توحید کی حفاظت میں نبیﷺ نے شرک کے تمام ذرائع کو مکمل طور پر بند کردیا

فاروق نے 'غاية المريد فی شرح کتاب التوحید' میں ‏جولائی 10, 2011 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. فاروق

    فاروق --- V . I . P ---

    شمولیت:
    ‏مئی 13, 2009
    پیغامات:
    5,127
    باب:65--گلشن توحید کی حفاظت کے سلسلہ میں نبی اکرمﷺ نےشرک کے تمام ذرائع اور راستوں کو مکمل طور پر بند کردیا​

    عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
    [qh](انْطَلَقْتُ فِي وَفْدِ بَنِي عَامِرٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقُلْنَا: أَنْتَ سَيِّدُنَا، فَقَالَ: السَّيِّدُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قُلْنَا: وَأَفْضَلُنَا فَضْلًا وَأَعْظَمُنَا طَوْلًا، فَقَالَ: قُولُوا بِقَوْلِكُمْ، أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ)[/qh](سنن ابی داود، الادب، باب فی کراھیۃ التمادح، ح:4806 ومسند احمد:4/ 24، 25)
    “میں بنو عامر کے ایک وفد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ہم نے کہا: آپ ہمارے “سید”ہیں۔ آپ نے فرمایا: “السید” تو صرف اللہ تعالی ہے۔ پھر ہم نے کہا: مقام و مرتبہ کے لحاظ سے آپ ہم سب سے برتر، افضل اور بہت زیادہ احسان کرنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ اور اس قسم کی جائز و مناسب بات کہہ سکتے ہو۔ خیال رکھنا کہ کہیں شیطان تمہیں اپنے جال میں نہ پھنسالے۔”
    (1)
    حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول!ہم سب سے بہتر و افضل! اور سب سے بہتر کے فرزند! اے ہمارے سردار! اور ہمارے سردار کے بیٹے! تو آپ نے فرمایا:
    [qh](يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا بِقَوْلِكُمْ، وَلاَ يَسْتَهْوِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ، أَنَا مُحَمَّدٌ، عَبْدُ الله وَرَسُولُهُ، مَا أَحِبُّ أَنْ تَرْفَعُونِي فَوْقَ مَنْزِلَتِي الَّتِي أَنْزَلَنِي الله عَزَّ وَجَلَّ)[/qh](عمل الیوم و اللیلۃ للنسائی، ح:248، 249 ومسند احمد:3/ 153، 241، 249)
    “اے لوگو! اس قسم کے الفاظ کہہ لیا کرو۔ خیال رکھنا کہ کہیں شیطان تمہیں بہکانہ دے۔ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ تعالی کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے میرے اس مقام و مرتبہ سے بڑھا دو جو اللہ تعالی نے مجھے دیا ہے۔”(2)


    مسائل
    1) آپ نے امت کو غلو، اور مبالغہ آمیزی سے موقع بموقع ڈرایا اور منع فرمایاہے۔
    2) جب لوگ کسی کو “اپنا سردار” قرار دیں تو جوابا اسے کیا کہنا چاہیے؟ اسے مغرور و متکبر ہونے کی بجائے تنبیہ کرنی چاہیے کہ حقیقی سردار تو اللہ تعالی ہے۔
    3) موقع و محل کی مناسبت سے لوگوں کو مبالغہ آمیزی سے روکتے رہنا چاہیے۔ جیسا کہ لوگوں نے اگرچہ درست باتیں کی تھیں مگر اس کے باوجود آپ نے فرمایا: “کہیں شیطان تمہیں اپنے دام میں نہ پھانس لے۔”
    4) آپ کے ارشاد:
    [qh](مَا أَحِبُّ أَنْ تَرْفَعُونِي فَوْقَ مَنْزِلَتِي)[/qh]
    “میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے اللہ کے عطا کردہ میرے مرتبہ و مقام سے بڑھادو”
    سے معلوم ہوا کہ آپ کو اپنے حق میں غلو اور مبالغہ آمیزی سے حد درجہ نفرت تھی۔


    نوٹ:-
    (1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ “السید” اللہ تعالی ہی ہے جبکہ آپ تمام اولاد آدم کے سید و سردار ہیں، اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے گلشن توحید کی خوب حفاظت فرمائی اور شرک کے تمام تر ذرائع اور وسائل کو اچھی طرح مسدود کیا کیونکہ شرک کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان کسی قابل قدر اور لائق تکریم ہستی کی مدح و ستائش کے لیے الفاظ میں غلو کرے اور حد سے تجاوز کر جائے۔
    یاد رہے!کسی قابل قدر شخصیت کو، مخاطب کرکے اسے سید کہنا یا کسی کی سیادت کی نسبت ساری کائنات کی طرف کرنا منع ہے۔ اسی طرح کسی کو “السید”کہنا بھی درست نہیں کیونکہ اس کے معنی بھی ساری کائنات کے سردار کے ہیں، لہذا عموما مشرکین اپنے بڑوں کی تعظیم کے لیے جو کلمہ “السید” بولتے ہیں، یہ شرعا نا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مدح و تعریف میں جائز و مناسب کلمات کہہ سکتے ہو۔ اس لیے آپ کی بلکہ کسی بھی انسان کی تعظیم کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرنا جن میں غلو ہو، درست نہیں کیونکہ اس سے مخاطب کے دل میں غرور پارسائی آسکتا ہے اور وہ اللہ کے حضور عجزو انکسار ترک کرکے اس کی توفیق خاص سے محروم ہو سکتا ہے، لہذا اس سے ازحد احتراز ضروری ہے۔
    (2) ان لوگوں نے آپ کے جو اوصاف بیان کیے وہ واقعی آپ میں موجود تھے لیکن آپ نے شرک کے سدباب کے لیے فرمایاکہ میں محمد، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں قطعا یہ پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے میرے اس مقام و مرتبہ سے بڑھاؤ جو اللہ عزوجل نے مجھے دے رکھا ہے اور یہ معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ہر قابل تعظیم ہستی کے بارے میں یہی حکم ہے کہ اس کی شان میں اس قدر غلو نہ کیا جائے کہ تعظیم کرنے والے اور اس ہستی کے درمیان شیطانی عمل دخل ہو جائے یعنی اس طرح سے تعظیم نہ کی جائے کہ انسان شرک کا مرتکب ہو بیٹھے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا فرامین شرک کے تمام تر وسائل و ذرائع کو مسدود کرنے کے لیے گویا ایک جامع باب کی حثیت رکھتے ہیں۔
     
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں