پرائی چیز پر دل آیا

عائشہ نے 'نثری ادب' میں ‏اپریل 2, 2012 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    پرائی چیز پر دل آیا

    اختر عباس ​

    خدا جانے میرا دل ہی اتنا نرم ہے جو ایک تصویر دیکھ کر دکھی ہوگیا یا ہاتھ سے جاتی، زندگی کی خوب صورتی، رشتوں کا تقدس اور اقدار کی کم مائیگی اور بے وقعتی دل کا درد بڑھا گئی۔ ہونے کو تو کچھ ایسا بڑا نہیں ہوا، ایک گرلز کالج کے مینابازار میں ایک ’’لَو برڈ کیج‘‘ (Love Bird Cage) کی تصویر ہے جسے ایک نومولود اخبار نے اپنے رنگین صفحات کی شان بڑھانے کے لیے شائع کیا ہے۔ ساتھ ہی خبر میں پوری تفصیل دی ہے کہ جس لڑکی کو قید کیا گیا ہے اس کا نام کسی اور نے دیا اور ساتھ پیسے ادا کیے وہ سر جھکائے شرمندہ شرمندہ سی بیٹھی ہے۔ لَو جیل سے نکلنے کے لیے قیدی لڑکی کو بھی پیسے ادا کرکے ہی رہائی ملے گی۔

    یہ لفظ چندسال پہلے پہلی بار سنا تو سمجھنا مشکل تھا کہ جیل کے ساتھ محبت کا اور پنجرے کا کیا تعلق مگر بھلا ہو ہمارے کچھ اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں اور ان کے منتظمین کا کہ انھوں نے ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے دنوں میں ہی اس کو کریز (Craze) بنا دیا۔ ہر بڑے سکول میں مقابلہ شروع ہوگیا۔ جہاں مخلوط تعلیم ہے وہاں پہ لڑکے اور لڑکی کو اس ’’لَو جیل‘‘ میں بند کرنے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ جہاں زیادہ تخلیقی صلاحیتوں والے لوگ تھے انھوں نے جال کا پنجرہ بنا لیا۔ لائوڈسپیکر اور ڈیک پہ اعلانات ہوتے ہیں اور تالیوں کی گونج میں لڑکے لڑکیاں ہنستے مسکراتے جیل میں قید ہونے کے لیے چل پڑتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اگر ان کا افیئر خفیہ تھا اور دوچار کے علاوہ باقی کو اس کی خبر نہ تھی تو اب اس تعلق کو سندِقبولیت عطا کر دی جاتی ہے اور پہلے جھجک، فطری شرم حیا کے باعث اس تعلق کو سب کے سامنے ماننا مشکل تھا تو اب پوری سہولت کے ساتھ سب کے سامنے اظہار، اقرار اور اعلان ہوگیا ہے۔

    ریم اور اس کی والدہ میرے سامنے بیٹھی ہیں۔ یہ ایک اعلیٰ درجے کے سکول میں کلاس نہم کی طالبہ ہے۔ سکارف لیتی ہے۔ شائستہ اطوار بچی جس نے اچھے والدین سے اچھی تعلیم تہذیب سیکھی اور اپنی پسند سے اسے اختیار بھی کیا۔ باتیں جاری تھیں جب اس نے نم آنکھوں سے مجھے دیکھا، وہ رو ہی دی ’’میں تو وہاں سے گزر رہی تھی۔ اچانک کچھ لڑکیوں نے مجھے پکڑا اور کھینچتے ہوئے ایک پنجرے میں ڈال دیا جس پہ ’’لَوبرڈکیج‘‘ لکھا تھا۔ وہاں ایک لڑکا بھی لایا گیا۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ اس نے اپنے دوستوں سے کہہ کر یہ کروایا۔ بے عزتی کس قدر تکلیف دہ ہو سکتی ہے آپ اس لمحے مجھ سے پوچھتے، جو اس ساری طرزِزندگی اور سوچ کو ہی ناپسند کرتی ہے۔ مجھے میری مرضی کے خلاف اس بے ہودہ کھیل کا حصہ بنا دیا گیا۔ میں رو بھی نہیں سکتی تھی کہ احمق، بزدل اور نجانے کیاکیاکہلاتی۔ میں نے اپنی ٹیچر سے شکایت کی تو وہ مسکرا کر بولی ’’جانے دو ریم، مستی کے دن ہیں۔‘‘

    تب اس کی والدہ نے کہا ’’سر! چند روز بعد وہ دن آرہا ہے جس کی تیاریوں کے لیے ہر جگہ ایسا انتظام اور اہتمام کیا جا رہا ہے۔ جو بچیاں نہیں چاہتیں کہ اس ناپسندیدہ چلن کا حصہ بنیں ۔ وہ بے چاری کیا کریں۔ جس طرزِعمل کو وہ مناسب نہیں سمجھتیں، ان پر وہی کچھ مستی کے نام پہ کیوں تھوپا جائے۔ کہاں کی رسم، کہاں کی تہذیب اور قیمت ہماری بچیوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔

    بے شک اس لمحے میرے پاس تسلی کے مناسب الفاظ نہیں تھے۔ آیئے اب چند لمحوں کے لیے آپ کو اٹلی لیے چلتا ہوں جہاں ایک روز بڑا مختلف واقعہ ہوا تھا اور اس کی بڑی بھاری قیمت تھی بے شک یہ ایک بہت بڑی قیمت تھی، جو ایک بینک مینیجر کوچکانی پڑی۔ نہ صرف نوکری گئی، ملک بھر میں بے عزتی ہوئی۔ ساتھ میں (۱۵۰۰ یورو) ایک ہزار پائونڈ جرمانہ بھی ہوا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ وہ لڑکی جسے بینک مینیجر نے اپنا ویلنٹائن بنانے کی جبری کوشش کی، اٹلی کی رہنے والی تھی اور اٹلی کی عدالتیں حکمرانوں اور بااثر طبقوں کے نام اور معاشرے یا مَستی کا چلن دیکھ کر فیصلے نہیں کرتیں۔ وہ انصاف کی ’’رِٹ‘‘ کے نفاذ پر یقین رکھتی ہیں۔ ۵۰؍سالہ والٹر جسے پرائیویسی کے اطالوی قانون کے تحت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ۱۴؍ماہ کی سزا سنائی ہے، نے اس فیصلے کو ظالمانہ کہا ہے جبکہ کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے ’’His Romantic Gesture Amounted to Sexual Violenceُُ‘‘(اِس کی جسارت جسمانی تشدد کے زمرے میں آتی ہے۔)

    یہ چند سال پہلے ۱۴؍فروری کا ہی دن تھا، جب دنیا بھر میں سرخ رنگ میں رنگی ہوئی نفسانی محبت کا راج ہوتا ہے۔ ایک دنیا ہے جو اپنی حدود کو توڑ کر دوسروں کی حدود اور آزادیوں کو پامال کرنے پر تل جاتی ہے۔ ویسے تو ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اپنے اپنے ویلنٹائن کی تلاش اور ان کو تحفے اور پھولوں سے اظہارِمحبت کو ویلنٹائن کا قرینہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں جدید تہذیب کے پیروکار اور نمائندے تو ہر لمحے اس طرح کی کسی بھی بات پر پوری طرح ایمان لا نے کو تیار ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔

    گلوبل ویلج کا شہری بننے کے بعد ہم نے اپنی کسی بات یا روایت کو دوسروں تک کیا پہنچانا تھا، دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنے منہ ضرور لال کر لیے ہیں۔ ۱۴؍فروری کو بڑے شہروں میں وہ طوفانِ بدتمیزی مچتا ہے کہ الامان الالحفیظ۔ حد یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں اس روز انتظامیہ بے بس ہو جاتی ہے، لَو برڈز (Love Birds) کے لیے، لَو جیلز کا اہتمام کالجوں میں ہی نہیں، تقریباً ہر انگریزی سکول میں ہونا لازم قرار پایا ہے، جن میں ایک لڑکے لڑکی کو مقید کردیا جاتا ہے۔ دن بھر راہ چلتی لڑکیوں کو پھول دینا، دوستیوں کو پیش کش کرنا، چھو کر گزرنا، چھیڑنا، دل والے کارڈز کو جگہ جگہ بانٹ کر تماشا دیکھنا، اپنے ویلنٹائن کی تعداد بتانا، اس پر اِترانا، ڈیٹس پر جانا اور نہ صرف ویلنٹائن کی پارٹیوں بلکہ ڈانس پارٹیوں کا اہتمام معمول بن گیاہے۔ چند سالوں سے ریڈیو کے مختلف ایف ایم چینلوں نے اس دن لائیوپروگرام دینے شروع کیے ہیں۔ ایک دو قومی اخبارات ایڈیشن اور پیغامات شائع کرتے ہیں۔ ٹی وی کے پروگراموں کی تو بات ہی چھوڑیں۔ وہاں تو کپڑوں کے رنگ تک بدل جاتے ہیں۔ گانے، جملے، باتیں، ڈرامے، ہر چیز رنگین ہو جاتی ہے۔

    اس سارے منظرنامے میں ان لڑکیوں کا کوئی رول نہیں جو ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہیں اور اس طوفانِ بدتمیزی کا شکار ہوتی ہیں، مگر کسی تھانے، کسی عدالت میں کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ کوئی کیس نہیں چلتا۔ کوئی شکایت نہیں سنتا۔ یہ کہہ کر معاملہ دبا دیا جاتاہے کہ چھوڑیں جی مستی کرنے کے دن ہیں، بچے ہیں، کچھ تو کریں گے اور یہ سب اٹلی میں نہیں ہمارے ہاں ہوتا ہے۔

    سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ویلنٹائن کا تعلق اٹلی سے ہی تھا، یہ رومن دور میں ٹرنی مارٹیرڈ کا بشپ اور سینٹ تھا، اور اس نے بادشاہِ وقت شہنشاہ کالا ڈپپس کے احکامات کے خلاف نہ صرف خفیہ طور پر نوجوانوں کی شادیاں کرانے کا سلسلہ جاری رکھا، بلکہ جیل کے قیدیوں کو فرار کرانے میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہا، مگر وہ جو کہتے ہیں کہ سو دن چور کے، ایک دن بادشاہ کا، سو بادشاہ تک اس کی سرگرمیوں کی اطلاع پہنچی تو اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ اٹلی کے لوگ اسے پادری سے زیادہ عاشق کے نام سے یاد کرتے ہیں، کیونکہ حضرت نے جیل میں جا کر جیلر صاحب کی صاحبزادی سے عشق کا آغاز کردیا اور اسے خطوط لکھے۔ خط کے آخر میں لکھا جانے والا جملہ ’’تمھارے ویلنٹائن کی طرف سے‘‘ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں مستی اور محبت کا مضبوط حوالہ بن گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سرخ پھول، سرخ دل، سرخ کارڈ، سرخ لباس، حتیٰ کہ سرخ رنگ بھی ویلنٹائن کا لازم حصہ ہوگئے۔ پہلی کبھی یہ محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا رہا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب یہ دنیا بھر میں جنسی تعلق اور محبت کے اظہار کا سستا طریقہ قرار پایا ہے۔

    یورپی ممالک، خصوصاً اٹلی کی اپنی روایات ہیں، اٹلی ایک ایسا کٹر کیتھولک عیسائی معاشرہ ہے، جہاں مشہور ڈکٹیٹر اور فاشسٹ مسولینی کی پوتی ایلسڈرا مسولینی ، عورتوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے خلاف زوردار تحریک چلا رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں کے ہر رسالے اور اخبار میں عریاں و نیم عریاں ہی نہیں بالکل برہنہ تصاویر تک چھپتی ہیں۔ جنس کے بدنام ترین مراکز بھی وہاں پر ہی قائم ہیں۔

    ہر طرح کی آزادیاں ہیں، مگر پھر بھی قانون اور عدالتیں ایسی کسی بھی شکایت کو گوارا نہیں کرتیں اور اس پر ’’کوئی بات نہیں‘‘ والا رویہ اختیار نہیں کرتیں۔ ان کے پاس دلیل کوئی بھی ہو، اصل مسئلہ اور سوال تو ہمارے لیے ہے کہ کیا آنے والے دنوں میں ویلنٹائن ڈے ہماری سرکاری عید کا درجہ پانے والا ہے اور جو پسند نہ کریں، وہ اس بدتمیزی کے طوفان کا یونہی شکار ہوتے رہیں، رسوائی تو ہو اور شنوائی نہ ہو۔

    مغربی ممالک کے وہ لوگ جو ہمیں بے حد ناپسند ہیں وہ تو شخصی آزادی کو بھی ایک حد دیتے ہیں۔ اس کو ایک Value اور قدر مانتے ہیں اور اس کی قدر اور حفاظت کرتے ہیں۔ کیا ہمارے پاس بچانے اور قدر کرنے کو کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ جس جس غیرملکی بات اور روایت کو بے ضرر جان کر اپنے ہاں آتے دیکھ لوگ خاموش رہے تھے، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے ہر گھر کے اندر در آئی ہے۔ درودیوار پر ہی نہیں، گھروں کے اندر رہنے والوں کے طرزِعمل اور طرزِفکر پر بھی حاوی ہو چکی ہے۔ مزاحمت تو دور رہی، اب تو اس کے خلاف بولنے والی زبانیں بھی گنتی کی بچی ہوںگی۔

    گزشتہ ویلنٹائن ڈے پر پنجاب یونیورسٹی کے سامنے واقع پھولوں کی دکانوں پر بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ لگتا تھا پورا لاہور صرف ویلنٹائن ڈے منانے اور اپنے ویلنٹائن کو سرخ پھول دینے نکل کھڑا ہوا ہے۔ گھنٹوں وہاں ٹریفک جام رہی۔ ۵؍روپے والا گلاب کا ایک پھول سو سو روپے میں بکا۔ یہی حال پھولوں کی ان تمام دکانوں پر تھا، جو لبرٹی یا برکت مارکیٹ میں قائم ہیں۔ کچھ معصوم لوگوں نے اپنی بیویوں اور کچھ نے اپنے والدین کو بھی یہ کہہ کر پھول دیے کہ آپ ہمارے ویلنٹائن ہیں، کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ سرخ پھولوں اور سرخ کارڈز دینے کی اس میراتھن میں کہیں وہ رجسٹرڈ ہونے سے رہ گئے توجناب مشرف صاحب کی شروع کی ہوئی روشن خیالی اور جدیدیت کی دوڑ میں شریک نہ ہو سکیں گے۔

    اٹلی سے شروع ہونے والے ویلنٹائن کا اس قدر جنون وہاں ہو تو سمجھ میں بھی آتا ہے، مگر محبت کے نام پر ہوس کے پھیلائو کے اس کھیل کی وہاں پر پھر بھی کوئی حد مقرر ہے، قیمت مقرر ہے اور تجاوز پر سزا بھی… اور ایک ہم ہیں کہ ہوس کے اس طوفان کے خلاف بولنا تو دور رہا، اس کے خلاف بات کرنے والے بھی بُرے لگنے لگے ہیں۔ کتنے ہی روشن خیال ہمیں سمجھانے بیٹھ جاتے ہیں کہ کوئی بات نہیں، چھوڑیں، یہی مستی کے دن ہیں۔ یقینا وہ درست کہتے ہیں مستی کے ہی دن ہیں مگر مستی کا نشہ اترنے پہ جو جو ٹھن باقی بچتی ہے۔ وہ بہت دکھ دیتی ہے۔ ہماری تو خدا جانے قسمت میں ہی کچھ مسئلہ ہے کہ حکومت سے لے کر اپوزیشن تک اور بزنس سے لے کر تعلیمی اداروں تک، جس جس کا بس چلتا ہے۔ اپنی مستی کے شوق اور زعم میں ہر طرف شائستگی کا حلیہ بگاڑنے پر لگ جاتاہے۔

    کتنی ہی بچیاں ان نم آنکھوں سے پوچھنا چاہتی ہیں، اپنا دکھ بتانا چاہتی ہیں یہ کہہ کر کہ مستی کے دن ہیں کوئی سنتا ہی نہیں۔ اکثر سننے پر تیار ہی نہیں ہوتا۔ ہمارا دل جب جب کسی پرائی چیز پر بے طرح آتا ہے، ہم سننا، دیکھنا اور سوچنا کیوں بند کر دیتے ہیں ۔
     
  2. المدنی

    المدنی -: مشاق :-

    شمولیت:
    ‏جولائی 3, 2010
    پیغامات:
    315
    اخری
     
  3. محمد آصف مغل

    محمد آصف مغل -: منتظر :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 18, 2011
    پیغامات:
    3,847
    پیارے پیغمبر ﷺ کے فرامین میں سے خوشہ چینی ہے کہ کوئی بندہ اُس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک وہ ایماندار نہ ہو۔ اور کوئی بندہ اُس وقت تک ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک اُس کا دِل مستقیم نہ ہو۔ اور کسی کا دل اُس وقت تک مستقیم نہیں ہو سکتا جب تک زبان مستقیم نہ ہو۔
    عرض ہے کہ ہم نہ تو سچ سننا چاہتے ہیں اور نہ ہی ہماری زبان سچ بولنے پر فخر کرتی ہے۔ جب ایسی صورتِ حال ہو تو زبان مستقیم نہیں ہو سکتی۔ اور اگر زبان مستقیم نہیں تو دِل کیسے مستقیم ہو سکتا ہے۔ اس لئے میرے ذہن میں تو یہی آتا ہے کہ ’’ہمیشہ سچ بولو بھلے تمہارے اپنے خلاف ہو، یا آباء و اجداد کے خلاف، برادری، قبیلہ اور صوبے اور ملک کے خلاف ہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ ایسا ایمان نصیب فرمائے۔ آمین۔
     
  4. ساجد تاج

    ساجد تاج -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 24, 2008
    پیغامات:
    38,751
    جزاک اللہ خیرا
     
  5. ام محمد

    ام محمد -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏فروری 1, 2012
    پیغامات:
    3,120
    جزاک اللہ خیرا
    اس لیے کہ دلوں پر پردہ ھےاس کی وجہ سےہماری دیکھنے،سننے اورسمجھنے کی صلاحیتیں مفلوج ھو چکی ھیں شیطان برائی کوخوبصورت ریپرمیں لپیٹ کرھمیں دےرہا اورھم اپنےانجام سے بے خبراس کے تحائف قبول کیے جارھےھیں اللہ تعالی ھم سب کو ھدایت دے۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  6. irum

    irum -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏جون 3, 2007
    پیغامات:
    31,578
    جزاک اللہ خیرا
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  7. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    سچ کہا آپ نے ۔ برائی کے نام بدل دئیے ہیں حقیقت وہی ہے ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں