مولانا مختار احمد الندوی رحمہ اللہ

اہل الحدیث نے 'مسلم شخصیات' میں ‏ستمبر 6, 2013 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. اہل الحدیث

    اہل الحدیث -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏مارچ 24, 2009
    پیغامات:
    5,052
    مولانا مختار احمد الندوی رحمہ اللہ

    مولانا مختار احمد ندوی 1930ء میں ہندوستانی ریاست اُترپردیش کے مشہور شہر مئو کے وشوناتھ پورہ محلہ میں پیدا ہوئے۔

    ==تعلیم اور خدمات==
    مختلف اداروں سے علمی استفادہ کیا۔ خصوصا ہندوستان اور عالم اسلام میں معروف ومشہور ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے تعلیم حاصل کیا۔ بعد ازاں کلکتہ جامع مسجد اہل حدیث میں خطیب ، امام اور مفتی کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ تک فائزرہے۔ اللہ تعالیٰ نے موصوف کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا ۔ صحافت وخطابت کے شوقین تھے۔اور اسی ذوق و شوق کی بنا پر ’اخبار اہل حدیث دہلی‘ کی مجلس ادارت سے منسلک ہوئے اور کئی علمی مقالے تحریر فرمائے۔

    بمبئی (ممبئی) منتقلی: کلکتہ کے بعد وہ ممبئی تشریف لائے۔ اور سلفی العقیدہ کتب کی نشر واشاعت کے لیے عالم اسلام کے معروف و مشہور ادارہ الدارالسلفیہ کی بنیاد رکھی۔ اس مکتبہ سے تقریباً تین سو کتابیں شائع کروائیں۔ انہوں نے ممبئی سے ایک ذاتی ماہنامہ البلاغ جاری کیا ۔ جو صحافت کے میدان میں اپنی مثال آپ ہے۔

    موصوف نے تعمیر مساجد کے سلسلے میں ادارہ اصلاح المساجد بنائی۔ الحمد للہ ہندوستان میں کشمیر تا کنیا کماری اور ممبئی تا کولکاتہ مساجد کا جال بچھا دیا۔ ہندوستان کی شاید ہی کوئی ریاست ایسی ہو جہاں ان کی تعمیر کردہ مسجد نہ ہو۔

    ==مشن==
    وہ گرچہ ایک تنہا شخص تھے، لیکن اپنے آپ میں ایک امت کی حیثیت رکھتے تھے۔ پر عزم ، پر خلوص، اور بامقصد شخصیت جن کے اندر امت کے لئے کچھ کرنے کا جنون تھا۔ اور اسی جنون نے ان کو ایک بہت وسیع منصوبے پر کام کرنے پر ابھارا۔ اور انہوں نے ہندوستان میں ایک ایسی یونیورسٹی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں طلباء کو کتاب سنت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے جدید علوم سے بھی مرتبط کیا۔ اور ہندوستان میں ایک ایسے ادارے کی بنیاد ڈالی جو اپنے آپ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جی ہاں جامعہ محمدیہ منصورہ نامی ادارہ اپنے انوکھے پن میں ہندوستان کا واحد ادارہ تھا۔ جہاں اسلامی تعلیمات کو عصر حاضر کے جدید علوم سے ہم آہنگ کیا گیا تھا۔ اور الحمد للہ 1978 سے یہ ادارہ آج تک کامیابی کی منازل طئے کرتا جارہا ہے۔
    ہندوستان کی صنعتی ریاست مہاراشٹر کے کثیر مسلم آبادی والے شہر مالیگاؤں میں 1978 میں اس ادارے کی بنیاد ڈالی۔ شیخ تنہا اس میدان میں اترے تو اہل خیر نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ اور مالیگاؤں شہر سے متصل ایک وسیع عریض زمین کو اس اسلامی قلعے کے لئے شہر کے مخیر جناب خلیل احمد فیضی رحمہ اللہ نے وقف کردیا۔ الحمدللہ یہ سخاوت خلیل احمد فیضی کے فرزندان میں آج بھی موجود ہے۔ اللہ فیضی خاندان کی اس جود وسخا کو قائم و دائم رکھے۔ آمین۔
    بعد میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں اس ادارے کی شاخیں قائم کیں۔ جن میں ریاست کرناٹک میں جامعہ محمدیہ منصورہ بنگلوراور ریاست اترپردیش میں جامعہ محمدیہ منصورہ ، مئوناتھ بھنجن مشہور ہیں۔
    مالیگاؤں میں ملک کے ممتاز یونانی محمدیہ میڈیکل کالج اور ریسرچ سنٹر کی بنیاد ڈالی۔ جو آج طب یونانی میں ہندوستان بھر میں اپنی مثال آپ رکھتا ہے۔
    حکومت مہاراشٹر کی تعلیمی بورڈ سے منظور شدہ اسکولیں بھی قائم کیں۔ جن میں قابل ذکر محمدیہ اردو ہائی اسکول منصورہ ، مالیگاؤں ہے۔
    تعلیمی اداروں کے سلسلے میں انہوں نے کئی ایسے کارنامے انجام دئے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ مثلاً دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کا ارتباط یہ آں محترم ہی نے ہموار کیا۔ اور سب سے اہم کام یہ تھا کہ ہزاروں مخالفتوں کے باوجود انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے گویا علم جہاد بلند کردیا۔ اور مالیگاؤں ہی میں لڑکیوں کے ایک اسلامی کالج ، کلیہ عائشہ صدیقہ منصورہ کا قیام کیا۔ اور اس کامیاب تجربے کے بعد مئو ناتھ بھنجن میں کلیہ فاطمۃ الزہراء ، اور بنگلور میں کلیہ عائشہ الصدیقہ بنگلور کا قیام کیا۔ یہاں سے سینکڑوں لڑکیاں پڑھ کر دنیا کے کونے کونے میں حتٰی کہ یورپ، کینیڈا، امریکہ میں بھی دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ الحمدللہ۔

    ==ایک ممتاز فکر==
    شیخ اس بات سے نالاں تھے کہ برصغیر میں مسلمانوں نے علم کو دوحصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک دینی علوم اور دوسرا عصری یا دنیاوی علوم۔ اور یہی تقسیم مسلمانوں کی پستی کا ایک اہم سبب بھی بنا۔ ان کے مطابق علم کی یہ تقسیم بالکل بھی درست نہیں ہے۔ کیوں کہ تمام علوم اللہ کے ہیں۔ سائنس پڑھ کر ایک طالب تخلیق کے بہت سے رموز سے آگاہ ہوتا ہے۔ اسی جغرافیہ سے بھی وہ کائنات کے مختلف حصوں کی بناوٹ پر غور کرتاہے، جو عین اللہ کا ہی حکم ہے۔ اسی طرح تاریخ سے ایک طالب بہت کچھ سیکھتا ہے، اور مستقبل کے لئے لائحۂ عمل بناسکتا ہے۔ اسی طرح انگریزی ودیگر زبان سیکھ کر دعوت اسلام کو دوسروں تک پہونچانے میں بہت بڑی مدد مل سکتی ہے۔
    شیخ کے مطابق اگر علم کو تقسیم کریں تو ایک کو علم شرعی کہیں اور دوسرے کو علم تکوینی۔

    سن 1992ء میں عالم اسلام کی معروف شخصیت ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف ، رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے تقریباً چالیس اصحاب حل وعقد کے وفد کے ساتھ چارٹرڈ فلائٹ سے جب جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں تشریف لائے اور جامعہ کے معائنہ کیا تو حیران ہوکر فرمایا تھا : دیکھئے شیخ مختار کس قدر نشیط ہیں ملک کے سربراہوں اور سلطانوں کے کرنے کے کام آپ کررہے ہیں !!

    ====جمعیت اہل حدیث ہندکی خدمت====
    آپ 1979ء سے 1989ء تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے نائب امیر، پھر 1989ء سے 1990ء تک کار گزار امیر اور 1990ء سے 1997ء تک جماعت کے امیر کے منصب پر فائز رہے، اس دوران ملک میں جماعت کے مورال کو بہت بلند کیا، نیز مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر ہوتے ہوئے مرکزی جمعیت کے مرکز اور اس کے دفاتر کے لیے محسنین کے تعاون سے دہلی میں شاہی جامع مسجد کے قریب ایک بڑی عمارت (جس کی مالیت آج کئی کروڑ میں ہوگی اور جو آج ’اہل حدیث منزل‘ کے نام سے جانی جاتی ہے) خرید کر جماعت کے لیے وقف کیا۔

    == تصنیف وتالیف ==
    شیخ موصوف ایک موثر خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ بے باک صحافی اور منجھے ہوئے ادیب بھی تھے۔ عربی اور اردو ادب پر آپ کو کمال حاصل تھا۔
    سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سے آپ کا بہت ہی خاص تعلق تھا۔ شیخ محترم نے مولانا سے اپنی اور دوسرے مشائخ کی کئی کتابوں کا اردو ترجمہ کروایا، انہی کتابوں میں ایک اہم کتاب التحقیق والایضاح لکثیر من مسائل الحج و العمرۃ والزیارۃ بھی ہے۔ حج وعمرہ اور زیارت کے مسائل پر مشتمل مولانا کا ترجمہ کیا ہوا یہ کتابچہ پچھلے کئی سالوں سے برصغیر کے حاجیوں اور معتمرین کو سعودی حکومت بطور ہدیہ دیتی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی بہت سی تصنیفات ہیں۔ جن میں اہم کتابوں کے اردو ترجمے، رسائل وکتابچے شامل ہیں۔

    ==وفات==
    توحید کا علم بردار یہ فقید المثال شخصیت 7 ستمبر 2007 کو اس دار فانی سے ابد الآباد زندگی کی طرف رحلت کرگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالی اپنے اس توحید پرست دین کے سچے خادم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے اور آپ کی دانستہ وغیر دانستہ جملہ خطاؤں کو درگزر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔


    بحوالہ فیس بک

    ربط
     
  2. عائشہ

    عائشہ ركن مجلس علماء

    شمولیت:
    ‏مارچ 30, 2009
    پیغامات:
    24,484
    جزاک اللہ خیرا ، بہت عمدہ ، لیکن بہت سی بڑی خدمات کو ایجاز کے پردے میں لپیٹ دیا ۔ کچھ تو تفصیل ہونی چاہیے ۔ پیج والوں سے مصنف کا نام بھی معلوم کریں ۔
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں