوں گے اور دل شیطان کے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں ایسے لوگوں کو پالوں تو کیا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: حالم وقت کی سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگرچہ تمہاری پیٹ پر مارے اور تمہارا سارا مال لے لے۔ سنو اور اطاعت کرو۔
    (مسلم:1847)۔
    4۔ علقمۃ ابن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا:سلمۃ بن یزید بحفیؓ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا، وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے کہا: اے اللہ کے نبی اگر ہم پر ایسے امراء مسلط ہوجائیں جو ہم سے اپنا حق مانگیں اور ہمارا حق روکیں تو ایسی صورت میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سنو اور اطاعت کرو، ان کا کام وہ ہے جو انہیں سونپا گیا ہے اور تمہارا کام وہ ہے جو تمہیں سونپا گیا ہے۔
    (مسلم:1846)
    5۔ عیاض بن غنم ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو کوئی کسی صاحب منصب کو نصیحت کا ارادہ کرے تو اسے علانیۃ ظاہر نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ تھامے او اسے اکیلے میں لے جائے، اگر وہ اس کی بات سن لے تو ٹھیک ورنہ اس نے اپنی ذمہ داری ادا کردی۔
    السنۃ لابن ابی عاصم 1096، نیز البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔
    6۔ام سلمۃؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نےفرمایا: عنقریب ایسے امراء ہوں گے جن کی بعض باتیں تمہیں اچھی لگیں گی اوربعض بری ، چنانچہ تو جوان کی غلط باتوں کو پہچان لے اس کا ذمہ بری ہوگیا، اور جس نے ان پر انکار کیا اس کا ذمہ بری ہوگیا لیکن جو راضی ہو گیا اور اسی صورت کے پیچھے چل پڑا ، صحابہ نے فرمایا : کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپﷺ نے فرمایا : نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔(صحیح مسلم:1854)۔
    7۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اطاعت سے نکلا اور جماعت سے الگ ہوا اور اسی ھال میں مرگیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔(مسلم: 1848)
    8۔ عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جس اپنے امیر کی کوئی بات بری لگے تو اس کو چاہئے کہ اس پر صبر کرے ؛ کیونکہ جو بھی امیر کی اطاعت سے ایک بالش بھی باہر نکلا اور پھر اسی حال میں مرگیاتو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوئی(بخاری:7053، مسلم: 1849 الفاظ مسلم کے ہیں)
    9۔ عرفجہ اشجعیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو تمہارے پاس اس حال میں آئے جبکہ تم پر ایک امیر قائم ہے اور تمہاری اجتماعیت کو توڑنے کی کوشش کرے یا اس میں انتشہار وتفرق پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کو قتل کردو۔
    اور ایک روایت میں ہے : تو اس تلوار سے اس کی گردن ماردو جو بھی ہو۔(مسلم:1852)۔
    10۔ نیز عبد اللہ بن عمر وبن عاص کی طویل مرفوع حدیث میں ہے: جو کسی امیر کی بیعت کرے اور اسے اپنی وفاداری سونپ دے ، دل سے اس کی اطاعت پر راضی ہو جائے تو اسے چاہئے کہ حتی المقدور اس کی اطاعت کرے پھر اگر کوئی دوسرا آکر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرے تو اس کی گردن ماردو۔(مسلم :1844)۔
    11۔ ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب دو امیروں کی بیعت ہو تو ان میں سے دوسرے کو قتل کردو۔(مسلم)
    12۔ عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: جو ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں۔اور ایک روایت میں ہے: جو ہم پر تلوار سونتے وہ ہم میں سے نہیں۔(مسلم :98۔99)
    13۔ حزیفۃ بن یمانؓ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں : لوگ رسول اللہﷺ سے بھلائی کے بارے میں سوال کرتے تھے جبکہ میں آپﷺ سے شر(برائی) کے بارے میں سوال کرتا تھا کہ کہیں مجھ تک نہ پہنچ جائے چنانچہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ہم جاہلیت اور شر کی دلدلوں میں پھنسے ہوئے تھے پھر اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر عطا فرمائی تو کیااب اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں لیکن اس میں دھواں ہوگا، میں نے کہا : دھواں کیسا؟ فرمایا : ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کو چھوڑ کر دوسری سنتیں اختیار کریں گے، اور میرے طریقے کو چھوڑ کر دوسرے طریقے اختیار کریں گے ، تم ان کی بعض باتوں کو پہچانو گے اور بعض کا انکار کرو گے، میں نے کہا : تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں جنہم کی طرف بلانے والے لوگ ہوں گے، جوان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جنہم میں پھینک دیں گے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول آپ مجھے ان کے اوصاف ونشانیاں بتادیں (کہ وہ کیسے ہوں گے) آپﷺ نے فرمایا: ہاں وہ ہماری طرح کے ہی ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول اگر مجھے یہ زمانہ مل جائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ تم مسلمانوں کی جماعت اور اس کے امیر کو لازم پکڑنا ، میں نے کہا : اور اگر ان کی نہ کوئی جماعت ہو اور نہ امام؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر ان تمام فرقوں سےا لگ ہوجانا اگرچہ تمہیں درخت کی ٹہنی سے ہی لٹکنا پڑے ، یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے اور تم اسی طریقے پر ہو۔(بخاری:7084، مسلم:847 الفاظ مسلم کے ہیں)۔
    امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حدیث حذیفہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی جماعت ار اس کے امام کو لازم پکڑنا چاہئے ، اس کی اطاعت کرنی چاہئے اگرچہ وہ فسق وفجور یا دیگر معصیت میں مبتلا ہو لوگوں کا مال غصب کرتا ہو یا دیگر گناہوں میں ملوث ہو ایسی صورت میں اگر وہ گناہ کا حکم نہ دے تو اس کی اطاعت فرض ہے۔(شرح مسلم 12/237) ط۔دالفکر بیروت۔
    14۔ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: بنواسرائیل کے امور کی تدبیر انبیاء کے ذمے تھے، جب بھی کوئی نبی وفات پاتا اس کے بعد ایک اور نبی آجاتا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، لیکن خلفا، بکثرت ہوں گے ، صحابہ کرام نے فرمایا : اے اللہ کے رسول پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟
    آپﷺ نے فرمایا: جو پہلے امیر بنے اس کی بیعت نبھاؤ اور وفا کرو، ان کو ان کا حق دو: کیونکہ اللہ نے ان کے سپرد جو کیا ہے اللہ ان سے اس بارے میں پوچھے گا۔(بخاری الفاظ بخاری کے ہیں 3455، مسلم 1842)
    15۔ ابن مسعود سے روایت ہے کہا آپﷺ نے فرمایا: امیریو تونگری عام ہوجائے گی، اور ایسے امور ظاہر ہوں گے جن کو تم براجانو گے، صحابہ کرام نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ ایسی حالت میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جو تمہارے ذمے ان کا حق ہے اس کو ادا کرنا اور اپنا حق اللہ سے طلب کرنا۔(بخاری: 3603، مسلم :1843)۔
    عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا تمہارے بہترین امراء وہ ہیں جن سے تم محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں، اور جن کے لئے تم دعا کرتے ہو اور جو تمہارے لئے دعا کرتے ہیں، جبکہ تمہارے بدترین امراء وہ ہیں جن سے تم نفرت رکھتے ہو وہ تم سے نفرت رکھتے ہیں اور جن پر تم لعنت بھیجتے ہو اور جو تم پر لعنت بھیجتے ہیں، صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسولﷺ کیا ایسے موقع پر ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپﷺ نےفر مایا: نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں، سن رکھو کہ جس پر کوئی امیر ہو اور وہ اسے کوئی ناجائز کام کرتا دیکھے، تو وہ اس نا جائز کام کو ناپسند کرے اور ہر گز اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے ۔(مسلم:1855)۔
    17۔ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جس نے امیر کی اطاعت سے ہاتھ کھینچا اس کے لئے قیامت کے دن کوئی حجت نہیں ہوگی، اور جو اس حال میں مراکہ وہ جماعت سے الگ تھا تو وہ جاہلیت کی موت مرا(السنۃ/ابن ابی عاصم 1075، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)
    18۔ حارث ابن بشیرؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کو لازم پکڑنے کا، سننے اور اطاعت کرنے کا ، ہجرت کا، اللہ کی راہ میں جہاد کا، اور جو جماعت سے ایک بالش بھی باہر ہوا تو اس نے اسلام کا پٹہ اپنے گلے سے اتار پھینکا۔(ترمذی:2863، البانی نے حدیث کو صحیح کہاہے)
    19۔ عرباض بن ساریہؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو ، اور سنو اور اطاعت کرو اگر چہ تمہارے اوپر ایک حبشی غلام امیر بنادیا جائے ،تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ سخت اختلافات دیکھے گا، اس لئے تم میری سنت کو لازم پکڑو اور میرے بعد میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑو او اس سے تمسک اختیار کرو۔(اخرجہ ابن ابی عاصم السنۃ 54، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)
    20۔ عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے بلایا ، ہم نے آپ ﷺ کی بیعت کی آپ نے ہم سے جن امور پر بیعت لی وہ یہتھے کہ ہم سنیں اور اطاعت کریںچاہیں وہ کام ہمیں پسنت ہو یا نہ ہو۔ اور ہمیں اس میں مشکل پیش آئے یا آسانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم امراء سے بغاوت نہ کریں اور آپ نے فرمایا: سوائے اس کے کہ تم ان میں واضح کفر پاؤ جس پر تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح وصاف دلیل ہو۔(صحیح مسلم، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ ، وتحر یمھافی المعصیۃ)
    21۔ انسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: اصحاب رسول اللہﷺ میں سے کبارصحابہ نے ہمیں سختی سے منع کیا: فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: نہ تو اپنے امراء کوگالی دو اور نہ ان کے پاس زیادہ جاؤ اور نہ ان سے بغض رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو؛ کیونکہ وقت بہت قریب ہے۔
    22۔ تمیم داریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دین نصیحت وخیر خواہی کا نام ہے۔ ہم نے کہا کس کی؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے لئے اس کی کتاب کے لئے ، مسلمان امراء کے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے ۔(صحیح مسلم:55)۔

    حکام وقت کی اطاعت وفرمانبرداری پر اقوال صحابہ سے دلائل
    1۔ سوید اابن غفلہؓ سے روایت ہے کہ مجھ سے عمر نے کہا: اے ابوامیہ ہوسکتا ہے کہ میں اس سال کے بعد تم سے نہ مل سکوں ، اگر تمہارے اوپر ایک نک کٹا حبشی غلام بھی امیر بنادیا جائے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، اگر وہ تمہیں مارے تو صبر کرو، اور تمہیں محروم کر دے تو صبر کرو، اور اگر تم سے کوئی ایسا کام چاہے جو تمہارے دین کو ختم کر رہا ہو تو اسے کہو: لبیک اے امیر بس میرا خون لے لو لیکن میں اپنے دین کو نقصان نہیں پہنچاسکتا، اور کسی بھی حال میں جماعت سے الگ مت ہو۔(السنۃ للخلال 1/111 ، دار الرایہ)
    2۔ عبد اللہ بن دینار سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب لوگوں نے عبد الملک کی بیعت کی ، توعبد اللہ بن عمرؓ نے اس کی طرف خط لکھا: اللہ کے بندے امیر المومنین عبد الملک کی طرف : میں اللہ کے بندے امیر المومنین عبد الملک کی بیعت کا اقرار کرتا ہو ں کہ میں اللہ اور رسول کے طریقے پر جس قدر ہوسکا اس کی اطاعت کروں گا اور میرے بیٹے بھی اس کا اقرار کرتے ہیں۔ (بخاری:7205)۔
    حکام وقت کی اطاعت میں ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کے اقوال:
    1۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: اے شعیب تمہارا لکھا ہوا تمہارے کچھ کام نہیں آئے گا جب تک تم ہر نیک وبد حاکم کے پیچھے نماز صحیح نہ سمجھو، شعیب اس وقت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ کے کچھ اجزاء لکھ رہے تھے۔
    (شرح اصول الاعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ للالکائی ، ط۔ دار طیبہ(1/173)۔
    2۔ نیز امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اور سننا اور اطاعت کرنا ہرامیر کی، وہ نیک ہو یابد ، یاوہ اپنے باپ کےبعد خلافت سنبھالے اور اس پر لوگوں کا اتفاق ہوجائے اور وہ اس سے راضی ہوجائیں ، یا وہ جوبذریعہ قوت امیر بنے یہانتکہ وہ خلیفہ بن جائے اور امیر المومنین کہلانے لگے۔(ایضاً 1/180)۔
    3۔ نیز انہیں امام ممدوح نے امیر کے ظلم وجور پر صبر کی ، نیز اس کی خیر خواہی چاہنے اور اس کے خلاف بغاوت نہ کرنے کی وہ عملی مثالیں دی ہیں جو سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں؛ چانچہ خلال نے اپنی کتاب السنۃ میں حنبل سے صحیح سند سے روایت کیا ہے(1/132-134ط: دارالرایہ) کہ: واثق کے دور حکومت میں بغداد کے فقہاء ابوعبداللہ (یعنی احمد بن حنبل) کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے ابو عبد اللہ! اب یہ معاملہ بہت بڑھ گیا ہے اور پھیل گیا ہے(یعنی آپ کا خلق قرآن کے مسئلے کو بیان کرنا وغیرہ) امام احمد نے فرمایا: آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہم آپ سے اس امارت کے بارے میں مشورہ چاہتے ہیں ہم اس (واثق) کی امارت اور حکومت سے راضی نہیں ہیں، امام احمد نے ان لوگوں سے ایک گھنٹے مناظرہ کیا اور انہیں کہا: نہیں چاہیئے کہ تم دل سے برا جانو اور اس کی اطاعت سے ہاتھ مت کھینچو، مسلمانوں کے کلمے کو متفرق مت کرو اور اپنے اور اپنے ساتھ دوسروں کے خون مت بہاؤ، اپنے امر کے انجام پر غور کرو، اور صبر کرو یہانتکہ نیک کو آرام آجائے یا پھر بد کے شر سے لوگ پر امن ہوجائیں۔
    4۔ فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر میری کوئی قبول ہونے والی دعا ہوتی تو میں امیر کے لئے دعا کرتا ۔(شرح السنۃ/امام بربہاری ص: 108ط: دارا الصمیعی)۔
    5۔ امام سھل بن عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں سے بہتر ہلاک ہوں گے، جو سب کےسب حاکم وقت سے بغض رکھتے ہوں گے، اور نجات وہ ایک فرقہ پایئگا جوحاکم وقت کے ساتھ ہوگا۔(قوت القلوب/ابوطالب مکی 2/242 ط : دار صادر)۔
    2۔ امام حسن بن علی بربہاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اگر تم کسی کو حاک وقت پر بددعا کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ اہل بدعت میں سے ہے اور اگر کسی کو حاکم وقت کے لئے دعا کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ صاحب سنت ہے( ان شاء اللہ تعالی) (ایضاً ص:107) دوسری جگہ پر آپ فرماتے ہیں: کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ایک رات بھی اس حال میں گزارے کہ وہ اپنے آپ کو کسی نیک یا بدامام کی امارت سے آزاد سمجھتا ہو۔(ایضاً ص:70)۔
    7عقیدہ طحاویہ میں امام اطحاوی فرماتے ہیں: اور ہم اس بات کو جائز نہیں سمجھتے کہ کوئی حکام وقت واہل حل وعقد کے خلاف بغاوت کرے اگر چہ وہ کتنا ہی ظلم کیوں نہ کریں، اور نہ ہی ہم ان پر بددعا کرتے ہین اور نہ ہی ان کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچے ہیں اور ہم ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کے ضمن میں داخل سمجھتے ہیں جو کہ فرض ہے، سوائے اس کے کہ وہ کسی گناہ کا حکم دیں، نیز ہم ان کے سیدھر نے کی اور ان کی سلامتی کی دعا کرتے ہیں( شرح الطحاویہ لابن ابی العز، بتخر یج الالبانی ، ص: 379،ط: مکتب اسلامی)۔
    8۔ اور ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جس کی امامت ثابت ہوگئی اس کی اطا ہیں۔ عت کی فرضیت بھی ثابت ہوگئی اور اس کے خلاف بغاوت حرام ہوگئی؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۔۔۔۔))مغنی 12/273 ط: دار ہجر)
    9۔ نیز امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: اسی بناء پر اہل السنۃ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ وہ ائمہ کے خلاف بغاوت کو جائز نہیں سمجھتے اور ان کے خلاف قتال بالسیف کو حرام سمجھتے ہیں، اگرچہ یہ ائمہ کتنے ہی ظالم کیوں نہ ہوں، جیسا کہ متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے؛ کیونکہ قتال وبغاوت سے پیدا ہونے والا فتنہ ان کے ظلم کے فتنے سے کہیں زیادہ ہے اس لئے چھوٹے فساد کے ذریعے بڑے فساد کو دفع کرنا دانشمند انہ فعل نہیں اور شائد ہی کوئی فرقہ ایسا ہو جس نے کسی حاکم کے خلاف بغاوت کی ہواور پھر اس کے خروج سے پیدا ہونے والا فساد اس ظلم کے فساد سے زیادہ نہ ہوا ہو جسے اس خروج نے مٹایا۔(منہاج السنۃ 2/391،ط: مکتبۃ المعارف)۔
    10۔ نیز شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کمال اجتماعیت میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہم حاکم وقت کی بات سنیں اور اس کی اطاعت کریں اگرچہ وہ ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو؛ اس لئے آپﷺ نے اس بارے میں کافی شافی بیان فرمایا اور اس ضمن میں شرعی ودنیوی لحاظ سے بیان کے تمام طرق وآداب استعمال فرمائے پھر حال یہ ہوا کہ یہ عظیم اصول اکثر مدعیان علم اذہاں سےبھی غائب ہوگیاچہ جائیکہ اس پر عمل ہو!!
    (الجامع الفرید ، ص: 324)۔


    عصر حاضر کے علماء کرام کے اقوال:
    1۔ شیخ عبدالرحمٰن بن سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لیکن جہاں تک ائمہ مسلمین کی خیر خواہی کا تعلق ہے جوکہ حاکم وقت سے لے کر شہر کے امیر اور قاضی تک سبھی ہوسکتے ہیں، نیز ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی چھوٹے صوبے یا علاقے پر حکمران ہیں ؛ چونکہ ان کو سونپے جانے والی ذمہ داری بھی عظیم ہے اس لئے ان کے مرتبے اور مقام کی مناسبت سے ان کی خیر خواہی بھی فرض ہوئی؛ اس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان کی امامت کو مانا جائے، ولایت کو مانا جائے اچھے وجائز کاموں میں ان کی اطاعت فرض سمجھی جائے، ان کے خلاف بغاوت نہ کی جائے نیز عوام الناس کو ان کی بات سننے وماننے کی ترغیب دی جائے، اور ان کا حکم ماننے کو کہا جائے بشرطیکہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کی کوئی نافرمانی نہ لازم آتی ہو۔
    (الریاض الناضرۃ:ص: 49)۔
    2۔ نیز شیخ عبدالعزیز بن باز رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالی نے اہل حل وعقد کی اطاعت کا حکم دیا ہے، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ان میں ان کی اطاعت فرض کی ہے اور امور خیریہ میں ان کے ساتھ تعاون کو، باہمی تناصح اور پھر صبر کو واجب قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوا:
    يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
    (مجموع فتاوی الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ۔ جمع محمد سعد شویعر ط: الافتاء(9-93)۔
    3۔ علامہ محمد بن صالح عثیمین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: رعایا پر واجب امراء کے منجملہ حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ رعایا حاکم کی بات سنے اور اطاعت کرے ان کا کسی کام کو کرنے کا کہنا یا منع کرنا سنے جب تک وہ خلاف شریعت بات کا حکم نہ دیں، اگر حکم ماننے سے شریعت کی نافرمانی لازم آتی ہو تو ایسی صورت میں کوئی سننا یا ماننانہیں: لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق
    (رسالہ: حقوق الراعی والراعیۃ)
    4۔ شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں: ولی امر کا حق ہے کہ جائز کاموں میں اس کی اطاعت کی جائے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ
    نیز آپ ﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان پر امیر کی بات ماننا اور سننا فرض ہے اور فرمایا : چنانچہ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ ایک حبشی غلام ہی تم پر امیر بنادیا جائے اور جس نے مسلمان امیر کی اطاعت نہ کی تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
    (المتقی من فتاوی الشیخ صالح الفوزان ، جمع عادل الفریدان، ط: موسسۃ الرسالۃ(1/390)۔


    آپﷺ کا مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنے والے خوارج کے فرقے سے متنبہ کرنا:
    تاریخ اسلام کی ورق گردانی کرنے والے کو اس بات کا بخوبی علم ہوگا کہ خلافت راشدہ سے لے کر آج تک خوارج سے زیادہ خطر ناک فرقہ پیدا نہیں ہوا، انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا اور لوگوں کے دین میں دفساد برپا کیا، معیشت کو کمزور کیا، مسلمان حکام کے خلاف بغاوت کے مرتکب ہوئے، ناحق جانوں کا خون کیا، اموال غصب کئے، غرض یہ کہ کوئی ایسا نہ بچا جوان کے بد اثرات سے محفوظ رہا ہو یہانتکہ انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد افضل ترین مخلوق صحابہ بھی ان کے شر سے محفوظ نہ رہ سکے، چنانچہ انہوں نے عثمانؓ کو قتل کیا، علیؓ کے خون سے ہاتھ رنگے نیز اس کے علاوہ کئی ایک صحابہ ان کی دندگی کا شکار بنے، ان زمانوں کے بعد بھی ان کا یہی طریقہ رہا اور ان کے بارے میں نبی کریمﷺ کا قول بلکل صحیح ثابت ہوا: اہل اسلام کو قتل کریں گے اور بت پر ستوں کو زندہ چھوڑدیں گے(ابوداود :4764، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)۔
    چنانچہ آج یہ نئے سرے سے لوٹنے کی تیاریاں کر رہے ہیں تا کہ مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت برپا کریں، معصوم جانوں کا خون بہائیں، لوگوں کے مال ناحق طور پر غصب کریں، اور بزعم خویش اپنی حکومت قائم کریں جو کہ ان شاء اللہ کبھی قائم نہیں ہوسکے گی؛ کیونکہ آپﷺ کا فرمان ہے: جب بھی کوئی نسل نکلے گی کٹ جائے گی(آپﷺ نے یہ بیس مرتبہ فرمایا) یہانتکہ ان کی آخری نسل سے دجال نکلے گا۔(ابن ماجہ: 143، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)۔
    اس فرقے کی خطر ناک ہونے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ جتنا نبی کریمﷺ نے اس فرقے سے ہوشیار کیا اتنا کسی اور سے ہوشیار نہیں کیا جیسا کہ آپ کا یہ فرماناکہ: آخری زمانے میں ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جو عمر میں چھوٹے ہو ں گے، عقل میں کم ہوں گے، کہنے کو تمام لوگوں میں سب سے اچھی باتیں کریں گے، یہ لوگ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے کہ تیرکمان سے نکل جاتا ہے ان کا ایمان حلق سے اوپر نہیں جائے گا، یہ تمہیں جہاں بھی ملیں ان کو قتل کردینا جو ان کو قتل کرےگا قیامت کے دن اس کو بڑا اجروثواب ملے گا۔(بخاری:3611، مسلم:1066) اور آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ : خوارج جہنم کے کتے ہیں(ابن ماجہ:172، البانی نے صحیح کہا ہے) نیز نبی کریم ﷺ کے غلام عبید اللہ بن ابی رافع فرماتے ہیں کہ : جب خوارج کی جماعت نکلی تو میں علیؓ کے ساتھ تھا، انہوں نے کہا: اللہ کےسوائے کسی کا حکم نہیں چلے گا، علیؓ نے فرمایا: بات حق ہے جس سے باطل مراد لیا گیا ہے، نبی کریمﷺ نے بعض لوگوں کی نشانیاں بتائی تھیں: یہ زبان سے حق بات کہیں گے ، لیکن یہ یہاں سے(حلق کی طرف اشارہ کیا) نیچے نہیں اترے گا، اور اللہ کی مخلوق میں یہ اللہ کو سب سے زیادہ مبغوش ہوں گے(مسلم: 1066)۔
    نیز آپﷺ نے فرمایا : تم میں ایک ایسی قوم پیدا ہوگی جن کی نمازوں کے آگے تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، اور جن کے روزوں کے آگے تم اپنی روزوں کو حقیر جانو گے، اور جن کے عمل کے آگے تم اپنے عمل کو حقیر جانو گے قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے(بخاری: 5058)۔
    نیز آپﷺ نے فرمایا: مشرق کی طرف سے کچھ لوگ نکلیں گے، قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے پھر اس کے بعد اس وقت تک دین میں داخل نہیں ہوسکیں گے جب تک تیر واپس کمان میں نہ اجائے(یعنی پھر کبھی دوبارہ دین میں نہیں آسکیں گے) (بخاری: 7562)۔
    زید بن وہب الجہنی سے روایت ہے کہ وہ اس لشکر میں تھے علیؓ کے ساتھ خوارج سے لڑنے گیا تھا، علیؓ نے فرمایا: اے لوگوں! میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: میری امت میں ایک ایسی قوم ظاہر ہوگی جو قرآن پڑھیں گے ان کی قراءت کے مقابلے میں تمہاری قراءت کچھ بھی نہیں ہوگی، ان کی نمازوں کے مقابلے میں تمہاری نماز کچھ بھی نہیں ہوگی، وہ قرآن پڑھ کر سمجھیں گے کہ ان سے انہیں ثواب مل رہا ہے حالانکہ یہ ان حجت ہوگا، ان کی نماز ان کے حلق سے اوپر نہیں جائے گی، دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے اگر لشکر کو علم ہو جائے کہ ان کے قتل میں نبی کریمﷺ نے کتنا اجر بیان فرمایا ہے تو وہ سارے اعمال چھوڑ کر بیٹھ جائیں۔(مسلم: 1066)۔
    اس کے بعد علیؓ نے فرمایا : اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ یہ لوگ وہی ہوں گے؛ کیونکہ انہوں نے نا حق کون بہایا اور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا (ابوداود:4768، البانی نے صحیح کہا)۔
    نیز آپﷺ نے فرمایا : میریا مت میں اختلاف اور تفریق ہوگا، ایسی قوم ہوگی جو قول اچھا کہیں گے، لیکن عمل برا کریں گے ، قران پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے، اور جب تک ہدایت نہیں پاسکیں گے جب تک دین دوبارہ نا بلند ہوجائے یہ اللہ کی بدترین مخلوق ہوں گے ، کوشخبری ہو ان کے لئے جو ان کو قتل کرے گا اور جن کو وہ قتل کریں ، اللہ کی کتاب کی طرف بلائیں گے جبکہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا جو ان سے لڑے گا وہ اللہ سے ان سے زیادہ قریب ہوگا(ابوداود:4765، البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے)
    اختتام پر ہم امام علامہ ابوبکر آجری کا قول نقل کرتے چلیں: آپ فرماتے ہیں: کسی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ خارجی کو امیر کے خلاف بغاوت کرتے دیکھے چاہے امیر نیک ہو یا بد، اور اپنی جماعت کو اکھٹا کرکے اس سے لڑنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور مسلمانوں سے لڑنے کوحلال سمجھے، ایسی صورت میں ، جبکہ یہ خوارج کے مذہب پر ہے، کسی کو اس کی تلاوت قرآن، یا نماز میں لمبے قیام یا مسلسل روزوں ، یا علم میں اچھے لفظ بولنے سے دھوکا نہیں کھانا چاہیئے۔ (الشریعۃ للآجری،ص: 32، ط:دارالبصیرۃ)
    اللہ امام آجری پر رحم فرمائے ،اللہ کی قسم گویا کہ آپ ہمارے موجودہ زمانے پر روشنی ڈال رہے ہیں اس لئے آپ ان لوگوں کو جوان کی کھوکلی دینداری سے دھوکہ کھا جاتے ہیں، ان کو ہوشیار کررہے ہیں، جو ہمارے یہاں موجود اقامت شریعت اور امن وامان سے مطمئن نہیں ہیں، اس لئے یہ مشرق ومغرب دندناتے پھر رہے ہیں، مملکت توحید کے خلاف لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں، جبکہ وہ خود کافر ،قبر پرست وبت پرست ممالک کی پناہ لئے ہوئے ہیں!!!
    ھذااللہ اعلم وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین

    کتاب کا نام: مسلم حاکم اور حکومت وقت کی اطاعت(شریعت وعلماء کرام کے فتاوون کی روشنی میں)
    جمع وترتیب وترجمہ: شعبئہ تحقیقات علمیہ ودراسات سلفیہ
    کمپوزنگ:أبوبکرالسلفی
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 3
    • اعلی اعلی x 1
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاكم اللہ خيرا وبارك فيكم وتقبل منكم۔
    موضوع كو مثبت كر ديا گیا ہے۔
     
  3. ابوعکاشہ

    ابوعکاشہ منتظم

    رکن انتظامیہ

    شمولیت:
    ‏اگست 2, 2007
    پیغامات:
    15,952
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !

    جزاكم اللہ خيرا وبارک فيكم
    بہت شکریہ۔ ابوبکر سلفی بھائی ۔
     
  4. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاك اللہ خيرا بھائی
     
  5. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    پسند کرنے کےلئے شکریہ
     
  6. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاک اللہ خیرا.
     
  7. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    کیا نبی اکرم ﷺ نے کسی منافق یا کافر شخص کو کبھی بھی کوئی ’’ولایت و امامت‘‘ دی تھی؟ اگر دی تھی تو اُن کی ’’ولایت و امامت‘‘ بھی جائز اور اُن کی اطاعت بھی جائز۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر کسی بھی ’’منافق و کافر‘‘ کی امامت سے خروج ضروری ہے۔
     
  8. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    کیا نبی اکرم ﷺ نے کسی منافق یا کافر شخص کو کبھی بھی کوئی ’’ولایت و امامت‘‘ دی تھی؟ اگر دی تھی تو اُن کی ’’ولایت و امامت‘‘ بھی جائز اور اُن کی اطاعت بھی جائز۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو پھر کسی بھی ’’منافق و کافر‘‘ کی امامت سے خروج ضروری ہے۔
     
  9. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    اللہ رب العزت نے جہاں پر حکمرانوں کی ’’اطاعت‘‘ کا حکم دیا ہے ساتھ شرط لگائی کہ ’’منکم‘‘ یعنی جو تم (ایمان والوں) میں سے ہوں۔ یہ نہ ہو کہ حاکم تو ’’مشرک و کافر و بدعتی‘‘ ہو اور ہم اُس ’’اطاعت‘‘ کرتے چلے جائیں۔ جائز اُمور میں اطاعت واجب ہے جبکہ ناجائز اُمور میں اطاعت واجب نہیں، بلکہ اُس سے الگ تھلگ رہنا فرض ہے۔ اے اللہ ہم سب کو ایسی سمجھ بوجھ عطا فرما دے جس سے تیرا دین تیری دنیا میں ہمارے ہاتھوں سے قائم ہو جائے۔ آمین یارب العالمین۔
     
  10. ابوبکرالسلفی

    ابوبکرالسلفی محسن

    شمولیت:
    ‏ستمبر 6, 2009
    پیغامات:
    1,672
    مختصر یہ کہ جو بھی حاکم مسلمان ہے اس کی اطاعت واجب ہے۔ بشرطیکہ وہ کتاب وسنت کے خلاف کوئی حکم نہ دے۔
     
  11. نعیم یونس

    نعیم یونس -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2011
    پیغامات:
    7,922
    جزاکم اللہ خیرا۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں