کچھ اور اعتراضات اور ان کا ابطال (سیرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)

عفراء نے 'سیرتِ سلف الصالحین' میں ‏اپریل 5, 2014 کو نیا موضوع شروع کیا

موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔
  1. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    معتزلہ ، منکرینِ حدیث ، تجدد زدہ نام نہاد محققین اور مستشرقین نے سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو جن متعدد اعتراضات کا نشانہ بنایا ہے ، ان میں دو سب سے بڑے اعتراضات یہ ہیں:
    1. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت کعب الاحبار (تابعی) کے شاگرد تھے اور وہ ان سے حدیثیں سن کر انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر دیتے تھے۔
    2. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وضاع تھے اور اپنے پاس سے حدیثیں گھڑ گھڑ کر بیان کرتے تھے۔
    ان دونوں بیہودہ اعتراضات کا ابطال ہم تفصیل کے ساتھ پچھلے صفحات میں کر چکے ہیں۔ معترضین کے دوسرے اعتراضات زیادہ تر ان کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں یہ لوگ اخلاق اور شرافت کی تمام حدود کو پھلانگ گئے ہیں۔ انہوں نے نہایت بے شرمی کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے نام ، نسب، خاندان، ذریعہء معاش ، معمولات اور مشاغلِ زندگی ہر چیز میں کیڑے ڈالنے کی کوشش کی ہے اور ایک صاحبِ رسول ﷺ پر کیچڑ اچھالتے ہوئے اپنے ضمیر میں ذرا سی چبھن بھی محسوس نہیں کی۔ اس قسم کے بیہودہ ذاتی نوعیت کے اعتراضات اس قابل نہیں کہ ان کا جواب دیا جائے البتہ بعض اعتراضات کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے جو بعض ناواقف یا سادہ مزاج لوگوں کو شکوک شبہات میں مبتلا کرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔
    ہم ہر اعتراض کا خلاصہ بیان کریں گے اور پھر مناظرانہ انداز اختیار کرنے کے بجائے اختصار کے ساتھ جواب عرض کریں گے


     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
  2. عفراء

    عفراء webmaster

    شمولیت:
    ‏ستمبر 30, 2012
    پیغامات:
    3,918
    اعتراض 1: امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کاذب تھے اس لیے وہ ان کو حدیثیں روایت کرنے سے منع کرتے تھے۔
    جواب: یہ بات بالکل بے بنیاد ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کاذب سمجھتے تھے۔ اس کے بر عکس وہ ان کو ایک قابل اعتماد آدمی سمجھتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے مردم شناس خلیفہ کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر اعتماد نہ ہوتا تو وہ ان کو بحرین کا حاکم کیوں بناتے؟
    صحیح مسلم میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ ادھر سے گزرے۔ انہوں نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو مسجد میں اشعار پڑھنے سے منع کیا۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے امیر المؤمنین کو جواب دیا، میں مسجد میں اشعار پڑھا کرتا تھا اور آپ سے بہتر شخص (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) وہاں موجود ہوتے۔ پھر انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (جو وہاں موجود تھے) سے مخاطب ہو کر کہا، اے ابو ہریرہ! میں تجھے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے بارے میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ (اے حسان) میری طرف سے مشرکین کو جواب دو، اے اللہ اس کی تائید روح القدس سے فرما۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا "ہاں میں نے سننا ہے۔" (صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ ۳۰۰)
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی گواہی سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی ایسے آدمی کی گواہی قبول کر سکتے تھے جس کو وہ دروغ باف سمجھتے ہوں؟
    صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ایک گودنے والی عورت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں (حاضرین مجلس) سے پوچھا، کیا تم میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گودنے کے بارے میں روایت سنی ہے؟
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں کھڑا ہوا اور کہا ، امیر المؤمنین! میں نے سنی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا ، تم نے کیا سنا؟
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ، میں نے رسول اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے عورتو! تم گودی مت لگاؤ اور نہ گودنے کے لیے کسی سے کہو۔
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی گواہی (متعدد دوسرے) صحابہ کے سامنے قبول کر لی۔ (صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۸۸۰)

    جاری ہے۔۔۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 1
Loading...
موضوع کی کیفیت:
مزید جوابات کے لیے کھلا نہیں۔

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں