تفسیر سعدی (سورة الزلزلة ، سورة العاديات)

عبد الرحمن یحیی نے 'تفسیر قرآن کریم' میں ‏دسمبر 18, 2015 کو نیا موضوع شروع کیا

  1. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    تفسیر سورة الزلزلة
    بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
    إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا ﴿١﴾وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا ﴿٢﴾وَقَالَ الْإِنسَانُ مَا لَهَا ﴿٣﴾يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا ﴿٤﴾بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا ﴿٥﴾يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ ﴿٦﴾فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿٧﴾وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿٨
    جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی (1)اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی (2)انسان کہنے لگے گا کہ اسے کیا ہوگیا؟ (3)اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی (4)اس لئے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا (5)اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں (6)پس جس نے ذره برابر نیکی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا (7)اور جس نے ذره برابر برائی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا (8)

    اللہ تبارک و تعالٰی نے ان واقعات کے بارے میں آگاہ فرمایا ہے جو قیامت کے دن وقوع میں آئیں گے،نیز یہ کہ زمین میں زلزلہ آئے گا،وہ ہلا دی جائے گی اور کانپ اٹھے گی،یہاں تک کہ اس پر موجود تمام عمارتیں اور تمام نشانات گر کر معدوم ہوجائیں گے ۔ اس کے تمام پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اس کے ٹیلے برابر کرد یے جائیں گے ۔ زمین ہموار اور چٹیل میدان بن جائے گی جس میں کوئی نشیب و فراز نہ ہوگا۔ وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا '' اور زمین اپنے بوجھ نکال ڈالے گی ۔'' یعنی زمین کے پیٹ میں جو خزانے اور مردے ہوں گے وہ انھیں نکال باہر کرے گی۔ وَقَالَ الْإِنسَانُ جب انسان اس عظیم واقعے کو دیکھے گاجو زمین کوپیش آئے گا تو کہے گا : مَا لَهَا یعنی اے کیا حادثہ پیش آگیا؟ يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اس دن زمین بیان کرے گی أَخْبَارَهَا '' اپنی خبریں۔'' یعنی عمل کرنے والوں کے اچھے برے اعمال کی گواہی دے گی جو انھوں نے اس کی پیٹھ پر کیے ہیں ،کیونکہ زمین بھی ان گواہوں میں شمار ہوگی جو بندوں کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔یہ سب اس لیے ہوگا بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَىٰ لَهَا کہ اللہ تعالٰی اس کو حکم دے گا کہ وہ ان کے اعمال کے بارےمیں خبر دے جو اس کی سطح پر کیے گئے ہیں۔ پس زمین اللہ تعالٰی کے حکم کی نافرمانی نہیں کرے گی ، يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ '' اس دن لوگ آئیں گے۔'' یعنی قیامت کے میدان سے جب اللہ تعالٰی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا أَشْتَاتًا مختلف گروہوں کی صورت میں لِّيُرَوْا أَعْمَالَهُمْ تاکہ اللہ تعالٰی ان کو ان کی برائیاں اور نیکیاں دکھائے جو ان سے صادر ہوئی ہیں اور ان کو ان اعمال کی پوری جزا کا مشاہدہ کرائے۔ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿ ﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ '' پس جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی ،وہ اس کو دیکھ لے گا ۔'' یہ خیر و شر کے تمام اعمال کو شامل ہے؛ کیونکہ جب وہ ذرہ بھر وزن کو دیکھ سکے گا جو حقیر ترین چیز ہے،اسے اس کی جزا بھی دی جائے گی ،تب وہ اعمال جو وزن میں اس سے زیادہ ہوں گے ان کا دکھادینا تو زیادہ اولٰی ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا (آل عمران30) '' جس دن ہر نفس (شخص) اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی۔'' وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا (الکھف 49) ''اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے ۔'' ان آیات میں بھلائی کے فعل کی ترغیب ہے ،خواہ بہت ہی تھوڑا ہو اور برائی کے فعل پر ترہیب ہے ، خواہ وہ بہت ہی معمولی ہو ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
    • اعلی اعلی x 1
  2. عبد الرحمن یحیی

    عبد الرحمن یحیی -: رکن مکتبہ اسلامیہ :-

    شمولیت:
    ‏نومبر 25, 2011
    پیغامات:
    2,312
    سورة العاديات
    بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
    وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا ﴿١﴾فَالْمُورِيَاتِ قَدْحًا ﴿٢﴾فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحًا﴿٣﴾فَأَثَرْنَ بِهِ نَقْعًا ﴿٤﴾فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا ﴿٥﴾إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ ﴿٦﴾وَإِنَّهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ لَشَهِيدٌ ﴿٧﴾وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ﴿٨﴾ أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ ﴿٩﴾وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ ﴿١٠﴾إِنَّ رَبَّهُم بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّخَبِيرٌ ﴿١١
    ہانپتے ہوئے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم! (1)پھر ٹاپ مار کر آگ جھاڑنے والوں کی قسم! (2)پھر صبح کے وقت دھاوا بولنے والوں کی قسم (3)پس اس وقت گرد وغبار اڑاتے ہیں (4)پھر اسی کے ساتھ فوجیوں کے درمیان گھس جاتے ہیں (5)یقیناً انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے (6)اور یقیناً وه خود بھی اس پر گواه ہے (7)یہ مال کی محنت میں بھی بڑا سخت ہے (8)کیا اسے وه وقت معلوم نہیں جب قبروں میں جو (کچھ) ہے نکال لیا جائے گا (9)اور سینوں کی پوشیده باتیں ظاہر کر دی جائیں گی (10)بیشک ان کا رب اس دن ان کے حال سے پورا باخبر ہوگا (11)

    اللہ تبارک و تعالٰی نے گھوڑوں کی قسم کھائی ہے ،کیونکہ ان کے اندر اللہ تعالٰی کی روشن اور نمایاں نشانیاں اور ظاہری نعمتیں ہیں جو تمام خلائق کو معلوم ہیں اور اللہ تعالٰی نے گھوڑوں کی ان کے اس حال میں قسم کھائی جس حال میں حیوانات کی تمام انواع میں سے کوئی حیوان ان کے ساتھ مشارکت نہیں کرسکتا۔ فرمایا : وَالْعَادِيَاتِ ضَبْحًا یعنی بہت قوت کا ساتھ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جبکہ ان سے ہانپنے کی آواز آرہی ہو۔ اَلضبح گھوڑوں کے سانس کی آوازجو تیز دوڑتے وقت ان کے سینوں سے نکلتی ہے۔ فَالْمُورِيَاتِ '' پھر آگ جھاڑنے والوں کی اپنے سموں سے پتھروں پر قَدْحًا ''ٹاپ مار کر'' یعنی جب وہ گھوڑے دوڑتے ہیں تو ان کے سموں کی سختی اور ان کی قوت کی وجہ سے آگ نکلتی ہے ۔ فَالْمُغِيرَاتِ دشمن پر شب خون مارنے والے گھوڑوں کی صُبْحًا '' صبح کے وقت '' اور یہ امر غالب ہے کہ (دشمن پر ) شب خون صبح کے وقت منہ اندھیرے مارا جاتا ہے۔ فَأَثَرْنَ بِهِ یعنی اپنے دوڑنے اور شبخون مارنے کے ذریعے سے نَقْعًا غبار اڑاتے ہیں۔ فَوَسَطْنَ بِهِ '' پھر جاگھستے ہیں ۔'' یعنی اپنے سواروں کے ساتھ جَمْعًا دشمن کے جتھوں کے درمیاں جن پر دھاوا کیا ہے ،جواب قسم ، اللہ تبارک و تعالٰی کا یہ ارشاد ہے : إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ '' بے شک انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے'' یعنی وہ اس بھلائی سے محروم کرنے والا ہے جس سے اللہ تعالٰی نے اس کو نوازا ہے ۔ انسان کی فطرت اور جبلت یہ ہے کہ اس کا نفس ان حقوق کے بارے میں جو اس کے ذمے عائد ہوتے ہیں،فیاضی نہں کرتا کہ ان کو کامل طور پر اور پورے پورے ادا کردے بلکہ اس کے ذمے جو مالی یا بدنی حقوق عائد ہوتے ہیں،ان کے بارے میں اس کی فطرت میں سستی اور حقوق سے منع کرنا ہے،سوائےاس شخص کے کے جس کو اللہ تعالٰی نے ہدایت سے بہرہ مند کیا اور اس نے اس وصف سے باہر نکل کر حقوق کی ادائیگی میں فیاضی کے وصف کو اختیا کرلیا۔ وَإِنَّهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ لَشَهِيدٌ '' اور وہ اس پر گواہ ہے۔'' یعنی انسان کے نفس کی طرف جو عدم سماحت اور ناشکری معروف ہے،بے شک وہ بذات خود اس پر گواہ ہے،وہ اس کو جھٹلا سکتا ہے نہ اس کا انکار کر سکتا ہے،کیونکہ یہ بالکل ظاہر اور واضح ہے۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ضمیر اللہ تعالٰی کی طرف لوٹتی ہو ،یعنی بے شک بندہ اپنے رب کا نشکرا ہے اور اللہ تعالٰی اس پر شاہد ہے ۔ جو اپنے رب کا نشکرا ہے۔ وَإِنَّهُ اور بلاشبہ انسان لِحُبِّ الْخَيْرِ مال کی محبت میں لَشَدِيدٌ '' بہت سخت ہے۔'' یعنی مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اور مال کی محبت ہی اس کے لیے حقوق واجبہ کو ترک کرنے کی موجب بنی اور یوں اس نے اپنی شہوت نفس کو اپنے رب کی رضا پر ترجیح دی۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اس نے اپنی نظر کو صرف اسی دنیا پر مرکوز رکھا اور آخرت سے غافل رہا۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے یوم وعید کا خوف دلاتے ہوئے فرمایا : أَفَلَا يَعْلَمُ یعنی اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنے والا یہ شخص،کیا نہیں جانتا؟ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ جب اللہ تعالٰی قبروں میں سے مردوں کو،ان کے حشر و نشر کے لیے نکالے گا وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ اور جو کچھ سینوں میں ہے وہ ظاہر اور واضح ہوجائے گا،سینوں کے اندر جو بھلائی یا برائی ہے وہ چھپی نہ رہے گی ،ہر بھید کھل جائے گا اور باطل ظاہر ہوجائے گا اور ان کے اعمال کا نتیجہ تمام مخلوق کے سامنے آجائے گا۔إِنَّ رَبَّهُم بِهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّخَبِيرٌ بے شک ان کا رب ان کے ظاہری اور باطنی ،جلی اور خفی اعمال سے خبردار ہے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے علم کو اس دن کے ساتھ خاص طور پر ذکر کیا ہے ، حالانکہ وہ ان کے بارے میں ہر وقت خبر رکھنے والا ہے ،کیونکہ اس سے مراد،اعمال کی وہ جزا ہے جس کا باعث اللہ تعالٰی کا علم اور اس کی اطلاع ہے ۔
     
    • پسندیدہ پسندیدہ x 2
  3. رفی

    رفی -: ممتاز :-

    شمولیت:
    ‏اگست 8, 2007
    پیغامات:
    12,395
    جزاک اللہ خیرا
     
Loading...

اردو مجلس کو دوسروں تک پہنچائیں